قرآنی معجزات اور پیشگوئیاں
خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی راہنمائی اور ہدایت کے لیے اپنا آخری کلام بطور شریعت قرآن نازل کیا۔ خدائے رحمان و رحیم کی یہ آخری کتاب انسان کے لیے کامل ہدایت کا سامان ہےاوریہ قرآن اپنی ذات میں کئی معجزات سموئے ہوئے ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام قرآن شریف کی مدح میں بیان فرماتے ہیں:’’ قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں اپنی حکمتوں اپنی صداقتوں اپنی بلاغتوں اپنے لطائف و نکات اپنے انوار روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہونا آپ ظاہر فرما دیا ہے۔ یہ بات ہر گز نہیں کہ مسلمانوں نے فقط اپنے خیال میں اس کی خوبیوں کو قرار دے دیا ہے بلکہ وہ تو خود اپنی خوبیوں اور اپنے کمالات کو بیان فرماتا ہے اور اپنا بے مثل و مانند ہونا تمام مخلوقات کے مقابلہ پر پیش کر رہا ہے اور بلند آوازسے ھل من معارض کا نقارہ بجا رہا ہے۔ اور دقائق حقائق اس کے صرف دو تین نہیں جس میں کوئی نادان شک بھی کرے بلکہ اس کے دقائق تو بحر ذخار کی طرح جوش مار رہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں۔ کوئی صداقت نہیں جو اس سے باہر ہو، کوئی حکمت نہیں جو اس کے محیط بیان سے رہ گئی … اور ہم نے بھی اس صداقت کو اپنی اس کتاب میں نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔ اور دقائق اور معارف قرآنی کو اس قدر بیان کیا ہے کہ جو ایک طالب صادق کی تسلی اور تشفی کے لیے بحر عظیم کی طرح جوش مار رہے ہیں۔ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1 حاشیہ نمبر 11 صفحہ 662 تا 665حاشیہ نمبر11)
معجزہ کی تعریف
قرآن کریم کے اعجاز کے حوالے سے اس زمانہ کے حکم و عدل نے معجزہ کی ایک خاص انداز میں وضاحت بیان فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’ معجزہ ایسے امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریق مخالف اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آ جائے خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو جیسا کہ قرآن شریف کا معجزہ جوملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ پس وہ اگرچہ بنظر سرسری انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آ گئے۔ پس معجزہ کی حقیقت سمجھنے کے لیے قرآن شریف کا کلام نہایت روشن مثال ہے۔ ‘‘ ( نصرۃالحق، روحانی خزائن جلد21صفحہ 59)
قرآن کریم کا دعوئ اعجاز از قرآن و حدیث
قرآن کریم اور احادیث میں قرآن کریم کو ایک معجزہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی مخالفین کو اس کے مقابل کلام لانے کی پیشکش کی گئی ہے۔ جس میں ناکامی ان کی شکست ہے۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: وَقَالُوۡا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَاِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ اَوَلَمۡ یَکۡفِہِمۡ اَنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَرَحۡمَۃً وَّذِکۡرٰی لِقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ۔ ( العنکبوت 51تا52)اور وہ کہتے ہیں کہ کیوں اس کے رب کی طرف سے اس پر کوئی نشانات نہیں اترے۔ کہو کہ نشانات تو خدا کے پاس ہیں( جب وہ فائدہ دیکھتا ہے اتارتا ہے) اور میں تو ایک کھلا کھلا ہوشیار کرنے والا ہوں۔ کیا ان کے لیے( یہ نشان) کافی نہ تھا کہ ہم نے تجھ پر ایک مکمل کتاب (قرآن) کو نازل کیاجو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ اس امر میں مومنوں کے لیے تو بڑی رحمت اور نصیحت کے سامان ہیں۔
احادیث سے بھی اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ وہ معجزہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا وہ یہ قرآن کریم ہی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے:عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه قال: قال النبي صلى اللّٰه عليه وسلم: ما من الأنبياء نبي إلا أُعطِيَ ما مِثلُه آمَن عليه البشر، وإنما كان الذي أوتيته وحيًا أوحاه اللّٰه إليَّ، فأرجو أن أكون أكثرهم تابعًا يوم القيامة۔ (بخاری کتاب الفضائل القرآن باکیف نزل الوحی)یعنی ہر نبی کو خدا تعالیٰ نے معجزات اور نشانات عطا کیےاور مجھے جو عظیم ترین معجزہ دیا گیا وہ یہ وحی ہے جو خدا تعالیٰ مجھ پر کرتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب و ملفوظات میں قرآن کریم کی بے شمار معجزانہ خوبیوں کو عجیب محبت بھرے اور دل کو موہ لینے والے انداز میں بیان فرمایا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
دقائق و معارف کا اعجاز
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:’’جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جوہر ایک قوم اور ہر ایک اہل زبان پر روشن ہو سکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر یک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یوروپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہو ملزم و ساکت و لاجواب کر سکتے ہیں۔ وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر یک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں۔ اگر قرآن شریف اپنے حقائق و دقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیز ہوتی تو ہر گز وہ معجزہ تامہ نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ فقط فصاحت و بلاغت ایسا امر نہیں ہے جس کی اعجازی کیفیت ہر خواندہ و ناخواندہ کو معلوم ہو جائے۔ کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے۔ جو شخص قرآن شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتا وہ علم قرآن سے سخت بے نصیب ہے۔‘‘ ( ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 255تا 257)
اختصار
قرآن مجید کے معجزات میں سے ایک معجزہ اس کی عبارت کا مختصر الفاظ میں جامع اور گہرے مطالب رکھنا ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس معجزہ کو پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ’’اب دیکھنا چاہئے کہ یہ بلاغت قرآنی کس قدر بھاری معجزہ ہے کہ علم کے ایک بحر ذخار کو تین چار جزو میں لپیٹ کر رکھ دیا ہے اور حکمت کے ایک جہان کو صرف چند صفحات میں بھر دیا ہے۔ کیا کبھی کسی نے دیکھا یا سنا کہ اس قدر قلیل الحجم کتاب تمام زمانہ کی صداقتوں پر مشتمل ہو۔ کیا عقل کسی عاقل انسان کے لیے یہ مرتبہ عالیہ تجویز کر سکتی ہے کہ وہ تھوڑے سے لفظوں میں ایک دریا حکمت کا بھر دے جس سے علم دین کی کوئی صداقت باہر نہ ہو۔ ‘‘ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1صفحہ 527 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
کمالات عالیہ
قرآن شریف کے کمالات عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’قرآن شریف ایسے کمالات عالیہ رکھتا ہے جو اس کی تیز شعاؤں اور شوخ کرنوں کے آگے تمام صحف سابقہ کی چمک کالعدم ہو رہی ہے۔ کوئی ذہن ایسی صداقت نکال نہیں سکتا جو پہلے ہی اس میں درج نہ ہو کوئی فکر ایسے برہان عقلی پیش نہیں کر سکتا جو پہلے ہی سے اس نے پیش نہ کی ہو۔ کوئی تقریر ایسا قوی اثر کسی دل پر ڈال نہیں سکتی جیسے قوی اور پر برکت اثر لاکھوں دلوں پر وہ ڈالتا آیا ہے۔ وہ بلاشبہ صفات کمالیہ حق تعالیٰ کا ایک نہایت مصفا آئینہ ہے۔جس میں سے وہ سب کچھ ملتا ہے جو ایک سالک کو مدارج عالیہ معرفت کے پہنچنے کے لیے درکار ہے۔ ‘‘ (سرمہ چشم آریہ صفحہ 24-23 حاشیہ)
اعجازی تاثیرات
قرآن کریم کی اعجازی تاثیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ’’لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کے اتباع سے برکات الٰہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولیٰ کریم سے ہو جاتا ہے خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اترتے ہیں اورمعارف اور نکات ان کے مونہہ سے نکلتے ہیں اور ایک قوی توکل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الٰہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے۔ اگر ان کے وجودوں کو ہاون مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو ان کا عرق بجز حب الٰہی کے اور کچھ نہیں۔ دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر و بلند تر ہیں۔ خدا کے معاملات ان سے خارق عادت ہیں انہیں پر ثابت ہوا ہے کہ خدا ہے۔ انہیں پر کھلا ہے کہ ایک ہے جب وہ دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی سنتا ہے۔ ‘‘ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2صفحہ 79حاشیہ)
’’ہمارا خداوند کریم کہ جو دلوں کے پوشیدہ بھیدوں کو خوب جانتا ہے اس بات پر گواہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ذرہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کر سکے کہ جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو اور اس سے بہتر ہو تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو طیار ہیں۔ ‘‘ (براہین احمدیہ ہر چار حصص، روحانی خزائن جلد1صفحہ 298 حاشیہ نمبر 2)
علوم و معارف
’’قرآن شریف ایسا علوم و معارف وکمالات ظاہری و باطنی پر حاوی ہے کہ صریح حد بشریت سے بڑھا ہوا ہے اور بہ بداہت معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر اس نے حقائق و دقائق کو ایک بے مثل بلاغت و فصاحت میں بیان کیا ہے اور پھر بالتزام ایسے بلیغ و فصیح بیان کے تمام دینی صداقتوں پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہو گیا ہے حقیقت میں یہ ایسا کام ہے جس کو معجزہ کہنا چاہئے کیونکہ یہ انسانی طاقتوں سے ماوراء اور بشری قوتوں سے بالا تر ہے۔‘‘ ( شحنہ حق ،روحانی خزائن جلد2صفحہ 342)
قرآنی پیشگوئیاں
مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّلَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا( سورۃ الکہف :50)اس کتاب کا کیا عالم ہے۔ یہ کیسی کتاب ہے جو نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑتی ہے نہ بڑی کو۔ مگر اس نے ان سب کو شمار کر لیا ہے۔
قرآن کریم جس طرح غیب سے پردہ اٹھاتا ہے خاکسار اس وقت صرف اس کے چند پہلوؤں کا ذکر کرے گا۔
قرآن کریم صرف گذشتہ انسانی تاریخ کے بعض پہلوؤں سے ہی پردہ نہیں اٹھاتا بلکہ انسانی پیدائش سے بھی اربوں سال پہلے سائنس کے ان رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے جو قرآن کریم کے نزول کے چودہ سو سال بعد پوری طرح انسانی علم میں آئے تھے۔ پھر قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قیامت تک ہونے والے ایسے واقعات سے پردہ اٹھاتا ہے جن کا تعلق اسلام کے عروج و تنزل اور اسلام کے خلاف طاغوتی قوتوں کے عروج، پھر اسلام کی آخری فتح سے ہے اور اس آخری زمانہ کے بارے میں ہمیں تفصیل سے خبریں دیتا ہے۔
قرآن کریم اور کائنات
جہاں تک ان سائنسی حقائق کا تعلق ہے جو اس زمانہ میں جب قرآن کا نزول ہو رہا تھا انسان کے لیے غیب کی اتھاہ گہرائیوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اور اس وقت کے انسان کے پاس نہ علم تھا نہ ذرائع تھے کہ ان حقائق کو معلوم کر سکے۔ یہاں میں صرف ان میں سے دو Catagories کا ذکر کروں گا اور اس کے بعد قرآن کریم کی ان پیشگوئیوں کی طرف آؤں گا جو مستقبل کے بارے میں اس میں بیان ہیں۔
آج سے چودہ سو سال قبل انسان جہالت کے اندھیروں میں گھرا ہوا تھا اور تو ہمات کی بنا پر حقیقت کائنات کو سمجھنے کی بے سود کوشش میں مصروف تھا۔ اس وقت قرآن کریم نے علم ہیئت یعنی Astronomy پر سے ایسے رنگ میں پردے اٹھائے اور کائنات اور اس کی کنہ کے بارے میں وہ علم دیا جو سائنسدانوں نے نزول قرآن کے چودہ سو سال بعد دریافت کرنا تھا۔ اگر یہ خدا کا کلام نہ ہوتا تو کبھی بھی ممکن نہ تھا کہ قرآن ان حقائق کو بیان کر سکتا۔ کائنات کے بارے میں چند باتیں بطور نمونہ پیش ہیں۔
1۔ابتدا میں کائنات ایک گیند ایسے گولے میں بند تھی (جس کو خدا نے پیدا کیا تھا) پھر خدا نے اس کو پھاڑا اور زمین و آسمان اور دوسرے اجرام فلکی اور Galaxies کو پیدا کیا۔ اس حقیقت کو سائنسدان یوں بیان کرتے ہیں کہ Big Bang کے نتیجہ میں کائنات پیدا ہوئی۔
2۔کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ دفعتاً پیدا نہیں ہو گئی بلکہ مختلف ارتقائی ادوار میں سے گزر کر اپنے کمال کو پہنچی۔
3۔ نہ صرف یہ بلکہ ہر لمحہ کائنات وسعت پذیر ہے اور نئی نئی گلیکسیز تخلیق ہو رہی ہیں۔
4۔ ہر گلیکسی میں اجرام فلکی کے جھرمٹ اپنے محور کے گرد گھومتے ہیں اور اجرام فلکی میں ہر ایک سیارہ اپنے اپنے ستاروں کے گرد مخصوص محور میں چکر لگاتا ہے اور گلیکسیز بھی مسلسل حرکت پذیر ہیں۔
5۔تمام اجرام فلکی سیارے اور ستارےزمین، چاند، سورج وغیرہ کو ایک ایسی قوت ( کشش ثقل) اپنے اپنے مداروں میں قائم رکھے ہوئے ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تمام اجرام ایک دوسرے سے ٹکرا کر تباہ ہو جاتے۔
6۔اس کائنات میں مختلف گلیکسیز میں خدا کی ایسی مخلوق آباد ہے جس کا تعلق کسی وقت زمین میں بسنے والے انسانوں سے ہو جائے گا۔ (یہ پیشگوئی ابھی تک پوری نہیں ہوئی مگر ضرور ہو گی)
7۔ یہ کائنات پھر ایک دفعہ سمٹ کر ایک بلیک ہول میں غائب ہو جائے گی اور یہ سب کچھ امر الٰہی سے ہو گا۔
8۔اس طرح کائنات پر ایک عدم کا زمانہ آئے گا اور عدم سے پھر نئی کائناتیں خدا کے حکم سے وجود پذیر ہوں گی۔
9۔قرآن کریم حیرت انگیز طور پر ہماری کائنات کی عمر بھی بتاتا ہے جو بالکل موجودہ سائنسی تحقیق کے مطابق ہے۔
10۔ قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ نچلے آسمان کو زمین کے لیے حفاظت کا ذریعہ بنایا گیا ہےتاکہ سورج سے نکلنے والی مہلک شعائیں زمین میں زندگی کو ختم نہ کر دیں۔ اور یہ پیشگوئی بھی کرتا ہے کہ ایک زمانہ میں یعنی اس مغربی عروج کے زمانہ میں اس حفاظتی چادر میں شگاف پڑ جائیں گے۔
آغاز حیات کے متعلق قرآن کا موقف
پھر زندگی کی زمین پر ابتدا کے بارےمیں قرآن کریم تفصیل سے بتاتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ زندگی کیسے شروع ہوئی۔ قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ انسان پر مختلف ارتقائی دور آئے اور ان مختلف ارتقائی ادوار میں سے گزر کر انسان اس حالت میں پہنچا کہ انسان کہلائے۔ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ اس جسمانی ارتقا کے بعد انسان کا تمدنی اخلاقی اور روحانی ارتقا کس طرح ہوا اور کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں اپنے کمال کو پہنچا۔
مستقبل قریب اور بعید کی پیشگوئیاں
اب مضمون کے اس حصہ کی طرف آتا ہوں جس کو زیادہ تفصیل سےبیان کروں گا۔ یعنی اس تاریخ کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے وقت اس طرح مستقبل کے اندھیروں میں چھپی ہوئی تھی کہ انسانی طاقت میں نہیں تھا کہ اس کا وہ تفصیلی علم حاصل کر سکے ۔
جب اسلام انتہائی کمزوری کی حالت میں تھا اس وقت یہ اعلان کیا جارہا تھا کہ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ۔ ( سورہ الصف : 10)اللہ کی ذات وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا وہ اس دین حق کو (یعنی اسلام کو) تمام دوسرے ادیان پر غالب کر دے۔
ان خبروں کو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ
1۔اسلام اپنے ابتدائی دور میں کمزوری کےبعدقوت اور غلبہ کے دور میں داخل ہو گا اور اس کے مقابل پر تمام بڑی بڑی طاقتیں پاش پاش کر دی جائیں گی اور تمام طاغوتی اور شیطانی خیالات مٹا دیے جائیں گے اور شرک کا خاتمہ ہو گا۔ یہ غلبہ تین سو سال تک قائم رہے گا۔
2۔پھر اسلام کا تنزل شروع ہو گا جو ہزار سال میں اپنی انتہا کو پہنچے گا۔ ( لیکن اس اندھیرے کے زمانے میں بھی ہزاروں اولیاء اللہ شمع محمدی کو زندہ رکھیں گے)۔
3۔اسلام کے تنزل کے ہزار سال کے دوران میں دہریت اور مغربی عیسائی اقوام کی ترقی تدریجاً اپنے عروج کو پہنچے گی۔ گویا اسلام کا گراف تنزل کی طرف نیچے آ رہا ہو گا اور اسلام دشمن قوتوں کا گراف اوپر کی طرف ترقی پذیر ہو گا۔
4۔پھر وہ آخری زمانہ آئے گا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر اتم ظاہر ہو گا اور اس کے ذریعہ سے پھر اسلام زندہ کیا جائے گا اور اسلام دشمن قوتیں باہمی خطرناک جنگوں اور آسمانی آفات اور مسیح موعود کی دعا کے نتیجہ میں صفحہ ہستی سے مٹا دی جائیں گی اور اسلام اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ تمام بنی نوع انسان کو توحید پر قائم کر کے امت واحدہ بنا دے گا۔ لیکن یہ ترقی یکدم نہیں ہوگی بلکہ فرمایا: مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ ۚۖۛ وَمَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ۔ (سورۃ الفتح : 30)اور انجیل میں ان ( یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری جماعت جس کا ذکر سورہ جمعہ میں ہے) کی مثال ایک کھیتی کی طرح ہے جو اپنی کونپل نکالے پھر اسے مضبوط کرے پھر وہ موٹی ہو جائے اور اپنی ڈنٹھل پر کھڑی ہو جائے اور کاشتکاروں کو خوش کر دے تاکہ ان کی وجہ سے کفار کو غیض دلائے۔
اس دنیا میں وہ اجر عظیم نظام خلافت ہے جو آج صرف جماعت احمدیہ میں قائم ہے۔ قرآن کریم محمد رسول اللہ کے زمانے سے لے کر قیامت تک کی خبر اجمالی رنگ میں بھی دیتا ہے اور تفصیلات میں جا کر بھی دیتا ہے۔
قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر قیامت تک کی پیشگوئیاں بیان کرتا ہے
1۔قرآن کریم بڑی تفصیل سے اس حیرت انگیز انقلاب کی خبر دیتا ہے جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوا۔ اور اس وقت دیتا ہے جب آپ انتہائی کمزوری کی حالت میں تھے اور بتاتا ہے کہ کس طرح دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں آپ کی قوت قدسیہ سے ریشہ ریشہ کر دی جائیں گی اور اسلام کو غالب کر دیا جائے گا۔
2۔ قرآن کریم مسلمانوں کے عروج و زوال کی خبریں دیتے ہوئے بڑا تفصیلی نقشہ کھینچتا ہے۔
3۔ قرآن کریم بڑی تفصیل میں جا کر بتاتا ہے کہ ظہور مہدی سے پہلے اس آخری زمانہ میں مسلمانوں کی مذہبی، اخلاقی، علمی اور سیاسی حالت کیا ہو گی۔
4۔ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس وقت اسلام کے خلاف کون سے فتنے سر اٹھائیں گےاور ان کی فتنہ پردازیاں کس نوعیت کی ہوں گی۔
5۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اُس وقت مغربی اقوام جن کی طرف سے اسلام پر حملہ ہو گا ان کی مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور تمدنی حالت کیا ہو گی۔
6۔ پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ اس فتنہ کے وقت جبکہ اسلام انتہائی کمزوری کو پہنچا ہو گا مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا اور یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ کس شان اور کس مرتبہ کا انسان ہو گا۔
7۔ قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کس طرح ہو گی اور آپ کے مخالفین کا انجام کیا ہو گا۔
8۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جو سچے اور حقیقی مسلمانوں کی جماعت پیدا ہو گی وہ کس قسم کی ہو گی۔ اس کی شان اور اس کا مرتبہ کیا ہو گا اور کس طرح وہ تمام دنیا پر پھیل جائے گی۔
9۔ قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے خدا زمین و آسمان پر کیا کیا نشان دکھائے گا۔
آخری زمانہ کے متعلق قرآنی پیشگوئیاں
غرض قرآن کریم بتاتا ہے کہ عیسائی قوم کا مسلمانوں پر حملہ سیاسی بھی ہو گا اور مذہبی بھی اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کلیسا کا مذہبی حملہ فریب اور دجل پر مبنی ہو گا۔ اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام دجال رکھا ہے اور قرآن کریم ان کو خناسکہتا ہے۔
قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ آخری زمانہ میں دنیا میں بداخلاقی عام پھیل جائے گی اور گناہ کی کثرت ہو گی ( التکویر آیت 13) آنکھ کی شرم جاتی رہے گی اور گندگی کو چھپانے کی بجائے اس کی تشہیر کی جائے گی۔ مغربی اقوام کی ظاہری اخلاقی حالت کچھ ہو گی باطنی حالت کچھ ہو گی یعنی بعض مواقع پر وہ کھلم کھلا اخلاق ، Christian Values اور Civilization کی باتیں کریں گے اور پس پردہ ان کی اخلاقی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہو گی۔ (المنافقون آیت 31)
آخری زمانہ میں زمین کو پھیلا دیا جائے گا یعنی زمین کے وہ حصے دریافت ہو کر مغربی اقوام سے آباد ہو جائیں گے جو اس سے پہلے ان کے علم اور ان کی پہنچ سے باہر تھے۔( الانشقاق : 4)
ان علاقوں کے اصل باشندوں کو ان کی ملکیت سے محروم کر دیا جائے گا۔ بہتوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ ( التکویر :6)
پہاڑوں کو کھود کر راستے بنائے جائیں گے۔ (التکویر : 4)
پرانی سواریاں معطل ہو جائیں گی۔ بڑے بڑے دخانی جہاز اور دوسری طرح طرح کی سواریاں مثلاً موٹر، ہوائی جہاز، ریل گاڑی وغیرہ ایجاد ہو جائیں گی۔
ذرائع ابلاغ حیرت انگیز طور پر ترقی کر جائیں گے بادشاہتیں ختم ہو جائیں گی اور عوامی جمہوری حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔ امراء اور علمائے دین کا اثر عوام الناس پر ختم ہو جائے گا اور سیاسی انقلابات کے نتیجہ میں امراء اور شاہی خاندان کے لوگ اپنے وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ دنیا سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی اور دونوں بلاکس ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوں گے اور ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں گے۔ اس غرض کے لیے وہ طرح طرح کے مہلک ہتھیار ایجاد کریں گے۔ جنگی تیاریوں کی وجہ سے ان کی اقتصادی حالت پر اثر پڑے گا لیکن وہ پھر بھی کئی بار مہلک ہتھیاروں کے ساتھ جنگ میں کود پڑیں گے۔ ایٹمی جنگیں ہوں گی۔
علمی طور پر مغربی اقوام بہت ترقی کر جائیں گی اور مغربی علوم دنیا پر چھا جائیں گے۔
اس زمانہ میں بروز محمدی کا ظہور ہو گا یعنی مہدی اور مسیح آ جائیں گے اور ایک شور برپا ہو گا۔ اور آپ کا انکار یہ کہہ کر کیا جائے گا کہ الہام کا دعویٰ کر کے آپ نے خدا پر افترا کیا ہے اور دوسرے یہ کہ آپ نے ایسے دعاوی کیے ہیں کہ جس کی وجہ سے آپ دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود ؑکی صداقت ثابت کرنے کے لیے ایک دلیل سکھادی کہ اگر تمہاری یہ بات سچی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے نہ صرف یہ کہ خدا پر جھوٹ باندھا ہے بلکہ محمد رسول اللہ کی تکذیب بھی کی ہے پھر تو آپ نے خدا کی نگاہ میں دو خطرناک جرم کیے ہیں۔ ایسے خطرناک جرم کہ ان میں سے ہر ایک ایسا ہے کہ قرآن کے مطابق اس کا مرتکب خدا کے قہر سے نہیں بچ سکتا تو پھر بتاؤ کہ یہ دونوں جرم کر کے آپؑ خدا کے قہر سے کیسے بچ گئے؟ یہ کیا ہوا کہ نہ صرف خدا کے قہر سے بچ گئے بلکہ خدا کی جو نظر عنایت ہوئی اس پر ہوئی خدا کا جو انعام ہوا اس پر ہواخدا کی جو برکتیں نازل ہوئیں اس پر ہوئیں،خدا کی جو رحمتیں آئیں اس پر آئیں،ہر صبح نے بھی یہ گواہی دی،ہر شام نے بھی یہ گواہی دی کہ
انہیں ماتم، ہمارے گھر میں شادی
فسبحان الذی اخذی الاعادی
پھر فرمایاکہ خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ دین اسلام کو اس کے ہاتھوں سے اور صرف اس کے ہاتھوں سے دنیا میں غالب کرے گا اور تمام ادیان باطلہ کو مٹا دے گا (الصف:10)
اور جو ہاتھ خدا کے اس ہاتھ کو پکڑنے کے لیے اٹھے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔( اللہب :2)
یاد رکھو کہ یہ ہمارا نور ہے، محمد مصطفی ٰﷺکا نور ہے ایسا نہیں کہ تمہارے منہ کی پھونکوں سے بجھ جائے۔ اس کے متعلق تو ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم جتنی پھونکیں مارو اتناہی ہم اسے روشن کرتے چلے جائیں گے۔ یہاں تک کہ یہ نور تمام دنیا پرمحیط ہو جائے گا۔ (الصف: 9)
پھر اس کی وفات کے بعد سمجھاگیا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ لیکن پھر خدا آسمان سے زمین پر اترا اور قدرت ثانیہ کا جلوہ ہوا۔ مخالفین نے ہر خلیفہ سے ٹکر لی اور ہر دفعہ اپنی منہ کی کھائی۔جن حکومتوں نے خلفائےاحمدیت سے ٹکر لی اور پاش پاش کر دی گئیں۔پھر ہر خلیفہ کی وفات پر سمجھا کہ اس دفعہ تو یہ سلسلہ ضرور ختم ہوگیا لیکن ہر دفعہ خدا نے اپنی دوسری قدرت کا نمونہ دکھایا اور خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور مومنوں کے دلوں کو ڈھارس دی۔کیا خلافت خامسہ کے قیام کے ایمان افروز نظارے MTA پر نہیں دیکھےکہ کیسا پیارا امام خدانے جماعت احمدیہ کو دے دیا جس کے متعلق آج سے سو سال پہلے مسیح موعود ؑکو یہ الہام کیا تھا کہانی معک یا مسروراے مسر ور میں تیرے ساتھ ہوں۔
پس آج تک ہم قرآن کریم میں بیان کردہ پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں اور تاقیامت اس کے نظارے دیکھتے چلے جائیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کے ذریعہ اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں اور اس مقدس کتاب کی تلاوت اور اس پر غور و تدبر کے سلسلے میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین