خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب ۲؍ستمبر ۲۰۲۲ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کے کچھ واقعات ہیں جو بیان کروں گا۔
سوال نمبر2:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلیفہ کے تقررکے لیے حضرت ابوبکرؓ کی صحابہ سے مشاورت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعود ؓاس بارے میں تاریخ کی کتب کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات جب قریب آئی تو آپؓ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ میں کس کو خلیفہ مقرر کروں۔ اکثرصحابہ نے اپنی رائے حضرت عمرؓ کی امارت کے متعلق ظاہر کی اور بعض نے صرف یہ اعتراض کیا کہ حضرت عمرؓ کی طبیعت میں سختی زیادہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں پر تشدد کریں۔ آپؓ نے فرمایا یہ سختی اسی وقت تک تھی جب تک ان پر ذمہ داری نہیں پڑی تھی اب جبکہ ایک ذمہ داری ان پر پڑ جائے گی تو ان کی سختی کا مادہ بھی اعتدال کے اندر آ جائے گا۔ چنانچہ تمام صحابہ حضرت عمرؓ کی خلافت پر راضی ہو گئے۔ آپ کی، حضرت ابوبکرؓ کی صحت چونکہ بہت خراب ہو چکی تھی، اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بیوی اسماء کا سہارا لیا اور ایسی حالت میں جبکہ آپؓ کے پاؤں لڑ کھڑا رہے تھے، ہاتھ کانپ رہے تھے آپؓ مسجد میں آئے اور تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت دنوں تک متواتر اس امر پر غور کیا ہے کہ اگر میں وفات پا جاؤں تو تمہارا کون خلیفہ ہو۔ آخر بہت کچھ غور کرنے اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ عمر کو خلیفہ نامزد کر دوں۔ سو میری وفات کے بعد عمر تمہارے خلیفہ ہوں گے۔ سب صحابہؓ اور دوسرے لوگوں نے اس امارت کو تسلیم کیا اور حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کی بیعت ہو گئی۔
سوال نمبر3:اعتراض ’’حضرت ابوبکرؓنے اپنے بعد خلیفہ کونامزدکیا‘‘ کاحضرت مصلح موعودؓ نے کیاجواب بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’اگر کہا جائے کہ جب قوم کے انتخاب سے ہی کوئی خلیفہ ہو سکتا ہے تو حضرت ابوبکرؓنے حضرت عمرؓ کو نامزد کیوں کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے یونہی نامزد نہیں کر دیا بلکہ پہلے صحابہؓ سے آپ کا مشورہ لینا ثابت ہے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ اَور خلفاء کو خلیفہ کی وفات کے بعد منتخب کیا گیا اور حضرت عمرؓ کوحضرت ابوبکرؓ کی موجودگی میں ہی منتخب کر لیا گیا۔ پھر آپؓ نے اسی پر بس نہیں کیا۔‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ نے یہیں پر بس نہیں کیا، اس کو کافی نہیں سمجھا ’’کہ چند صحابہؓ سے مشورہ لینے کے بعد آپؓ نے حضرت عمرؓ کی خلافت کا اعلان کر دیا ہو بلکہ باوجود سخت نقاہت اور کمزوری کے آپؓ اپنی بیوی کا سہارا لے کر مسجد میں پہنچے اور لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! میں نے صحابہؓ سے مشورہ لینے کے بعد اپنے بعد خلافت کے لیے عمرؓ کو پسند کیا ہے کیا تمہیں بھی ان کی خلافت منظور ہے؟ اس پر تمام لوگوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ پس یہ بھی ایک رنگ میں انتخاب ہی تھا۔‘‘
سوال نمبر4: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ابوبکرؓ کی بیماری اوروفات کی بابت کیابیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ کی علالت اور وفات کا ذکر یوں بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیماری کا باعث یہ ہوا کہ سات جمادی الآخر سوموار کے دن آپؓ نے غسل کیا۔ اس روز خوب سردی تھی۔ اس وجہ سے آپؓ کو بخار ہو گیا جو پندرہ روز تک رہا۔ یہاں تک کہ آپؓ نماز کے لیے باہر آنے کے قابل نہ رہے۔ آپؓ نے حکم دے دیا کہ حضرت عمرؓ نماز پڑھاتے رہیں۔لوگ آپؓ کی عیادت کے لیے آتے تھے مگر روز بروز آپؓ کی طبیعت خراب ہوتی گئی۔ اس زمانے میں حضرت ابوبکرؓ اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو اُن کو رسول اللہ ﷺ نے عنایت فرمایا تھا اور جو حضرت عثمان بن عفانؓ کے مکان کے سامنے واقع تھا۔ علالت کے زمانے میں زیادہ تر آپ کی تیمارداری حضرت عثمانؓ کرتے رہے۔آپؓ پندرہ روز تک بیمار رہے۔ کسی نے آپؓ سے کہا آپؓ طبیب کو بلا لیں تو اچھا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: وہ مجھے دیکھ چکا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ اس نے آپؓ سے کیا کہا ہے۔ آپؓ نے فرمایا اس نے یہ کہا ہے کہ اِنِّی اَفْعَلُ مَا اَشَاءُ، میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ بیمار ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہم آپ کے لیے طبیب کو بلا لیں تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا اس نے مجھے دیکھ لیا ہے اور کہا ہے کہ إِنِّی فَعَّالٌ لِّمَا أُرِیدُ کہ میں جو چاہوں گا ضرور کروں گا۔بہرحال آپ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کا اب یہی ارادہ ہے کہ مجھے اپنے پاس بلا لے اور کسی طبیب کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے منگل کی شام کو بتاریخ بائیس جمادی الآخر تیرہ ہجری کو تریسٹھ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ آپؓ کا عہد خلافت دو سال تین مہینے دس روز رہا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لبوں سے جو آخری الفاظ ادا ہوئے وہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ تھی کہ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَّأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ(یوسف: 102)یعنی مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرے میں شمار کر۔
سوال نمبر5: حضرت ابوبکرؓ نے اپنے ترکہ کی بابت کیاوصیت فرمائی؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے اپنے ترکے کی بابت فرمایا کہ میرے بعد قرآنی احکام کے مطابق اسے تقسیم کر دیا جائے۔اسی طرح ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے متروکہ مال میں سے رشتہ داروں کے لیے جو وارث نہیں تھے پانچویں حصہ کی وصیت کی تھی۔
سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت ابوبکرؓ کی بیویوں اوراولاد کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکر ؓ کی ازواج اور اولاد کے بارے میں ذکر ہے کہ آپؓ کی چار بیویاں تھیں۔ نمبر ایک قُتَیلہ بنت عَبْدُالْعُزی۔ ان کے اسلام لانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ یہ حضرت عبداللہؓ اور حضرت اسماء ؓکی والدہ تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں زمانۂ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی۔ یہ ایک مرتبہ مدینہ میں حضرت اسماءؓ یعنی اپنی بیٹی کے پاس کچھ گھی اور پنیر بطور ہدیہ لے کر آئی تھیں مگر حضرت اسماءؓ نے وہ ہدیہ لینے سے انکار کر دیا اور انہیں گھر میں داخل بھی نہیں ہونے دیا اور حضرت عائشہؓ کو کہلا بھیجا کہ اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کریں۔ حضرت عائشہؓ سے کہا کہ ذرا پوچھ کے بتائیں کہ میری ماں اس طرح آئی ہے اور تحفہ لائی ہے۔میں نے تو انہیں گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ کیا ارشاد ہے؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کو گھر میں آنے دو اور ان کا ہدیہ قبول کرو۔نمبر دو جو اہلیہ تھیں وہ حضرت ام رُوْمَان بنت عامرؓ تھیں۔ آپ کا تعلق بنو کِنعَانہ بن خُزَیمہ سے تھا۔ آپ کے پہلے خاوند حارث بن سَخْبَرَہ مکہ میں فوت ہو گئے اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے عقد میں آگئیں۔ آپ ابتدا میں اسلام لے آئیں اور رسول اللہﷺکی بیعت کی اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ آپؓ کے بطن سے حضرت عبدالرحمٰنؓ اور حضرت عائشہؓ کی ولادت ہوئی۔ آپؓ کی وفات چھ ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔نبی اکرم ﷺ خود ان کی قبر میں اترے اور ان کی مغفرت کی دعا فرمائی۔تیسری حضرت اَسماءؓ بنت عُمَیس بن مَعْبَد بن حارِث تھیں۔ آپ کی کنیت ام عبداللہ ہے۔ آپ مسلمانوں کے دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسلام قبول کر کے رسول اللہﷺ کی بیعت کر چکی تھیں۔ آپ ابتدائی ہجرت کرنے والی تھیں۔ آپ نے اپنے خاوند حضرت جعفر بن ابو طالبؓ کے ساتھ پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں سے سات ہجری میں مدینہ تشریف لائیں۔ آٹھ ہجری میں جنگ موتہ میں جب حضرت جعفر ؓشہید ہو گئے تو آپ حضرت ابوبکر ؓ کے عقد میں آگئیں۔ آپ کے بطن سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔چوتھی بیوی حضرت حَبِیبہ بنت خَارِجہ بن زید بن ابوزُہَیر تھیں۔ ان کا تعلق انصار کی شاخ خزرج سے تھا۔ حضرت ابوبکرؓ مدینہ کے مضافاتی علاقے سُنْحْ میں آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ آپ کے بطن سے حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی امِ کلثوم پیدا ہوئیں جن کی ولادت حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہوئی۔اولاد میں تین بیٹےاور تین بیٹیاں تھیں۔ پہلے بیٹے حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ۔ آپؓ حضرت ابوبکرؓ کے سب سے بڑے بیٹےتھے۔ آپؓ حدیبیہ کے دن مسلمان ہوئے اور پھر اسلام پر ثابت قدم رہے۔ آپؓ کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت حاصل رہی۔ آپؓ شجاعت اور بہادری میں بہت مشہور تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ کا قابل تعریف موقف رہا۔دوسرے حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ تھے۔ آپؓ کا رسول اللہ ﷺکی ہجرت مدینہ کے موقع پر اہم کردار تھا۔ آپ تمام دن مکہ میں گزارتے اور مکہ والوں کی خبریں جمع کرتے اور پھر رات کے وقت چپکے سے غار میں پہنچ کر وہ خبریں رسول ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کو سناتے اور صبح کے وقت واپس مکہ میں آ جاتے۔ طائف کی جنگ میں آپ کو ایک تیر لگا جس کا زخم ٹھیک نہ ہوا اور آخر کار اسی کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں آپؓ نے شہادت پائی۔محمد بن ابوبکر تیسرے بیٹے تھے۔ آپ حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے پیدا ہوئے۔حجةالوداع کے موقع پر ذوالحلیفہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ حضرت علی ؓکی گود میں آپ نے پرورش پائی اور حضرت علیؓ نے اپنے دَور میں آپ کو مصر کا گورنر مقرر فرمایا۔ آپ وہیں مارے گئے۔ بعض روایات میں حضرت عثمان ؓکو قتل کرنے والوں میں ان کا نام بھی لیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ان کو قتل کیا گیا۔ واللہ اعلم۔آپ کے بچوں میں سے چوتھی حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ ہیں۔ آپؓ ذات النطاقین کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ حضرت عائشہؓ سے عمر میں بڑی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو ذات النطاقین کے لقب سے نوازا تھا کیونکہ ہجرت کے موقع پر انہوں نے رسول اللہ ﷺ اور اپنے والد کے لیے توشہ تیار کیا اور پھر اس کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو اپنے کمر بند کو پھاڑ کر توشہ باندھ دیا۔ کھانے کا جو انتظام کیا تھا وہ کھانا کمر کے کپڑے سے باندھ کر دے دیا…پانچواں بچہ ام المومنین حضرت عائشہ بنت ابوبکرؓ تھیں۔ آپؓ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں۔ آپؓ خواتین میں سب سے بڑی عالمہ تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو ام عبداللہ کی کنیت عطا فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ کو آپؓ کے ساتھ مثالی محبت تھی…چھٹی اولاد ام کلثوم بنت ابوبکر تھیں۔ آپ حضرت حبیبہ بنت خارجہ انصاریہ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ وفات کے وقت حضرت ابوبکرؓنے حضرت عائشہؓ سے فرمایا یہ تمہارے دونوں بھائی اور دونوں بہنیں ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ یہ میری بہن اسماء ہیں انہیں تو میں جانتی ہوں مگر میری دوسری بہن کون ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا جو خارجہ کی بیٹی کے بطن میں ہے۔ یعنی ابھی پیدا نہیں ہوئی، جو پیدا ہونے والی ہے وہ بیٹی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ان کے ہاں لڑکی ہو گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد ام کلثوم کی ولادت ہوئی۔ ام کلثوم کی شادی حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ سے ہوئی جو جنگِ جمل میں شہید ہوئے۔بعض روایات کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کی ایک بیٹی کی شادی حضرت بلالؓ سے ہوئی تھی اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ بیٹی آپ کی چار بیویوں میں سے کسی بیوی کے پہلے خاوند سے تھی۔
سوال نمبر7: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شَاوِرھُم اورفاذاعزمت فتوکل علی اللّٰہ کی کیاتشریح بیان فرمائی ؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ شَاوِرْهُمْ(آل عمران: 160)کی تشریح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ اس ایک لفظ پر غور کرو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ لینے والا ایک ہے دو بھی نہیں اور جن سے مشورہ لینا ہے وہ بہرحال تین یا تین سے زیادہ ہوں۔ پھر وہ اس مشورے پر غور کرے۔ پھر حکم ہے فأِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ(آل عمران :160) جس بات پر عزم کرے اس کو پورا کرے اور کسی کی پروا نہ کرے۔ یعنی مشورہ لینے والا مشورہ لے، اس کے بعد، مشورہ لینے کے بعد سارا تجزیہ کر کے اس پر عمل کرے اور پھر کسی کی پروا نہ کرے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اس عزم کی خوب نظیر ملتی ہے۔ جب لوگ مرتد ہونے لگے تو مشورہ دیا گیا کہ آپؓ اس لشکر کو روک لیں جو اسامہؓ کے زیرِ کمان جانے والا تھا مگر انہوں نے جواب دیا کہ جو لشکر آنحضرتﷺ نے بھیجا ہے میں اسے واپس نہیں کر سکتا۔ ابوقحافہ کے بیٹے کی طاقت نہیں کہ ایسا کر سکے۔ پھر بعض کو رکھ بھی لیا۔ چنانچہ حضرت عمر ؓبھی اس لشکر میں جا رہے تھے ان کو روک لیا۔پھر زکوٰة کے متعلق کہا گیا کہ مرتد ہونے سے بچانے کے لیے ان کو معاف کر دو۔حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ اگر یہ رسول اللہ ﷺ کو اونٹ باندھنے کی ایک رسّی بھی دیتے تھے تو وہ بھی لوں گا اور اگر تم سب مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور مرتدین کے ساتھ جنگل کے درندے بھی مل جائیں تو میں اکیلا ان سب کے ساتھ جنگ کروں گا۔ یہ عزم کا نمونہ ہے۔ پھر کیا ہوا تم جانتے ہو۔ یہ عزم تھا حضرت ابوبکرؓ کا اور لوگوں کے مشورے اَور تھے لیکن کیا ہوا۔ جس عزم کا نمونہ آپؓ نے دکھایا خدا تعالیٰ نے آپؓ کے عزم کی وجہ سے فتوحات کا دروازہ کھول دیا۔
سوال نمبر8:حضرت ابوبکرؓ نے لشکراسامہؓ کوروانگی سے قبل کیانصائح فرمائیں؟
جواب: فرمایا:حضرت اسامہؓ کے لشکر کو خطاب فرماتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں۔ تم خیانت نہ کرنا اور مالِ غنیمت سے چوری نہ کرنا۔ تم بدعہدی نہ کرنا اور مُثلہ نہ کرنا اور کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ کھجور کے درخت کاٹنا اور نہ اس کو جلانا اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا۔ نہ تم کسی بکری گائے اور اونٹ کو ذبح کرنا سوائے کھانے کے لیے۔ جب ضرورت ہو کرو ،نہیں تو نہیں۔ اور تم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہے۔ پس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا انہیں کچھ نہیں کہنا جو راہب ہیں۔ اور تم ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو تمہیں مختلف قسم کے کھانے برتنوں میں پیش کریں گے۔ تم ان پر اللہ کا نام لے کر کھانا۔ اور تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے سر کے بال درمیان سے صاف کیے ہوں گے اورچاروں طرف پٹیوں کی مانند بال چھوڑے ہوں گے تو تلوار سے ان کی خبر لینا کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے والے اور جنگیں کرنے والے لوگ ہیں۔ اللہ کے نام سے روانہ ہو جاؤ۔ اللہ تمہیں ہر قسم کے زخم سے اور ہر قسم کی بیماری اور طاعون سے محفوظ رکھے۔