۱۹۲۳ء میں فرمودہ خطباتِ محمود کا ایک مختصر جائزہ
حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آنے والے مسیح محمدی کی بعثت کی بشارت دیتے ہوئے اس کی صداقت کی ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی تھی کہ یَتَزَوَّجُ وَ یُوْلَدُ لَہٗ کہ آنےوالا مسیح شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوگی۔
واضح رہے کہ شادی کے بعد اولاد کا ہونا ایک طبعی امر ہے لیکن بطور خاص اس کو ایک نشان کے طور پر پیشگوئی میں بیان کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ عظیم المرتبت اور کارہائے نمایاں بجالانےوالی اولاد خداوند متعال اس آنےوالے مسیح کو عطا فرمائے گا جو اس کے مشن کو جاری رکھنے میں اس کی ممد و معاون ہوگی۔ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی معرکہ آرا تصنیف آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں : ففی ھذا اشارة الی ان اللّٰه یعطیہ ولدًا صالحًا یشابہ اباہ ولا یأباہ و یکون من عباد اللّٰہ المکرمین۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵صفحہ۵۷۸،حاشیہ) اس حدیث میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ خداوند متعال اس مسیح موعود کو صالح اولادعطا فرمائے گا جو نیکی و تقویٰ میں اپنے باپ کے ہی مشابہ ہوگی اور ان کی منکر نہیں ہوگی بلکہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہوگی۔ انہی خدائی بشارات کے ماتحت خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرزند عطا فرمایا جس کی ساری زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھانے اور اسلام احمدیت کی خدمات بجالانے میں گزر ی۔ ملت کے اس فدائی کی تقاریر و تحاریر اسلام احمدیت کے غلبہ کی خاطر، اور اس راہ میں پیش آنےوالے چیلنجز سے نمٹنے کے لائحہ عمل سے مزین ہوتی تھیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس بیج کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لگایا تھا اس کے پھوٹنے کے بعد اس کی ابتدائی حفاظت کے لیے ساری تدابیر اور مشقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمائی تو بےجا نہ ہوگا۔زیر نظر مضمون میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ۱۹۲۳ءمیں دیے گئے خطبات کے ایک مختصر جائزہ کو پیش کیا گیا ہے۔ ۱۹۲۳ء کے خطبات جمعہ خطبات محمود کی جلد نمبر۸میں شائع ہوئے ہیں ۔مطبوعہ خطبات کی کل تعداد ۴۷؍ہے۔اس سال کے خطبات، مغرب میں اسلام کی تبلیغ کے لیے برلن میں مسجد کی تعمیر،فتنہ ملکانہ کےخلاف جماعت کی مساعی، تربیتی و اصلاحی موضوعات پر مشتمل تھے۔ اس مضمون میں ۱۹۲۳ء کے خطبات جمعہ کےماہوار ترتیب کے تحت ہر خطبہ کا مختصراً نفس مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس مضمون کو احباب کے ایمان و علم میں زیادتی کا باعث بنائے آمین۔
سال کا پہلا خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۵؍جنوری ۱۹۲۳ء کو ارشاد فرمایا جس میں حضور نے جماعت کو سال کے لیے اپنا ایک لائحہ عمل مقرر کرنے اور گذشتہ سال میں رہ جانے والی کمیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے کی طرف توجہ دلائی۔ اور جماعت کو تخلیق کے بنیادی مقصد جو عبادت ہے اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: تم آئندہ کا پروگرام یہی بناؤ کہ خدا کا بندہ بن کر دکھانا ہے۔
جنوری کے مہینہ کا دوسرا خطبہ جمعہ آپ نے سورہ فاتحہ کی اہمیت کے موضوع پر ارشاد فرمایا اور اس میں آپ نے اس سورہ کے تمام نمازوں میں پڑھے جانےکا جو حکم ہے اس کی روشنی میں اس کی اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ اس سورہ کا ہر نماز میں پڑھے جانے کی حکمت یہی ہے کہ یہ سورہ قرآن کریم کے مضامین کا خلاصہ ہے۔اور اس کا مضمون ہمیں بتلاتا ہے کہ مومن کا کام یہی ہے کہ کسی بھی روحانی درجہ پر یا خدمت بجا لاکر مطمئن نہ ہوجائے بلکہ مسلسل ترقی کرنے کو ہی اپنا مقصود بنائے۔
جنوری کے آخری خطبہ جمعہ میں آپ نے جماعت کو تبلیغ کے کام کی طرف توجہ دلائی اور اس طرف توجہ دلاتے ہوئے سمجھایا کہ ہر کام کو کرنےکا ایک معین وقت ہوتا ہے اگر اس معین وقت پر وہ کام بجالایا جائے تو ہی اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کی عوام کے مذہبی جوش کو دیکھتے ہوئے آپ نے تبلیغ کے کام کو تیز کرنے کی طرف جماعت کو توجہ دلائی اور فرمایا: یہ نصیحت میں یہاں کے لوگوں کو بھی کرتا ہوں اور باہر کے لوگوں کو بھی کہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں خدا تعالیٰ نے ملائکہ کے ذریعہ بھٹی گرم کرکے لوگوں کے دلوں کو ہلا دیا ہے اس وقت بھی ہم اگر یونہی بیٹھے رہے تو سخت بدنصیبی ہوگی.. پس اپنے نفوس میں تغیر پیدا کرو اور جہاں جہاں جماعت کے لوگ ہیں وہ اپنا فرض سمجھیں کہ اس سال خصوصیت سے تبلیغ کرنی ہے۔
ماہ فروری کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے لجنہ اماء اللہ کو برلن میں مسجد کی تعمیر کے لیےتین ماہ میں پچاس ہزار روپیہ کی مالی قربانی کرنے کی تحریک فرمائی۔نیز حضورؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی بیان فرمائی جس میں زار روس کا عصا آپؑ کو دیے جانے کا ذکر ہے۔ فرمایا:روس کا دروازہ برلن ہے اور اسی دروازہ کے ذریعہ سے روس فتح ہو سکتا ہے۔
ماہ فروری کا دوسرا مطبوعہ خطبہ جمعہ آپؓ نے بھیرو چیچی میں ارشاد فرمایا اور اس میں دنیا اور آخرت کے دکھوں سے نجات کا واقعی ذریعہ تعلیمات اسلامی پر احسن رنگ میں عمل کرنے کو بیان فرمایا اور احباب جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات پر مکمل طوپرر عمل کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے فرمایا:پس سب سے بڑی تبلیغ اور تغیر جو ہوسکتا ہے وہ احمدیوں کے اخلاق کے ذریعہ ہوسکتا ہے…اپنے اندر ایک تغیر پیدا کریں اور پاک تبدیلی کریں تاکہ آپ کے اندر بھی نور پیدا ہو اور لوگوں کو بھی ہدایت ہو اور فائدہ ہو۔
ماہ مارچ کے آغاز میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےبرلن میں مسجد کی تعمیر کے لیے کی گئی تحریک کے ضمن میں جماعت احمدیہ کی خواتین کے ایثار کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے کے ضمن میں اس کو بیان کیا کہ کس طرح صرف اس چندہ کی تحریک میں شامل ہونے کے لیے خواتین احمدی ہورہی ہیں اور یہی اس تحریک کے مثمر ہونے کا ثبوت ہے۔
ماہ مارچ کے دوسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شدھی فتنہ کی سرکوبی کے لیے جماعت کو وقف عارضی کرنے کی طرف توجہ دلائی اوراسلام کی شوکت اور جلال کی خاطر قربانی کرنے کی طرف توجہ دلائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر سید حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے جو وقف کے قواعد تیار کیے تھے ان کو بیان فرمایا : ان شرائط میں یہ بات تھی کہ میں کوئی تنخواہ نہیں لوں گا۔ پیدل چلوں گا۔ زمین میرا بچھونا اور آسمان میرا لحاف ہوگا اور درختوں کے پتے کھا کر گذارہ کروں گا۔
ماہ مارچ کے تیسرے خطبہ جمعہ میں آپ نے جماعت کو اپنی روحانی اصلاح کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ہمیشہ بڑھنے والی جماعت کو اپنے پیش نظر نصب العین رکھنا چاہیے جب تک نصب العین سامنے نہ ہو جوش پیدا نہیں ہوتا… پس ہماری جماعت کا کسی نیکی کے کام میں حصہ لینا اس وقت تک خوشی کا باعث نہیں ہوسکتا جب تک اس میں کامل زندگی نہ ہو اور سستی دور نہ ہوجائے۔
ماہ مارچ کے چوتھےخطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےشدھی تحریک کے مقابل پر جماعت کے کم وسائل اور تعداد پر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: یہ مت خیال کرو کہ ہم کیا ہیں ..بلکہ ہمیں یہ دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ ہم کچھ بھی نہیں ہاں خدا کیا ہے اور وہ کیا کرسکتا ہے.. دنیا کی حکومتیں اگر ہمیں مٹانا چاہیں تو ہم نہیں مٹ سکتے کیونکہ ہمیں خدا کی نصرت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے اس خطبہ جمعہ میں جماعت کو آپس کے اختلافات ختم کرکے اسلام کی خاطر قربانی کے لیے آگے بڑھنے کی تحریک فرمائی۔
ماہ مارچ کے پانچویں خطبہ جمعہ میں آپ نے جماعت کو صرف قول سے نہیں بلکہ اعمال سے دین پر استقامت اختیار کرنے کی تلقین فرمائی اور ائندہ نسلوں کی تربیت کے بارے میں فرمایا:اپنی نسلوں کے متعلق بھی اس اصول کو مدنظر رکھیں کہ آئندہ ہماری نسلیں اسلام سے واقف ہوں ..جب تک جماعت کی یہ حالت بحیثیت مجموعی کے نہ ہو کہ وہ اسلام پر پختہ اور اصول سے واقف ہے اس وقت تک محفوظ جماعت نہیں کہی جاسکتی۔
اپریل کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے مجلس مشاورت میں شدھی تحریک کے مقابلہ کے لیے دی جانے والی جن تجاویز کو منظور فرمایا ان کی طرف جماعت کو توجہ دلائی۔مجلس مشاورت میں جو تجاویز حضور نے منظور فرمائیں وہ یہ تھیں ۔ حضور نے فتنہ ملکانہ کے لیے جو فنڈ ۵۰ ہزار روپیہ کا مقرر فرمایا تھا اس کو مشورہ سے خاص کردیا کہ کم از کم ۱۰۰ روپیہ ادا کریں ۔ اس سے اگر غرض پوری ہوجائے تو ٹھیک ورنہ اس کو عام کردیا جائے گا۔
۲: جماعت میں شدھی تحریک کےخلاف ۳ ماہ کے لیے وقف کرنے کی پرزور تحریک کی جائے۔
۳: ایسے لوگ جو کسی مجبوری کی وجہ سے اس تحریک کے لیے وقف نہیں کرسکتے ان کے لیے اس ثواب میں شامل ہونے کا طریق یہ ہے کہ وقف کرنےوالوں کے گھربار والوں کا فکر رکھیں اور ان کی تکلیفوں کو دور کریں ۔
۴: خصوصیت کے ساتھ اس تحریک کے لیے راجپوت آگے آئیں کیونکہ وہ اپنی قوموں کے رسم و رواج اور اخلاق سے واقف ہیں ۔
اپریل کے دوسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اسلام پر ہر مذہب کی طرف سے ہونےوالی یلغار کے مقابلہ کے لیےجماعت کو مسلسل دعاؤں میں لگ جانے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا: ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس موقع کی خصوصیت کے لحاظ سے دعاؤں میں مصروف ہوجائیں ہمارے پاس طاقت،قوت مال و دولت کچھ نہیں صرف خدا کی ذات ہے جس سے ہم یہ کام کروا سکتے ہیں ۔ آپؓ نے صرف دعا ہی نہیں بلکہ اس سلسلہ میں جدوجہد کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: یہ اس کی سنت ہے کہ وہ قدرت نمائی اسی وقت کرتا ہے جب ظاہری سامانوں سے کام لیا جائے تا اس نصرت میں اخفا کا رنگ پیدا ہوجائے۔
اپریل کے تیسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی نجات کے لیے آئی ہوئی سب سے بڑی بشارت سمجھتے ہوئےرمضان کے مہینہ کی اہمیت سمجھنے کی طرف جماعت کو توجہ دلائی۔اور خدا تعالیٰ کی صفت کلیم کے جاری ہونے کے دلائل دیے اور فرمایا: جو لوگ نبوت کا دروازہ بند کرتے ہیں وہ دنیا کو موت کا پیغام پہنچاتے ہیں ۔ وہ حقیقی راحت حاصل نہیں کرتے۔ وہ دنیا کو خوشخبری نہیں پہنچاتے۔ وہ یہ کہہ کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے نبوت بند ہوگئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ نہیں بڑھاتے بلکہ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز موت کی گھنٹی تھی۔ حالانکہ آپ کی آواز بشارت کی آواز تھی۔ جس نے دنیا کو مسرت اور شادمانی سے بھر دیا اور وہی ایک انسان ہے جو مبشر کہلا سکتا ہے جس نے تمام دنیا کو بشارت دی اور شکوک و شبہات کے تمام پردے اٹھا دیے۔ جو اس کے خلاف ہے وہ اپنے آپ کو تباہ کرتا اور دنیا کے لیے تباہی کا پیغام ہے۔
اپریل کے چوتھے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انسان کی روحانی نشو و نما کے لیے ذکر الٰہی کی اہمیت کو جسمانی زندگی کی نشو و نما کے لیے غذا کے اہم ہونے کی مثال دےکر احباب جماعت کو اس جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:جسم میں تراوت آتی ہے جب غذا حیوانی ملتی ہے اور روحانیت میں ترقی ہوتی ہے جب ذکر اللہ کیا جاتا ہے۔
مئی کے مہینہ کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کامیاب ہونےوالی قوموں کے دو گُر جماعت کے سامنے پیش فرماتے ہوئے فرمایا: اگر اندرونی فتنہ چھوٹے سے چھوٹا ہو تو خوف کھائیں اور اگر ہمارا دشمن بیرونی ہو تو اس کی کثرت سے نہ گھبرائیں ۔
ماہ مئی کا دوسرا خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے رمضان کے مہینہ میں دعاؤں کی قبولیت کے موضوع پر ارشاد فرمایا اور فرمایا: ہمیں چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے فوائد دنیا کو دکھائیں اپنے نفوس میں تغیر پیدا کریں اور ان صداقتوں کو پھیلائیں جو ہمیں مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ملی ہیں ۔
مئی کا تیسرا خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے رمضان کی عبادات سے استقلال سیکھتے ہوئے ان اعمال صالحہ کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنے کےموضوع پر ارشاد فرمایا اور فرمایا: روزے سبق ہیں کہ انسان کو استقلال سیکھنا چاہیے۔
جون کا پہلا خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قربانی کی اہمیت کے موضوع پر دیا اور اس میں جماعت کو بتایا کہ ہر قسم کی ترقی کے لیے خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی، قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور ارتداد ملکانہ کے مقابلہ کے لیے جماعت کو زندگیاں وقف کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
ماہ جون کے دوسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کو دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم اصول وضوابط کی مثال دےکر اس کام کو کرنے کی طرف توجہ دلائی کہ جس طرح مختلف چیزیں وہی کام کرتی ہیں جو ان کی فطرت ہے۔ اسی طرح انسانوں کو بھی اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے وہی کام کرنا چاہیے جو انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہے یعنی خدا تعالیٰ کا عبد بن جانا۔
جون کے تیسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے تناظر میں ہندوؤں کے چھوت کے مسئلہ کو بیان کیا کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے وہ اپنے انبیاء کے مخالفین پر بھی دنیا کی نعمتوں سے فائدہ پہنچانا بند نہیں کرتا اسی طرح ہندو بھی اگر کسی جگہ مقاطعہ یا نقصان نہیں پہنچاتے توان سے حسن سلوک نہ کرنا انسانیت نہیں بلکہ وحشت ہوگی۔
ماہ جون کے چوتھے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مالی قربانی کی طرف جماعت کو توجہ دلائی اور ظاہری قربانیوں میں سب سے بڑی قربانی مال کو قرار دیا اور جماعت کو اس جانب خصوصی توجہ دلائی۔
ماہ جون کے پانچویں خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا کے پورا ہونے کے جو آثار ظاہر ہورہے تھے اس طرف جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے جماعت سے اس کا م کے لیے مالی قربانی کرنے کا ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: چاہیے کہ ہماری جماعت اس پیشگوئی کو مکمل طور پر پورا کرنے کے لیے پوری کوشش سے کام لے۔ خدا تعالیٰ نے کسی حد تک اس کو پورا کرکے بتا دیا ہے کہ ضرور پوری ہوگی اس لیے اگر تم کوشش کرنے میں پیچھے رہے تو بہت بڑے الزام کے نیچے آؤ گے۔
جولائی کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کارکنان جماعت کو قابلیت اور تجربہ حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا: ہر ایک دینی امر کے ساتھ کچھ دنیوی امور بھی لگے ہوتے ہیں اور اگر کسی دینی امر میں انسان کامیاب ہونا چاہے تو ان پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے جو گو دنیاوی ہوتے ہیں مگر اس دینی امر سے وابستہ ہوتے ہیں ۔
جولائی کے دوسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےخدا تعالیٰ جو بعض دعائیں قبول نہیں کرتا ان کی حکمت بیان فرمائی اور فرمایا:ہمیشہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نادان ماں باپ کی طرح نہیں کہ وہ ہر بات منظور کرے وہ دانا والدین کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر اور زیادہ حکمت کے ساتھ کام کرتا ہے۔ پس اس نکتہ کو یاد رکھو تاکہ تم کو دعاؤں کے معاملہ میں کبھی ٹھوکر نہ لگے۔
جولائی کے تیسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اسلام کی دیگر مذاہب پر امتیازی شان بیان فرماتے ہوئے فرمایا: اے دوستو! اور اے عزیزو! میری نصیحت ہے کہ جب مسلم اور غیر مسلم میں یہی فرق ہے کہ مسلم کامل فرمانبردار ہوتا ہے تو اپنے آپ کو اس کے مطابق مسلم بنا کر دکھاؤ اور اپنے نفس کو ماردو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مَیں اڑ جائے اور تم مشین کے پرزوں کی طرح کام کرو۔
ماہ جولائی کے چوتھے خطبے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اسلاف کی قربانیوں کو بیان کرتے ہوئے برلن شہر میں مسجد کی تعمیر کے لیے جو لجنہ اماء اللہ کو تحریک فرمائی تھی اس میں لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانی کا ذکر فرمایا اور جماعت کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی: خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کے ذکر کے سامان مہیا کرو تمہارا بھی ذکر بلند ہوجائے گا۔ پس اگر دنیا میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت قائم ہوجائے اور لوگ صرف خدا ہی کے آگے سجدہ کریں تو سمجھو کہ ہم کامیاب ہوگئے۔
اگست کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انسان کی جسمانی حالتوں اور ادوار کو بیان کرتے ہوئے انہیں ایک قوم کی زندگی میں آنےوالی مختلف حالتوں اور ادوار سے تشبیہ دی کہ جس طرح انسان جسمانی طور پر مختلف ادوار میں مختلف چیزوں کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح قوم بھی مختلف ادوار میں اپنی بہتری کے لیے مختلف چیزوں کی پابندی کرے گی تب ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ آپ نے فرمایا: میں اپنی جماعت کو یہی نصیحت کروں گا کہ اگر تم ترقی اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تربیت کے ماتحت رہ کر ہی حاصل کرسکتے ہو۔ جب تک پابندیوں کے لیے تیار نہ ہوگے اور جب تک احکام کے جوئے کے نیچے گردن نہ رکھ دو گے کچھ ترقی نہ کرسکو گے۔
اگست کے دوسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس نکتہ کو احباب جماعت کے لیے بیان فرمایا کہ ہر نماز میں صراط مستقیم کے لیے دعا مانگی جاتی ہے مگر پھر بھی کیوں قبول نہیں ہوتی۔ اس کی وضاحت حضور نے اس طرح فرمائی کہ انسان جس طرح اپنے دنیاوی کاموں کے لیے تضرع سے اور تڑپ سے دعا کرتا ہے ویسی تڑپ صراط مستقیم کی دعا کے لیے نہیں دکھلاتا اسی لیے یہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ اس کی اہمیت کے بارے میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس کے لیے سچی تڑپ اور حقیقی خواہش پیدا کرو تا اس مقصد کو حاصل کرسکو کیونکہ جو اس کے بغیر مرگیا وہ تباہ ہوگیا۔
اگست کے تیسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اسلام کا دیگر مذاہب کی نسبت جو خدا تعالیٰ کا بندہ سے تعلق کا تصورہے اس بارے میں ارشاد فرمایا اور اس کی وضاحت فرمائی کہ اسلام میں بندے اور خدا کا تعلق بغیر کسی روک ٹوک اور بغیر کسی وسیلہ کے ہے اور یہی اسلام کی دیگر مذاہب پر خاصیت ہے۔
اگست کے چوتھے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے جماعت کے ملکی قوانین کے پابند ہونے کے مضمون کو تفصیل سے بیان فرمایا اور اس ضمن میں مسلمانوں کے طرز عمل پر جو آپ نے ان کو فساد سے باز رہنے کے متعلق نصیحت کی تھی اس کا بھی ذکر فرمایا کہ ان نصائح کو نہ مان کر مسلمانوں نے نقصان اٹھایا۔ اگست کے پانچویں خطبے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دین کے کام کو کرنے کے طریق کے بارے میں جماعت کی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا:مومن کا یہ کام ہے کہ جس طرح وہ اپنے کام کرتا ہے اسی طرح دین کاکام کرے۔
ستمبر کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کو دین کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرنے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا: ہماری جماعت اس وقت ترقی کرسکتی ہے جب ایسے لوگ تیار ہوں جو قطعاً کسی مشکل اور تکلیف کی پروا نہ کرنےوالے ہوں اور نہ وہ اس بات کی پروا کرنےوالے ہوں کہ کوئی انہیں یاد دلائے بلکہ وہ ہر ممکن قربانی کے لیے تیار ہوجائیں ۔
ستمبر کے دوسرے خطبہ جمعہ میں بھی حضور نے خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے کے لیے جوش اور ولولہ کے ساتھ جماعت کو آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلائی اور فتنہ ملکانہ کے مقابلہ کے لیے چھوٹے چھوٹے دنیاوی عذروں کو پس پشت ڈال کر قربانی کرنے کا ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: میں اپنے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سستی کو چھوڑ دیں اور قربانی کے لیے تیارہوجائیں کیونکہ یہ ایک خاص موقع ہے اس سے فائدہ نہ اٹھانا سخت غلطی اور نادانی ہے۔
ستمبر کے تیسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سورہ فاتحہ کے مضامین بیان فرمائے اور نماز کی اہمیت کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: خوب یاد رکھو کہ نماز کے بغیر کوئی اسلام نہیں ہر گز کوئی شخص نماز چھوڑ کر مسلمان نہیں رہ سکتا۔ ایک ہی کڑی ہے جو خدا اور بندے کے درمیان ہے اور وہ نماز ہے پس کون ہے جو اس کڑی کو توڑنا پسند کرتا ہے۔ جو قوم نماز کی پابند رہے گی بچی رہے گی۔
ستمبر کے چوتھے خطبہ جمعہ میں آپ نے جماعت میں موجود منافقین اور فتنہ پردازوں کی اصلاح کرنے کے اہم امر کی طرف جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی قوم منافقوں اور شریروں سے محفوظ نہیں رہ سکتی لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر وہ قوم ان کا مقابلہ کرتی رہے گی تو وہ منافق اس کے کاموں کو برباد نہیں کرسکیں گے لیکن اگر وہ قوم ان قومی غداروں کا مقابلہ نہیں کرتی ان کی حرکات پر برا نہیں مناتی، بلکہ خاموش رہتی ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے اندر اس زہر کی قبولیت کا مادہ موجود ہے۔ جب تک تو ان کے کاموں کو بری نظر سے دیکھا جائے گا اور ان کا مقابلہ کیا جائے گا تب تک تو وہ قوم قائم رہے گی اور تباہی سے محفوظ رہے گی لیکن جس وقت ایسے افراد ہوں گے جو ان کو دیکھ کر خاموش رہیں گے وہ پہلا قدم ہوگا اس کی تباہی کا۔
اکتوبر کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شدھی تحریک کے مقابلہ کے دوران اسلام کو ترک کرنےوالے راجپوتوں کو احمدیت کی تبلیغ نہ کرنے کی مصلحت سے جماعت کو آگاہ فرماتے ہوئے فرمایا: صلح کے معنی فروعی مسائل کو نہ چھیڑنے کے ہیں اصولی مسائل کو چھپانا مداہنت ہے جس پر ہم ہرگز اختیار نہیں کرسکتے۔ دوسرے علاقوں میں بھی ہم اسی قسم کی صلح کی تحریک کرتے رہتے ہیں اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ کوئی شخص اپنے مذہب کی تبلیغ نہ کرے یا ہم اپنے مذہب کی تبلیغ نہ کریں بلکہ اس کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ جن باتوں میں ہم ایک ہیں ان میں دشمن کے مقابلہ میں ایک ہوجائیں اور مسلمان کہلانے والا کوئی فرقہ دوسرے کو گالیاں نہ دے اور ایک دوسرے کےخلاف طبائع میں جوش نہ پیدا کریں ۔
اکتوبر کے دوسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تبلیغ کے کام کی اہمیت کی طرف جماعت کو توجہ دلائی اور ساری جماعت کو اس کام میں مشغول ہونےکی طرف توجہ دلاتےہوئےفرمایا: اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ اپنے فرض کو سمجھے اور ..ہم میں سے ہر شخص ہدایت کےپہنچانے کےلیےتیارہوجائےتاکہ وہ صداقت ہمارے ذریعہ سے دنیا میں پھیل جائے جس کے بغیر دنیا میں کوئی چین نہیں اور کوئی امن نہیں ۔
اکتوبر کے تیسرےخطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو خدا تعالیٰ نے صلح کا شہزادہ کا لقب دیا ہے اس کی تشریح کرتے ہوئے یہ مضمون بیان فرمایا کہ انبیاء کو جو القاب خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتے ہیں ان کا ظہور ان کی قوم یا جماعت کے ذریعہ بھی ہوتا ہے اس لیے جماعت کو دنیا میں صلح کروانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ آپؓ نے فرمایا: میری یہ نصیحت ہے کہ تم ایک مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہو جو یہ ہے کہ تم دنیا کے فساد کو دور کرو اور دنیا میں صلح کراؤ تا دنیا کو پتا لگ جائے کہ مسیح موعود محض بھائی کو بھائی بنانے نہیں بلکہ دشمن کو بھائی بنانے آیا تھا۔
نومبر کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شدھی تحریک کے مقابلہ کے لیے جماعت کو ترغیب دلائی اور اس سلسلہ میں سستی چھوڑ کر پہلے سے بڑھ کر قربانی کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ہر شخص جس کے دل میں اسلام کا درد ہے اس سے میں اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس وقت میدان میں نکلے..ہر وہ شخص جو میرے ہاتھ پر بیعت کرچکا اس کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ درحقیقت بیعت پر وہی قائم ہے جو پورے طور پر ارادہ رکھتا ہے کہ وہ دین کے لیے ہر قسم کا کام کرے گا اور ہر قسم کی قربانی کرے گا۔
نومبر کے دوسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کو جلسہ سالانہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی اور اس بارے میں خصوصیت سے کوشش کرنے کا ارشاد فرماتے ہوئےکہ غیر احمدی احباب کو بھی جلسہ پر لایا جائے فرمایا: درحقیقت ہمارے کام کی وسعت چاہتی ہے کہ ہماری عام ہمدردی ہو اور عام لوگوں کی طرف ہماری توجہ ہو کیونکہ یہ ہماری تبلیغ کے لیے نہایت مفید چیز ہے۔ اس لیے میں تو کہتا ہوں کہ اگر کوئی دشمن سے دشمن بھی قادیان آئے اور دشمن ہی چلا جائے تب بھی ہماری فتح ہوگی کیونکہ سلسلہ کی کچھ نہ کچھ عظمت اس کے دل میں ضرور پیدا ہوجائے گی۔
اس کے علاوہ آپ نے اس خطبہ جمعہ میں جلسہ کی انتظامیہ کو بھی جلسہ کی تیاریوں کی پہلے سے مشق کرنے اور شاملین جلسہ کو جو مشکلات پیش آتی ہیں ان کی پہلے سے تیاری کرنے کے متعلق فرمایا: تو ہمیشہ کام کرنے سے آتے ہیں ۔ میں نے باربار سمجھایا ہے کہ جن لوگوں سے کام لینا ہوتا ہے ان سے مصنوعی طور پر دو دو ماہ پہلے وہ کام کرائے جائیں ۔
نومبر کے تیسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کو اپنی عملی اصلاح کی طرف توجہ دلائی اور اس ضمن میں مسلسل کوشش کرتے رہنے کا ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ صرف مان لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اگر فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی زندگی اس رنگ میں بناؤ کہ تم میں اور دوسروں میں نمایاں فرق ہو۔
نومبر کے چوتھے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انبیاء کے ساتھ ملائک کی افواج کی تائیدات نازل ہونے کے مضمون کو ظاہری بادشاہوں کے غلبہ کے لیے ظاہری افواج کے حملوں کے ذریعہ ان کی فتوحات کی مثال کوبیان فرمایا نیز اس خطبہ جمعہ میں اپنی ایک انذاری رؤیا کا بھی ذکر فرمایا جس کی تعبیر کسی وبا کے نازل ہونے کی تھی اور اس سلسلہ میں دنیا کو بچانے کے لیے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اس لیے میں اپنی جماعت کو یہ بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امر کی بھی کوشش کریں کہ جہاں تک ہوسکے وہ لوگ عذاب میں مبتلا ہونے سے بچائے جائیں اور ان کو بچانے کا طریق یہی ہے کہ ان کو تبلیغ کی جائے اور وہ اس زمانہ کے مامور و مرسل پر ایمان لائیں … پس ہمارے دو فرض ہیں ۔ اول یہ کہ دعا و استغفار کثرت سے کریں اور عاجزی اور انکساری اختیار کریں ۔ دوسرے یہ ہے کہ تبلیغ کے سلسلہ میں سعی بلیغ کریں تاکہ لوگ سلسلہ حقہ میں داخل ہوکر خدا کے عذاب سے بچ جائیں ۔
نومبر کے پانچویں خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حسن ظنی کے خلق کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جماعت کو اس خلق کو اپنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری جماعت ترقی کرے تو بدظنی چھوڑ دو اور حسن ظن سے کام لینا شروع کردو۔ خواہ تم بظاہر کسی قدر مختلف حالات بھی دیکھو تو بھی بدظنی نہ کرو۔
دسمبر کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کی امریکہ سے واپسی کا ذکر کیااورمولوی عبید اللہ صاحب مبلغ ماریشس کا ذکر خیر ان الفاظ میں فرمایا: اس نے دین کے لیے زندگی وقف کرنے کا جو عہد کیا تھا اس کو نہایت صبر و استقلال کے ساتھ نباہا۔ آپؓ نے خدمت دین کے دوران ان کی وفات کو شہادت کا رتبہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہندوستان میں سے شہادت کا پہلا موقع عبیداللہ کو ملا۔ ہمیں اس کی موت پر فخر ہے گو اس کے ساتھ صدمہ بھی ہے کہ ہم میں سے ایک نیک اور پاک روح جو خدا کے دین کی خدمت میں شب و روز مصروف تھی جدا ہوگئی۔
دسمبر کے دوسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حسن ظنی کی ہی اہمیت کو دوبارہ بیان فرمایا اور اس مضمون کو بیان کرنے کا پس منظر بیان فرمایا کہ ایک شخص نے جماعت کے علماء پر بدظنی کی کہ علماء انگریزی دانوں سے بغض رکھتے ہیں اور ان کا احترام نہیں کرتے اور خلیفہ وقت بھی علماء سے زیادہ مشور ہ کرتے ہیں جبکہ کام زیادہ انگریزی خوان کر رہے ہیں اور علماء سے بہتر کام کر رہے ہیں ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس خیال کو سختی سے رد فرمایا اور تفرقہ سے بچتے ہوئے آپس میں اتفاق سے رہنے کی نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جماعت کا ہر شخص کام کر رہا ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ مخلص احمدی بھی خدمت کر رہا ہے۔ پس اپنے خیالات میں حسن ظنی کا مادہ رکھو اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ وہی بچے ماں باپ کی محبت اور پیار کو کھینچتے ہیں جو آپس میں محبت کے ساتھ رہتے ہیں ۔ اسی طرح اگر تم خدا کے فضلوں اور اس کے رسول اور اس کے خلیفہ کی دعاؤں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے دلوں سے بدظنی نکال دو اور ہر ایک کو بھائی سمجھو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تم میں محبت و پیار پیدا کرے۔ آمین
دسمبر کے تیسرے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اہل قادیان کو جلسہ پر آنےوالے مہمانوں کے ساتھ حسن خلق سے پیش آنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: آپ لوگوں کو چاہیے جو مہمان آئیں ان سے خوش خلقی سے پیش آئیں ۔ ان کی سچے دل سے خدمت کریں ۔
دسمبر کے چوتھے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور سے ایک نسبت ہے کے مضمون کومختصراً بیان فرمایا کہ جس طرح جمعہ کے دن کے لیے خاص عبادت کا حکم ہے اسی طرح ساتویں ہزار کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک نسبت ہے اس کی خاص عبادت تبلیغ و اشاعت ہے۔ آپ نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا اور مسیح موعود کا زمانہ تبلیغ و اشاعت ہدایت کا زمانہ ہے۔ جمعہ کے دن جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو اس سبق کی یاد دلائی جاتی ہے جو تیرہ سو برس سے ان کو پڑھایا گیا ہے کہ ساتواں ہزار بالفاظ دیگر مسیح موعود کا زمانہ دنیا کو اکٹھا کرنے کا زمانہ ہوگا۔ اس زمانہ میں تمام دنیا جمع کی جائے گی۔
ان خطبات کے مطالعہ سے ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موعود بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے جو علامات اس پیشگوئی میں بیان فرمائی تھیں وہ تمام کی تمام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں پوری ہوئیں ۔ آپ سخت ذہین و فہیم تھے اور علوم ظاہری و باطنی سے بھی پر کیے گئے تھے۔ اسلام پر جب ہندوؤں کی طرف سے شدھی تحریک کی صورت میں حملہ کیا گیا تو آپ نے اسلام کےا یک بہادر جرنیل کی طرح اس کا مقابلہ کیا اور اپنی جماعت کو بھی اس کے لیے ابھارا اور اپنا لشکر تیار کرکے اس زور سے جوابی حملہ کیا کہ شدھی تحریک ناکام ہوگئی۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن تبلیغ ہدایت کو آگے بڑھانے کے لیے اور دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنے کے لیے بھی آپ نے مسلسل کوشش کی۔ اور جماعت کی اصلاح اور تربیت میں بھی مصروف رہے۔ یہ آپؓ کی صرف ایک سال کی وہ مصروفیات ہیں جو ان خطبات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ آپ نے خود اپنے ایک شعر میں فرمایا
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
بلا مبالغہ آج ہم سب یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پر قیامت تک رحمتیں نازل فرماتا چلا جائے اور جماعت کو خلافت سے وابستہ رکھے اور ان معیاروں پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ہم سے چاہتے تھے۔ آمین