متفرق مضامین

کلام ہائے منظوم در مدحِ سیدناحضرت مصلح موعودؓ از شعرائے غیرازجماعت

(’م م محمود‘)

پیشگوئی مصلح موعود میں خداتعالیٰ نے آنے والے موعود فرزند سے متعلق واشگاف الفاظ میں یہ بتایا تھا کہ’’نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا‘‘۔

چنانچہ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی اس خدائی نور سے منور اور اس عطرِ خداوندی سے معطرہوئے اورآپؓ کی خداداد صلاحیتوں کا اعتراف واظہار بہت سے غیراز جماعت احباب نے جہاں اپنی نثری تحریرات میں کیا وہاں نظم کے شاہسواروں نے بھی آپ کے کلمۃ اللہ ہونے کی منظوم گواہی دی۔

کلام صہبا اختر

صہبا اختر ایک معروف شاعر ہیں ۔آپ ۳۰؍ ستمبر۱۹۳۱ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائرڈ ہوئے۔

صہبا اختر ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف ِسخن میں طبع آزمائی کی۔ جس طرح ان کی شاعری میں بڑی جان تھی۔ اسی طرح ان کا مشاعرہ پڑھنے کا انداز بھی بڑا دل موہ لینے والا تھا۔ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی بڑے عمدہ شاعر تھے۔ان کا انتقال ۱۹؍ فروری ۱۹۹۶ء کوہوا۔ حکومتِ پاکستان نے صہبا اختر کو ان کی وفات کے بعد ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔صہبا اختر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں گلشنِ اقبال کراچی میں ایک شاہراہ بھی ان کے نام منسوب کی گئی ہے۔

۱۹۵۷ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے سندھ کی اسٹیٹوں کا دورہ فرمایا۔اس دورہ کے بعد ۲۰؍فروری ۱۹۵۷ء کو حضورؓ کراچی تشریف لے گئے اور کراچی میں چند روز قیام فرمایا۔اگلے ماہ مارچ میں حضرت مصلح موعودؓ کی شان میں جناب صہبا اختر کا ایک نہایت ہی خوبصورت کلام الفضل میں شائع ہوا جو ایک طویل نظم کی صورت میں ہے۔اس نظم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب صہبا اختر کو نہ صرف حضرت مصلح موعودؓ سے بےحدعقیدت تھی بلکہ آپ کو تاریخِ سلسلہ سےگہری واقفیت تھی۔ذیل میں جنابِ صہبا اختر کا مذکورہ کلام اور اس سے قبل الفضل کا دیا ہوا مختصر تعارف درج ہے۔

’’حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح(ایدہ اللہ تعالیٰ)کی خدمت میں

ایک غیر متعصب غیر احمدی شاعر باکمال نے یہ نظم پسرِموعودکے متعلق کراچی میں سنائی تھی جسے الفضل میں شائع کیا جاتا ہے۔‘‘

ثریا جناب و فلک بارگاہ

تجلی نژاد و تجلی پناہ

مسیحائے موعودؑ کے جانشیں

سراپا عقیدت، مجسّم یقیں

ہمہ عاشقی و ہمہ آرزو

مثالِ صبائے چمن مشک بُو

مبارک ہے تفسیر اُس خواب کی

کہ جس میں تجلی تھی مہتاب کی

مبارک تھا وہ سبز رنگ اشتہار

کہ جس سے تھی آمد تری آشکار

کہ جس میں تھے روشن ترے خدو خال

یہ شوکت یہ عظمت یہ جاہ و جلال

یہ گیسو یہ خوش رنگ چہرہ کا روپ

چھنے جس طرح سنبلستاں سے دھوپ

یہ خوددار آنکھوں کے روشن کنول

یہ ہمت شجاعت، تجسس عمل

یہ علم و صداقت یہ جُود و سخا

یہ تاب و تحمل یہ صبر و رضا

یہ عدل و اخوّت یہ منصف مزاج

مسیحا نفَس بن کے سب کا علاج

گہے برگ و گل گاہے ماہ و نجوم

مسیحائے اَنفاس کا یہ ہجوم

غنی ہو گئے کتنے نادار لوگ

شفا پاگئے کتنے بیمار لوگ

نگاہِ پیمبر میں خورسند تو

اولوالعزم فرزندِ دلبند تو

جو مشہور و معروف ہے کُو بہ کُو

اسی پیشگوئی کا حاصل ہے تُو

اسی پیشگوئی کا فیضان ہے

کہ تو صاحبِ جذب و عرفان ہے

کہ تو کاشف راز و اسرار ہے

بیک رنگ کردار و گفتار ہے

مبارک جہاں کو قیادت تری

مبارک دلوں پہ حکومت تری

اُفق تا اُفق شان و عظمت تری

زمیں کے کناروں پہ شہرت تری

کمالؔ و محمدعلیؔ۔ مستریؔ

کئی اَور اس طرح کے سازشی

کئی دشمنانِ تب و تابِ دیں

چھپائے ہوئے دل میں صد بغض و کیں

کئی خانۂ چشم و دل کے مکیں

کئی مار پوشیدہ در آستیں

بڑھے تیری عظمت کو للکارنے

بڑھے دوست بن کر تجھے مارنے

تجھے دشمن دیں نے زخمی کیا

زمیں نے ترا خون بھی چکھ لیا

بلائیں ترے حوصلوں نے سہیں

اٹھیں آندھیاں خاک ہو کر رہیں

ترے ساتھ مرضئ مولیٰ رہی

طویل عمری فضلِ عمر سے ملی

یہ تیری ہی صحبت کا فیضان ہے

یہ تیرا ہی ملّت پہ احسان ہے

کہ تیرے رفیق اور ترے جانشیں

جنہیں مال و دولت کا لالچ نہیں

جنہیں خدمتِ دیں کے انعام میں

الجھنا پڑا ظلم کے دام میں

جنہیں جیل کی ظلمتیں بھی ملیں

جنہیں کفر کی وحشتیں بھی ملیں

جنہیں نذرِ زنداں بھی ہونا پڑا

جنہیں جاں سی شے کو بھی کھونا پڑا

بصارت چھنی اور زباں بھی سِلی

سزا سنگساری کی جن کو مِلی

رہے جن کے قلب و جگر پاش پاش

کفن کو ترستی رہی جن کی لاش

شہیدوں کا خوں رنگ لا کر رہا

ہر اک دل میں شوقِ شہادت اٹھا

جلی شمعِ حق انجمن انجمن

مہک پھیلی دیں کی چمن در چمن

محبت کے شعلے بھڑکتے رہے

تشدّد اندھیروں کے گھٹتے رہے

محبت کے پروانے کس شان سے

محمؐد کے دیوانے کِس شان سے

زِ امریکہ و مصر تا خاکِ چیں

لیے پھر رہے ہیں محمؐد کا دیں

قدم رکھ دیئے خانۂ طَیر میں

تراشے حرم ایک اِک دَیر میں

جہاں آج تک تھا ہجومِ بتاں

وہاں اُٹھ رہی ہے صدائے اذاں

کبھی مالکانہ کے ویرانوں میں

کبھی مصر کے آئینہ خانوں میں

گہے روس کے قلبِ فولاد میں

گہے افریقۂ غیر آباد میں

کیے نقش تحریر اسلام کے

تصدّق محمؐد کے پیغام کے

جہاں اجتماعِ مذاہب ہؤا

وہاں تو نے پیغام حق کا دیا

اسی شوق میں پیروِ انبیاء

سفر تو نے برطانیہ کا کیا

در و بام گونج اُٹھے تقریر سے

محبت کی پاکیزہ تحریر سے

وہ بیت الدعا کی دعائیں لیے

مسیحِؑ دگر کی صدائیں لیے

جہاں مختلف دیں کی تصویر تھی

وہاں تو نے مسجد بھی تعمیر کی

یہ تیری مساعی کا انعام ہے

جہاں واقفِ دینِ اسلام ہے

نہ میں احمدی ہوں نہ غیر احمدی

کہ ایماں ہے میرا بشر دوستی

میں اک شاعرِ بے نوا ہوں جسے

زمانہ غلامِ محبت کہے

مسیحائے موعود کے فیض سے

عجب کیا جو میرا بھی دل یہ کہے

’’بہ عشقِ محمؐد مخمر ہوں میں

جو یہ کفر ہے سخت کافر ہوں میں ‘‘

تکلف سے خاموش ہرگز نہیں

میں احساں فراموش ہرگز نہیں

مجھے اعترافِ حقیقت میں ڈر؟

خدا کی قسم میں نہیں کم نظر

اندھیروں سے جب تھے مرے دن ملے

مجھے اس جماعت میں محسن ملے

وہ محسن جنہیں عین انساں کہیں

محبت کا بے تاب طوفاں کہیں

کسی بھی عوض کے جو خواہاں نہیں

جنہیں یاد خود اپنے احساں نہیں

غریبانِ دیں کا مقدر ہے تو

خوشا اس جماعت کا رہبر ہے تو

نذر گزار

صہباؔاختر

(روزنامہ الفضل۲۲؍مارچ۱۹۵۷ء صفحہ۳-۴)

کلام دامن اباسینی

حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعدآپؓ کی مدح میں ایک منظوم کلام بدین ضلع سندھ کے ایک شاعر کا الفضل میں شائع ہوا۔غالباً دامن ابا سینی ان کا قلمی نام ہے۔ان کا زیادہ تعارف تو میسر نہ ہو سکا لیکن موصوف کو بعدازاں چند ماہ بعد ہی خداتعالیٰ نے بیعت کر کے سلسلۂ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی کیونکہ ۳۰؍جنوری ۱۹۶۶ء کو روزنامہ الفضل میں آپ کا ایک اَور منظوم کلام زیرِ عنوان’نوائے آگہی‘ شائع ہوا اوراخبار نےاس عنوان کے ذیل میں مزید یہ لکھا ہے’ایک نو احمدی کے جذبات‘۔نیز اس نظم کے اشعار بھی اس امر کی غمازی کررہے ہیں کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل بیعت کی اور اپنے کلام میں اپنی بیعت کے جذبات کا اظہار کیا۔

حضورؓکی وفات پر(قبل از بیعت) انہوں نے منظوم کلام میں اور اس سے قبل تمہیداً اپنی عقیدت مندی کا اظہار یوں کیا۔

’’محترم جناب تنویر صاحب !

حضرت بشیر الدین محمود احمد صاحب کا سانحۂ ارتحال صرف جماعت احمدیہ کے لیے جگر خراش نہیں ہے بلکہ ان بےشمار ارباب ِنظر کے لیے بھی پیغام ِدرد ہے جو ان کے افکار و اعمال سے ذہنی وروحانی فیضان حاصل کرتے تھے ۔

یقین کیجیے میں ایک غیر احمدی ہوں مگر ریڈیو پر حضور کی وفات حسرتِ آیات کی خبر سن کر چونک پڑا۔ فرط ِجذبات سے فراموشی کا عالم طاری ہو گیا ۔ اس وقت ایک شاعرپر کیا گزرتی ہے، اسے آپ کا دل جانتا ہوگا ۔ سازِ روح کے تار جھنجنااٹھے ۔ ڈوبی ہوئی لَےمیں ایک ٹوٹا پھوٹا نغمہ ابھرا ۔ جسے نذ رِعقیدت کے طور پر ارسال کر رہا ہوں ۔

میں اس حادثہ میں آپ کے غم میں برابر کا شریک ہوں ۔ خدا سب کو صبرِ جمیل کی توفیق بخشے۔(نیاز آگیں دامن اباسینی گولارچی براستہ بدین ضلع حیدر آبا د)‘‘

ذرّے ذرّے میں انتشار ہے آج

روحِ کونین بے قرار ہے آج

چھن گئی کیا امانتِ کبریٰ

قوم کی قوم سوگوار ہے آج

گیسوئے روزگار برہم ہیں ؟

گل کی آنکھوں میں اشک شبنم ہیں

آسماں تک اُداس ہیں ، گویا

چاند تارے شریک ماتم ہیں

شور ہے، میرِ کارواں اُٹھا

محرمِ رازِ کن فکاں اُٹھا

محفلِ ذکر و فکر ویراں ہے

دینِ فطرت کا ترجماں اُٹھا

مئے عشقِ رسولؐ رکھتا تھا

مے کشی کے اصول رکھتا تھا

چشمِ اہلِ نظر کا تارا تھا

عام حُسنِ قبول رکھتا تھا

جانشینِ مسیحِؑ ثانی تھا

حجتِ پاک کی نشانی تھا

روحِ عزم و عمل کا فتویٰ ہے

اک نئے دور کا وہ بانی تھا

ایک دانا فقیر تھا، نہ رہا

ایک روشن ضمیر تھا نہ رہا

کارواں کو خدا پہ چھوڑ گیا

کارواں کا امیر تھا، نہ رہا

(روزنامہ الفضل۲۴؍نومبر۱۹۶۵ء صفحہ۴کالم۳-۴)

کلام نذرحسین او ٹی از لالیاں

نذرحسین صاحب ضلع جھنگ(حال ضلع چنیوٹ)کے ایک گاؤں لولے شریف کے رہنے والے تھے۔آپ ربوہ سے قریباً ۱۵؍کلومیٹر کی دُوری پر واقع قصبہ لالیاں کے ہائی اسکول میں اردو کے استاد تھے اور لالیاں میں ہی رہائش رکھتے تھے۔یہ کاتب بھی تھے۔جماعتِ احمدیہ اور خلفائے کرام سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات پر آپ ربوہ حاضر ہو کر حضورؒ کے چہرۂ مبارک کی زیارت سے بھی مستفیض ہوئے۔اسّی کی دہائی میں ان کی وفات ہوئی۔(یہ معلومات مکرم ڈاکٹر حافظ محمد حیات صاحب از لالیاں سے حاصل ہوئی جوموصوف کے شاگرد بھی ہیں ۔فجزاہم اللہ خیراً)

حضرت خلیفۃ ا لمسیح الثانیؓ کی وفات پر آپ کودرج ذیل منظوم کلام کہنے کی توفیق ملی جو روزنامہ الفضل میں شائع ہوا۔

’’نوحۂغم

ایک غیر از جماعت دوست کے قلم سے

راقم امام جماعتِ احمدیہ سے ایک ملاقات کے دوران اُن کے بلند اخلاق سے بہت متاثر ہوا اور اُن کی بزرگانہ شخصیت کے ماتحت ان سے ایک دنیوی الجھن کے متعلق طالبِ دعا ہوا۔ ان کی دعا سے وہ عقدۂلا ینحلسمجھ گیا۔ ان کی وفات پر اس نظم میں اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ( نذر حسین او ٹی۔ لالیاں )‘‘

کس لیے وقفِ الم ہے آج ربوہ کی زمیں

ناصبور و محوِ غم ہے آج ربوہ کی زمیں

کس لیے نالہ بدم ہے آج ربوہ کی زمیں

نوحہ خواں باچشمِ نم ہے آج ربوہ کی زمیں

ہیں زبانیں دم بخود اظہار کی طاقت نہیں

حکمِ قدرت سے مگر انکار کی طاقت نہیں

ہے کہاں جو سیرِِ رُوحانی کراتا تھا ہمیں

اور معارف دین و دنیا کے بتاتا تھا ہمیں

بہرِ تالیفِ قلوب اکثر بلاتا تھا ہمیں

نصرتِ اسلام کے خطبے سناتا تھا ہمیں

وادئ ارواح میں خود آج محوِ سیر ہے

ہر نشانِ زندگی جس کا نشانِ خیر ہے

تُو نے اے فضلِ عمر ہم کو دیا درسِ حیات

سیفِ حق تیری زباں تیرا قلم شاخِ نبات

جُوئے کوثر ہر سخن ، سِلکِ دُرر ہر ایک بات

تھی سراپا تیری ہستی پیکرِ عزم و ثبات

فیضِ صحبت سے تری کُھلتے تھے اسرارِ نہاں

تھی گریزاں تیرے دم سے جہل کی تاریکیاں

جب تلک ہو گی صدا تہلیل اور تکبیر کی

جب تلک محتاج ہو گی ہر دُعا تاثیر کی

جب تلک سنّت ادا ہو گی یہاں شبیر کی

اور محوِ سجدہ پیشانی جوان و پیر کی

کارنامے تیرے پائندہ رہیں گے دہر میں

تیرے فرمودات بھی زندہ رہیں گے دہر میں

(روزنامہ الفضل سالانہ نمبر۱۹۶۵ءصفحہ۲۰ کالم۱-۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button