مسئلہ ظل وبروز کی حقیقت (قسط 6)
(گذشتہ سے پیوستہ)(۱۹)بریلوی مسلک کے امام احمد رضا خان بریلوی کے متعلق لکھا ہے کہ
مصطفیٰ ہیں ظلِّ حق نور خُدا
تم ہو ظلِّ مصطفیٰ احمد رضا
(مدائح اعلیٰ حضرت۔مشتملہ قصیدہ نغمۃ الروح۔باہتمام جناب مولوی حاجی محمد حسنین رضا خاں صاحب۔رضوی کتب خانہ،بہاریپور بریلی بار اول۔صفحہ نمبر8)
(۲۰)تمام انبیاء رسول اللہ ﷺ کا ظل ہیں: مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دار العلوم دیوبند فرماتے ہیں:’’انبیاءمیں جو کچھ ہے وہ ظل اور عکس محمدی ہے‘‘(تحذیر الناس از مولانا قاسم نانوتوی صفحہ53،مطبوعہ مکتبہ قاسم العلوم کورنگی کراچی)اس عبارت میں مولانا موصوف تمام انبیاء کو آنحضرتﷺ کا ظل اور بروز قرار دے رہے ہیں۔
(۲۱)اسی طرح مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کے نواسے قاری محمد طیب صاحب مہتمم دار العلوم دیوبند تو مسیح موعود کو نہ صرف آنحضرت ﷺ کا بروز بلکہ شانِ خاتمیت کا وارث بھی بناتے ہیں لکھتے ہیں کہ ’’لیکن پھرسوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجالین کا اصلی مقابلہ توخاتم النبیین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور کا دنیا میں تشریف لانا مناسب، نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایان شان، نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم قرار دیا جانا مصلحت اور ادھر ختم دجّالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی،عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سےعہدہ برآ نہ ہوسکتے تھے،جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے۔ بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک موثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو،تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس دجال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجدّدین آئے جو خاتم النبییّن کی غیرمعمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اورساتھ ہی خاتم النبیین سے ایسی مناسبتِ تامّہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہٖ خاتم النبیین کا مقابلہ ہو،مگر یہ بھی ظاہرہےکہ ختم نبوّت کی روحانیّت کا انجذاب اسی مجدّد کا قلب کرسکتا تھا،جو خود بھی نبوّت آشنا ہومحض مرتبہ ولایت میں یہ تحمل کہاں کہ وہ درجہ نبوّت بھی برداشت کرسکے۔چہ جائیکہ ختم نبوّت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتر سکے،اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئےاس کی صورت بجزاس کےاورکیا ہوسکتی تھی کہ انبیائےسابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حدّتک خاتمیّت کی شان رکھتا ہو،اس امّت میں مجدّد کی حیثیت سے لایا جائےجوطاقت تو نبوّت کی لئےہوئے ہو،مگر اپنی نبوّت کا منصب تبلیغ اور مرتبہ تشریح لئے ہوئے نہ ہو،بلکہ ایک امّتی کی حیثیت سے اس امّت میں کام کرے اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے۔‘‘ (تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحہ229,228،پاکستانی ایڈیشن،اوّل مطبوعہ مئی 1986ء۔نفیس اکیڈمی کراچی)
اسی طرح آپ مزید تحریر کرتے ہیں کہ’’حضرت عیسوی کو بارگاہ محمدی سے خَلقاً و خُلقاً رتباً و مقاماً ایسی ہی مناسبت ہے،جیسی کہ ایک چیز کے دوشریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہئے‘‘۔ (تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحہ291،پاکستانی ایڈیشن،اوّل مطبوعہ مئی 1986ء۔نفیس اکیڈمی کراچی)
امام فخرالدین رازیؒ نے لکھا ہے :وَإِطْلَاقُ اسْمِ الشَّيْءِ عَلَى مَا يُشَابِهُهُ فِي أَكْثَرِ خَوَاصِهِ وَصِفَاتِهِ جَائِزٌ حَسَنٌ یعنی کسی چیز کا نام دوسری چیز پر جو اس کی اکثر خواص اور صفات میں مشابہت رکھے اطلاق کرنا جائز اور مستحسن ہے۔(تفسیر کبیر امام رازی،زیر آیت سورة آل عمران (3) : آية 55۔ وَالْوَجْهُ السَّابِعُ)
پس ان حوالہ جات سے واضح ہوا کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے اگر اپنی کتب میں ظلی یا تابع نبی کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں تو آپؑ سے قبل بزرگان امت نے بھی انہی معنوں میں ان الفاظ کو استعمال کیا ہوا ہے۔ گو یہاں واضح ہو کہ اگر پہلے بزرگوں نے یہ اصطلاحیں استعمال نہ بھی کی ہوتیں تب بھی حضرت مسیح موعودؑ پر کوئی اعتراض نہ ہوتا کیونکہ آپ کی حیثیت رسول کریمﷺ کی پیشگوئی کے مطابق حکم اورعدل کی ہے اور آپ مامور من اللہ تھے۔ لہٰذا بزرگان امت کا ان اصطلاحوں کا انہی معنوں میں استعمال کرنے کے حوالہ جات دکھانےسے ہمارا مقصد مخالفین کے سامنے اتمام حجت کرنا ہے۔
اصل بات یہی ہے کہ یہ سب محبت و عشق کی باتیں ہیںاور یہی مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ آپ اپنے آقا کی ذات میں ایسے فنا ہوئے کہ فرمایا’’خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دئیے۔ سو میں ان معنوں کے رو سے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمدمہدی بھی۔اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں۔ سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں۔ بروز عیسیٰؑ اور بروز محمدؐ۔‘‘(ضمیمہ رسالہ جہاد۔روحانی خزائن جلد 17صفحہ 28)
ظل اور بروز سے بڑھ کر’’عین‘‘ کی اصطلاح
اسلامی لٹریچر میں تو بروز سے آگے بڑھ کر عین کی اصطلاح بھی موجود ہے،اور ایسے بزرگ موجود ہیں جن کواس قسم کی آیات کا حقیقی عرفان معلوم تھا اور وہ ان آیات کے اسرار الٰہیہ سے آشنا تھے۔جو خدا کے رنگ میں رنگین تھے۔صِبْغَةَ اللّٰهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً۔ (البقرہ:139) اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ مىں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے۔ اور وہ لوگ جو قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِأَيْدِيكُمْ۔ (التوبة :14) ان سے لڑائى کرو اللہ انہىں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا کی حقیقت کو صحیح معنوں میں جانتے تھے۔اسی طرح وہ لوگ جو جانتے تھے کہ بدر کے میدان میں مخالفین کو اگرچہ قتل مجاہدین اسلام نے کیا،البتہ نصرت خداوندی حقیقت تھی:فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ (الأَنْفال: 18) پس تم نے انہىں قتل نہىں کىا بلکہ اللہ ہے جس نے انہىں قتل کىا ہےاورنیز فرمایا قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِأَيْدِيكُم ْان سے لڑائى کرو اللہ انہىں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا (التوبہ: 14) اور اس ’’عین‘‘والے مضمون میں بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ہمارے آقا حضرت محمدمصطفیﷺ جب خدا کی ذات میں فنا ہوکر’’فنا فی اللہ ‘‘کے مقام پر پہنچے تو مخاطب بجائے خدا کے بندو کرکے کہنے کے،اے میرے بندو سے بھی کیا گیا قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ۔ (الزمر:54) تُو کہہ دے کہ اے مىرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زىادتى کى ہے اللہ کى رحمت سے ماىوس نہ ہو ىقىناً اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے ىقىناً وہى بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہےاسی طرح میدان بدر میں رسول اللہﷺ کی کنکریوں کی مٹھی کفار مکہ پر پھینکنے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّٰهَ رَمَى(الأَنْفال 18)کہ اے نبیؐ! جب تم نے وہ کنکر پھینکے تو تُو نے نہیں بلکہ اللہ نےوہ کنکر پھینکے۔یعنی اس خدائی قدرت کی تاثیر سے کفار کا ایک ہزار کا لشکر جرارپسپا ہوگیا۔اسی طرح رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر صلح حدیبیہ کے واقعہ میں، بیعت رضوان کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللّٰهَ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ۔ (الفتح: 11) ىقىناً وہ لوگ جو تىرى بىعت کرتے ہىں وہ اللہ ہى کى بىعت کرتے ہىں اللہ کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھ پر ہےگویا خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے۔کیونکہ اس بیعت میں وہ خدا کی خاطر اپنے جان،مال پیش کرتے ہیں۔اس قسم کے فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول وجودوں کے متعلق ان سے عقیدت رکھنے والوں نے ’’عین ‘‘تک کے الفاظ لکھے ہیں۔
اصل بات یہی ہے کہ یہ سب محبت و عشق کی باتیں ہیں۔اور یہی مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ آپ اپنے آقا کی ذات میں ایسے فنا ہوئے کہ فرمایا’’من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی‘‘(ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد18صفحہ214)یعنی میں تو اور تو میں ہوگیا۔میں جسم اور تو جان ہوگیا۔
چنانچہ حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ چونکہ قطب زمانہ تھے،اس لیے آپ کوعین رسول اللہ کہا گیا۔چنانچہ بحرالعلوم میںمولوی عبدالعلی مثنوی مولانا روم کے شعر
گفت زیں سو بوئے یارے میرسدک
اندریں وہ شہر یارے میرسد
کی شرح میں فرماتے ہیں:’’ابویزید قدّس سرہ قطب الاقطاب بودوقطب نمی باشدمگر برقلب آن سرورﷺ پس بایزید قلب آں سرورﷺ وعین آں سرورﷺ بود :یعنی حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ قطب زمانہ تھے اس لئے آپ عین رسول علیہ السلام تھے۔کیونکہ قطب وہی ہوتا ہے جو محمد مصطفیﷺ کےدل پر رہتا ہو،اور جو بھی کسی کے دل پر ہووہ اس کا عین ہوتا ہے۔اور حضرت بایزید بسطامی عین رسول اللہ ﷺ تھے۔ (شرح مثنوی۔دفتر چہارم صفحہ 51)
اور یہی مقام ’’عین‘‘ہے جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ان سے کسی نے پوچھا کہ عرش کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں پوچھا کرسی کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں۔ پوچھا لوح کیا ہے ؟ فرمایا میں ہوں۔ پوچھا کہتے ہیں ابراہیم موسیٰ اور محمد صلعم اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں فرمایا میں ہوں۔‘‘(تذکرۃ الاولیاء اردو باب نمبر۱۴ صفحہ ۱۲۸ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز)
٭اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ ؒ صاحب امت محمدیہؐ میں آنے والے مسیح کی شان میں لکھتے ہیں کہ ’’وَحَقٌ لَّہٗ اَنْ یَنْعَکِسَ فِیْہِ اَنْوَارُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَﷺ وَیَزْعَمُ الْعَامَۃُ اَنَّہٗ اِذَا نَزَلَ اِلَی الْاَرْضِ کَانَ وَاحِدًا مِنَ الْاُمَّۃِ کَلَّا بَلْ ھُوَ شَرْحٌ لِلاسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِیِّ وَنُسْخَۃٌ مُنْتَسَخَۃٌ مِنْہُ ‘‘(الخیر الکثیر صفحہ۷۲ مطبوعہ مدینہ پریس بجنور)یعنی آنے والے مسیح موعود کا یہ حق ہے کہ اس میں سید المرسلینﷺ کے انوار کا عکس ہوعام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب وہ دنیا میں آئے گا تو وہ محض ایک امتی ہوگا ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہوگا اور اس کا دوسرا نسخہ (True Copy)ہوگا پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہوگا۔
(باقی آئندہ)