سیرت خلفائے کرام

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا مباہلہ کے چیلنج کا ایک نئے رنگ میں اعادہ اور اس کے نتائج و ثمرات (قسط نمبر 3)

(نصیر احمد قمر۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت))

قسط نمبر 3 (آخری)

اس سال (1997ء) دنیا بھر میں متعدد مقامات پر ایسے بہت سے عبرت انگیز واقعات رونما ہوئے جنہوں نے اسلام احمدیت کی صداقت اور معاندین کے جھوٹا ہونے اوران کے خدا کی لعنت کا مورد ہونے پر گواہی دی۔ ذیل میں ایسے چند ایک مزید واقعات درج کئے جاتے ہیں۔

٭ مکرم مرزا نصیر احمد صاحب مبلغ سری لنکا نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں اپنے خط محررہ 30؍ جون 1997ء میں جماعت پسیالہ (Pasyala) میں معاندین جماعت پر الٰہی گرفت کے دو نہایت ایمان افروز واقعات کی تفصیلات بھجواتے ہوئے لکھا کہ:

ایک واقعہ تو یہ ہے کہ ہمارا ایک احمدی نوجوان نصیر احمد نامی وہاں کی غیر احمدی مسجد کے پاس سے گزررہا تھا جس کی چھت پر ایک غیر احمدی نوجوان بجلی کا کوئی کام کررہا تھا۔ ہمارے احمدی نوجوان کو وہاں کھڑے اس کے ایک غیر احمدی واقف کار نے باتوں میں لگا لیا جو راستہ میں کھڑا تھا۔ ان دونوں کو باتوں میں مصروف پا کر اوپر والا نوجوان مشتعل ہو گیا اور اس نے بدکلامی شروع کر دی اور پھر اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ نیچے اتر آیا اور اس ہمارے احمدی نوجوان سے الجھنا چاہا۔ نیز اس کو کہنے لگا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہاں ہم نے لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ کوئی قادیانی یہاں سے نہ گزرے۔ اس پر ہمارا احمدی نوجوان وہاں سے پیچھے ہٹ آیا۔ جیسے ہی وہ وہاں سے لوٹا غیر احمدی لڑکا چھت پر چلا گیا اور بجلی کے کام میں مصروف ہو گیا۔ بجلی کی ایک تار پر سے ربڑ اتارنے کے لئے اس نے اس کو دانتوں سے چبایا مگر اس میں کرنٹ تھا۔ چنانچہ وہ جھٹکا کھا کر فورًا نیچے گرا اور گرتے ہی بیہوش ہو گیا۔ ہمارے احمدی نوجوان نے اس کو فاصلہ سے دیکھا کہ لوگوں نے اس کو اٹھایا اور پھر ہسپتال لے گئے۔ دو دن وہ وہاں رہا اور اس کے بعد اب وہ واپس آ گیاہے۔ مگر اب وہ بالکل خاموش ہے۔ اس کے بعد وہ پھر نہیں بولا۔

دوسرا واقعہ یوں ہے کہ چند سال پیشتر پسیالہ کے بعض غیر احمدیوں نے ہماری جماعت کی لائبریری کو آگ لگا دی تھی۔ آگ لگانے والوںمیں اس جگہ کے پانچ چھ مجرم پیشہ لوگ پیش پیش تھے۔ گزشتہ دنوں جماعت نے اس کی renovationکی تو کسی شخص نے اس پر نہایت ہی نازیبا الفاظ لکھ دیئے کہ یہاں خنزیر کا گوشت بِکتا ہے۔

مذکورہ 6؍ افراد جو جرائم پیشہ تھے یہ ابھی گاؤں میں ہی تھے اور ہمارے احمدیوں کو دھمکیاں دیتے رہتے تھے۔ ان الفاظ کے لکھے جانے کے بعد ایک دو روز کے اندر اندر ہی ان سب کو پولیس پکڑ کر لے گئی کیونکہ یہ لوگ بعض اور جرائم میں پولیس کو مطلوب تھے۔ اب یہ سب جیل میں ہیں۔ اور جماعت کے احباب کا گمان ہے کہ ان لوگوں کے علاوہ اور کسی کو اس گاؤں میں جرأت نہیں ہو سکتی کہ وہ اس قسم کے گندے کلمات ہماری لائبریری پر لکھ سکیں۔

مذکورہ بالا دونوں واقعات ایک دو ہفتوں کے اندر اندر رونما ہوئے۔

٭ ابوظہبی میں ایک شخص ڈاکٹر اقبال محمد خان کی عبرتناک موت بھی ایک نشان کا رنگ رکھتی ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے جماعت کے خلاف ایک کتاب Two in One کا عربی ترجمہ کیا تھا۔ اس کی موت ایک گٹر میں گر کر ہوئی۔ مذکورہ کتاب کے عربی ترجمہ کے آخری صفحہ پر جلی حروف میں ’جھوٹوں پر خدا کی لعنت‘ کے الفاظ لکھے گئے تھے۔ اِس شخص کی گٹر میں ہلاکت اور غلاظت کے ڈھیر میں سے سول ڈیفنس والوں کا اس کی body کو نکالنا خدا کی لعنت کی مار ہی تو تھی۔

٭ مکرم نذیر احمد صاحب خادم بہاولنگر (پاکستان) سے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں اپنے خط محررہ 19؍ اگست 1997ء میں لکھتے ہیں کہ چک 168 مراد ضلع بہاولنگر کا ایک شخص منیر کمبوہ کچھ عرصہ پہلے جگہ جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں یہ گستاخانہ بات دہراتا رہتا تھا کہ حضور نعوذ باللہ ’’ٹٹّی خانے میں مرے‘‘۔ …کچھ عرصہ قبل وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کراچی گیا۔ کراچی سے واپسی پر راستہ میں 3؍ اگست 1997ء کو بہاولپور شہر کے لاری اڈہ (بس سٹینڈ) پر گھر آنے کے لئے بس کے انتظار میں یہ لوگ بیٹھے تھے کہ اچانک منیر کمبوہ نے کہا کہ میرے پیٹ میں تکلیف ہے۔ یہ کہہ کر وہ لاری اڈہ کی لیٹرین کے اندر چلا گیا۔ کوئی بیس پچیس منٹ کے انتظار کے بعد اس کے ساتھیوں نے گھبرا کر پہلے اسے آوازیں دیں۔ جب جواب نہ ملا تو زور زور سے دروازہ پیٹا۔ پھر بھی جواب نہ آیا تو لاری اڈہ والوں سے بات کر کے دروازہ توڑا تو دیکھا کہ منیر کمبوہ ٹٹّی خانہ کے اندر ننگ دھڑنگ مردہ حالت میں پڑا ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھی اس بدبخت کی لاش اس کے گھر لائے جس سے گھر والوں میں کہرام مچ گیا اور یوں 30-32 سالہ نوجوان سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا قہری نشانِ عبرت بن کر خس کم جہاں پاک ہوا۔

٭ سندھ کا ایک ملّاں میاں حمادی افراد جماعت کے خلاف نہایت ظالمانہ کارروائیوں میں پیش پیش رہتا تھا۔ اس کا ایک ساتھی ایڈووکیٹ حشمت حبیب احمدیوں کے خلاف میاں حمادی کے قائم کردہ جھوٹے مقدمات میں اس کی طرف سے پیش ہوتا تھا اور جماعت کے خلاف نہایت گندی بکواس کرتا تھا۔ ستمبر 1997ء کے آغاز میں اس کی بیٹی Huzaima کی پُر اسرار موت کی ایک نہایت عبرتناک کہانی اخبارات میں شائع ہوئی۔

٭ مکرم نذیر احمد باجوہ صاحب نے ساہیوال (پاکستان) سے لکھا:

ہمارے ضلع میں ایک نہایت بدباطن شخص جو احمدیت کا سخت معاند تھا اور طرح طرح سے احمدیوں کو ستایا کرتا تھا اس نے چک 6/11.L میں بلاوجہ احمدیوں سے لڑائی کی اور فائرنگ کر کے ایک احمدی صوفی ثناء اللہ صاحب کو شدید زخمی کر دیا اور ان کی ٹانگ بھی ضائع ہو گئی۔ اور بھی کئی قسم کے مقدمات احمدیوں پر ناحق بنائے۔ وہ اپنی شرارتوں میں بہت بڑھ گیا تھا۔ خدا تعالیٰ کا غضب اس پر پڑا۔ مورخہ 12؍ اکتوبر 1997ء کو وہ اپنے رقبہ میں پُلی بنوا رہا تھا۔ اس کے بیٹے نے کہا کہ پُلی اونچی ہے۔ اوپر بجلی کے تار ہیں۔ ٹرالی نہیں گزرے گی۔ اس معاند احمدیت کا نام یوسف بھُلر تھا۔ اس کے ہاتھ میں لمبائی ناپنے کا لوہے کا فیتہ تھا۔ اس نے فیتہ کا بٹن دبایا اور وہ فیتہ تیزی سے نکل کر اوپر گیا اور ہائی وولٹیج بجلی کی تاروں سے ٹکرایا۔ ایک سخت دھماکہ ہوا اور اس کو بہت سخت شاک لگا۔ فورًا اس کے منہ، سر، داڑھی اور کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ وہ بری طرح جھلس گیا اور بیہوش ہو گیا۔ اسے فورًا ساہیوال ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور اسے لاہور لے گئے مگر وہ جانبر نہ ہو سکا اور نہایت ذلّت کی موت مرا۔ یہ واقعہ چک نمبر 6/11-L میں ہوا۔

٭ حضور رحمہ اللہ نے حج کے موقع پر لگنے والی آگ کے جس واقعہ کا ذکر اپنے خطاب میں فرمایا ہے (جس کا ذکر گزشتہ قسط میں ہوچکا ہے) اس بارہ میں ڈیر غازی خان سے ایک نَو احمدی دوست گُل محمد ولد محمد رمضان طارق صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں (گُل محمد ولد محمد رمضان طارق) مورخہ 30؍ اپریل 1997ء کو ایک مجلس میں موجود تھا۔ مکرم حاجی محمد صاحب حج سے واپسی کے بعد اپنے احباب کو وہاں کے واقعات سنا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میں وہاں موجود تھا جب مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد اوچ شریف کے پیر صاحب کے مرید اکٹھے ہوئے جن کی تعداد تقریبًا بارہ تھی۔ سب نے مل کر غلافِ کعبہ کو پکڑ کر یہ بددعا کی کہ اے خدا اگر قادیانی سچے ہیں تو ہمیں اور اگر ہم سچے ہیں تو ان قادیانیوں کو تباہ برباد کر۔ اگلے دن ان کی اس مسلسل دعا کے نتیجہ میں منٰی کے خیموں میں آگ لگ گئی۔ بہت سے خیمے جل گئے لیکن ایک خیمہ بچ گیا جس کے بارہ میں معلوم ہوا کہ یہ احمدیوں کا خیمہ ہے جن کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ ان آدمیوں کے سوا سینکڑوں لوگ اور بھی وہاں موجود تھے۔

مکرم گُل محمد صاحب نے مذکورہ حاجی صاحب سے یہ واقعہ سننے کے بعد احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی۔

٭ مکرم جہانگیر محمد جوئیہ صاحب ایڈووکیٹ خوشاب حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں لکھتے ہیں کہ مورخہ 6؍ مئی 1997ء کو چوہدری محمد اشرف مارتھSSP ضلع گوجرانوالہ جو چوہدری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی کا بہنوئی ہے نامعلوم اشخاص کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس دور کا ایک لیکھو اپنے برے انجام کو پہنچا ہے۔ اور حضور کی بات بڑی شان سے نشان بن گئی ہے کہ 1997ء لیکھراموں کی ہلاکت کا سال ہے۔

1974ء میں اشرف مارتھ خوشاب میں SHO تھا۔ اس کی پشت پناہی میں احمدیوں کے خلاف جلوس نکلتے تھے۔ اس نے علی الاعلان کہا کہ احمدیوں کا بائیکاٹ کرو۔ نیز احمدیہ مسجد جلانے پر لوگوں کو اکسایا۔ اس نے بہت سے احمدیوں پر ناجائز مقدمات قائم کروائے اور انہیں تشدّد کا نشانہ بنایا۔ 1986ء میں اشرف مارتھ SPسرگودھا ہوا اور کلمہ طیّبہ کی مہم کے خلاف سرگرمِ عمل رہا۔ مولوی اکرم طوفانی کی پشت پناہی کر کے کئی احمدیوں پر ظلم روا رکھا۔ گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں اور جیلوں میں بھی ڈالاگیا جہاں سخت مارا پیٹا گیا۔ سرگودھا اور خوشاب کے لاتعداد احمدیوں پر اس ظالم نے بہت ظلم توڑے۔ عجیب قدرت کا کرشمہ ہے جس نے ہمیں ظالم لیکھو کے انجام کا نظارہ دکھایا ہے۔ خدا کے خلیفۃ المسیح کی دعا ہے جس سے یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے۔

حضور رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یُو کے 1997ء کے موقع پر دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب میں پاکستان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’اب مَیں عمومی طور پر پاکستان کے وہ حالات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اس مباہلے کے سال کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں اور ہرشخص جو ذرا سی بھی ہوش رکھتا ہو اور انصاف رکھتا ہو وہ یقیناً کہے گا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے جو مباہلے کا چیلنج تھا وہ روزروشن کی طرح سچا ثابت ہوا ہے اور اس ملک پر مولویوں نے جو وبا ڈالی ہے وہ خود ان پر آپڑی ہے اور ساراملک اس وقت تباہی اور انتشار کا شکار ہوچکا ہے۔ مباہلے کے متعلق مَیں نے عرض کیا تھا کہ مولویوں پر یہ وبا پڑنے والی ہے وہ مارے جائیں گے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مخالفتیں کریں گے۔ وہ تتّربتّر ہوجائیں گے۔ اُن کی جمیعت کے دعوے جھوٹے نکلیں گے اور خداتعالیٰ کی طرف سے یہ پکڑ کا عمومی عذاب ہے جو اُن پر آنے والا ہے۔

اب پاکستان کی خبریں سنیے۔ اس عرصے میں یعنی گزشتہ چندماہ میں، مباہلے کے اعلان کے بعد، قتل ہونے والے مولویوں کی تعداد طبعی موت مرنے والے مولویوں سے بڑھ گئی۔ 55مولوی اس عرصے میں قتل ہوئے ہیں اور صرف 41طبعی موت مرے ہیں۔ اب آنکھیں نہیں ہیں ان کے پاس جو یہ دیکھ سکیں اور پہچان سکیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔

ملک سے جو امن اٹھ چکا ہے اُس کا حال اب یہ ہے کہ مباہلہ کے اس عرصے میں 2,644 افراد دہشتگردی اوربم کے دھماکوں سے مارے گئے ہیں۔ حادثوں کی تعداد میں بےانتہا اضافہ ہوا ہے، گینگ ریپ (Gang Rape) جو ان کے اسلام کی نشانی بن چکا ہے وہ 292واقعات ہوئے ہیں کہ اسلامی ملک کہلانے والے پاکستان میں جس کو مولوی پلیدستان کہا کرتے تھے واقعتاًان مولویوں نے اسے پلیدستان بناکر چھوڑا ہے اور اس وقت اس تعداد میں گینگ ریپ ہورہے ہیں جو انسان تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کیسی ظالمانہ اور سفّاکانہ کارروائی ہے۔ عورتوں اور بچوں کے اغواء کی جو رپورٹس درج ہوئی ہیں وہ ساری نہیں ہیں، اکثر رپورٹیں پولیس تھانے پہ جانے سے پہلے دباؤ کے نیچے واپس لے لی جاتی ہیں اور جو تھانوں میں پہنچتی ہیں وہاں مخالفین کا دباؤ پڑتا ہے اور تھانوں سے واپس کردی جاتی ہیں۔ مگر 314رپورٹیں ایسی ہیں جو بچوں اور عورتوں کے اغوا پر مشتمل ہیں۔ ڈکیتی کا معاملہ کلیةً ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ آئے دن اس کثرت کے ساتھ ملک کی گلی گلی میں، سڑک سڑک پر ڈکیتی ہورہی ہے کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اُس کی جان کس ڈاکو کے ہاتھ میں ہے اور اُس کا مال ودولت کس سڑک پر برباد ہوگا۔ اس سلسلے میں مَیں مشیرقانون خالد انور کا یہ بیان آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور یہی بیان مباہلے کی کامیابی کے حق میں بہت کافی سمجھا جانا چاہئے۔

اخبار ہفت روزہ Nation میں 23تا 29مئی کے واقعات کے متعلق یہ بیان ملتا ہے۔

’’گزشتہ چارسال میں مذہبی دہشت گردی میں اتنے لوگ نہیں مارے گئے جتنے کہ97ء کے پہلے چارماہ میں ہلاک ہوئے۔‘‘

مباہلے کے بعد پہلے چارماہ میں مذہبی دہشتگردی کے نتیجے میں مارے جانے والوں کی تعداد گزشتہ چارسال میں دہشت گردی کے نتیجے میں مارے جانے والوں سے زیادہ تھی۔

وزیراعظم پاکستان کا بیان ہے کہ:

’’فرقہ واریت کا معاملہ اب ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔‘‘

ہفت روزہ اخبار Nationنے لکھا ہے

The week that was death and devastation

اس سلسلے میں وہ اُس ہفتے کی تباہی اور بربادی کی داستان لکھتے ہیں۔

یہ تو اُس ملک کا حال ہے جس نے احمدیت کو اپنے وطن سے کینسر کی طرح اکھاڑ کر باہر پھینکنے کا دعویٰ کیا تھا اور احمدیت کو نکال دینے کے بعد وہ سمجھے تھے کہ اب یہ ملک پاک ہوگیا ہے۔ جس رنگ میں یہ پاک ہوا ہے یہ آپ لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر اسی کا نام پاکبازی ہے، یہی اسلام ہے تو اس پاکبازی اور اس اسلام سے ہماری توبہ۔ ہم غیرمسلم کہلانے والے ان کے اس اسلام سے بہت بہتر ہیں اور الله تعالیٰ کے فضل سے دُنیا بھرمیں اعلائے کلمة الله کر رہے ہیں اور کثرت کے ساتھ وہ لوگ جو پہلے توحید کے دشمن تھے وہ توحید کے عاشق بنتے چلے جارہے ہیں اور یہ ساری توفیق جماعت احمدیہ کو اس سال پہلے سے بہت بڑھ کر نصیب ہوئی ہے۔

جن لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا،مساجد میں اعلان کیا تھا کہ احمدیت کی بربادی اور اپنے ایک جان ہونے کے لئے دعائیں کریں اُن کا یہ حال ہے کہ ہیلی فیکس کی جامعہ مسجد میں ہنگامہ آرائی ہوئی۔ کمیٹیاں بٹ گئیں۔ ایک دوسرے پر گالی گلوچ ہوئی۔ بوٹوں سمیت پولیس ان مسجدوں میں گھستی رہی اور مسجد میں گالی گلوچ کا اتنا شور پڑا کہ کہتے ہیں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ اخباروں میں جو خبریں شائع ہوئیں اُن میں لکھا ہےمسلم سنّی کمیونٹی دودھڑوں میں بٹ گئی۔ اور جھگڑا کس بات کا تھا؟ یورپین کمیونٹی کی وجہ سے پچاسی ہزارپاؤنڈ کی گرانٹ ملی تھی اور یہ دونوں فریق وہ گرانٹ ہتھیانا چاہتے تھے۔ جس طرح ہڈی کُتّے کو پھینکی جاتی ہے اور کُتّے لڑتے ہیں اس طرح یہ لوگ اس پچاسی ہزارپاؤنڈ کے اوپر لڑتے پھرتے ہیں اور جانیں دیتے پھرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو موت کی دھمکیاں دی گئیں۔ پولیس کی حفاظت میں نمازیں ادا کی جانے لگیں۔

اور جہاں تک قاضی حسین احمد کے لغو دعووں کا تعلق ہے…۔ حیدرفاروق مودودی صاحب نے لکھا ہے:
’قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے لئے کینسر ہیں‘“

پس وہ لفظ جو ہمارے متعلق بولا کرتے تھے اب یہ ایک دوسرے کے متعلق صحیح طور پر بولنے لگے ہیں۔

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی ذلّت و نکبت کی مثالیں بیان کرنے کے بعد جماعت احمدیہ پر اس سال میں جو برکتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئیں ان کا بھی اجمالی طور پر ذکر فرمایا۔ حضورؒ نے فرمایا:

’’اس مباہلے کے سال جماعت احمدیہ کو جو کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں… اب مَیں اُن کامیابیوں کا حال آپ کے سامنے مختصر رپورٹ کے طور پر پیش کرتا ہوں…۔

خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس وقت تک دُنیا کے 153ممالک میں احمدیت پھیل چکی ہے۔کروشیا میں بھی امسال احمدیت کا پودا نصب ہوا ہے اور اُن کے نمائندے یہاں خصوصیت کے ساتھ اس لئے تشریف لائے ہیں کہ وہ بطور پہلے احمدی اور کروشیا ملک کے نمائندے کے طور پر اس جلسے میں شرکت کریں۔

الله تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مشنوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ جماعت جرمنی کو الله تعالیٰ نے یہ خصوصیت کے ساتھ سعادت نصیب کی کہ ان کے سپرد جو ممالک لگائے گئے تھے کہ آپ نے وہاں احمدیت کا پودا نصب کرنا ہے وہاں اُنہوں نے غیرمعمولی طور پر خدمت سرانجام دی اور بہت سے ممالک میں اب احمدیت باقاعدہ احمدی مسلم مشن کے طور پر رجسٹر ہوچکی ہے۔ اب یہ جرمن جماعت ہی کی کوشش تھی کہ یہ چھٹاملک جو پہلے احمدی نہیں تھا اب خدا کے فضل سے احمدی ملک کہلا رہا ہے۔ اس سے پہلے جرمنی جماعت جن ممالک میں خدا کے فضل سے بڑی زور اور مضبوطی کے ساتھ احمدیت کو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے اُس میں بلغاریہ ہے، بوسنیا ہے، رومانیہ ہے، سلووینیا ہے، میسیڈونیا (اور مقدونیا بھی اس کو کہتے ہیں) ان ممالک میں جماعت جرمنی نے خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمہ وقت محنت اور کوشش کے بعد آخر احمدیت کا پودا باقاعدہ مقامی طور پر اس طرح گاڑ دیا ہے کہ وہ ایک تناور درخت بن رہا ہے اور بڑی تیزی سے اُن علاقوں میں اُس تناور درخت کی شاخیں پھیلتی چلی جارہی ہیں…۔

جماعت احمدیہ امریکہ کو مالی طورپر غیرمعمولی کامیابیاں نصیب ہوئیں اور بہت سے امور میں وہ تمام دُنیا کی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ گیا اور ایسے ایسے بجٹ میں اضافہ ہوا ہے کہ خود اُن کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے…۔

_ …تمام دنیا میں نئی جماعتوں کے قیام کے لئے ایک پروگرام تھا۔ الله تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئے مقامات جن پر نئی جماعتیں قائم ہوچکی ہیں اور پوری طرح مستعد جماعتیں قائم ہوگئی ہیں وہ 2,236ہیں جو اس سال میں ہمیں نصیب ہوئی ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہاں احمدیت کی ہلاکت کی یہ خبریں، کہاں یہ کہ احمدیت پر ذلّت کی مار پڑے گی، لوگ پوچھا کریں گے کہ احمدیت کہاں گئی؟ کہاں خداتعالیٰ کے ایسے فضل کہ نئی جماعتیں جو نصیب ہوئی ہیں وہ 2,236ہیں۔یہ نئے مقامات ہیں جہاں جماعتیں قائم ہوئیں لیکن نظام جماعت ان میں سے 1,576 میں باقاعدہ مستحکم طور پر کام کر رہا ہے…۔

اپریل 84ء سے لے کر اب تک یعنی دَورِہجرت میں پاکستان کے علاوہ جماعتوں کی تعداد میں 9,035 کا اضافہ ہوا ہے۔ اور سال رواں میں خداتعالیٰ کے فضل سے جن ملکوں کو نمایاں خدمت کی توفیق ملی ہے ان میں پہلی مرتبہ تمام دُنیا کے مقابلوں میں بھارت نمبرایک ہے…۔…بورکینافاسو نمبر2ہے۔ جہاں الله تعالیٰ کے فضل سے 333مقامات پر احمدیت کا پودا نصب ہوا ہے۔ اور آئیوری کوسٹ تیسرے نمبر پر ہے۔ چہارم گیمبیا ہے جہاں خداتعالیٰ کے فضل سے 231نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اور پنجم گھانا ہے…۔

…مساجد کی تعداد میں الله تعالیٰ کے فضل سے نئی تعمیر ہونے والی مساجد 106ہیں اور وہ مساجد جو بنی بنائی نمازیوں سمیت جماعت کو ملی ہیں اُن کی تعداد 809ہے۔ غرضیکہ امسال 915مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مساجد پر کیسے کیسے ظلم ہورہے ہیں۔ یہ اُن مساجد کی آہیں ہیں جو ہمیں یہاں الله کی طرف سے باران رحمت کے طور پر نصیب ہورہی ہیں۔

84ء سے لے کر اب تک ان ہجرت کے 13سالوں میں انہوں نے پاکستان میں کئی احمدی مساجد شہید کیں، کئیوں کو نمازیوں سے خالی کرادیا۔ یعنی شہید نہ بھی ہوئیں تو انہیں اپنی طرف سے بے رونق کردیا۔ وہاں کوئی خدا کی عبادت کرنے والا نہیں جاتا کیونکہ اُن مساجد پہ تالے پڑے ہیں۔ ان سب کو اگر ہم شمار کریں تو تمام مساجد ملاکر تیس، چالیس سے زیادہ نہیں ہوں گی۔ اس سے بہت زیادہ ہوتیں اگر احمدی میری صبر کی تعلیم کے معاملے میں مسجد کے معاملے میں اتنے زیادہ حساس نہ ہوتے۔ مَیں اگرچہ ان کو صبر ہی کی تلقین کرتا ہوں اور یہی میراکام ہے لیکن مسجد کو اپنے سامنے اجڑتے یا غیروں کے ہاتھ میں جاتا دیکھنا وہ برداشت نہیں کرسکتے اور اپنی جان مال سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ جماعت اُن کو صبر کی تلقین کرتی رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں صبر چھوڑو اب ہم سے صبر نہیں ہو تا۔ ہم مسجد کو خدا کا گھر بناکے رکھیں گے اور اس کو ویران نہیں ہونے دیں گے۔ یہ وجہ ہے کہ حکومت نے مسجد کے معاملے میں تمام کارندوں کو ہدایت دے رکھی ہے کہ احمدیوں کی مسجد کے زیادہ قریب نہ جانا پھر جو تمہیں خطرہ ہوگا تم اُس کے ذمہ دار ہوگے۔ اس سے پہلے ساہیوال میں جو واقعہ گزر چکا ہے وہ بھی ان کے سامنے نشان ہے۔ پس یہ وجہ ہے کہ جماعت کو خداتعالیٰ کے فضل سے اپنی اکثر مسجدوں پہ قبضہ نصیب ہے اور جو مسجدیں ہاتھ سے نکلی ہیں وہ نہایت بے بسی کی حالت میں نکلی ہیں۔ پولیس فورس کے غیرمعمولی اجتماع کی وجہ سے ہاتھوں سے نکلی ہیں۔

اُن چندمساجد کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد الله تعالیٰ نے 84ء سے اب تک ہمیں 5,045 نئی مساجد دُنیا میں عطا کی ہیں۔ لیکن الله کی یہ شان ہے کہ محض اینٹ گارے کی مساجد عطا نہیں ہوئیں۔ کچھ تو ہم نے بنائیں۔ لیکن اکثرمساجد جن کی تعداد 4,236ہے اپنے سارے نمازیوں سمیت احمدی ہوئی ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ تمام تر گاؤں جن میں وہ مساجد تھیں کلیةً احمدی ہوگئے اور اس طرح خداتعالیٰ نے اپنے فضلوں کی بارش آسمان سے برسائی ہے جس کا شکریہ ادا کرنے کی ہمیں توفیق مل ہی نہیں سکتی کیونکہ بارش کے کتنے قطروں کا آپ شکریہ ادا کریں گے، یہاں تو ایک ایک قطرہ ایسا ہے جو اُس کے فضل نے دریا بنا دیا ہے۔‘‘

حضور رحمہ اللہ نے اس سال اللہ تعالیٰ کے افضال اور اس کی طرف سے عطا ہونے والی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

جب مَیں پاکستان سے روانہ ہوا ہوں اُس وقت 72ممالک میں تبلیغی مراکز تھے اور 84ء میں اُن کی تعداد 287تھی۔ اب خدا کے فضل سے تبلیغی مراکز جن کو ہم مشن ہاؤس بھی کہتے ہیں اُن کی تعداد 602 ہوچکی ہے۔ مگر یہ مراکز بہت بڑے بڑے ہیں۔ اُس سے پہلے ہم جن مسجدوں کو مسجدوں کے طور پر پیش کیا کرتے تھے یا جن مراکز کو مراکز کے طور پر پیش کیا کرتے تھے وہ اتنے چھوٹے تھے کہ وہ ایک ہی مسجد میں بیسیوں ایسے مراکز داخل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جرمنی ہی میں خدا کے فضل سے اب اتنے بڑے بڑے مشن ہاؤس بن چکے ہیں کہ اُن میں پرانے مشن ہاؤس کئی کونوں کھتروں میں وہ سمائے جاسکتے ہیں۔ افریقہ میں بھی اسی طرح نئے مراکز کا اضافہ ہوا…‘‘۔

حضور رحمہ اللہ نے امریکہ میں بھی بعض بڑے وسیع مراکز اور مساجد کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ:

’’اپریل 82 ء تک اُن کے تبلیغی مراکز کی تعداد آٹھ تھی اور وہ سارے مراکز چھوٹے چھوٹے تھے…۔اب 8کی بجائے 35 نئے مشن ہاؤسز اور مساجد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ گویا 61سال میں تو کُل8مساجد اور مشن ہاؤس ملے تھے اور اب ہجرت کے سالوں میں 27نئے مشن ہاؤس اور مساجد مل چکے ہیں…۔

…کینیڈا میں بھی اسی طرح خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئے نئے مشن ہاؤس بہت وسیع جگہیں عطا ہورہی ہیں…۔

…یورپین تبلیغی مراکز میں جو اضافہ ہوا ہے اور ہورہا ہے الله کے فضل کے ساتھ وہ اتنا زیادہ ہے کہ اُن کی تفصیل کو مَیں چھوڑتا ہوں۔

ایشین ممالک میں جو افریقہ اور یورپ کے علاوہ ہیں اُن میں بھی خدا کے فضل سے تبلیغی مراکز میں اضافہ ہورہا ہے اور جگہ جگہ نئی مساجد کی زمینیں خریدی جارہی ہیں، چودہ تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوچکا ہے۔ کُل ایشیا میں اس وقت 222تبلیغی مراکز قائم ہوچکے ہیں۔ 17قطعات برائے زمین مساجد و تعمیر مراکز حاصل کرلئے گئے ہیں۔ انڈونیشیا میں بھی خدا کے فضل کے ساتھ بہت بڑے بڑے تبلیغی منصوبے ہیں…۔

…اس وقت ہمارے کُل مبلّغ اور معلّم جو کام کررہے ہیں اُن کی تعداد962ہے اور 13سال پہلے ان کی تعداد 366تھی۔ یہ 962مبلغین ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو چیلنج دے رکھا ہے۔ ‘‘

حضور رحمہ اللہ نے دعوت الی اللہ کے ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ :

’’مولویوں کی جو تعلّیاں تھیں وہ آپ نے سُن لیں، یہ کہتے تھے اس مباہلے کے سال میں احمدیت کا نشان دنیا سے مٹ جائے گا۔ گزشتہ سال الله تعالیٰ کے فضل سے ہمیں سولہ لاکھ بیعتوں کی توفیق ملی تھی اور مَیں نے وہیں یہ اعلان کیا تھا کہ دُعا کریں تو اگلاسال تین ملین کا سال بن جائے جو دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہوگا۔ کبھی دنیا کی آنکھ نے یہ نظارہ نہیں دیکھا کہ کسی ایک مذہب میں خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ تین ملین انسان ایک سال میں داخل ہورہے ہوں۔ آج مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اب تک حاصل ہونے والے اعدادوشمار کی صورت میں اس وقت بیعتوں کی تعداد تیس لاکھ چار ہزار پانچ صد چوراسی 30,04,584) )ہوچکی ہے۔

اب یہ مولوی چاہیں تو جس غضب کی آگ میں جلیں، جو چاہیں آہ وبکا کرلیں۔ جو بربادی اس مباہلے نے ان پر آسمان سے اُتاری ہے اُس بربادی کو یہ دُور نہیں کرسکتے، یہ ہٹا نہیں سکتے۔ وہ اب ان کے گلے کا پھندا بن چکی ہے۔ اور جو رحمتیں اور نعمتیں خدا نے اس ایک سال میں ہم پر نازل فرمائی ہیں اُس میں آپ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی بددعاؤں کی وجہ سے ہے۔ ان کی تو بددعاؤں کو بھی الله نہیں سنتا۔ یہ منحوس لوگ ہیں۔ ان کے کہنے نہ کہنے کا کوئی اثر آسمان تک نہیں پہنچتا۔ یہ ہماری التجائیں اور دُعائیں ہی تھیں، ہماری عاجزانہ گڑگڑاہٹ تھی جو آسمان نے قبول کی اور آسمان سے یہ تیس لاکھ احمدیوں کی بارش ہوئی ہے۔‘‘

(ماخوذ از خطاب برموقع جلسہ سالانہ یُوکے 1997ء درمیانی دن بعد دوپہر کا خطاب)

الغرض مباہلہ کے اس سال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت کے حق میں تائید اور نصرت کے لاتعداد نشانات ظاہر ہوئے۔ حضور رحمہ اللہ کا محوّلہ بالا خطاب ایسے بہت سے دلچسپ، حیرت انگیز اور ایمان افروز واقعات پر مشتمل ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button