حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قبولیتِ دعا کے ایمان افروزواقعات (قسط اوّل)
حضرت مسیح موعود کواستجابت دعا کا نشان دیا گیا۔ اس کا فیضان خلافت مسیح موعود کے ذریعہ ایک نئی شان کے ساتھ وسعت اختیار کرتاہوا ہمیں دکھائی دیتاہے۔ چنانچہ خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا کے سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں واقعات ہیں جو اکناف عالم میں روشن نشانوں کی طرح جگمگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے قبولیت دعا کے چند واقعات ہدیہ قارئین ہیں۔
شفا کے واقعات
مردہ زندہ ہوگیا!
افریقہ کے ملک Niger میں ہمارے مربی صغیر احمد قمر صاحب سخت بیمار ہو گئے۔ ان کے برین میں clot اۤنے کی وجہ سے بیماری اس حد تک بڑھ گئی کہ قومہ میں چلے گئے۔ اسی حالت میں تین چار دن گزر گئے۔ ان کی صحت کے بارے میں حضورکی خدمت میں روزانہ رپورٹ پیش ہوئی۔ حضورانور ان کی کامل شفایابی کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ ایک روز حضورانور نے فرمایاکہ ان کوایک ہومیوپیتھی دوائی فوری طور پر دی جائے۔ چنانچہ ہمسایہ ملک بورکینافاسو سے ہمارے ایک ڈاکٹر یہ دوائی لے کر وہاں پہنچے اور خود انتہائی نگہداشت وارڈ میں جاکر یہ دوائی ان کے ہونٹوں پر لگائی۔
ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ جونہی دوائی ان کے ہونٹوں پر لگائی تو ان کے جسم نے حرکت کی۔ پھر کچھ دیر بعد اۤنکھیں کھول دیں اور اگلے روز وہ پوری طرح ہوش میں اۤگئے اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔ خلیفہ وقت کی دعا سے ایک مردہ زندہ ہوگیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اگر مردے زندہ ہوسکتے ہیں تودعاؤں سے اور اگر اسیر رہائی پاسکتے ہیں تو دعاؤں سے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتاہے۔ ‘‘
یہ ہیں وہ مسیحائی کے عظیم الشان نشانات کہ جسے دنیا لاعلاج قرا ر دے دیتی ہے اور جسے مردہ سمجھ کر چھوڑدیا جاتاہے وہ خلفائے مسیح موعود کی دعاؤں سے شفایاب ہو کر اور نئی زندگی پاکر خدا کے ان پیاروں کی صداقت اور ان کے تعلق باللہ اور ان کے قبولیت دعا پر زندہ گواہ بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔
(الفضل۔ دعا نمبر۔ 28؍دسمبر2015ء صفحہ43-45)
کینسر سے نجات
ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والی ایک نو احمدی خاتون نادیہ کاظمی صاحبہ نے حضورانورسے ملاقات میں اپنی والدہ کی کینسر کی بیماری کے لیے دعا کی درخواست کی جس پر حضورانور نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ صحت دے گا اور فضل کرے گا۔‘‘اور ساتھ ہی حضورانور نے ان کی والدہ کے لیے ایک ’الیس اللہ‘ والی انگوٹھی بھی دی جو ان کی والدہ نے پہن لی۔ کچھ عرصہ بعد جب ان کی والدہ چیک اپ کے لیے گئیں تو ڈاکٹرز نے بتایاکہ ان کو اب کسی قسم کے ٹیسٹ یا کیموتھراپی کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی صحت اب کینسرہونے سے پہلے کی صحت سے بھی زیادہ اچھی اور بہتر ہے۔ خلیفۃ المسیح کی دعا کی قبولیت کے اس نشان نے ان کے سارے خاندان کے دلوں کو بدل دیا اور اس نشان کو دیکھ کر36 افراد پر مشتمل سارا خاندان بیعت کرکے جماعت میں داخل ہوگیا۔(روزنامہ الفضل۔خلافت نمبر۔25؍مئی2015ء)
معجزانہ شفا
مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب۔ ناظر خدمت درویشاں ربوہ لکھتے ہیںکہ ایک دفعہ خاکسار کی طبیعت خراب تھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کےلیے خط لکھا۔ لندن میں کسی تقریب کے موقع پر حضور انور تشریف لائے وہاں حضور ایدہ اللہ نے میرے بیٹے عزیزم نعمان محمود کو دیکھ لیا۔ بُلا کر میری صحت کے متعلق دریافت کیا کہ کیسی ہے۔ بیٹے نے کہا کہ بہتر ہے۔ فرمایا کہ ’’مولوی صاحب سے کہیں لندن آ جائیں صحت بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ انشاءاللہ تعالیٰ‘‘
چنانچہ خاکسار حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد کے مطابق جلسہ سالانہ یوکے 2004ءکے موقع پر لندن چلا گیا۔ جلسہ میں شمولیت کی سعادت ملی۔ جلسہ کے بعد اگلے جمعہ خاکسار کو دل کی تکلیف اچانک شروع ہوگئی جو پہلے ساری زندگی کبھی بھی نہیں ہوئی تھی اور جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ خاکسار کا بیٹا عزیزم عدنان محمود گھر پر تھا اس نے فوراً ایمبولینس منگوائی۔ پانچ منٹ میں ایمبولینس گھر پہنچ گئی۔ 10 منٹ ہسپتال جانے میں لگے۔ وہاں چار ڈاکٹرز بالکل تیار کھڑے تھے جن میں ایک ہارٹ سپیشلسٹ تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے فوراً اینجیو پلاسٹی شروع کر دی اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر اینجیوپلاسٹی کر کے مجھے وارڈ میں بھجوا دیا۔ اُن میں سے ایک ڈاکٹر بار بار میرے بیٹے کو کہتا تھا کہ تمہارا باپ بہت خوش قسمت ہے کہ اس کو آتے ہی چار ڈاکٹر فارغ مل گئے۔ ورنہ ہم تو ایسے مریضوں کو پندرہ پندرہ دن کا وقت دیا کرتے ہیں۔ دراصل یہ جملہ صورت حال پیارے آقا کی مشفقانہ دعاؤں کے طفیل وقوع میں آئی تھی۔
خاکسار کے داماد عزیزم قریشی منصور احمد ہارٹ سپیشلسٹ ہیں اور امریکہ میں سروس میں ہیں۔ اگلے روز وہ بھی امریکہ سے لندن پہنچ گئے اور میری بیماری سے متعلقہ CD چیک کرنے کے بعد مجھے کہا کہ آپ کا اتنے تھوڑے عرصہ کے دوران بروقت علاج ہوا ہے کہ دل بالکل تندرست حالت میں ہے اور دل کو بفضلہ تعالیٰ کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
خاکسار نے حضور کی خدمت میں اطلاع اور درخواستِ دعا بھجوا دی۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت دعا سے نوازا اور پھولوں کا تحفہ بھیجا اور پھر دوسرے دن خاکسار کے لیے فروٹ بھجوایا۔ مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب فون پر ساری تفصیل بھی دریافت کرتے رہے۔ تین چار دن کے بعد خاکسار بفضلہ تعالیٰ بخیروخوبی گھر آگیا۔ اِس طرح حضور انور کا ارشاد کہ لندن آ جائیں صحت بالکل ٹھیک ہو جائے گی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرح حیران کن اور معجزانہ طور پر پورا ہوا۔ الحمدللہ۔(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر 2008ءصفحہ 43)
اۤنکھ ٹھیک ہو گئی
مکرم چودھری عطاءالرحمٰن محمود صاحب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قبولیت دعا کے متعلق تحریر کرتے ہیں:’’خاکسار کو اپنی اہلیہ اور دو بچوں سمیت 2005ء میں جلسہ سالانہ انگلستان میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جلسہ سالانہ کے بعد ہم لوگ چند دنوں کے لیے ناروے بھی گئے۔
یہ 12 ؍اگست 2005ء کی بات ہے۔ اوسلو کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد ہمارا پروگرام سیر کے لیے ناروے کے مغربی علاقے میں جانے کا تھا۔ راستے میں Skien نامی شہر میں اپنے ایک عزیز کے ہاں کھانے کے لیے تھوڑی دیر قیام کیا۔ ابھی ہم لوگ کھانے کی میز پر بیٹھ ہی رہے تھے کہ باہر سے میرے بیٹے عزیزم جاذب عارفین احمد کے رونے کی آواز سنائی دی۔ جب وہ اندر داخل ہوا تو اُس کی آنکھ سے خون کے قطرے گر رہے تھے۔ اُس کا ماموں زاد بھائی عثمان اُس کے ہمراہ تھا۔ عثمان نے بتایا کہ میرے ہاتھ میں کھانے والا کانٹا (fork) تھا میں ہاتھ کو آگے پیچھے حرکت دے رہا تھا۔ جاذب اچانک دوڑتا ہوا میرے قریب آیا اور کانٹا اُس کی آنکھ میں لگ گیا۔
ہم لوگوں کو کھانے پینے کی کوئی ہوش نہ رہی۔ میں نے جاذب کو گود میں اُٹھا لیا۔ وہ مجھے بتا رہا تھا کہ آنکھ میں شدید درد بھی ہے۔
ہم لوگ جاذب کی چھوٹی خالہ کے گھر میں تھے۔ جاذب کے خالو ڈاکٹر ہیں اور Skien کے ہسپتال میں ملازم ہیں۔ انہوں نے فوری طور پر جاذب کو دیکھا۔ اُس کی آنکھ کو صاف کیا اور کوئی دوائی اُس کی آنکھ میں ڈالی۔ ہمارا خیال تھا کہ فوری طور پر بچے کو ہسپتال دکھا لیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے تسلی دی کہ زخم معمولی ہے فکر کی کوئی بات نہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہاں ناروے میں ایمرجنسی کی صورت میں بھی پہلے عام ڈاکٹر دیکھتا ہے اور اگر وہ ضرورت سمجھے تو پھر specialist کے پاس refer کرتا ہے۔ بچے کو کوئی ہومیوپیتھی دوائی بھی کھلائی گئی۔ تھوڑی دیر بعد جاذب نے بتایا کہ اُس کی درد تو ٹھیک ہوگئی ہے البتہ آنکھ میں کافی زیادہ سرخی تھی اور زخم والی جگہ پر خون جمنے کی وجہ سے سرخ نشان بن گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ خون کا یہ نشان آہستہ آہستہ خود ہی حل ہو کر ختم ہو جائے گا اس عمل میں شاید پندرہ بیس دن لگ جائیں۔ ہم لوگ سفر کے لیے تیار ہوئے اور اگلا ڈیڑھ دن بھرپور مصروفیت کے ساتھ سیر و سیاحت میں گذارا۔ بچے کی آنکھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹھیک رہی البتہ خون کا سرخ نشان سیاہی مائل ہونا شروع ہو گیا۔
14؍اگست کو علی الصبح ہماری لندن کے لیے واپسی تھی۔ میں نے ناروے جاتے وقت حضور انور کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ 16 ؍اگست سے پہلے پہلے پاکستان واپسی کا پروگرام ہے اگر حضور ملاقات کا شرف بخش دیں تو احسان ہوگا۔ حضور انور نے از راہِ شفقت و احسان ملاقات کی درخواست کو قبول فرما لیا اور 14 ؍اگست کو ملاقات کا وقت مل گیا۔
ملاقات میں حضور انور نے ناروے کی سیر کے متعلق دریافت فرمایا۔ پاکستان واپسی کا پوچھا۔ ملاقات کے اختتام پر جب میں اور جاذب حضور انور سے مصافحہ بھی کر چکے تھے اور حضور ہمیں دعاؤں کے ساتھ رخصت کر رہے تھے میری اہلیہ محترمہ نے جاذب کی آنکھ کی چوٹ کا ذکر کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی۔ہم اس وقت حضور انور کے ساتھ کھڑے تھے۔حضور نے جاذب کو اپنے پاس بُلایا اُس کے چہرے کو اپنے دست مبارک سے اوپر اُٹھاتے ہوئے آنکھ کو دیکھا۔ پھر حضور تقریباً آدھے منٹ سے پونے منٹ تک خاموش رہے اُس کے بعد حضور انور نے اپنا دایاں دست مبارک جاذب کی متاثرہ آنکھ پر پھیرتے ہوئے فرمایا۔ ’’فکر نہ کریں۔ ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔
ہم لوگFarnhamپہنچے۔ میری بہن نے جاذب کی آنکھ دیکھی تو مجھے کہنے لگیں کہ بھائی اتنا موٹا کالا نشان ہے آپ نے سستی کی چلیں ابھی کسی ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں۔ میں نے اُسے بتایا کہ آنکھ اللہ کے فضل سے بالکل ٹھیک ہے۔ یہ کالا نشان خون جمنے کا ہے یہ بھی آہستہ آہستہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔
ہم لوگ رات کو سو گئے۔ صبح جب اُٹھے تو میں نے جاذب کی آنکھ کو دیکھا۔ مجھے خدائے عزوجل کی قسم ہے کہ جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے جاذب کی آنکھ سے حضور انور کی دعا اور مسیحی نفس کے صدقے وہ موٹا کالا خون کا نشان بالکل غائب ہوچکا تھا اور آنکھ بالکل صاف تھی۔ الحمدللہ
(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر 2008ء صفحہ 145)
بیماری سے شفا
مکرم محمد اقبال صاحب کنری ضلع عمر کوٹ لکھتے ہیں کہ’’1998ءمیں غالباً 20 فروری کو مجھے رات کے وقت اچانک ٹانگ کی پنڈلی میں عرق النساءکی تکلیف ہوئی۔ خاکسار نے ڈاکٹر سے معائنہ کرایا اور دوائی شروع کر دی مگر پھر بھی مجھے بے یقینی تھی خاکسار نے اگلے دن نو بجے ناظر صاحب اعلیٰ کے دفتر میں فون پر رابطہ کیا حضرت میاں صاحب کو بیماری کی ساری حقیقت حال بتائی اور جذبات میں آکر خاکسار رونے لگا تو میاں صاحب نے فرمایا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے آپ کی چیخیں ربوہ تک پہنچ گئی ہیں اور جو بھی دوست یا بزرگ میرے پاس آئے گا میں اُسے درخواست دعا کروں گا اور ازراہ شفقت رسٹاکس+ آرنیکا 1000 طاقت میں لینے کا ارشاد فرمایا۔ میری بیماری کو دیکھ کر ڈاکٹر بھی پریشان تھے کوئی کہہ رہا تھا کہ ٹانگ ٹیڑھی ہو جائے گی اور لنگڑا پن ہو جائے گا۔ میں گھبراہٹ میں تھا۔ اگلے دن میاں صاحب کا فون آیا۔ ازراہ شفقت فرمایا کہ میرے پاس جو بھی دوست و بزرگ آتے ہیں ان کو دعا کے لیے کہہ دیتا ہوں اور خود بھی دعا کر رہا ہوں۔ خاکسار چل پھر نہ سکتا تھا اور نہ بیٹھ سکتا تھا۔ میرا یقین و ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور میاں صاحب کی دعاؤں کی وجہ سے ٹھیک ٹھاک کر دیا۔‘‘(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر 2008ءصفحہ 37)
مکمل آرام آ گیا
مکرم راجہ نصیر احمد صاحب ربوہ بیان کرتے ہیں: ’’حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قبولیت دعا کے بہت سے واقعات ہیں۔ مجھے حضور کی دعاؤں سے بہت برکات حاصل ہوئی ہیں۔گذشتہ جلسہ سالانہ لندن سے پہلے میرے گھٹنے میں بڑی تکلیف تھی۔ فضل عمر ہسپتال کے اسپیشلسٹ سے میں نے دوائی لی۔ ہومیوپیتھک کے اسپیشلسٹ سے بھی میں نے دوائی لی۔ حضور انور کو بھی دعا کے لیے فیکس کر دی جب میں لندن جلسے پرگیا تو وہاں بھی گھٹنے کو بڑی تکلیف تھی چنانچہ میں دوائی وغیرہ تو کھاتا رہا مگر افاقہ نہ ہوا۔ ایک دن ملاقات کے دوران حضور انور نے پوچھا کہ اۤپ پکنک پر کیوں نہیں آئےتھے؟ میں نے عرض کی کہ حضور گھٹنے میں بڑی شدید تکلیف تھی۔ چنانچہ حضور انور نے مجھے ایک exercise بتائی کہ یہ کیا کرو۔ میں نے فوراً وہ exercise کرنی شروع کر دی تین دن بعد کچھ افاقہ ہوا اور دس دن کے بعد تکلیف بالکل دور ہو گئی اور مکمل اۤرام اۤگیایہ سب کچھ حضورانور ایدہ اللہ کی دعا اور توجہ کی بدولت ہوا۔اسی طرح یکم فروری2006ءکو مجھے دل کی تکلیف ہوگئی۔مجھے I.C.Uمیں داخل کر دیا گیا۔ ساتھ ہی میں نے ساری صورتحال کی حضور انور کو بھی فیکس کر دی۔ چند دنوں بعد فیکس کا جواب اۤگیا حضور انور نے میری شفایابی کیلئے دعا کی چند دنوں بعد میں ٹھیک ہوگیا۔ اس کے بعد مجھے کئی دوست کہتے رہے کہ اۤپ اینجیوگرافی کرائیں۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے حضور کی دعائیں مل گئی ہیں میرے لیے یہی کافی ہیں۔ دوائیاں کچھ دیر تک تو میںکھاتا رہا اب دوائی بھی چھوڑ دی ہے۔ طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بہتر ہے۔ یہ سب حضور انور کی شفقت اور دعا کی برکت سے ہے۔‘‘(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر 2008ءصفحہ 147)
وصیّت کے نظام میں شمولیت
مکرم راکان المصری صاحب صدر جماعت احمدیہ حمص کہتے ہیں کہ’’2006ءکے شروع میں مجھے بہت بڑے مالی خسارہ کا سامنا کرنا پڑا،نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعض اوقات کھانے پینے کے لئے بھی گھر میں کچھ نہ ہوتا تھا۔اس کے باوجود مَیں نے چندوںکی ادائیگی کا خیال رکھا اور اپنے کھانے پینے کے لئے کچھ میسر ہو یا نہ ہو چندہ کی ادائیگی میں کبھی تاخیر نہ کی۔انہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے مجھے وصیت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔
مالی حالات بد سے بد تر ہوتے گئے، حتی کہ ملک میں بھی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے فصلوں کی صورتحال بہت دگر گوں تھی۔ایسے میں مَیں نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی جس کا جواب حضور انور کی طرف سے مجھے 16؍جنوری 2007ءکو موصول ہوا جس میں حضور انور نے مجھے مندرجہ ذیل دعا دی تھی کہ: اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتے ہوئے بارش نازل فرمائے اورحرث ونسل میں برکت دے۔
ابھی ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ میری بیوی نے بتایا کہ وہ حمل سے ہیں۔اورجب چیک اپ کروایا تو حمل کی تاریخ 16؍جنوری 2007ء ہی نکلی کیونکہ ہمارے ہاں بچے کی پیداأش 27؍ستمبر2007ء کو ہوئی۔
مَیں نے کہا کہ حضور انور کی دعا کا ایک حصہ پورا ہو گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ دوسرا حصہ بھی پورا ہو گا اورحرث میں برکت سے مالی مشکلات بھی جلد دور ہونے والی ہیں۔ اس وقت مجھ پرپانچ لاکھ سیرین پونڈز کا قرض تھا۔مَیں نے اسی مضمون کا ایک خط 4؍نومبر 2007ءکو حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میںلکھا جس کا جواب مجھے یکم جنوری 2008ء کو موصول ہوا جس میں حضور انور نے دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ قرض اتارنے میں اۤسانیاں پیدا فرمادے۔ اس کے بعد مَیںنے خواب میں ایک سفید بالوں والے شخص کو دیکھا جومجھے کہتا ہے کہ مَیں تیرا پانچ لاکھ کا قرض ادا کردیتا ہوں۔ مَیں نے پوچھا اۤپ کون ہیں؟ پھر مَیں نے خود ہی کہا کہ اۤپ مجھے ابوقاسم لگتے ہیں، اس نے جواب دیا ہاں مَیں ابو قاسم ہی ہوں۔
ان خراب مالی حالات کے باوجود مَیں نے اپنی زمین کا ایک حصہ جماعت کو دینے کا فیصلہ کیا تا کہ جب حالات اجازت دیں توجماعت اس جگہ مسجدتعمیرکر لے۔جب صدر جماعت شام مکرم مسلم الدروبی صاحب کو اس کا علم ہوا توانہوںنے کہا کہ مَیں اۤپ سے اتنی مزید زمین خریدکر جماعت کو دینا چاہتا ہوں۔چنانچہ اس کی پہلی قسط جو انہوں نے ادا کی وہ پانچ لاکھ سیرین پونڈز تھے جس سے حضور انور کی دعا کا اعجاز ظاہر ہوگیا اور نہایت اۤسانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میرا قرض اتارنے کے سامان پیدا فرما دیئے۔ فالحمد للہ علیٰ ذلک۔(صلحائے عرب اورابدال ِشام صفحہ 445-446)
بچے کی علالت اور معجزانہ شفا
یہ بچہ جس کا ذکرابھی گزرا ہے بوقت پیدائش Meningitis کی تکلیف سے دوچار تھا۔اور بیس دن تک اسے ہسپتال میں رہنا پڑا۔میں نے کہا یقیناً یہ کوئی ابتلا ہے اس لیے فورًا حضور انور کی خدمت میں دعا کا خط لکھا۔ابھی یہ ہسپتال میںہی تھا کہ مجھے شام کے ایک شہر’’اِدلب‘‘میں تبلیغ کے لیے جانے کا حکم ہوا۔ مجھے ذرہ برابر بھی تردد نہ ہوا بلکہ بچہ کو ہسپتال میں ہی چھوڑ کرایک احمدی دوست کے ساتھ ادلب چلا گیا جہاں ہماری تبلیغ سے بفضلہ تعالیٰ بعض لوگوں نے بیعت کر لی۔ جب واپس اۤئے تو اللہ تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا اور میرا بیٹا بالکل صحت یاب ہو گیا۔
قارئین کرام!مکرم راکان المصری صاحب کے ان واقعات میں دو امور بطور خاص قابل توجہ ہیں۔ایک یہ کہ ہر مشکل مرحلہ پر، اورہر اہم موقعہ پر خلیفہ وقت کی خدمت میں دعا کا خط لکھتے ہیں۔
دوسری بات بہت عجیب ہے کہ باوجود تنگ اورمشکل حالات کے بھی چندہ دینا نہیں چھوڑا، بلکہ جوں جوں حالات تنگ ہوتے گئے ان کی طرف سے چندے کی مقدار میں اضافہ ہوتا گیا۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ اس تنگی کا علاج بھی خدا کی راہ میں اپنے اوپر مزید تنگی وارد کرکے کر رہے تھے۔اورخدا تعالیٰ کی خاطر تنگی برداشت کرنے والے پرخدا کے پیار کی نظر ضرور پڑتی ہے۔یہی لوگ ہیں جن کے حق میں خلیفہ وقت کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ پورا ہوتا ہے۔اور ہم نے ان واقعات کے مطالعہ کے دوران دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں خلیفہ وقت کی دعاؤں کوقبول فرمایا۔(صلحائے عرب اورابدال ِشام صفحہ 446-447)
قبولیت کا نشان
جلسہ سالانہ جرمنی میں بلغاریہ کے ایک مخلص نو احمدی دوست Etem صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ شامل ہوئے۔ موصوف نے چند سال قبل عیسائیت سے اسلامقبول کیاتھا۔لیکن ان کی بیوی نے بیعت نہیں کی تھی۔
ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ میری تین بیٹیاں ہیں۔ اگر مجھے بیٹا مل جائے تو میں بھی احمدی ہوجاؤںگی۔ موصوفہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے لیے لکھا۔ اگلے سال جب وہ دوبارہ جلسہ پر اۤئیں تو سات ماہ کی حاملہ تھیں۔ ملاقات کے دوران انہوں نے بچے کے لیے نام رکھنے کی درخواست کی تو حضورانور نے صرف لڑکے کانام جاہدتجویز فرمایا۔
جلسہ سے واپس جاکرموصوفہ نے مربی صاحب سے کہا کہ ڈاکٹرز نے بتایاہے کہ لڑکی ہے اس لیےحضورانور کی خدمت میں دوبارہ درخواست کریں کہ لڑکی کا نام تجویز فرمائیں۔
اس پر مربی صاحب نے کہا کہ اۤپ نے تو کہا تھا کہ اگر بیٹا ہوا تو احمدی ہوجاؤںگی۔اور حضورانور نے بھی صرف بیٹے کا نام تجویز فرمایاہے۔ اس لیے انشاءاللہ بیٹا ہی ہوگا۔ڈاکٹر جو چاہیں کہیں، ان کی مشینیں جو چاہیں ظاہر کریں لیکن اب اۤپ کا بیٹا ہی ہوگا کیونکہ خلیفۃ المسیح نے بیٹے کا نام رکھا ہے۔یہ سن کر کہنے لگیں کہ میں توپہلے ہی احمدی ہوچکی ہوں۔
چنانچہ جب بچہ کی پیدائش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے سے ہی نوازا۔ وہ جلسہ کے موقع پر اس بیٹے کو ساتھ لیکر اۤئی تھیں اور لوگوں کو بتارہی تھیں کہ دیکھو یہ خلیفہ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کا نشان ہے۔(الفضل۔ دعا نمبر۔ 28؍دسمبر2015ء صفحہ43-45)(باقی آئندہ)