یورپ میں بسنے والی احمدی خواتین کو کار آمد نصائح (قسط اول)
حضرت مریم صدیقہ صاحبہ(چھوٹی آپا) نے لجنہ اماءاللہ فرینکفرٹ جرمنی سے ۳؍جولائی ۱۹۸۳ء کو ایک خطاب فرمایا جس میں آپ نےقرآنی آیات کی روشنی میں قربانی کے معیار کے بارے میں روشنی ڈالی۔قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطاب پیش ہے(ادارہ)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُ ۔ۣالَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۔ (الملک:3،2) ترجمہ : بہت برکت والاہے وہ خدا جس کے قبضہ میں بادشاہت ہے اور وہ ہر ایک ارادہ کے پورا کرنے پر قادر ہے اس نے موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرنے والا ہے ۔ اور وہ غالب اور بہت بخشنے والا ہے ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نظام کائنات کی غرض کو بیان فرماتا ہے کہ اس کائنات میں موت اور زندگی کا سلسلہ اس لئے جاری فرمایا کہ معلوم ہو کہ کون اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مزہ اٹھاتے ہوئے صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرتا ہے اور کون اس راستہ پر نہیں چلتا جو اللہ کی طرف جاتا ہے ۔ اس کا شکر گزار بندہ نہیں بنتا ۔
اس مضمون کو سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَی الۡاَرۡضِ زِیۡنَۃً لَّہَا لِنَبۡلُوَہُمۡ اَیُّہُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا۔(الکہف:8)
ہم نے دنیا میں اعلیٰ چیزیں پیدا کر کے انسان کو اس میں مقرر کیا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ انسانوں میں سےکون زیادہ خوبصورت عمل کرتا ہے ۔ یعنی کون کس قدر خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ پر بڑے فضل کئے ہیں آپ کو احمدی جماعت میں پیدا کیا یا احمدیت کی نعمت کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔ ظاہری لحاظ سے بہت فضل کیا اور دنیاوی نعمتوں کی فراوانی عطا کی لیکن خدا تعالیٰ کا پیار وہی حاصل کر ے گا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی دی ہوئی قوتوں کو اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ کرے گا ۔ زیادہ سے زیادہ قربانی دے گا ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کا معیار کیا ہے جس پر ایک احمدی کو پورا اترنا چاہئے تومیری پیاری بہنو! اللہ تعالیٰ نے قربانی کا معیار خود قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ توبہ میں فرماتا ہے:قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَاَبۡنَآؤُکُمۡ وَاِخۡوَانُکُمۡ وَاَزۡوَاجُکُمۡ وَعَشِیۡرَتُکُمۡ وَاَمۡوَالُ ۣاقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَتِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَجِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَاللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ (التوبہ:24)
ترجمہ: کہہ دے اگر تمہارے ماں باپ اور اولاد اور بھائی بہنیں اور میاں بیوی یا تمہاری برادری اور وہ مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے خراب ہونے سے تم ڈرتے ہو اور رہائش کی جگہیں یا وطن جن کو تم پسند کرتے ہو خدا اور اس کے رسول اور دین کے لئے کوشش کرنے کی نسبت تم کو زیادہ پسند ہیں تو تم اس وقت تک انتظار کرو جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کر لے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں ۔
یہ آیت پیمانہ ہے یا کسوٹی ہے جاننے کے لئے کہ اس کی قربانیوں کا معیار کیا ہونا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود ماں باپ کی عزت کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی تاکید فرماتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت قرار دی ہے ۔ بھائی بہنوں سے محبت اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم ہے ۔ خاوند کو بیوی سے نیک سلوک کرنے کا اور بیوی کو خاوند کے حقوق ادا کرنے کا حکم ہے ۔ اولاد کی عزت کرنے ان کی اعلیٰ تربیت کرنے اور اُن کا ہر لحاظ سے خیال رکھنے کا حکم ہے ۔ روپیہ کمانے سے منع نہیں کیا ۔ مکان بنانے سے منع نہیں کیا ۔ ہماری جماعت کو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ وسع مکانک کا حکم ہے اس لئے مکانوں میں وسعت دو تاکہ مہمان ٹھہر یں ۔ ہر محبت اپنی جگہ ہے خدا سے خدا کی شان کے مطابق محبت کرو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رسول کی شان کے مطابق ، دین سے اس کی اہمیت کے مطابق ، والدین سے ان کے درجہ کے مطابق ،اولاد سے اس کے تعلق کے مطابق غرضیکہ ہر ایک کے درجہ کو مد نظر رکھا جائے اور کہیں بھی ان مذکورہ بالا کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اس کی راہ میں کوشش اور قربانی کرنے سے نہ ٹکرائے ۔ اگر کہیں ان کی محبتیں خدا تعالیٰ کی محبت سے ٹکراتی ہیں اور اس کی راہ میں قربانی دینے میں حائل ہوتی ہیں تو پھر ان محبتوں کو قربان کرنا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو ترجیح دینی ہوگی ۔ (باقی آئندہ)