اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جنوری2022ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
کراچی میں ایک احمدی کی شہادت
کراچی گلشن سرسید: 12؍جنوری 2022ء: 12؍جنوری سے لاپتا ہونے والا احمدی بچہ 4 سالہ حسین احمد 20؍جنوری کو ایسی حالت میں ملا کہ اس کی وفات ہو چکی تھی۔
تفصیلات کے مطابق حسین کی فیملی گلشن سر سید کے ایک ویران علاقے میں مقیم ہے اور گھر ہی میں انہوں نے دکان کھول رکھی ہے۔ واقعے کے دن، گھر کا مرکزی دروازہ رات 10 بجے کے قریب متوقع ایک گاہک کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی دوران کسی نامعلوم شخص نے حسین احمد کو اغوا کر لیا۔ تلاشی کے لیے مہم کا آغاز کیا گیا اور پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی۔ 20؍ جنوری کو ایدھی سینٹر نے اطلاع دی کہ انہیں بچے کی لاش قریبی نالے میں ملی ہے۔
عقیدے کی بنا پر کاروبار میں درپیش مسائل
اسلام آباد؛ جنوری 2022ء: ایک احمدی راجن پور میں ایک احمدیہ اسکول سے متعلق پولیس کیس میں درج ملزمان میں سے ایک تھے۔ اس معاملے میں پولیس نے انہیں مہینوں تک حراست میں رکھا۔ ان کا اسلام آباد میں تیل کا کاروبار تھا جس کے لیے نے چار دکانیں اور ایک فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا۔ قید کے دوران انہیں کرائے کی عمارت خالی کرنے کے لیے کہا گیا۔ اور مالک نے مذہبی لابی کی طرف سے دباؤ کا جواز پیش کیا۔ موصوف نے عمارت خالی کروادی اور چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک کاروباری مقام کرائے پر حاصل کر لیا۔ تاہم جلد ہی اس جگہ کا مالک بھی ان سے ملنے گیا اور ان سے کہا کہ وہ دکانیں اور فلیٹ خالی کر دے کیونکہ وہ قادیانی ہے۔ تاہم، اس نے ایک رعایت کی پیشکش کی: ’’اگر آپ مرزا صاحب سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں، تو ہم آپ کو بھائی سمجھیں گے۔ بصورت دیگر فروری میں عمارت خالی کر دیں۔‘‘ اس احمدی نے انہیں یقین دلایا کہ وہ دکانیں خالی کردیں گے۔
نفرت انگیز وال چاکنگ
پیر محل، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ؛ 29؍جنوری 2022ء: 29؍ جنوری کو صبح 6 بجے، کچھ نفرت پھیلانے والوں نے مقامی احمدیہ مسجد پر درج ذیل الفاظ میں وال چاکنگ کی: ’’تاجدار ختم نبوت زندہ باد: حزب اللہ – جھوٹے مسیحا کی موت‘‘۔ احمدیوں نے شہر کے سیکیورٹی انچارج کو مطلع کیا اور ایس ایچ او پولیس سے فالو اپ کرنے کی درخواست کی جس پر انتظامیہ نے وال چاکنگ کو ختم کر دیا۔ احمدیہ مخالف گروہ یہاں کچھ عرصے سے بہت سرگرم ہے اور احمدیہ مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
پاکستان میں احمدیوں کے بارے میں بی بی سی کی ایک رپورٹ
27؍جنوری 2022ء: بی بی سی نے پاکستان میں احمدیوں کی صورتحال پر ایک رپورٹ بی بی سی اردو پر شائع کی جو کہ ان کے صحافی ریاض سہیل نے تیار کی تھی۔ چونکہ یہ ذریعہ اور یہ صحافی بنیادی طور پر ایک تیسرا فریق بنتے ہیں، ان کے خیالات اور رپورٹ میں وزن ہے اور یہ معتبر بھی ہے۔ احمدیوں کی ملک میں کم ہوتی آبادی کے معاملے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم فی الحال ان کے بیشتر اقتباسات ذیل میں درج کرتے ہیں۔
پاکستان میں احمدی برادری کی کم ہوتی آبادی: اپنا ملک کوئی نہیں چھوڑنا چاہتا لیکن بچوں کو ظالموں کے رحم و کرم پر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا
ریاض سہیل BBCUrdu.com، کراچی 27؍ جنوری، 2022ء:صوبائی دارالحکومت پشاور کے نواحی علاقے بازی خیل میں دوپہر کا وقت تھا۔ معمولات زندگی جاری تھے جب ایک نجی کلینک میں 16، 17 سال کا لڑکا داخل ہوا اور متجسس نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ جب سٹاف نے اس لڑکے سے آنے کا مقصد پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ میں مریض ہوں، بڑے ڈاکٹر سے دوائی لینی ہے۔
وہ بڑے ڈاکٹر ڈاکٹر عبدالقادر تھے جو اسی وقت عبادت سے فارغ ہو کر کلینک میں واقع اپنے کمرے میں آ کر بیٹھے ہی تھے۔ نوجوان اُن کے کمرے میں داخل ہوا اور پستول نکال کر فائرنگ شروع کر دی۔ اپنے ہی خون میں شرابور ڈاکٹر عبدالقادر وہیں ڈھیر ہو گئے۔یہ واقعہ گذشتہ سال 11 فروری کو پیش آیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقادر کے بیٹے کے مطابق اُن کے والد کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے البتہ حملہ آور کو ہسپتال کے گارڈز نے پکڑ لیا۔
سنہ 2021ء میں ڈاکٹر عبدالقادر احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے چوتھے ایسے فرد تھے جنہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر ہلاک کیا گیا۔ احمدی برادری پر حملوں کی اس لہر کے بعد کئی احمدی خاندان پشاور سے نقل مکانی کر گئے ہیں، جن میں سے کچھ پاکستان کے دیگر شہروں اور کچھ بیرون ملک چلے گئے ہیں۔
احمدیوں پر حملہ: خیبرپختونخواہ ہاٹ سپاٹ
پشاور کے نواحی علاقے بازی خیل میں ڈاکٹر عبدالقادر پر ہونے والا یہ حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔
اُن کے بیٹے نے بتایا کہ جنوری 2009ء میں کالعدم تنظیم ’لشکر اسلام‘ منگل باغ گروپ نے اُن کے گھر پر حملہ کیا اور ان کے ایک ڈاکٹر کزن کو گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقادر اور محافظوں نے مزاحمت کی جس کے دوران ایک گولی ان کی ران میں لگی تھی لیکن وہ کزن کو بچانے میں کامیاب ہو گئے، تاہم اس جھڑپ میں ان کا ایک محافظ مارا گیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقادر کے بیٹے نے بتایا کہ ان کے کزن کا کلینک گھر کے اندر ہی تھا جس پر ماضی میں ایک بار خودکش حملہ بھی کیا گیا تھا جس میں ایک عورت ہلاک ہوئی تھی اور اس سنگین صورتحال کی وجہ سے انہیں محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا جس کے باعث ان کی تعلیم اور ان کے والد کی پریکٹس متاثر ہوئی۔
پاکستان کے سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں 26؍اپریل 1984ء کو حکومتِ پاکستان نے آرڈیننس 20 کا نفاذ کیا جس کے تحت 1974ء میں غیر مسلم قرار دیے جانے والے احمدی افراد پر اسلامی شعائر اپنانا اور ان پر عمل کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پایا اور احمدی برادری کے افراد پر خود کو مسلمان کہلانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
جماعت احمدیہ کے دعویٰ کے مطابق احمدی کمیونٹی کی شہادتوں کاسلسلہ یکم مئی 1984ء سے شروع ہوا تھا۔ جماعت احمدیہ کے مطابق گذشتہ 38 برس میں احمدی برادری کے 273 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سب سے زیادہ شہادتیں پنجاب میں ہوئیں جو کل ہلاکتوں کا 69 فیصد ہے۔
دوسرے نمبر پر سندھ ہے جہاں 23 فیصد شہادتیں ہوئی ہیں۔ اس کے بعد خیبرپختونخواہ میں پانچ فیصد اور بلوچستان میں تین فیصد شہادتیں ہوئیں۔ البتہ گذشتہ کچھ عرصے میں خیبر پختونخواہ میں حملے اور شہادتیںزیادہ دیکھے گئے ہیں۔
پشاور میں احمدی برادری کے امیر ایک سابق ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ ابتدا میں سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں خیبرپختونخواہ میں صورتحال کافی بہتر تھی۔
انہوں نے بتایا کہ سنہ 1984ء میں اُن کے گاؤں سمیت متعدد علاقوں میں ان کی برادری پر حملے ہوئے اور فصلیں جلائی گئیں جس کے بعد احمدی برادری کے لوگ نقل مکانی کر کے پشاور شہر آ گئے جہاں ان کے مطابق عدم برداشت اور حقارت و تعصب تو تھا لیکن شہادتوںتک بات نہیں آئی تھی۔گذشتہ ایک ڈیڑھ برس کے دوران منصوبہ بندی کے تحت کارروائیاں کی گئیں۔ پہلے ایسا ماحول بنایا گیا کہ احمدی وکلا پریکٹس چھوڑ دیں، اس مہم کی وجہ سے۔ ان کے پاس جو کیسز تھے وہ واپس ہو گئے۔انہوں نے مزید بتایا کہ احمدی ڈاکٹرز کے خلاف ایک پمفلٹ شائع ہوا جس میں ان کے نام اور جن ہسپتالوں میں وہ پریکٹس کرتے تھے ان کی تفصیلات فراہم کی گئیں اور لوگوں سے اپیل کی گئی کہ ان سے علاج نہ کرایا جائے۔
صرف پشاور شہر میں 20 سے 25 احمدی ڈاکٹر تھے۔ اس صورتحال میں جو سرکاری اساتذہ تھے اور دوسرے ملازمین تھے، انہوں نے طویل چھٹی لے لی یا پھر دیگر علاقوں میں تبادلے کرانے پر مجبور ہو گئے۔ مقتول ڈاکٹر عبدالقادر کے بیٹے کے مطابق اُن کے والد پر پہلے حملے کے بعد پشاور میں جب صورتحال بہتر ہوئی تو وہ واپس آ گئے اور دوسری جگہ پر گھر لے لیا۔
والد صاحب نے دوبارہ پریکٹس شروع کی لیکن پھر جلوس نکلتے اور نعرے بازی ہوتی اور گالیاں دی جاتیں۔ سیاسی جماعتوں کے راہنما اور منتخب نمائندے ان عناصر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ ان سے ووٹ لینا ہوتا ہے اور اگر وہ ساتھ کھڑے نہ ہوں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ ’قادیانیوں‘کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انہیں خوف ہوتا ہے کہ آئندہ ووٹ نہیں ملیں گے۔انہوں نے کہا کہ وہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھے لیکن انہیں کئی بار قادیانی ہونے کے باعث نوکری سے نکال دیا گیا۔
کوئی نہ کوئی شاگرد نشاندہی کر دیتا۔ اس کے بعد انتظامیہ کہتی کہ آپ اچھا پڑھا رہے ہیں لیکن والدین شکایت کر رہے ہیں کہ ’قادیانی ٹیچر‘سے ہمارے بچے نہیں پڑھیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ کئی بار ایسا ہوا کہ انہوں نے نئی نوکری شروع کی اور اس میں معمول بنایا، لیکن پھر ان شکایات کی بنا پر سب ختم ہو جاتا۔ ‘پھر میں دور کے کسی علاقے میں جا کر دوبارہ ٹیچنگ شروع کر دیتا اور والد بھی گھر بیٹھ جاتے اور کبھی کبھی چھوٹا موٹا کلینک شروع کر دیتے تھے انہیں نوٹس آ جاتا کہ عمارت خالی کر دو۔ معاشی طور پر مسلسل ہم نیچے جا رہے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقادر کے بیٹے نے کہا کہ ان کی چھوٹی بہن کو ان کا ٹیچر گالیاں دیتا تھا اور کہتا کہ یہ کافروں سے بھی بدتر ہیں۔صبح کو ابو اگر تندور پر روٹی لینے جاتے تو وہ کہتے کہ ڈاکٹر صاحب آج تو آپ آئے ہیں آئندہ آئے تو اچھا نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر عبدالقادر کی بیوہ نے بتایا کہ صورتحال کی سنگینی کی وجہ سے انہوں نے گذشتہ ڈیڑھ سال میں آٹھ مرتبہ گھر تبدیل کیے۔لوگ تعلقات نہیں رکھتے۔ جب باہر نکلتے تو ایک دوسرے کو اشارے سے بتاتے تھے کہ یہ احمدی ہیں، ان سے بات نہ کریں۔ اگر بات کریں گے تو منہ پلید ہو جائے گا۔ گھر میں اگر پانی نہ ہو تو پانی تک نہیں دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ مذہب چھوڑ دیں ورنہ ہمارے ساتھ تعلقات نہ رکھیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کئی مواقع پر ان کے مالک مکان ان سے کہتے کہ ہم مجبور ہیں کیونکہ آپ کے محلے والوں کی شکایت آئی ہے، وہ دھمکا رہے ہیں کہ آپ کے گھر کو آگ لگا دیں گے اس لیے مجبوری میں ہم یہ سب کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر قادر کی بیوہ بتاتی ہیں کہ ان کا چھوٹا بیٹا اچھا خاصا پڑھا لکھا تھا لیکن بیٹھے بیٹھے گم صم ہو جاتا تھا اور پھر مکمل طور پر خاموش ہو گیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس کو ذہنی امراض کے بحالی سینٹر لے گئے۔ کچھ دن وہاں زیر علاج بھی رہا پھر پتا نہیں کیسے وہاں عملے کو علم ہوا کہ یہ احمدی ہے، جس پر سینٹر کے انچارج، جو ریٹائرڈ بریگیڈیئر تھے، نے انہیں کہا کہ اس کو لے جاؤ اور زہر کا ٹیکا لگا دو۔ کیا کوئی ماں کو ایسا کہہ سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اُن کے شوہر کی گذشتہ برس فروری میں ہلاکت کے بعد مئی میں ان کا بیٹا بھی لاپتا ہو گیا۔ اس نے سینٹر میں یہ کہا کہ بھائی کے پاس جا رہا ہوں، لیکن اس کے بعد پتا نہیں کہاں چلا گیا۔ ہم نے پولیس کے پاس پرچہ بھی کرایا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا بیٹا زندہ ہے یا نہیں۔ جب کھانے کے لیے بیٹھتی ہوں یا پانی پیتی ہوں تو اس کی شکل میرے سامنے گھومنے لگتی ہے۔(جاری ہے)
(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)