جامعہ احمدیہ یُوکے،کینیڈا اور جرمنی سے فارغ التحصیل ہونے والی شاہد کلاس کے طلباء کی مشترکہ تقریب تقسیم اسناد کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا زرّیں نصائح پر مشتمل نہایت اہم خطاب۔فرمودہ25مارچ 2018ء بروز ہفتہ بمقام Haslemere ،جامعہ احمدیہ یُوکے
آپ لوگوں نے زندگیاں وقف کیں۔ کس لئے وقف کیں؟ اس لئے کہ مسیح موعود کے مشن کی تکمیل کرنی ہے۔ اس لئے کہ اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کا کام جو حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا گیا اس کو آپ نے آگے بڑھانا ہے۔ اور اس لئے کہ آپ کا یہ مشن جو ہے، آپ کا یہ کام جو ہے اس کو آگے بڑھاتے ہوئے
آپ نے توحید کا قیام دنیا میں کرنا ہے۔ آپ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانا ہے۔
آپ لوگوں نے آج دہریت کا خاتمہ بھی کرنا ہے۔ توحید کا قیام کرنا ہے اور توحید کے قیام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانا ہے۔
دنیا کو اس جھنڈے کے نیچے لے کر آنا ہے۔ دنیا کو آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچانا ہے۔ دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا ہے۔
جائزہ لیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کے عشق میں مخمور ہونے کی ہم کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر ان باتوں کا حصول نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ سے ایک ذاتی تعلق پیدا کریں تبھی آپ لوگ حقیقت میں توحید کا قیام بھی کر سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو پورا کر نے میں مددگار بن سکتے ہیں۔
ایک مربی کا معیار تو یہ ہے کہ کم از کم نصف پارہ روز تلاوت ہونی چاہئے اور تلاوت کے ساتھ پھر تفسیر قرآن کو پڑھنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ قرآن کریم پر تدبّر اور غور اور فکر کرنے کی عادت ہونی چاہئے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں ان کا مطالعہ باقاعدگی سے رکھنا بھی ضروری ہے۔
تفسیر کبیر کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔پھر خلفاء کا جو لٹریچر ہے اس کو بھی آپ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ خطبات کو باقاعدہ سنیں۔
روحانیت کے لئے ذکر الٰہی بھی ضروری ہے۔ دعاؤں کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔
اسی طرح اور بہت ساری تربیتی باتیں ہیں۔ اخلاق ہیں۔ بات چیت کرنے کا طریقہ ہے۔ اور لڑائی جھگڑوں سے بچنے کا طریق ہے۔ اطاعت کے معیار ہیں۔ اطاعت کے معیار بھی آپ لوگوں کے بہت بلند ہونے چاہئیں۔ آپ کی گھریلو زندگی میں آپ کا جو نمونہ ہے وہ بھی بلند ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ ان باتوں پر آپ عمل کرنے والے ہوں۔
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
الحمد للہ اس سال جامعات احمدیہ کینیڈا، جرمنی اور یُوکے کے فارغ التحصیل طلباء تعلیمی میدان میں اپنی کامیابی حاصل کرنے کے بعد آج یہاں بیٹھے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں باقی باتیں کروں جامعہ احمدیہ یُوکے کی جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ اتنی تفصیلی نہیں تھی۔ شاید پرنسپل صاحب نے میرا وقت بچانے کے لئے یا اس خیال سے کہ یہاں کے رہنے والوں کو تو activities کا پتا ہی ہے تفصیلی رپورٹ نہیں دی۔ لیکن جن activities ،جن پروگرامز کا جامعہ احمدیہ کینیڈا اور جرمنی نے اپنی رپورٹس میںذکر کیا ہے وہ سب یہاں بھی اسی طرح ہوتے ہیں بلکہ شاید کچھ زائد ہی ہوتے ہوں۔ اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ جامعہ احمدیہ یُوکے نے صرف تعلیمی رپورٹ پیش کی ہے اور باقی ان کی activities نہیں ہیں۔
جامعہ سے فارغ ہونے والے طلباء جو ہیں وہ اپنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد،اس فراغت کے بعد آج اپنی عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں۔ آپ لوگوں نے یہ عہد کیا کہ ہم اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرتے ہیں اور دین کا علم حاصل کرنے کے لئے جامعہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں آپ نے سات سال گزارے۔ مختلف تعلیمی تدریسی اور دوسری activities میں حصہ لیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ مَیں نے کہا آج کامیاب ہو کے آپ میدان عمل میں آ گئے۔ آپ لوگوں نے زندگیاں وقف کیں۔ کس لئے وقف کیں؟ اس لئے کہ مسیح موعود کے مشن کی تکمیل کرنی ہے۔ اس لئے کہ اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کا کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا گیا اس کو آپ نے آگے بڑھانا ہے۔ اور اس لئے کہ آپ کا یہ مشن جو ہے، آپ کا یہ کام جو ہے اس کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ نے توحید کا قیام دنیا میں کرنا ہے۔ آپ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تقریر’’ سیر روحانی‘‘ میں یہ فرمایا تھا کہ آج مسیح نے محمد رسول اللہ کا جھنڈا چھینا ہوا ہے، تم نے مسیح سے لے کر محمدؐ رسول اللہ کے سپرد کرنا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے سپرد کرنا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے۔ (ماخوذ از سیر روحانی، انوار العلوم جلد 24 صفحہ 339) لیکن آج مسیحیت تو اپنی کمزوری کی طرف بڑھ رہی ہے گو کہ ایک مقابلہ ان کے ساتھ بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جو ابھرنے والا خطرہ ہے اور ابھرتا چلا جا رہا ہے وہ ہے دہریت۔ دوسرے مذاہب نے خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق نہ پا کر، براہ راست خدا تعالیٰ کے تعلق کو نہ دیکھ کر دین سے دوری اختیار کرنی شروع کر دی ہے۔ اکثریت ان میں سے لا مذہب ہو گئی ہے بلکہ دہریہ ہو گئی ہے۔ آپ لوگوں نے آج دہریت کا خاتمہ بھی کرنا ہے۔ توحید کا قیام کرنا ہے اور توحید کے قیام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانا ہے۔ دنیا کو اس جھنڈے کے نیچے لے کر آنا ہے۔ دنیا کو آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچانا ہے۔ دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا ہے۔ پس اس مقصد کے حصول کے لئے آپ لوگوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے آپ لوگوں کو اب اپنی تمام تر صلاحیتوں اور طاقتوں کے ساتھ میدان عمل میں آنا چاہئے۔
پس یاد رکھیں کہ یہ کام آرام سے اپنے انجام کو پہنچنے والا نہیں ہے۔ اس کے لئے آپ کو کوشش کرنی پڑے گی۔ اس کے لئے بے انتہا محنت کرنی پڑے گی۔ اس کے لئے اپنی حالتوں میں ایک انقلابی تبدیلی لانی ہو گی۔
یہ نظم جو پڑھی گئی ہے(1)اس میں بھی بہت سی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے ان باتوں کو بھی آپ نے سامنے رکھنا ہے۔
آج شاہد کی ڈگری لے کر آپ فارغ نہیں ہو گئے بلکہ آج آپ کو ان باتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہم توحید کا قیام کر سکتے ہیں۔ کس طرح ہم اس کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔ کس طرح ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرا سکتے ہیں۔ کس طرح ہم خدا کی بادشاہت دنیا میں دوبارہ قائم کر سکتے ہیں۔ کس طرح ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کر سکتے ہیں۔ کس طرح ہم دنیا کو خدا کے قریب لا سکتے ہیں۔پس اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں۔
آج یہ بھی جائزہ لیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کے عشق میں مخمور ہونے کی ہم کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر ان باتوں کا حصول نہیں ہو سکتا۔ کیا اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی ہم کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر ہم وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتے جس کے لئے ہم نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں۔ کیا ہم اپنے نوافل کے حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا تہجد ادا کرنے کے لئے بے چین ہو کر جاگنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ صرف فرض ادا کرنے کے لئے نہیں،نمازیں صرف اس لئے نہیں پڑھنی کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ایک فرض عبادت قرار دیاہےبلکہ اللہ تعالیٰ کے عشق کی وجہ سے اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عشق کی وجہ سے اس کے حکم کے مطابق باجماعت نمازوں کی طرف توجہ دینی ہے۔ آپ میں سے بعض لوگوں کی مختلف جگہوں پر ڈیوٹیاں لگیں گی۔ سارے مربیان، مبلغین فیلڈ میں نہیں جائیں گے۔ مربی کے طور پر کسی مشن میں آپ کی تعیناتی نہیں ہو گی۔ لیکن پھر بھی آپ لوگوں کو خیال کرنا چاہئے کہ جہاں بھی آپ ہیں، جتنا کام چاہے آپ کے سپرد کیا جائے، جتنا چاہے آپ رات کو جاگ رہے ہوں یا دن میں کام کیا ہو اور تھک گئے ہوں پھر بھی آپ نے اپنے نوافل کی ادائیگی کو نہیں بھولنا۔ اپنی نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنا نہیں بھولنا۔ میں نے دیکھا ہے، مختلف جائزے میں نے لئے ہیں بعض مربیان کی باجماعت نماز کی طرف اتنی توجہ نہیں ہے جتنی ہونی چاہئے۔ پس اگر ایک مربی کی توجہ نہیں، اس شخص کی توجہ نہیں جس نے سات سال تک دین کا علم حاصل کیا۔ صرف یہ پڑھا کہ قرآن کیا کہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں۔ حدیث میں کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا لکھا۔ فقہ میں کیا کیا مسائل ہیں۔ تصوف کیا ہے۔ ان چیزوں کو صرف علم کی حد تک پڑھنا تو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ پہلے بھی مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ یہ علم تو بعض غیر احمدی علماء میں شاید آپ لوگوں سے بہت زیادہ ہو۔ اصل حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک ذاتی تعلق پیدا کریں تبھی آپ لوگ حقیقت میں توحید کا قیام بھی کر سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو پورا کر نے میں مددگار بن سکتے ہیں۔
اگر آپ لوگ یہ بنیادی فرض پورے نہیں کر رہے تو پھر سوچیں کہ کس طرح آپ لوگ مربی یا مبلغ کہلا سکتے ہیں؟ کس طرح آپ لوگ توحید کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ سے عشق کا دعویٰ کس طرح آپ کر سکتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا کس طرح آپ دنیا میں لہرا سکتے ہیں؟ دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کس طرح کر سکتے ہیں؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو بڑا واضح فرمایا ہے کہ ہمارے کام تو دعاؤں سے ہونے ہیں(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 51۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان ) اور دعاؤں کے لئے بہرحال اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ میدان عمل میں آ کے پہلے سے بڑھ کر آپ لوگوں کو دعاؤں کی ضرورت ہے اور دعاؤں کے لئے اللہ تعالیٰ سے ایک ذاتی تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایک جہاد کرنا ہو گا۔ ایک کوشش کرنی ہو گی۔ تبھی آپ لوگ اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔
اسی طرح تلاوت قرآن کریم ہے۔بعض لوگ روزانہ ایک دو رکوع تلاوت کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے تلاوت کی۔ میں نےکئی نوجوان مربیان سے پوچھاتو بعض کہتے ہیں کہ جی ایک دو رکوع ہم نے تلاوت کی ہے۔ یہ تو معیار ایک مربی کا نہیں ہے۔ مربی کا معیار بہت بلند ہونا چاہئے۔میں نے دیکھا ہے اتنا تو ہمارے بعض عام بچے بھی کر لیتے ہیں۔ پس ایک مربی کا معیار تو یہ ہے کہ کم از کم نصف پارہ روز تلاوت ہونی چاہئے اور تلاوت کے ساتھ پھر تفسیر قرآن کو پڑھنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ قرآن کریم پر تدبّر اور غور اور فکر کرنے کی عادت ہونی چاہئے۔ بلکہ ایک مربی کا یہ مستقل خاصّہ ہونا چاہئے کہ قرآن کریم پر تدبر کرے۔ غور کرے۔ اس کے احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرنے کے لئے بھی اور دنیا کو سمجھانے کے لئے بھی تلاش کرے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں ان کا مطالعہ باقاعدگی سے رکھنا بھی ضروری ہے۔ جامعہ احمدیہ میں جو کچھ بھی آپ نے پڑھا وہ تو پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے تھا۔ جیسا کہ مَیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں۔ اب اس کو بڑھانا آپ کا کام ہے۔ اور اس کو بڑھایا تبھی جا سکتا ہے جب زمانے کے امام کی تحریرات کو مستقل پڑھیں۔ کتب کو پڑھیں۔ ارشادات کو پڑھیں اور پھر ان پر غور کریں اور پھر جائزہ لیںکہ کیا کیا کمیاں ہم میں ہیں۔ اور اسی طرح یہ بھی کہ کس طرح ہم اس پیغام کو آگے پہنچا سکتے ہیں۔ کتب کے نوٹس بھی بنانے چاہئیں۔ گزشتہ سال غالباً convocation میں مَیں نے حضرت مصلح موعود کے حوالہ سے بیان کیا تھا کہ خواجہ کمال الدین صاحب کہا کرتے تھےکہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے انسان بارہ تقریریں تیار کر لے تو جہاں تک علمیت کا سوال ہے دنیا میں کوئی عالم، بڑے سے بڑا عالم بھی اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا۔ اور خواجہ کمال الدین صاحب کہا کرتے تھے کہ میں نے سات تقریریں تیار کی ہیں اور ہندوستان میں بھی اور انگلستان میں بھی، یورپ میں بھی میں جب کسی سے مقابلہ کرتا ہوں تو کوئی میرے سامنے نہیں ٹھہرتا۔(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 26 صفحہ 459خطبہ بیان فرمودہ 2 نومبر 1945ء) تو یہ تو علمی حیثیت ہے۔ اس ایک شخص کی بات ہے جو بظاہر روحانی طور پر اتنے اعلیٰ معیار کے نہیں تھے۔ لیکن ان کا علمی معیار تھا۔ تو علمی معیار بلند کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ اور پھر ان کے نوٹس تیار کرنا یہ ضروری ہے۔ لیکن بنیادی بات وہی ہے جو پہلے کہہ چکا ہوں کہ ساتھ ہی آپ کو اپنی روحانیت بھی بڑھانے کی ضرورت ہو گی۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف کتب میں سے آپ نے آیات کی جو تفاسیر فرمائی ہیں وہ ایک جگہ اکٹھی کر لی گئی ہیں۔ اس تفسیر کو پڑھنا، اس کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے۔
پھر اسی طرح مَیں ہمیشہ مربیان کو کہتا ہوں کہ تفسیر کبیر کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ بہت سارے تاریخی پہلو اور روحانی پہلو اس سے آپ کے سامنے آ جائیں گے۔
پھر خلفاء کا جو لٹریچر ہے اس کو بھی آپ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ بہت سارے اعتراض آپ کو اس حوالے سے بھی کئے جاتے ہیں کہ فلاں خلیفہ نے تو یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔ بعض باتیں مختلف وقتوں کے لئے ہوتی ہیں اور مختلف ارشادات ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے مطالعہ صحیح کیا ہو گا تو ان کے جواب بھی دے سکتے ہیں۔ جو لوگ خلفاء پہ اعتراض کرتے ہیں ان کے جواب بھی آپ دے سکتے ہیں۔ یا یہ کہنا کہ فلاں نے یہ کہا اور اس وقت یہ کیوں کہا جا رہا ہے تو اس کا جواب تبھی آپ تیار کر سکتے ہیں جب آپ خلفاء کا مہیا کردہ لٹریچر بھی باقاعدہ پڑھیں۔
اسی طرح خطبات کو باقاعدہ سنیں۔کینیڈا کی رپورٹ میںیہ ذکر کیا گیا کہ خطبات سب سنتے ہیں۔ نوٹس (Notes) لیتے ہیں۔بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن نوٹس لے کے پھر ڈائریوں میں نہیں پڑے رہنے چاہئیں۔ نوٹس لے کے پھر ان پر غور کریں۔ دیکھیں کہ کیا چیز ہے جو اس وقت ضروری ہے۔ کون کون سی باتیں ایسی ہیں جو ہمیں حالات حاضرہ کے مطابق بیان کرنی ہیں۔کون سےContemporary Issues ہیں جن کو ہم اس میں سے بیان کر سکتے ہیں۔ پس یہ بعض باتیں ہیں جو علمی حد تک میں نے بتائیں۔ روحانی باتیں پہلے بتا دیں۔
اسی طرح روحانیت کے لئے ذکر الٰہی بھی ضروری ہے۔ دعاؤں کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ قرآنی دعائیں ہیں۔ مسنون دعائیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض دعائیں ہیں۔ درود ہے۔ استغفار ہے۔ اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایک مربی کو ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے۔
یہ باتیں ہیں جو آپ کو اپنے فرائض کی طرف متوجہ رکھیں گی۔ آپ کو ہمیشہ یہ یاددہانی کرواتی رہیںگی کہ آپ کے کیا فرائض ہیں اور جب فرائض کی طرف آپ کی یاددہانی رہے گی۔ جب آپ اپنی حالتوں کی طرف توجہ رکھیں گے تب پھر تبلیغ اور تربیت کا بھی اثر ہو گا۔ جب دنیا کو آپ کے اندر ایک غیر معمولی تبدیلی نظر آئے گی تو تبھی دنیا اثر بھی قبول کرے گی چاہے وہ تربیت کے لحاظ سے ہو، چاہے وہ تبلیغ کے لحاظ سے ہو۔ کیونکہ دنیا کو نظر آ رہا ہوگا کہ آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے جو آپ کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بھی یہ بات ناپسند ہے کہ جو بات تم کہو وہ نہ کرو۔ جس طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(الصف4:) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔ اس لئے ہمیشہ وہ بات کہنی چاہئے جو انسان خود بھی کرتا ہے۔
پس اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کے لئے بھی اور اپنی روحانیت کے لئے بھی، اپنے خدا کو راضی کرنے کے لئے بھی ہمیشہ یہ دیکھیں کہ مَیں جوکہہ رہا ہوں کیا وہ کر بھی رہا ہوں کہ نہیں۔ اگر لوگوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلا رہا ہوںتو خود بھی نمازوں کی طرف توجہ ہے؟ اگر نوافل کی طرف توجہ دلا رہا ہوں تو خود بھی نوافل کی طرف توجہ ہے؟ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ دلا رہا ہوں یا قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ دلا رہا ہوں تو خود بھی میرے معیار ایسے ہیں جس کو میں کہہ سکوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کو حاصل کر رہا ہوں؟ اگر نہیں تو پھر یہ غلط چیز ہے۔
اسی طرح اور بہت ساری تربیتی باتیں ہیں۔ اخلاق ہیں۔ بات چیت کرنے کا طریقہ ہے۔ اور لڑائی جھگڑوں سے بچنے کا طریق ہے۔ اطاعت کے معیار ہیں۔ اطاعت کے معیار بھی آپ لوگوں کے بہت بلند ہونے چاہئیں۔ آپ کی گھریلو زندگی میں آپ کا جو نمونہ ہے وہ بھی بلند ہونا چاہئے۔ باہر جا کر آپ تقریر کر رہے ہوں کہ عائلی مسائل کو ہم نے کس طرح حل کرنا ہے۔ کس طرح ہم نے اپنے گھروں میں اچھے نمونے قائم کرنے ہیں۔ کس طرح میاں بیوی کے صحیح تعلقات ہونے چاہئیں۔ کس طرح ہم نے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔ لیکن اگر اپنے گھر میں وہ نمونے نہیں تو اس کا اثر نہیں ہو سکتا۔ پس ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ایک مربی بننے کے بعد آپ پہ پڑ رہی ہے۔ اگر آپ نے یہ نمونے نہ دکھائے تو پھر مربی بننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دنیا کو آج ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا درد رکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچانے والے ہوں۔ اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد جہاں اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ ہے، تعلیم کی اشاعت کرنی ہے۔ وہاں دردِ دل سے دعاؤں کی بھی ضرورت ہے۔
پس دوبارہ خلاصۃً مَیں یہ باتیں دہرا دوں۔ حقیقی مومن کی اور اس سے بڑھ کر ایک واقف زندگی کی اور اس سے بڑھ کراس ایک شخص کی جس نے جماعت کی تربیت اور تبلیغ کا بیڑا اٹھایا ہے جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ اس کے لئے ضروری ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کے عشق میں مخمور ہونا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں بڑھنا ایک بہت بڑا فرض ہے جو آپ کو ادا کرنا ہے۔ دنیا کی آلائشوں سے ہمیشہ پاک رہنا یہ انتہائی ضروری ہے۔ دنیا میں آجکل مختلف قسم کے attractions ہیں۔ مختلف قسم کی ایسی باتیں ہیں جو اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو انسان ان میں اگر ڈوب نہیں سکتا تو کم از کم کسی نہ کسی موقع پر ان میں involve ہو سکتا ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو بچا کے رکھنا، ہر طرح سے دنیا کی آلائشوں سے بچا کے رکھنا اور اس کے لئے جس طرح کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ استغفار کرنا بہت ضروری ہے۔ استغفار کی بہت زیادہ عادت ڈالیں۔ نہ صرف بچنا بلکہ حتی الوسع ان باتوں کو یاد رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ کیا ذمہ داریاں ڈالی ہیں ان برائیوں سے جو دنیاوی برائیاں ہیں ہمیشہ پاک بھی رہنا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کرتے رہنا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ پاک رکھے۔ دوسروں کے عیب چھپانا۔ حکمت سے اصلاح کی کوشش کرنا۔ ضروری نہیں ہوتا کہ اصلاح کے لئے انسان جب تک براہ راست بات نہ کرے اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے کہ جو وعظ ہے وہ حکمت سے، طریقے سے کریں۔ حکمت سے بات کرنا، یہ جہاں آپ کی تربیت میں کام آئے گا وہاں تبلیغ میں بھی کام آئے گا۔
پھر دوسروں کی خیر خواہی، ان کا درد رکھنا، حسن ظنی رکھنا۔ بہت ساری بیماریاں اور برائیاں بدظنی سے پیدا ہوتی ہیں۔ آپس کے خراب تعلقات بدظنی سے پیدا ہوتے ہیں۔ جماعتوں میں جب آپ جاتے ہیں وہاں بعض لوگوں کے مربی کے متعلق خیالات بدظنی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اس بدظنی پر آپ لوگوں کو وہی طریق اختیار نہیں کرنا بلکہ آپ نے حسن ظنی سے کام لینا ہے۔ آپ نے حکمت سے ان کی تربیت کرنی ہے اور ان کو سمجھانا ہے کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے وہ بدظنی ہے۔ اور بدظنی اچھی چیز نہیں۔ اور وہ تبھی ہو سکتا ہے جب آپ کے اپنے دل حسن ظنی سے بھرے ہوں۔
قرآن کریم پر فکر و تدبر کرنا اوردعاؤں کی طرف توجہ دینا۔ تبلیغ کے لئے ایک جوش پیدا کرنا۔ جب تک جوش نہیں ہو گا تبلیغ کی طرف توجہ نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر تکلیف اور مشکل کو برداشت کرنا۔ انسانوں پر انحصار نہ کرنا بلکہ ہر چیز مانگنا تو خدا تعالیٰ سے مانگنا اور جب اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ پھر دیتا بھی ہے۔ بعض نئے مربیان کو بھی تجربے ہوتے ہیں۔ بعضوں نے مجھے لکھا کہ افریقہ میں جو ایک دو مہینہ کے لئے ٹریننگ کے لئے بھیجا جاتا ہے تو بعضوں کو بہت ریموٹ ایریا میں، گاؤں میں، دور دراز علاقوں میں بھیج دیا اور وہاں ان کے دل میں کسی چیز کی خواہش پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ سے وہ خواہش پوری کی کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس جگہ پر وہ سامان پیدا کر دیا ہے۔ یہ تجربات ہمیشہ ان لوگوں کو ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر انحصار کریں اوراسی کے آگے جھکیں۔اس کے بندوں سے مانگنا ان کا طریق نہ ہو بلکہ ہر چیز خدا سے مانگنے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ آپ ان باتوں پر عمل کرنے والے ہوں۔ جامعہ کے قیام کا جو مقصد تھا اس میں سات سال گزارنے کے بعد اس مقصد کے حصول کا نہ صرف آپ میں اِدراک پیدا ہوا ہو بلکہ ایک جوش اور تڑپ سے اس مقصد کو پورا کرنے والے بھی ہوں۔آپ جہاں جماعت کے اندر تربیتی کام سرانجام دینے والے ہوں وہاں غیروں کو ایک تڑپ اور جوش کے ساتھ تبلیغ کرنے والے بھی ہوں اور اس کے بہتر نتائج کے حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے بھی ہوں۔ دنیاوی خواہشات سے ہمیشہ دور رہنے والے ہوں اور آپ میں سے ہر ایک دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ایک عملی تصویر ہو۔ تبھی یہ غیر معمولی کام جو ہے جو آپ کے سپرد کیا گیا ہے اسے آپ سرانجام دے سکتے ہیں۔ اللہ کرے کہ آپ اس حقیقت کو سمجھنے والے ہوں اور اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزارنے والے ہوں۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)
(1)اس تقریب میں تلاوت قرآن کریم کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی نظم ’’وہ بھی ہیں کچھ جو کہ تیرے عشق سے مخمور ہیں‘‘ کے منتخب اشعار پڑھے گئے۔
٭…٭…٭