شہداء الحق
سرزمینِ کابل۔ افغانستان اور یاغستان میں شہدائے احمدیت کی جانفشانیوں کی ایمان افروز داستان
(مصنفہ حضرت قاضی محمد یوسف پشاوری رضی اللہ عنہ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے ایک مشن لے کر آئے اور تبلیغ کا حق ادا کرکے اپنے خالق حقیقی کے پاس حاضر ہوگئے۔ آپ کا پیغام سن کر جن لوگوں نے لبیک کہا،تو ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان مخالفین کی الگ الگ گرفت کے سامان کیے۔ ان دشمنانِ حق کو عبرتناک انجام تک پہنچا کر نشانوں کا سامان کیا۔ اس کتاب میں سرزمینِ کابل، افغانستان اور یاغستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم اور ظالموں کے بد انجام کی تاریخ محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تا مومنین کا ایمان ترقی کرے اور اس طرح دیگر ممالک او رصوبہ جات کے احمدی بھی تحریک و تحریص پائیں کہ وہ بھی اپنے اپنے علاقوں سے ایسے نشانات کا ریکارڈ محفوظ کریں تا سلسلہ کی تاریخ کے زریں اوراق میں اضافہ ہو اور آئندہ نسلیں اپنے ایمان میں تقویت پائیں اور حق دشمنی پر کمربستہ لوگ اپنے انجام بد سے ڈر کر باز آجائیں۔
اس کتاب میں مسئلہ جہادکی حقیقت، حضرت مسیح موعودؑ کی اپنی اور آپ کے زمانہ اور جماعت کے متعلق پیش گوئیاں درج کرکے مختلف ابواب بنا کر تاریخ افغانستان سے مختلف شاہان کے ادوار میں ہونے والے واقعات کو قریبا ًپونے دو سو صفحات میں سمویا گیا ہے۔
زمانہ حکومت امیر عبدالرحمٰن خان میں احمدیوں کی حالت زار اور حضرت ملاںعبدالرحمن احمدی کی شہادت اور پھر امیر عبدالرحمٰن کی وفات کن حالات میں ہوئی اس کا بیان ہے۔ پھر امیر حبیب اللہ خان کی تخت نشینی اور حضرت سید عبداللطیف صاحب شہیدؓ کی شہادت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
سید الشہداء شہید مرحوم کے مقدس حالات زندگی، سفر قادیان، بلند روحانی اور علمی مقام ومرتبہ کے بعد واقعہ شہادت کا بیان ہےاور اس ظلم عظیم کے بعد ملک افغانستان میں حسب پیش گوئی ظاہر ہونے والے حالات بتائے گئے ہیں۔
پھر امیر امان اللہ خان کے دور حکومت میں آزادی مذہب کی صورت حال بتا کر حضرت نعمت اللہ احمدی، حضرت مولانا عبدالحلیم احمدی اور قاری نورعلی احمدی کی شہادتوں کا بیان کیا گیا ہے، نیز منگل اقوام کی بغاوت اور مخالفین کے ناپاک پروپیگنڈا کی تفصیلات بتا کر امیر امان اللہ خان کے سفر یورپ، اس کے بد نتائج بصورت بغاوت کی تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔
بچہ سقہ کا خروج، امیر امان اللہ خان کے فرار، حکومت سردار عنایت اللہ خان اور اس کا عزل اور پھر خدائے غیور کا مجرموں کا اخذ شدید،اور پھر بچہ سقہ کی ہلاکت اور زمانہ حکومت محمد نادر شاہ اور پھر محمد ظاہر شاہ کا احوال بتایاگیا ہے۔
اس کتاب میں افغانستان کے شہدائے احمدیت کے کوائف درج کرکے گذشتہ واقعات سے درس عبرت دینے کے لیے ریاست کابل میں پچاسی ہزار افراد کی ہلاکت اور دیگر آسمانی نشانات کی یاددہانی کروائی گئی ہے۔
اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی میں سے 16 ایسے الہامات کا بھی انتخاب پیش کیا گیا ہے جن میں مخالفین کی دشمنی اور مخالفت کے سامنے حضور ؑکو تسلی اور تشفی دی گئی ہے۔ مثلاً
٭…کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ
٭…کَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصۡرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ
٭…جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ
٭… اِنِّی مُعِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ واِنّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ
٭…اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الۡمُسۡتَہۡزِءِیۡنَ
٭…ذرنی والمکذبین انی مع الرسول اقوم
٭…وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ
٭…عبرت بخش سزائیں دی جائیں گی
٭…اے بسا خانہ دشمن کہ تو ویران کردی
٭…غرق الاعداء کل غرق
٭…قُطِعَ دَابِرُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا
٭…قُلْ اَیُّھَا لْکُفَّارُ اِنِّیْ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ فَانْتَظِرُوْٓا اٰیَاتِیْ حَتّٰی حِیْنٍ۔ سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ۔ حُجَّۃٌ قَآئِمَۃٌ وَّ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ
٭…اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ
٭…سَاُورِیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنِ
٭…رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَاَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ
وغیرہ وغیرہ
اس کتاب میں واقعات کی تاریخ کے بیان میں سنین کے اندراج کا خصوصی اہتمام کیاگیا ہے، اور افغان شاہی خاندان کے شجرہ نسب کی تیاری میں خصوصی محنت کی گئی ہے۔
نیز تاریخی واقعات کے ذکر کے ساتھ ساتھ علم الکلام کی بحثوں کو بھی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، جس سے عقائد احمدیت کا تعارف بھی ہوجاتا ہے اورجماعت احمدیہ کے متعلق متفرق سوالات کا جواب مہیا ہوجاتا ہے۔ فرقہ ناجیہ کی شناخت کے ذرائع اور ان کے جماعت احمدیہ میں ظہور پذیر ہونے کا بتا کر شہدائے احمدیت اور ان کے خاندانوں کے اخلاص و وفا اور استقامت دینی کا ایمان افروز احوال درج کیاگیا ہے۔
چونکہ مصنف موصوف مذکورہ بالا علاقوں میں اپنی زندگی کا معتدبہ حصہ گزارنے والے تھے، اس لیے تاریخ کے بیان میں محض کتب اور رسائل کے اوراق پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مشاہدات اور براہ راست علم اور روایات کو بھی شامل کیا ہے جس سے یہ کتاب مذکورہ بالا اہم خطہ کی تاریخ کا اہم ترین اور ناقابل فراموش دور احسن ترین رنگ میں بیان کررہی ہے۔