’’یا اللہ تیرا کلام ہے۔ مجھے تو تُو ہی سمجھائے گا تو مَیں سمجھ سکتا ہوں‘‘
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ فرماتے ہیں:’’حضرت مسیح موعودؑ کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ جب وہ اپنے کمرے یا حجرے میں بیٹھتے تو دروازہ بند کر لیا کرتے تھے۔ یہی طرز عمل آپؑ کا سیالکوٹ میں تھا لوگوں سے ملتے نہیں تھے۔ جب کچہری سے فارغ ہو کر آتے تو دروازہ بند کر کے اپنے شغل اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ عام طور پر انسان کی عادت متجسس واقع ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کو یہ ٹوہ لگی کہ یہ دروازہ بند کر کے کیا کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن ان ٹوہ لگانے والوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی اس مخفی کارروائی کا سراغ مل گیا۔ اور وہ یہ تھا کہ آپ مصلّٰی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لئے دعا کر رہے ہیں کہ ’’یا اللہ تیرا کلام ہے۔ مجھے تو تُو ہی سمجھائے گا تو مَیں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ قرآن فہمی کے لئے دعاؤں اور توجہ الیٰ اللہ کو ہی اپنا راہ نما بناتے تھے۔‘‘
(حیات احمد جلد اول حصہ دوم صفحہ 175)
(مشکل الفاظ کے معنی: حجرہ: کمرہ۔ طرزِعمل: طریقہ کار۔ کچہری:عدالت۔شغل:کام۔ متجسّس: کسی بات کی ٹوہ میں رہنے والا۔ ٹوہ لگنا: کسی بات کے بارے میں تجسس کرنا۔ مخفی کارروائی: خفیہ کام۔ سراغ ملنا: پتا لگنا۔ قرآن فہمی: قرآن کے حقائق و معارف کی سمجھ بوجھ۔ توجہ الیٰ اللہ: اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئےاس سے مدد طلب کرنا)