منشی سراج الدین احمدصاحب بانی و ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘ (قسط 26)
تاریخ احمدیت کے ماخذوں سے پتا چلتا ہے کہ 1877ء میں جب حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ علیہ السلام ابھی گوشہ گمنامی میں زندگی بسر کررہے تھے،قادیان میں مقیم تھےاور آپ کا کوئی دعویٰ بھی نہ تھا۔ تب برصغیر پاک و ہند کے مشہور صحافی، سیاسی لیڈر اور قومی شاعر ظفر علی خان کے والد، بانی اخبار زمیندار منشی سراج الدین احمد صاحب ایک رات کے لیےقادیان آئےتھے، تب غالباً مرزا موحد بیگ صاحب جالندھری بھی ان کے ساتھ تھے۔ مہمانوں کا یہ قیام قادیان نہایت مختصر تھا، لیکن اس مختصر ملاقات کا معزز مہمان پر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے استغراق اور انقطاع الی اللہ کا جو گہراتاثر پیدا ہوا، وہ عمر بھر محو نہ ہوسکا۔
دراصل اس معزز مہمان کو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے قیام سیالکوٹ کے دوران بھی ملاقات کرنے کا موقع ملا کرتا تھا۔ سیالکوٹ کے قیام کا زمانہ آپ علیہ السلام کے عنفوان شباب کا زمانہ تھا۔ آپ وجیہ اور مردانہ حسن کا نمونہ تھے۔ مگر آپ کی زندگی نہایت بے لوث اور پاکیزہ تھی اور اس کے معترف وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے کسی وجہ سے آپ کے دعویٰ کو قبول بھی نہ کیا تھا۔ مثلاً اس معزز مہمان نے حضر ت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ قیام سیالکوٹ اور پھر اس کے بعد کے زمانہ قیام قادیان میں آپ سے ہونے والی ملاقات اور اپنے ذاتی تجربہ اورعلم کی بنا پر جو رائے قائم کی تھی وہ انہوں نے بلاخوف لومة لائم آپؑ کی وفات کے بعد اپنے اخبار ’’میندار‘‘میں شائع کردی۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:’’مرزا غلام احمد صاحب1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے۔ اس وقت آپ کی عمر22-23 سال ہوگی۔ اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔‘‘
پھر جب آپ علیہ السلام سیالکوٹ سے ملازمت چھوڑ کر قادیان تشریف لے آئے اس زمانہ کی اپنی ملاقات کا تاثر ان الفاظ میں قلمبند کیا:’’1877ءمیں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے یہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی ان دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محوو مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔‘‘
اس معزز مہمان کاکچھ مزید تعارف اس طرح پر ہے کہ آپ اپنے وقت کے ایک معروف لکھاری تھے اور آپ نے جنوری 1903ء میں لاہور سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالنا شروع کیا تھا جس کا نام زمیندار تھا۔
تفصیل میں یوں ملتا ہے کہ ’’مولوی سراج الدین احمد 1903ءمیں محکمہ ڈاک کی تقریباً 30 سال کی طویل ملازمت کے بعد جب اس سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے ملکی اور ملی مفاد کے زاویہ نظر سے اخبار کے اجراء کو پسند کیا۔ تعلیمی و سیاسی اورمذہبی معاملات میں بڑی حدتک وہ سرسید احمد خاں کے پیرو تھے۔ کبھی کبھی تہذیب الاخلاق میں ان کے مضا مین شائع ہوتے تھے۔ سرکاری ملازمت کے دوران میں بھی وہ قومی معاملات میں دل چسپی لیا کرتے تھے۔ ادیب بھی تھے اور شاعر بھی۔ خود زمین دار تھے اور زمین داروں کی پستی اورجہالت کے اسباب سے بے خبر نہ تھے۔اس لیے غور وفکر کے بعد یہ ارادہ کیا کہ زمیندار کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا جائےجس کے ذریعے سے پنجاب کی آبادی کے اس پسماندہ طبقے میں ایسی ذہنی بیداری پیدا کی جائے کہ ان میں اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کا وہ احساس پیدا ہو جائے جو شہر کے تعلیم یافتہ باشندوں میں پایا جاتاہے۔ اس مہتم بالشان مقصد کی تکمیل کے پیش نظر انہوں نے لاہور سے ہفتہ وار زمین دار جاری کیا جس کی پیشانی ان کے اس شعر سے مزین نظر آتی تھی
نام کو تو ہوں زمیندار اور اگر سوچو ذرا
قوم کا حاجت روا ہوں قوم کا مشکل کشا
اس طرح زمیندار کے مقاصد کی اہمیت اور اس کے بانی کے مجاہدانہ عزائم نمایاں طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ زمیندار کا پہلا پرچہ موچی دروازہ چوک نواب صاحب کے متصل ایک گلی سے نکلا اور اس کے بعد انہوں نے مالی وجوہات کے پیش نظر اس کو کرم آباد سے شائع کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے دفتر کے پاس ہی ایک کمرہ میں لکڑی کا پریس لگالیا۔جس میں زمیندار ان کی زندگی کے آخری لمحہ تک چھپا۔ یہ اخبار بارہ صفحوں پر شائع ہوتا تھا۔ اور اس کے مضامین اور خبریں سب وہ اکیلے مرتب کیا کرتے تھے۔ زمیندار کی اشاعت ایک ہزار تک رہی لیکن پنجاب ایکٹ کے خلاف ایک طویل نظم ہاڑہ (فریاد) جو چو دھری شہاب الدین مرحوم نے پنجابی زبان میں لکھی تھی، وہ اس میں شائع ہوئی اوراس نظم نے انتہائی مقبولیت حاصل کرلی زمین داروں نے بالخصوص سکھوں نے اسے بہت پسند کیا اور اس کے ترجمے گرمکھی اور انگریزی ز بانوں میں شائع ہو گئے۔ اس وجہ سے اس کی اشاعت دو ہزار سے زیادہ ہوگئی۔
مولوی صاحب مرحوم نے اس ہفتہ وار اخبار کے ذریعے زمین داروں کی خدمت کی۔ اور یہی زمیندار کا مشن تھا کہ زمین داروں میں بیداری اور قوت عمل کی روح پیدا کردے، اور پنجاب کے زمین داروں کو تعلیمی، زراعتی اور اقتصادی لحاظ سے کامیابی کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچائے۔انھوں نے حوصلہ شکن حالات اور مشکلات کے باوجودتنہا غیرمتزلزل عزم کے ساتھ اس مشن کو جاری رکھا۔ آخر کار6سال کی لگاتار دماغی محنت اور ادارت کی شدید ذمہ داریوں نے ان کے جسمانی قویٰ پر اثر ڈالا، ان کا جگر اور معدہ کمزور ہوگیا اور وہ کام کرنے کے قابل نہ رہے۔ اس زمانے میں مولاناظفر علی خاں کا تعلق ریاست حیدرآباد کی ملازمت سے قطع ہو چکا تھا اور وہ لاہور پہنچ چکے تھے۔ لاہور کے ڈاکٹر بیلی رام نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ مولوی سراج الدین صاحب کو کرم آباد پہنچا دیا جائے تاکہ وہاں آرام کریں۔ اس لیے کہ اب علاج بے فائدہ ہے۔ مولوی صاحب نے اپنے بڑے بیٹے ظفر علی خاں کو وصیت کی کہ میرے بعد زمیندار کو زندہ رکھا جائے کیوں کہ میں نے اس کو خون جگر سے سینچا ہے۔ مولوی صاحب کا انتقال 9؍نومبر1909ء کو ہو گیا اور مولانا ظفر علی خاں نے اس ہفتہ وار اخبار کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور اس طرح یکم جنوری1910ء کو اس کا پہلا ایڈیشن نئی ادارت میں کرم آباد سے نئی آب و تاب کے ساتھ شائع ہوا۔ اس اخبار کو انھوں نے محنت شاقہ کے ساتھ چلایااور اسے برصغیر کا ایک معروف اخبار بنادیا جو قریباً نصف صدی کی ہنگامہ خیز یوں کے بعد 1954ء میں مستقل بند ہوگیا۔‘‘ (مولانا ظفر علی خان بحیثیت صحافی۔ مصنفہ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی۔ ایم اے۔ پی ایچ ڈی۔ مکتبہ اسلوب کراچی۔ اشاعت اول: 1985۔ صفحہ 80 – 81)
منشی سراج الدین صاحب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام پر ایمان نہ لاسکے لیکن اپنی چشم دید شہادت کی بنا پر کہا کہ ’’آپ کے دعاوی خواہ دماغی استغراق کا نتیجہ ہوں۔مگر بناوٹ اور افترا سے بَری تھے۔‘‘
الغرض وہ آپؑ کو مفتری خیال نہ کرتے تھے۔ پس اس قدر معروف شخص کا اپنی ذاتی واقفیت، قادیان کے قیام کے دوران مہمان نوازی اوردیگر چشم دید حالات کی بنا پر مندرجہ بالا شہادت دینا کوئی معمولی بات نہ ہے۔ یاد رہے کہ مولوی سراج الدین صاحب خود سر سید احمد خان کے اتباع میں سے تھے اور انہوں نے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کے متعلق ایک مبسوط مضمون لکھا تھا اس کا جواب مکرم سید میر حامد شاہ صاحب نے الجواب کے نام سے دیا تھا۔ الغرض سلسلہ احمدیہ کے قیام سے قبل بھی جو خال خال مہمان قادیان کا رخ کرتے تھے وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اسلامی اخلاق کے گرویدہ ہوجایا کرتے تھے۔
اسی طرح مقدم الذکر دوسرے مہمان کے بارہ میںملتا ہے کہ مرزا مراد بیگ صاحب جالندھر کے رہنے والے تھے۔ان کا تخلص ابتداءً مرزا شکستہ تھالیکن بعد میں جب عیسائیوں کے ساتھ مباحثات کا سلسلہ انہوں نے وسیع کیا۔اور عیسائیت کی تردید میں مضامین لکھنے شروع کیے تو انہوں نے اپنا تخلص مرزا موحد رکھ لیا۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عیسائیوں سے مباحثات سیالکوٹ میں وقعت اور عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ کے طریق استدلال پر لوگ عش عش کرتے اور خود پادری صاحبان بھی آپ کی علمی عظمت اور اخلاقی قوت کا احترام کرتے تھے۔مرزا موحد کو بھی آپ سے تعلقات بڑھانے کا شوق ہوا۔ وہ اکثر آپ کی خدمت میں آتے اور عیسائیوں کے اعتراضات کو پیش کرتے۔ ان کے جوابات سنتے اور پھر اپنے رنگ میں ان کو اخبارات کے ذریعہ شائع کرتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فطرت میں یہ بات واقع ہوئی تھی کہ آپ عیسائی مذہب کی غلطیوں اور باطل عقائد کی تردید کے لیے انتہائی جوش رکھتے تھے۔ اور اگر کسی شخص کو اس میں ذرا بھی دلچسپی لیتے دیکھتے۔ تو ہر طرح اس کا شوق اور دلچسپی بڑھانے میں مدد دیتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔آپ کے طرزعمل سے پایا جا تا ہے کہ آپ اس باطل عقیدہ کفارہ و تثلیث والوہیت مسیح وغیرہ کے ابطال کے لیے کسی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔مرزا موحد کے دل میں اس بات نے آپ کے لیے ایک خاص عظمت پیدا کر دی تھی۔ اور جب آپ سیالکوٹ سے قطع تعلق کر کے قادیان آگئے تو بھی مرزا موحد صاحب آپ کی ملاقات کے لیے قادیان تشریف لایا کرتے تھے۔اور آپ سے استفادہ کیا کرتے۔
ان کے مضامین کا ایک بہت بڑا سلسلہ منشور محمدی میں طبع ہوا کرتا تھا۔ خود انہوں نے بھی آخر میں سیالکوٹ سے وزیرہند نام ایک اخبار نکال لیا تھا۔ اگر چہ وہ زیادہ تر عام اخبار تھا تا ہم اس میں کبھی کبھی عیسائیوں کے متعلق مضامین بھی نکل جایا کرتے تھے۔ ( حیات احمد از شیخ یعقوب علی عرفانی۔ جلد اول حصہ سوم۔ صفحہ 372-373)