اسلام دشمن مغربی طاقتوں کے مفادات کے محافظ کون؟
(اصغر علی بھٹی۔ نائیجر)
کہتے ہیں کہ کوئی چور گاؤں کے کسی گھر میں دیوار پھلانگ کر چوری کے لئے داخل ہوا۔ اس کی آہٹ سے گھر والوں کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے چور کو دیکھ کر چور چور کا شور مچایا۔ چور وہاں سے بھاگا۔ اس گھروالوں کا شور سن کر ہمسائے اور گاؤں کے دیگر افراد بھی گھروں سے باہر نکل کر چور کے پیچھے بھاگے۔ چور نے جب دیکھا کہ لوگ آہستہ آہستہ اس کے قریب آرہے ہیں اور اسے خیال گزرا کہ اگر لوگوں نے اسے پکڑ لیا تو بہت ماریں گے۔ تو اس نے بھی ’چور چور‘ کا شور مچانا شروع کر دیا۔ جب گاؤں کے لوگ اس کے قریب پہنچے تو اس کے شور سے اندازہ لگایا کہ یہ چور نہیں بلکہ یہ بھی ہماری طرح چور کا پیچھا کرنے والوں میں سے ہے۔یوں اس نے بڑی عیّاری سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف سے ہٹا کر دوسری طرف پھیردی۔ کچھ ایسا ہی حال جماعت احمدیہ کے مخالفین، مکفّرین و مکذّبین کا ہے۔ ان کی طرف سے جماعت احمدیہ پر جو سراسر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں سے ایک بڑا الزام یہ ہے کہ نعوذ باللہ، احمدیت انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے یا امریکہ کی ایجنٹ ہے یا اسرائیل کی ایجنٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان الزامات میںذرہ بھر صداقت نہیں ہے۔ بار ہا جماعت احمدیہ کی طرف سے ان الزامات کے واقعاتی شہادتوں کے ساتھ جوابات دیئے گئے۔ 1988ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے ایسے تمام الزامات کو درج کر کے مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے جھوٹوں پر لعنت ڈالی۔ اس کے بعد خصوصیت سے عالمی سطح پر ایسے حالات ظاہر ہوئے کہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت نمایاں ہو کر سامنے آئی کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں جو جماعت احمدیہ کے خلاف سراسر جھوٹے اور شر انگیز پراپیگنڈہ کو پھیلانے اور جماعت کے خلاف مفسدوں کی اعانت میں پیش پیش تھیں ،یہ خودمغربی اور صیہونی ایجنڈے پر کام کرنے والی حکومتیں ہیں۔ اور اب حال ہی میں خود سعودی عرب کے ولی عہد شہزادے محمد بن سلیمان نے اپنے ایک بیان میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مغرب کی درخواست پر سعودی عرب نے دنیا بھر میں اسلام اور جہاد کے حوالہ سے سخت گیرنظریات پھیلانے کے لئے فنڈز فراہم کئے تھے۔
مکرم اصغر علی بھٹی صاحب نے اس پہلو سے اخبارات میں چھپنے والے بیانات اور کالم نگاروں کی نگارشات کے حوالہ سے ایک مضمون لکھا ہے جو ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے جس سے یہ حقیقت خوب عیاں ہو جاتی ہے کہ کون کس کا ایجنٹ ہے اور کس کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔(مدیر)
ماضی قریب میں 1995ءکے شدید گرم موسم میں مولانا ضیاء القاسمی صاحب کا ایک مضمون’ روزنامہ خبریں ‘ میں سامنے آیا ۔ جس میں آپ دنیا کےسامنے یہ بلند بانگ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو کہ امریکہ اور یورپ کی سازشوں کے باوجود ہم علمائے کرام الیکشن میں جیت گئے ہیں۔ اس پرمشہور کالم نگار جناب ڈاکٹر انوار الحق صاحب نے جوابی طور پر ایک کالم لکھتے ہوئے اپنی حیرت اور جذبات کو یوں تحریر کیا ۔
’’مورخہ14جون1995ء کے خبریں میں مولانا محمد ضیاء القاسمی کا مضمون بعنوان’’مولوی جیت گئے‘‘ پڑھا۔ یہ مضمون پڑھ کر ہم حیرت کے دریا میں غوطے لگانے لگ گئے کہ کیا واقعی مولوی پاکستان میں جیت گئے ہیں؟مولانافضل الرحمن کو روز کون بیرونی ممالک کے دَوروں پر بھیج رہا ہے۔کون فضل الرحمن کو ’’شیرٹن‘‘ جیسے مہنگے ترین ہوٹلوں کے مہنگے ترین کمروں’’سوئیٹ‘‘میں ٹھہرارہا ہے۔جب’’مولانا‘‘بغیر بل ادا کئے ان ہوٹلوں سے چلے جاتے ہیں تو ان کا ہزاروں ڈالرز کا بل کون ادا کرتا ہے؟ مولانا ضیا القاسمی نے اپنے مضمون میں یکجہتی کو نسل کا بھی ذکر کیاہے۔لوگ حیران ہیں اور ہم برادر خلیل ملک کی اس بات سے متفق ہیں کہ کل تک یہ حضرات مساجد پر بم گرا رہے تھے اور نمازیوں پر فائرنگ کررہے تھے نیز امام باڑوں کے باہر دن کے بارہ بجے نذرونیاز تقسیم کرنے کے بہانے غرباء کو جمع کرتے تھے اور انہیں بم سے اڑا دیتے تھے۔اب اچانک کیسے شیرو شکر ہوگئے۔جناب خلیل ملک صاحب نے صحیح تجزیہ کیا کہ بم پھینکنے کا ایجنڈا بھی اوپر سے آیا تھااور اب شیرو شکر ہونے کا ایجنڈا بھی اوپر ہی سے آیا ہے۔‘‘
(روزنامہ خبریں 17جون1995ء زیر عنوان’’بم رشوت او ر شیرٹن ہوٹل تحریر ڈاکٹر انوار الحق بجواب کیا واقعی مولوی جیت گئے۔ تحریر مولانا ضیاء القاسمی)
کچھ عرصہ قبل جب میں نے سعودی ولی عہدجناب شہزادہ محمدبن سلیمان کے واشنگٹن پوسٹ کو دئیے گئے انٹرویو کے مندرجات کو دیکھا تو بے اختیار مجھے جناب خلیل ملک صاحب کا مندرجہ بالا تبصرہ یا د آگیا۔یعنی بات بم پھاڑنے یا گلہ پھاڑنے تک ہی محدود نہیں ہم تو تبلیغ اسلام بھی اور تعمیر مساجد بھی امریکہ اور یورپی ممالک کے حکم پر کر رہے ہیں ۔
محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے اپنے کالم ’’ 1979 کی تدفین ‘‘ میںا س انٹرویو کے بعض حصوں کو یوں جگہ دی ہے
’’ سعودی شہزادے محمد بن سلیمان نے امریکہ کے اپنے حالیہ دورے میں واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرد جنگ کے دور میں مغرب کی درخواست پر سعودی عرب نے دنیا بھر میں سخت گیر نظریات پھیلانے کے لئے فنڈز فراہم کئےتاکہ سویت یونین کا مقابلہ کیا جاسکے۔ مغربی اتحادیوں نے سرد جنگ کے دور میں درخواست کی تھی کہ مختلف ملکوں میں مساجد اور مدارس کی تعمیر میں سرمایہ لگایا جائے تاکہ سویت یونین کی جانب سے مسلم ممالک میں رسائی روکی جا سکے۔ ماضی میں سعودی حکومتیں اس منزل کے حصول میں راستہ سے بھٹک گئی تھیں۔ہمیں صحیح راستہ پر آنا ہے۔ قدامت پسندمذہبی راہنمائوں کو میں نے بڑی مشکل سے اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ ایسی سختیاں اسلامی ڈاکٹرائن کا حصہ نہیں ‘‘۔
اور پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلیمان نے انکشاف کرنے میں تامّل نہیں کیا کہ دنیا بھر میں عالی شان مسجدوں کا پھیلائو مغرب کی خواہش پر تھا ۔ اور سوویت یونین کا راستہ روکنے کے لئے تھا۔
( روزنامہ دنیا 31/مارچ/2018ء مستقل کالم زاویہ نظر زیر عنوان1979ء کی تدفین)
محترم خورشید ندیم صاحب نے بھی اسی انٹرویو کو اپنے 2 اپریل کے کالم کا موضوع بنایا ہے اور لکھا ہے کہ ’’ سرد جنگ کے دنوں میں مغرب کے کہنے پر سعودی عرب نے تبلیغ اسلام کی مہم کو مہمیز دی تاکہ مسلم دنیا میں سویت یونین کے اثرات کو پھیلنے سے روکا جاسکے ۔ اس کے لئے مساجد اور مدارس تعمیر کئے گئے ۔ ایک سخت گیر تعبیر دین کو فروغ دیا گیا جس کے لئے وہابی ازم کی اصطلاح مستعمل ہے۔سرد جنگ کے اس دور میں اسلامی تحریکیں سعودی عرب کے بہت قریب رہیں ۔ یہی وہ دور ہے جب پاکستان کی جماعت اسلامی اور سعودی عرب میں قریبی تعلق قائم ہوا ۔ اسی دور میں مولانا مودودی کے علمی کام کا عربی میں ترجمہ ہوا اور جماعت اسلامی عرب دنیا میں متعارف ہوئی۔ سعود ی عرب نے جماعت کے بہت سے منصوبوں میں معاونت کی ۔ مولا نا مودودی اور پروفیسر خورشید احمد صاحب کو فیصل ایوارڈ دیا گیا۔یہ مصر میں اخوان المسلمین پر سعودی التفات کا دور بھی تھا۔ 1979ء کے بعد امریکہ سعودی عرب اور اسلامی تحریکیں جس طر ح یک جان تھیں اس کو ہم نے بچشم سر دیکھا۔ مگر آج منظر بدل چکا ہے۔آج امریکہ بلا شرکت غیرے دنیا کا حکمران ہے ۔ آج سعودی عرب اخوان کو دہشتگرد تنظیموں میںشمار کرتا ہے ۔ سید قطب اور مولانا مودودی کی کتب پر پابندی لگ چکی ہے۔ امریکہ ایک بار پھر سے اپنی مرضی سے مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو کرنا چاہتا ہے اور اسے سعودی عرب کی اُسی طرح حمایت حاصل ہے جیسے سرد جنگ کے دنوں میں تھی ۔ اس مرحلےپرشہزادہ محمد بن سلمان کا یہ بیان فکر انگیز ہے کہ سرد جنگ کے دنوں میں اسلام کو مغرب کی خدمت کے لئے پیش کر دیا گیا تھا۔ اسلام کو امریکہ نے جس طرح مسلسل اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے وہ اسلامی تحریکوں کی بے بصیرتی کی دلیل ہے۔ جب اسے دوسروں کے اشارے پر کبھی جہادی بنایا جائے گا تو کبھی ماڈریٹ۔ مگر ہزاروں جانیں لٹانے کے بعد پھر کوئی شہزادہ یہ انکشاف کرے گا کہ اسلام کو تو استعمال کیا گیا ہے‘‘۔
( روزنامہ دنیا خورشید ندیم صاحب مستقل کالم تکبیر مسلسل زیر عنوان سرد جنگ میں اسلام کا کردار 2018/04/02)
امریکہ کا کثیر الاشاعت اخبار واشنگٹن پوسٹ اپنی 23 مارچ 2002 ءکی اشاعت میں دعویٰ کرتا ہے کہ روس کے افغانستان پر حملے سے قبل ہی امریکہ کی خفیہ ایجنسی CIAنے جہاد کی برکات پر لٹریچر تیار کرنا شروع کردیا تھا ۔ اور پھر یہ کتابیں اور پمفلٹ کروڑوںکی تعداد میں پرنٹ کرواکر پاکستان کے راستے افغانستان پہنچایا جا چکا تھا بلکہ آنے والے کئی سال تک بحری جہاز بھر بھر کر یہ لٹریچر پاکستان کے مدرسوں اور افغانستان کے لوگوں تک پہنچایا جاتا رہا ۔
پاکستان کے نیوزچینل ایکسپریس نیوز کےایک پروگرام میں معروف صحا فی جناب احمد قریشی نے سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے اس وقت تمام پاکستانی قوم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جب آپ نے پاکستانی مسلم قوم کے سامنے یہ دلخراش حقیقت رکھی کہ روس کے خلاف شروع ہونے والے جہاد کا فلسفہ اور برکات پر مبنی لٹریچر مسلمانوں نے نہیں ، بلکہ کافروں نے لکھا ۔ اور یہ پاکستان یاسعودی عرب میں نہیں بلکہ امریکہ کے امریکی پریسوں میں چَھپ کر جہازوں میں ڈال کر ہمارے ملک تک پہنچایا گیا۔ آپ ایکسپریس نیوز چینل کے 9مارچ2015 ءکی نشریات میںایک تحقیقی رپورٹ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’اسلام پر امریکی اور یورپین خفیہ ایجنسیوں کا قبضہ‘‘۔ ’’امریکی سی آئی اے نے اسلام کو ایک ماتحت ادارہ بنالیا ہے‘‘۔ برطانیہ شدت پسندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔نائن الیون اور دنیا بھر میں اسلام کے نام پر پھیلائی جانے والی دہشتگردی و شدت پسندی کے تانے بانے امریکہ سے ملنے کا انکشاف ایکسپریس کے پروگرام ایٹ کیو ود احمد قریشی (@ Q With Ahmad Qureshi)میں میزبان نے تجزیاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ویورپی خفیہ ایجنسیوں نے اسلام پر قبضہ کرکے اسےاپنا ادارہ بنالیا ہے۔ جبکہ دنیا کا سب سے بڑا مدرسہ یونیورسٹی آف نبراسکا امریکہ میں واقع ہے جو شدت پسندی کی نرسری ہے۔ جہاں سے سب سے پہلے جہادی لٹریچر لکھا گیا اور یہ کام 1979ءمیں شروع ہوا۔ یہاں تشدد پر مبنی کتابیں کروڑوں کی تعداد میں شائع کرکے پاکستان کے راستے افغانستان پہنچائی گئیں۔ اس کی تصدیق امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں 23 مارچ 2002 ءکو چھپے آرٹیکل The ABC,S of Jehad in Afghanistanمیں کی گئی۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن سی آئی اے کی پیداوار تھےجنہیں امریکا نے روس کے خلاف استعما ل کیا۔ اسامہ بن لادن بعد ازاں باغی ہو گیا جس پر اسے ماردیا گیا۔ صدر ریگن کے دور میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی NSAکے ڈائریکٹر جنرل ولیمزاوڈم نے ایک بیان میں اعتراف کیا تھا کہ کسی بھی پیمانے سے دیکھیں امریکا شدت پسندی کے فروغ میں شامل رہا ہے۔ 1978ء میں جب امریکی سینٹ عالمی دہشت گردی کے خلاف قانون بنانا چاہ رہی تھی تو معلوم ہوا کہ جس جہت یا زاویے سے بھی دیکھیںامریکہ خود قانون شکن نظر آتا ہے۔ انھوں نے اس خفیہ ہتھیار کو چیچنیا ، بوسنیا، افغانستان ،چین ،عراق، لیبیا، اور شام میں استعمال کیا۔
احمد قریشی نے بتایا کہ داعش کا بانی ابو بکر البغدادی بوکو حرام کا سرغنہ اور ٹی ٹی پی کا عبداللہ محسود بھی امریکی جیل گوانتاناموبے میں رہا ۔عبداللہ محسودکو امریکہ نے قوانین کے مطابق اس کے اپنے ملک پاکستان کے حوالے کرنے کی بجائےافغانستان کے حوالے کیا۔جہاں اس کی برین واشنگ کے بعد پاکستان میںداخل کیا گیااور اس نے چینی انجینئر ز کو اغواہ کرکے قتل کرنا شروع کیا ۔
احمد قریشی نے مغربی صحافیوں کی رپورٹوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ شدت پسندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔ ’’ جہادی جان ‘‘ بھی برطانوی شہری ہے۔ جبکہ آئی ایس آئی ایس پورے یورپ سے بھرتیاں کرر ہی ہے اور اسے کوئی روکنے والا نہیں ۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں شام ، عراق،لیبیا،نائیجیریا، اور صومالیہ کے ان علاقوں میں بنائی گئی ہیں جہاں تیل یا امریکی مفادات ہیں۔
اسلام آباد میں لال مسجد کی طالبات ڈنڈوں سے لیس ہو کر کیمیائی ماسک پہنے برآمد ہوتی ہیں جبکہ مولانا عبد العزیز نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔بھارت نے بھی اسلام کو اپنے انٹیلی جنس سیٹ اَپ میں ادارہ بناکر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنی خفیہ ایجنسی میں بھرتی کیا۔ پھر افغانستان اور پاکستان اور سنکیانگ میں استعمال کیا۔ ان سے فتوے نکلوائے کہ مغرب اور کفار کے ساتھ لڑنے سے پہلے مسلمانوں کو قتل کرنا حلال ہے۔‘‘
( یہ مکمل رپورٹ ایکسپر یس چینل کی ویب سائٹ اور فیس بُک پر 10مارچ 2015ءسے موجود ہے۔)
مکرم خورشید ندیم صاحب آپ کو گلہ ہے کہ اسلام کو امریکہ نے جس طرح مسلسل اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے وہ اسلامی تحریکوں کی بے بصیرتی کی دلیل ہے۔ اور یہ ہر دفعہ ا س لئے ممکن ہوجاتا ہے کہ استعمال ہونے والی اسلامی تحریکیں استعمال ہونے کے لئے ہر وقت موجود ہیں اور انہیں اس پر دل میں ذرا بھی ندامت نہیں ۔
دیکھئے مشہور اہل حدیث مولوی جناب امیر حمزہ صاحب ایڈیٹر رسالہ لشکر طیبہ فخریہ انداز سے اس جہاد میںملنے والی امریکی اور امریکہ کے کہنے پرسعودی عرب کی امداد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’عام تاثر یہ تھا کہ ساری امداد امریکہ سے آرہی ہے جہاں سے اسلحہ کے بھرے ہوئےجہاز پاکستان پہنچتے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس جتنی امداد امریکہ دے رہا تھا کم و بیش اتنی ہی سعودی عرب سے آ رہی تھی۔امریکی انتظامیہ سی آئی اے کو اسلحہ کی خریداری کےلئے جتنے ڈالر فراہم کرتی تھی اتنے ہی ڈالر سعودی حکومت بھی ادا کرتی تھی۔ یہ اس فیاضانہ سلوک کا نتیجہ ہے کہ مجاہدین آج بھی میدان میں ہیں جب کہ امریکی امداد انتہائی کم کر دی گئی ہے‘‘۔ (صفحہ284۔285)
سب سے زیادہ کس نے امریکی امداد کے مزے لوٹے۔ اس کی تفاصیل بتاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں
’’ قارئین کرام ! یہ ساری(امریکی) امداد آئی ایس آئی کے ہاتھوںافغانستان کی سات رجسٹرڈ جماعتوں کو دی جاتی تھی۔ جن میں سب سے زیادہ امداد حزب اسلامی وصول کرتی تھی۔ تفصیل یوں ہے۔
حزب اسلامی ( گلبدن حکمت یار) 18 سے 20 فیصد
جمیعت اسلامی ( برہان الدین ربانی) 18 سے 19 فیصد
اتحاد اسلامی افغانستان ( سیاف ) 17 سے 18 فیصد
حزب انقلاب اسلامی ( مولوی محمد نبوی محمدی) 12 سے 13 فیصد
حزب اسلامی ( یونس خالص) 12 سے 13 فیصد
محاذ ملی افغانستان ( سید احمد گیلانی )8 سے 10 فیصد
جبہ نجاب ملی ( صبغت اللہ مجددی ) 3 سے 5 فیصد
یاد رہے کہ جہادی دور سے قبل ان ساتوں لیڈروں کی کوئی سیاسی یا قبائلی اہمیت افغان معاشرے میں نہیں تھی ۔ یہ اہمیت اس وقت بنی جب انہوں نے جہاد شروع کیا اور جہاد (کے نام پر) میں جس لیڈر کو جتنی زیادہ امریکی امداد مل گئی وہ اتنا ہی بڑا لیڈر بن گیا ۔۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ حکمت یار کو بڑا لیڈر بنایا تو سعودی ( اور امریکی ) پیسے نے مگر افسوس کہ وہی حکمت یار اور اس کا ساتھی قاضی حسین احمد کہ جس کی جماعت کے ہیڈ کورٹر منصورہ کی ایک ایک اینٹ میں ….دولت پنہاں ہے وہ اپنے محسنوں کے حق پر ہونے کے باوجود ، ظالموں کے ساتھ صدام کے ساتھ جا مل بیٹھے‘‘۔
(قافلہ دعوت و جہاد مصنفہ امیر حمزہ ص 286/287مکتبہ دارالاندلس 4-لیک روڈ چوبرجی لاہور 7230549-042)
سعودی ولی عہد تو صرف یہ اعتراف کرکے پتلی گلی سے نکل لئے کہ ’’ ماضی میں سعودی حکومتیں اس منزل کے حصول میں راستہ بھٹک گئیں ہمیں صحیح راستہ پر آنا ہے۔ علماء کے ساتھ طویل مباحثے مثبت ثابت ہوئے ہیں اوروقت گزنے کے ساتھ مذہبی اسٹیبلیشمنٹ میں ہمارے اتحادیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔مزاحمت دم توڑ رہی ہے ‘‘۔
آپ کی اسلام کی تبلیغ بھی امریکہ کے کہنے پر تھی اور اب ماڈریشن بھی امریکہ کے کہنے پر۔ لیکن 40 سال سے پوری امّت مسلمہ میں پھیلایا گیا شدت پسندی کا زہر کیسے ختم ہوگا؟اس کا جواب و حساب کون دے گا؟
جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب ،ہر چڑھتے چاند کو سلام کرنا جن کےفرائض منصبی میںشامل ہے، نے گزشتہ روز اپنے مستقل کالم زاویہ نظرمیں زیر عنوان ’’ 1979ءکی تدفین ‘‘ میںبر یلوی نوجوان علماء کو ہلکی پھلکی جگتیں کرتے ہوئے وہابی سعودی عرب کی امریکہ کےکہنے پر برانڈڈ مدرسے کھولنےاور عالی شان مساجدکی تعمیر میں investmentکےانکشاف اور شہزادہ محمد بن سلیمان کے Confession کی داستان بڑے مزے لےلے کر سنائی ہے۔ فرماتے ہیں
’’ یہ سطور میں اہل سنت کے جواں عمر علماء کے لئے لکھ رہا ہوں ۔ہمارے علماء اپنی دنیا میں مگن ہیں ۔یہ امریکہ اور برطانیہ میں ہوں یا پاکستان میں گردوپیش سے بے نیاز رہتے ہیں ’’ سکھیکی ‘‘ میں رہتے ہیں۔ اُمت کے دکھ درد کو محسوس کرکے اپنا سکون برباد نہیں کرتے ۔ سوشل میڈیا پر بھی ان کی اپنی دنیا ہے ۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانے یا دامن تار تار کرنے میں لگے رہتے ہیں ‘ ‘۔
پھر 60 اور 70 کی دہائی میںجماعت اسلامی اور امریکہ کے گٹھ جو ڑ کو یاد کرتے ہیںکہ
’’ ساٹھ اورستر کی دہائی میں بائیں بازو کے صحافی اور دانشور مذہبی جماعتوں اور علماء کو سامراج کا ایجنٹ قرار دیتے تھے۔جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کو امریکہ کا ایجنٹ قرار دیتے تھے اور یہ کہ انہیں وسائل امریکہ مہیا کر رہا ہے ۔ ان سے پوچھا جاتا کہ اس کا طریقہ کار کیا ہے۔ وہ کہتے کہ امریکی مولانا مودودی کی کتابیں بڑی تعداد میں خرید تے ہیں اور پھر سمندر برد کر دیتے ہیں اور جماعت کو وسائل ملتے رہتے ہیں‘‘ ۔
اس امریکی آشیرباد کے ذکر کے بعد آپ کو آج کے ایران اور سعودی عرب میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی نظر آتی ہیں ۔اس نظریے کے ثبوت کے لئے آپ نے ٹامس فرائیڈ مین جو شہزادہ محمد بن سلیمان کے قریبی دوست ہیںکے ایک آرٹیکل کو زیب داستان بنایا ہے ۔
آپ لکھتے ہیں
’’ ٹامس فرائیڈ مین امریکہ کے ایک نامور مصنف اور صحافی ہیں ۔حال ہی میں ان کا ایک آرٹیکل ’’ ایرانی اور سعودی نوجوان 1979 ءکو بھول جائیں ‘‘ کے عنوان سے نظر سے گزرا ۔ اس میں مسلم دنیا کی نوجوان نسل کو اسلام کی لبرل تعمیر کی امید دلائی گئی ہے ۔یہ تاثر دیا گیا ہے کہ 1979 ء عالم اسلام میں مذہبی تصلّب اورشدت پسند تبدیلیوں کے لئے ایک سنگ میل تھا مگر اب اس کی تد فین ہو رہی ہے۔اور اس کے بطن سے ایک نئی اور روشن خیال مسلم دنیا وجود میں آرہی ہے۔ ٹامس فرائیڈ مین لکھتا ہے کہ اب ایران اور سعودی عرب میں کچھ چیزیں مشترک ہیں ۔ ان کی آبادیوں کی اکثریت کی عمریں تیس سال سے کم ہیں ، سوشل میڈیا نیٹ ورک اور اسمارٹ فون کے ذریعہ نوجوان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کی بڑی تعداد اس بات سے تنگ ہے کہ بد عنوان اور گلا گھونٹنے والے علماء کے ذریعہ انہیں بتایا جائے کہ زندگی کیسے گزاریں ۔وہ 1979 ءکے ماضی کو دفن کر دینا چاہتے ہیں اور ہر اس چیز کو دفن کر دینا چاہتے ہیں جو 1979 ءکے نتیجے میں ظہور میں آئی‘‘ ۔
وہ لکھتے ہیں’’ میں سعودی عرب گیا تو نوجوانوں کے یہ خیالات سنے۔ ’’ میں چاہتی ہوں کہ مولوی میرے سامنے سے ہٹ جائیں، میں اپنی زندگی بغیر کسی مداخلت کے گزارنا چاہتی ہوں ،میں چاہتی ہوں کنسرٹس میں جائوں ، اپنی گاڑی چلائوں، اپنا کاروبار کروں، سینما دیکھوں‘‘ ۔فرائیڈمین لکھتے ہیں ’’ مذہبی پولیس کو بازاروں سے ہٹانا ، سعودی عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دینا ، علماء و مفتیان کی طاقت کومحدود کرنا، عورتوں کو اجازت دینا کہ مردوں کے ساتھ کھیلوں میں حصہ لے سکیں ، سنیما گھر کھولنا، مغربی اور عرب فنکاروں کو اجازت دینا کہ وہ مملکت میں آکر اپنے فن کا مظاہرہ کریں ، اس عزم کا اظہار ہےکہ سعودی عرب میں قدامت پسندی کو ماڈریٹ اسلام میں تبدیل کر دیں گے۔یہی محمد بن سلیمان کا 2030 ءکا ویژن ہے۔ ‘‘فرائیڈمین کے اس مضمون کے بعد آپ مستقبل کےسعودی عرب کو انڈین فلموں میں پیش کیا جانے والےایک سین کی طرح کا دیکھتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ محمد بن سلیمان درحقیقت چین کی طرح ’’ایک ملک دو نظام ‘‘ کے خاکے کا سعودی چربہ تیا ر کر رہے ہیں ۔ مجھ سے ایک سعودی تاجر نے کہا کہ محمد بن سلیمان کا ویژن یہ ہے کہ اگر آپ مذہبی ہیں اورمکہ جانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہموار راستہ ملے گا اور اگر آپ ڈزنی ورلڈ جانا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے وہاں جانے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی ‘‘۔ یہ وہ ویژن ہے جو ہماری ماضی کی فلموں میں دکھایا جاتا تھا ۔ ایک اداکار تھوڑی دیر پہلے چوری کررہا ہوتا ہے ، ڈاکہ مار رہا ہوتا ہے ، کچھ دیر بعد نظر آتا ہے کہ وہ مصلّیٰ بچھائے نماز پڑھ رہا ہے اور تسبیح پر ورد کر رہا ہے۔ کوئی سوال کرتا ہے کہ یہ کیسا تضاد ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ وہ میرا پیشہ تھا۔ یہ میرا مذہب ہے ۔ یعنی اب معاشرے میں خیر وشر کے نفوذ کے یکساں مواقع دستیاب ہوں گے‘‘۔
مستقبل کے سعودی عرب کےخدوخال بیان کرنے کے بعد اس الجھن کا بھی خود ہی جواب تحریر فرمادیتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے سعودی علماء ،وہابی علماء تو بہت متشدد اور سخت گیر ہیں ۔ انہوں نے تو یہ متشدد پالیسی پوری دنیا میں پھیلا رکھی ہے۔ اپنے گھر میں وہ کیسے اس کی اجازت دیں گے ۔جناب مفتی صاحب اس کا آسان سا جواب دیتے ہیں کہ اب وہ سب علماء کرپٹ ہو چکے ہیں اور کرپٹ لوگوں میں مزاحمت کی طاقت نہیں ہوتی ۔
آپ فرماتے ہیں ’’ قانون قدرت ہے کہ عشرتیں اور راحتیں انسان کو تن آسان بنا دیتی ہیں اور اس کی مزاحمتی قوت کو مضمحل کر دیتی ہیں ۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ ڈھیر ہو جاتا ہے اور مزاحمت کی بجائے مفاہمت کو قبول کر لیتا ہے تاکہ عشرتیں اور راحتیں جارہی رہیں ،کیونکہ مزاحمت کی صورت میں عشرتوں سے دستبردار ہونا پڑتا ہے جو مشکل کام ہے ۔ لہذا عزیمت مفقود ہے ‘‘۔ اس کے بعد آپ ولی عہد محمد بن سلیمان کا واشنگٹن پوسٹ کو دیا گیا انٹرویو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں گویا کہ سب کچھ بدل رہا ہے ۔ پس ٹامس فرائیڈمین نے 1979 ءکو مذہبیت کے غلبے کی معراج سے تعبیر کیا اور یہ بتا یا کہ مسلمان اب اسے بھول جائیں ۔ وہ لبرل ازم کو قبول کر لیں اور اب شہزادہ محمد بن سلیمان بھی اسی عزم کا اعادہ کر رہا ہے اور پورے عزم کے ساتھ اس مشن کو لے کر چل پڑے ہیں ۔ اس سلسلے میں امریکہ ان کا پشتیبان ہے ‘‘
( روزنامہ’ دنیا‘ مستقل کالم زاویہ نظر۔ زیر عنوان 1979ءکی تدفین۔31مارچ2018ء )
خلاصہ یہ کہ جب امریکہ نے کہا کہ متشدد اسلام اپنائو اور دنیا کو جہاد اور جنت تلواروں کے سائے تلے کی تعلیم دو ۔ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے اس کا علم حاصل کرنے کی بجائے دین کے مدرسوں میں جائو تو ہم نے آقا کے حکم کی تعمیل میں پوری دنیا میں خوبصورت مساجد اور مدرسوں کا جال بُن دیا ۔ مولانا مودودی صاحب کو استاد مودودی کا نام دیا اور ان کی کتب کے عربی تراجم کرائے اور ان کو شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اور سید قطب کی اخوان المسلمین کو اصلی اسلامی جہادیوںکے طور پر پناہ دیاور امداد دی۔اب حکم ہواہے کہ ہمیں لبرل اسلام چاہئے تو ہم اس کے لئے بھی حاضر ہیں۔ سید قطب اور مودودی صاحب کی کتب کو سعودی عرب میں بَین کردیا ہے۔اخوان المسلمین کو دہشت گرد جماعت قرار دے دیا ہے۔لیکن، لیکن، لیکن میرے پاکستان کی علماء برادری حیران ہے کہ یہ کیا ؟ہم تو اَیویں عمران خان کو یُوٹرن خان کہتے رہے مگر سعودی حکمران تو ان سے بھی کہیں آگے نکل گئے ۔اب ہم کہاں جائیں ؟ کس کو منہ دکھائیں؟اپنے علماء کو تو راضی کرلیا مگر ہمارا بھی تو کچھ خیال کرتے ؟ ہم سے بھی کچھ پوچھ لیتے ؟
یہ وہ تصویر ہے جو مکرم مستنصر حسین تارڑ صاحب نے ان حیران کھڑے گروہ علماء کی تیار کی ہے ۔آپ فرماتے ہیں
’’ اب پچھلے دنوں ایک سانحہ ہو گیا ہے ۔ ہم کافر ہوئے ہیں تو وہ مسلمان ہو گیا ہے۔ یا پھر ہم مسلمان ہوئے ہیں اور وہ کافر ہو گیا ہے ۔ یکدم یُو ٹرن لے لیا ہے اور ہم پریشان کھڑے ہیں۔ بقول اظہار الحق کے ہم نے اپنے ٹیلی ویژن توڑ ڈالے ،اپنی خواتین کو یہ لمبے لمبے سیاہ چوغے پہنا دئیے، ہر اس شے کو حرام قراردیا جس میں خوشی کے حصول کا کوئی ذرہ بھر خدشہ تھا ۔ اپنے بچوں کو سعودی امداد سے قائم ہونے والے مدرسوں میں داخل کرادیا۔ شلواریں گھٹنوں سے اوپر کر لیں ۔ یہاں تک کہ خداحافظ کی بجائے اللہ حافظ کہنے لگے۔ اپنے علاوہ ہر فرقے کو کافر قرار دیا۔ یعنی ہمارا حال تو نور جہاں جیسا ہو گیا ہے کہ’ ساہنوں نہر والے پُل تے بلا کے خورے ماہی کتھے رہ گیا‘۔ماہی کے اپنے علماء کرام نے ایک اور فتویٰ دے دیا ہے کہ پردے کے لئے عبایا پہننا ضروری نہیں ۔ ویلنٹائن ڈےمیں کچھ حرج نہیں اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے …اب ان دنوں سعودی عرب میں جو ’’ انقلابی ‘‘ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ، تو مجھے حیرت ہے کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس ترقی پسندی پر کچھ احتجاج نہیں ہوا ۔ کم از کم شباب ملّی کے ڈنڈابرداروں کو تو ویلنٹائن ڈے کو جائز قرار دینے پر کچھ تو ہلّا گُلا کرناچاہئے تھا…عجب سلسلے ہیں کہ سعودی کُوئے یار سے نکلتے ہیں تو راہ میں ٹھہرتے ہی نہیں ، سیدھے سُوئے دار جاتے ہیں۔ اور ہم ہیں نہر والے پل پر حیران کھڑے ہیں۔ کافر کھڑے ہیں یا مسلمان کھڑے ہیں،کچھ معلوم نہیں ۔ کرائے کے لوگوں کا یہی حشر ہوتا ہے ۔ ‘‘
(روزنامہ 92 نیوزمستقل کالم ہزار داستان زیر عنوان سانوں نہر والے پل تے بلاکے جناب مستنصر حسین تارڑ4مارچ 2018ء)
٭…٭…٭