مکرم ملک منیر احمد صاحب آف دوالمیال ضلع چکوال
مورخہ6؍فروری2022ءکی صبح جب انٹر نیٹ پر پیغامات کو کھولا تو دل بہت اداس ہواجب یہ روح فرسا پیغام نظروں کے سامنے سے گزرا جو محترم کرنل محمد فاروق ملک صاحب نے ارسال کیاتھا،کہ نہایت افسوس سے احبابِ جماعت کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ایک مشفق بزرگ، احمدیت کے جاںنثار مکرم ملک منیر احمدصاحب آف دوالمیال ضلع چکوال(حال ربوہ)، دوالمیال ہاؤس محلہ دارالفتوح شرقی ربوہ میں آج اس دارِ فانی سے دارِ جاودانی کی جانب رحلت فرما گئے ہیں۔اناللّٰہ و اناالیہ راجعون۔دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اورانہیں جنتِ فردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔آپ موصی تھے اور آپ کی نمازِ جنازہ 7؍فروری 2022ءکوربوہ میں ادا کی جائے گی۔
’’ضلع چکوال تاریخِ احمدیت ‘‘میں معاونت
میرے سامنے وہ سارے منظر گزرنے لگے جن دنوں میں ضلع چکوال تاریخِ احمدیت مرتب کر رہا تھااور اکثراس سلسلہ میں ربوہ جانا پڑ تا تھا، اس وقت مکرم ملک منیر احمدصاحب دفتر تحریکِ جدید میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ان سے ملاقات میں ضلع چکوال کے پرانے احمدی بزرگوں اور صحابہ حضرت مسیح موعود ؑکے متعلق معلومات ملتی تھیں اور ساتھ ہی انہوںنے جو حوالہ جات وغیرہ اکٹھے کیے ہوئے ہوتے تھے وہ مجھے دیا کرتے تھے۔آپ نے خلافت لائبریری ربوہ میں بھی حوالہ جات اکٹھا کرنے کے اس سلسلے میں بہت زیادہ معاونت کی۔اور ان کی مخلصانہ کوششوں کی بدولت مجھے مختلف حوالہ جات تک رسائی ملی۔ جس دن نظارتِ اشاعت نے منظوری دی اس دن آپ نے مجھے فون پر اطلاع دی آپ بہت خوش تھے کہ آخر ہماری کاوشوں کومنزل مل گئی ہے۔ آپ نے ہی دن رات دوڑ لگا کر اس کتاب کی کمپوزنگ کروا دی اور محترم امیرصاحب ضلع چکوال کو اس خوشخبری سے آگاہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ’’ضلع چکوال تاریخِ احمدیت ‘‘کی اشاعت کا سہرا آپ کے اورمحترم امیر صاحب ضلع چکوال کے سر ہے۔ ان کی شب و روز محنت اورصبح شام میرے پیچھے لگ کر اس تاریخ کو مکمل کروایا پھر اس کی اشاعت کے لیے مختلف پبلشرز سے رابطے کیے اور آخر میں ان کی محنتیں رنگ لائیں اور یہ کتاب چھپ گئی۔ پھر اس کی سرکولیشن کے لیے بھی آپ کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔ آپ نے ربوہ میں ہر جاننے والے کویہ کتاب خریدنے کے لیے دی اور خاص کر احباب ضلع چکوال جو ربوہ میں سکونت پذیر ہیں ان کے گھر گھر جا کر اس کتاب کو دیا اور انہیں کہا کہ اپنے بزرگوں کے حالاتِ زندگی اور ان کی احمدیت کی خدمات کو خود بھی پڑھو اور اپنی اولاد کو بھی اس سے آگاہی دو۔ جب بھی آپ سے ملاقات ہوتی تھی آپ فرماتے تھے کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمارے آباؤاجداد نے حضرت مسیح موعودؑکے دعاوی پر لبیک کہہ کر احمدیت کو قبول کیا اور ہمیں حقیقی اسلام سے آگاہ کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے اور اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
خاندان میں احمدیت کا نفوذ
مکرم ملک منیر احمدصاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذآپ کے پڑدادا نمبر دار ملک مظفر خان صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے احمدیت قبول کرنے سے ہوا۔اپنے پڑدادا کے احمدیت کے حصار میں آنے کا واقعہ آپ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا۔
’’اللہ تعالیٰ جس وقت کسی بھی مرسل کو مبعوث فرماتا ہے۔اُس کی بعثت سے قبل سعید روحوں اور سعید الفطرت افراد کو رؤیا اور خوابوں کے ذریعہ آنے والے مرسل کے نزول کی خبر دیتا ہے۔متقی اور پرہیز گار افراد آنے والے مرسل کے انتظار میں بے قرار رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہی دوالمیال میں حضرت حافظ شہباز خان صاحب کورؤیا میں امام مہدی کے ظہور کی خبردی۔نمبر دار ملک مظفر خان صاحب نے حافظ صاحب سے نئی تازی خبر سے متعلق پوچھا۔تو حافظ صاحب نے بتایا۔امام مہدیؑ ظاہر ہوگئے ہیں۔جواباً نمبردار ملک مظفر خان صاحب نے کہاکہ حافظ صاحب گواہ رہنامیں ایمان لے آیا ہوں۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دل کی زرخیز زمینوں کی آبیاری کردیتا ہے۔وہ زمین نم ہو جاتی ہے۔ایسی زمین پہلے سے تیار ہوتی ہے۔اور اُن میں قبولیت کا مادہ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔اس لیے وہ آمنا و صدقنا کہتے ہوئے ایمان لانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔نمبر دار ملک مظفر احمد غریب پرور،ملنسار،خلیق،مہمان نواز اور ہمدرد انسان تھے۔لوگوں کی مقدمات میں راہنمائی اور آڑے وقت میں مدد کرتے تھے۔احمدیت سے والہانہ عقیدت تھی۔حافظ شہباز خان کی رؤیا کا چرچا عام تھا۔اور قریبی ماحول پر بڑا اچھا اثر پڑرہا تھا اور لوگوں میں امام مہدیؑ کی آمد کا اشتیاق بڑھ رہا تھا۔انہی دنوں مولوی احمد دین صاحب مناروی(صحابی حضرت مسیح موعودؑ اورضلع چکوال کے پہلے احمدی) جوحضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے درس میں پڑھتے تھے اور اُن کے شاگرد تھے۔لدھیانہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑمسیح موعوداور مہدی موعود کی بیعت کرکے واپس اپنے گائوں منارہ پیدل جارہے تھے۔رات بسر کرنے کے لیے انہوں نے حضرت حافظ شہباز خان صاحب کی مہمان نوازی کا انتخاب کیا وہاں اُن کا ٹھہرنا خاص خدائی مصلحت کے تحت تھا۔انہی کی آمد کی وجہ سے دوالمیال میں ایک بڑی جماعت احمدیہ کا پیدا ہونا مقدر تھا۔مولوی ملک کرمداد صاحب (اُس وقت احمدی نہ تھے )اور مولوی احمد دین صاحب مناروی کے درمیان ’’وفاتِ مسیح و حیاتِ مسیح اور صداقت ِ مسیح موعود ‘‘پر طویل بحث شروع ہو گئی۔اور کافی لوگ بحث سننے کے لیے جمع ہو گئے تھے۔اوررات جب کافی ڈھل چکی،تو مولوی احمددین صاحب نے کہا ملک کرمداد صاحب یہاں جو لوگ موجود ہیں وہ اہل علم نہیں ہیں۔آپ جوان ہیں۔آپ کی آواز میں جوش اور دبدبہ ہے۔اور میں بوڑھا اور ضعیف العمر ہوںاور میری آواز بھی کمزور اور نحیف ہے۔ان لوگوں کی نظر میں آپ جیت گئے ہیں اور میں ہار گیا ہوں۔خدارا جو دلائل صداقت مسیح موعود ؑ کے متعلق میں نے دیے ہیں۔اُن پر غور کریں۔مولوی کرمداد صاحب نے ایک ایک دلیل پرغور و موازنہ کیا۔مولوی ملک کرمدادصاحب مسیح موعود پر ایمان لے آئے۔اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ حضرت میرزاغلام احمد قادیانی سچے ہیں،مسیح موعود اور مہدی موعود ؑ ہیں۔(حضرت مولوی کرمداد صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ،پہلے امیرجماعت احمدیہ دوالمیال کی حیثیت سے دمِ آخر تک احمدیت کی خدمت میں پیش پیش رہے۔)
نمبر دار ملک بہاول بخش عرف بہاؤلا نمبردار صحابی حضرت مسیح موعود ؑ
دوالمیال گاؤں میں صداقتِ حضرت مسیح موعودؑکا مرزا فقیر کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعودؑکی زندگی میں پیش آیا جس کا حضرت مسیح موعودؑنے اپنی کتا ب ’’حقیقۃ الوحی نشان نمبر171‘‘میں ذکر فرمایا ہے۔ فقیر مرزا دوالمیالوی نامی شخص نے(نعوذباللہ)حضرت مسیح موعودؑکے جھوٹا ہونے اور 27؍ رمضان المبارک 1321ھ سے پہلے جہان سے کوچ کرنے کے متعلق ایک خواب کا ذکرکیااور ایک اقرار نامہ لکھاکہ اگر یہ شخص زندہ رہا تو لوگوں کو اختیار ہے کہ مجھے سنگسار کر دیں، اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس کاذب کو بلکہ اس کی نسل کا نام و نشان اس مقررہ تاریخ سے قبل ہی طاعون کی ہلاکتوں سے مٹا دیا۔اس نشان کے ظاہر ہونے پر اور اہلیانِ دوالمیال کا اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر بہت سارے نیک فطرت لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا۔ اور جماعت احمدیہ دوالمیال کا قیام حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں ہوا۔ اور یہ قادیان کے باہر غالباََ وہ واحد جماعت تھی جس کے پاس اپنی احمدیہ دارالذکر (مسجد احمدیہ) تھی۔فقیر مرزا کے اقرار نامہ پر معززین کے دستخطوں کی تصدیق مہر کے ساتھ بہائولا نمبر دار نے کی ہے۔حوالہ حقیقۃ الوحی نشان نمبر171۔ اس اقرار نامہ سے پہلے نمبر دار ملک بہاول بخش عرف بہاؤلا نمبردار صحابی حضرت مسیح موعود ؑ کو اپنے والدنمبر دار ملک مظفر خاں صاحب کے ساتھ احمدیت قبول کرنے کی سعادت مل چکی تھی۔آپ مکرم ملک منیر احمد صاحب کے دادا تھے۔ گویا آپ کو شروع سے ہی احمدیت کا پاکیزہ ماحول میسر رہا۔نمبر دار ملک بہاول بخش عرف بہائولا نمبر دار احمدیت سے محبت کرنے والے،غریب پرور،ملنسار اورہمدرد انسان تھے۔دعوت الیٰ اللہ کا شوق تھا۔ساتھ کے گائوں میں اکثر جمعہ کے روز معاملہ زمین وصول کرنے جاتے تھے۔وہ لوگ ایک جگہ جمع ہوتے تھے۔بہائولا نمبردار کو بیٹھنے اور چائے پینے کے لیے کہتے تھے۔اُنہیں جواب دیا کرتے تھے۔کہ نہیں بیٹھ سکتا،مجبوری ہے۔پوچھتے کیا مجبوری ہے ؟ نمبر دار صاحب ! تو کہتے عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر ہیں،کھاتے پیتے ہیں،حاجات ہیں،کہیں ناپاک چھینٹے نہ پڑ جائیں۔اور یوں دعوتِ الی اللہ کی ابتدا کرتے۔نمبر دار ملک بہاول بخش کے دو بیٹے (1)نمبر دار ملک محمد حسین مرحوم (2)ملک فضل داد مرحوم۔نمبر دار ملک محمد حسین کے دو بیٹے۔(1)نمبر دار ملک امیر علی مرحوم موصی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ۔ (2)صوبیدار ملک بشیر احمد(۲)ملک فضل داد مرحوم کے تین بیٹے۔ملک بشارت احمد۔ملک منیر احمد۔ملک نذیر احمد۔ملک منیر احمد آف دوالمیال حال دارالفتوح شرقی صدر محلہ اور بعد از ریٹائرمنٹ اعزازی وقف زندگی کارکن وکالت مال اول تحریک جدید ہیں۔(تحریر ملک منیر احمد صاحب آف دوالمیال حال دارالفتوح شرقی ربوہ)
والدہ محترمہ ماہ نو بی بی صاحبہ
مکر م ملک منیر احمد صاحب اپنی والدہ محترمہ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔میری پیاری امی جان کی شادی مکرم نمبردار بہاول بخش اعوان کے چھوٹے بیٹے ملک فضل داد صاحب سے ہوئی تھی۔جبکہ ہمارے والد صاحب اُس وقت برٹش آرمی میں ملاز م تھے۔ملازمت کرنے کے بعد پنشن پر آگئے تھے۔والد صاحب حسب معمول اپنا زمیندارہ کرنے لگ گئے تھے۔مال مویشی کو سنبھالنے کے لیے اُنہوں نے ملازم رکھا ہوا تھا۔ گھر کا گزارہ سب اچھی طرح چل رہا تھا، پنشن کے علاوہ کھیتوں کی آمد بھی تھی۔والد صاحب 12؍ اگست1947ء کواچانک بیمار پڑ گئے تھے۔اور 14؍اگست1947ء کومولائے حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اب گھر کی تمام تر ذمہ داری پیاری امی جان پر آن پڑی اور محدود اخراجات،گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا تھا مگر صبر شکر کا دامن تھامے زندگی کی گاڑی چلتی رہی۔میرے بڑے بھائی جان بشارت احمد اعوان میٹرک کے طالب علم تھے۔دن کو سکول جاتے تھے۔اوررات کو کھیتوں میں ہل چلاتے تھے۔خاکسار اُس وقت جماعت ششم کا طالب علم تھا۔ہمشیرہ نعیمہ اختر 7سال کی تھی اور چھوٹا بھائی ملک نذیر احمد والدہ کی گود میں تھا اور چند ماہ کاتھا۔ہماری والدہ کوخدا نے کسی قسم کا لالچ اور حسد والا نہیں بنایا تھا،کبھی گلہ شکوہ زبان پر نہیں لاتی تھیں۔ہم سب بھائیوں اور ہمشیرہ کی تربیت اور تعلیم پرحسب توفیق بھر پور توجہ دی تھی۔میری پیاری امی جان کو احمدیت سے والہانہ عشق تھا۔ خود ان پڑھ تھیں۔درثمین کے کئی شعر زبانی پڑھتی رہتی تھیں۔یہ شعر اکثر ورد زبان رہتا تھا۔کہ
کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
ہماری امی جان کو دل کا عارضہ اور بلڈ پریشر تھا۔جب والدہ صاحبہ کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تھی تو مجھے ربوہ میں اطلاع دی گئی کہ آپ کی پیاری امی جان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔میں اولین فرصت میں پیاری امی جان کی خدمت میں حاضر ہوگیا تھا،اور مجھے فرمانے لگیں کہ وقت قریب ہے۔وفات کے بعد مجھے ٹھنڈے کمرے میں یعنی ایئر کنڈیشن کمرے میں منتقل کردینا۔میرا بڑا بیٹا ملک تنویر احمد جو کہ امریکہ میں تھا۔اُس کا فون دادی اماں کا حال دریافت کرنے کے لیے آیا تھا،اُس سے بات کی اور خدا حافظ کہا۔ اُس کے ایک کے دم بعد مولا حقیقی سے جا ملیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔وفات 24؍اکتوبر1999ء کو ہوئی تھی اور وفات کے وقت عمر 98سال تھی۔ دوسرے روز ان کاجنازہ اپنے گائوں دوالمیال میں ہوا اور وہاں ہی احمدیہ قبرستان میں تدفین ہوئی۔
ملک منیر احمد صاحب کی زندگی کے واقعات
ملک منیر احمد صاحب ولد ملک فضل داد صاحب دوالمیال ضلع چکوال میں پیدا ہوئے۔کم عمری میں ہی والد صاحب انتقال کر گئے آپ کل تین بھائی اور ایک بہن ہے۔ملک منیر احمد صاحب بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ملک منیر احمد صاحب مشن ہائی سکول ڈلوال سے میٹرک کرنے کے بعد فوج میں چلے گئے۔1974ء میں بھٹو کی ترمیم کی بدولت جب احمدی سرکاری ملازمین پر مشکلات کا دور آیا آپ اس وقت اپنے فوجی کیریئر کے عروج پر تھے۔ انہی دنوں آپ کو نائب صوبیدار کے عہدہ پر ترقی دی گئی۔ ابھی کافی عرصہ سروس کا باقی تھااور مزید ترقی کے امکانات بہت روشن تھے لیکن محض احمدی ہونے کی وجہ سے بھٹو کی اس آئینی ترمیم کی وجہ سے جماعتی مشکلات کے پیشِ نظر آپ نے ریٹائرمنٹ لے لی۔دورانِ ملازمت1965ء اور1971ءکی جنگ میں مثالی کردار ادا کیا۔1971ء کی جنگ میں لاہور کے محاذ پرجنگ کے دوران نماز ادا کر رہے تھے کہ دشمن کی گولہ باری شروع ہو گئی۔اور آپ کے گھٹنے میںایک شیل لگنے سے آپ کو کافی گہرا زخم آیا۔آپ کو ستارہ حرب، تمغہ جنگ، تمغہ دفاع سے نوازا گیا۔
یو اے ای میں جماعتِ احمدیہ کو منظم کرنے میں اہم کردار
1977ء میں آپ پرائیویٹ ملازمت کے سلسلہ میں یو اے ای تشریف لے گئے وہاں پر آپ نےبطور Cargo Manager خدمات بجا لائیں۔اس دور میں وہاںجماعت منظم طور پر قائم نہ تھی اور چندوں کا نظام بھی نہ تھا۔کہا کرتے تھے کہ جب میں وہاں گیا اور احمدی احباب سے ملاقات ہوئی اور میری رہائش گاہ Hayat Regency Dubai پر باجماعت نماز کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا تو میں ہی امام الصلوٰۃ کے فرائض سر انجام دیاکرتا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے تعداد کافی بڑھ گئی۔ جب احمدی احباب نے دیکھا کہ اب نمازوں کا نظام قائم ہو چکا ہے تو چندہ جات اکٹھا کرنے کی جانب بھی پیش رفت کی گئی۔ احباب نے میرے پاس ہی چندہ جات جمع کروانے شروع کر دیے۔میں وہ چندہ جا ت جمع کر کے مرکز ارسال کرتا رہا اور یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا۔ محض اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال تھا کہ محنت رنگ لائی اور وہاں احباب کو اکٹھا کر کے با جماعت نمازوں اور چندہ جات کا بابرکت نظام قائم ہوگیا۔
دوالمیال سے ربوہ میں سکونت
1996ء میں آپ نے ربوہ میں رہنے کو ترجیح دی اور خود کو اعزازی طور پر جماعتی خدمت کے لیے پیش کر دیا۔آپ کو وکالت مال اول میں خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ عمر کے آخری چند سالوں میںعلالت کے باعث دفتر نہیں جا سکتے تھے۔ مگر جب بھی طبیعت ذرا سنبھلتی تو سب سے پہلے دفتر جانا شروع کر دیتے۔آخر کار جب طبیعت زیادہ خراب ہونے لگی اور دفتر جانا محال ہو گیا تو معذرت کر لی۔
ربوہ آنے کے بعد 1997ء میں آپ محلہ دارالفتوح شرقی کے صدر منتخب ہوئےاور مسلسل اٹھارہ سال صدر محلہ رہے۔آپ کے دور صدارت میںمحلہ دارالفتوح شرقی و غربی پہلے اکٹھا ہوا کرتے تھے بعد ازاں دارالفتوح غربی میں الگ صدارت کا قیام ہو گیا۔ آپ کے دورِ صدارت میں محلہ دارالفتوح میں نئی مسجد کی تعمیر عمل میں آئی جس کے لیے چندہ جات کی تحریک بھی ملک صاحب نے بڑھ چڑھ کر کی۔اس تحریک میں سب سے اول اپنے گھر کے افراد کو تلقین کی اور گھرکے ہر طفل اور خادم اور ناصرنے میں اس کارِ خیر میں مثالی حصہ ڈالا۔ اور بعد آپ نے دوسروں کو تلقین کی۔
جماعتی کاموں کو ذاتی کاموں پر ترجیح
جماعتی کاموں کو ہمیشہ ہی ذاتی معاملات پر ترجیح دی، صدر محلہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت ہی لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔کوئی کسی بھی وقت کسی بھی قسم کے معاملہ کے لیے آتااس سے خندہ پیشانی سے ملتے۔ گھر والے کہا کرتے تھے کہ آپ کوئی وقت مقرر کر لیں جس میں آپ سب معاملات دیکھ لیا کریںمگر آپ اس بات کو سخت ناپسند کرتے۔ اپنی بیٹی کی رخصتی کے وقت بھی ایک ضروری جماعتی کام پیش آ گیا تو اسی وقت دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اس کی ادائیگی کے لیے چلے گئے۔آپ کے بھائی ملک بشارت احمد صاحب آپ سے کافی ناراض بھی ہوئے،مگر آپ نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ میرے لیے جماعتی کاموں کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہے۔
خلیفۂ وقت سے محبت اور جماعتی غیرت
آپ کے اندر خلیفہ وقت کی محبت اور جماعتی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ گھر کے چھوٹے بچوں کی تربیت بھی اس رنگ میں تھی کہ کسی بھی جماعتی پروگرام یا خلیفہ وقت کی صدارت میںہونے والے کسی پروگرام کے ایم ٹی اے پرنشر ہونے کے وقت کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلتا۔کسی کی مجال نہ تھی کہ جماعت کے خلاف کوئی بات کرے اور کوئی شخص کسی فرد جماعت یا نظام کے بارے میںکوئی غلط بات کرتا تو کہتے کہ میا ں اگر تمہیں جماعت کے سا تھ کوئی مسئلہ ہے تو لکھ کر متعلقہ افراد کو دو۔ ورنہ میں لکھ کر دوں گا کہ یہ شخص جھوٹے اور بے بنیادالزامات پھیلا کر لوگوں اور جماعت کو بدنام کرتا ہے۔ کیونکہ اخلاقی جرأت کا تقاضا یہ ہے کہ متعلقہ افراد اور ادارے کو شکایت پہنچائی جائے۔
خود نمائی سے سخت نفرت
آپ کو خود نمائی سے سخت نفرت تھی اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کی دنیاوی خدمات کے اعتراف میں 1997ء میںThe International Who‘s who میگزین نےاداریہ میں انہیں نمایاں افراد کی فہرست کے لیے نامزد کیا۔ یہ بات آپ نے کسی کو نہیں بتائی اور نہ کسی کو معلوم تھی، آپ کی وفات کے بعدآپ کے بریف کیس سے ملنے والے ایک خط سے اس بات کا علم ہوا۔
پیارے آقا کی طرف سے تعزیتی وفد
آپ کے بیٹے تنویر احمد اور افضال توقیر نے بتایا کہ پیارے شفیق آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ہمارے والد ملک منیر احمد صاحب آف دوالمیال کی وفات پر تعزیتی وفد17؍مارچ2022ء کو ہمارے گھر دارالفتوح شرقی تشریف لایا۔ اس شفقت پر آپ کے بیٹے، بیٹی اور اہلیہ اور خاندان کے دوسرے افراد اور احبابِ جماعت دوالمیال پیارے حضور کے از حد مشکور ہیں کہ آپ نے ہمارے غم کو اپنا غم سمجھا اور اپنی شفقت سے نوازا۔ ہم سب کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھیں ۔
آپ کے دفتر وکالت مال اول سے آپ کے تمام ساتھ کام کرنے والے بھی تعزیت کے لیے آپ کے گھر آئے ان کی اس شفقت اور پیار کے ہم سب ممنون ہیںجو انہیں ملک منیر احمد سے تھا۔
نماز جنازہ اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین
آپ کی نمازِ جنازہ7؍ فروری 2022ء کو محلہ کی مسجد میںنمازِ ظہر کے بعد ادا کی گئی، تدفین پرانے بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی،بعد تدفین دعا ناظر صاحب رشتہ ناطہ نے کروائی۔ مرحوم نے اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک منیر احمد صاحب کو جنتِ فردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام سے نوازے اور ان کی اولاد کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین