تنظیم لجنہ اماء اللہ کی ضرورت (قسط اوّل)
لجنہ اماء اللہ کو قائم ہوئے سو سال ہوگئے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ؓکے زیر سایہ شروع ہونے والی 14ممبرات کی تنظیم تشکیل پائی جو آج ایک تناور درخت بن چکی ہے جس کی شاخیں تمام دنیا میں پھیل چکی ہیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نیک عورتوں کی صفات پیدا کرنے کی دعا اور کوشش کرنے کے بارہ میں فرماتا ہے۔ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ(التحریم: 6)مسلمان، ایمان والیاں، فرمانبردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزے رکھنے والیاں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں عورت کی تعلیم تربیت پر خصوصی توجہ دی اور توجہ دینے کی ہدایت فرمائی۔ حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک دن مقرر کیا ہوا تھا ۔
حدیث مبارکہ ہے کہ’’ایک مرتبہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مرد ہم سے فوقیت لے گئے ہیں ہمارے لیے کوئی خاص دن مقرر فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک دن مقرر کر لیا اور انہیں شروع کے احکام بتاتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب العلم باب 12)
بالعموم عورتوں کو مرد کے مقابل ناقص العقل تصور کیا جاتا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے یہ تاثر دور ہوا ۔
امہات المومنینؓ میں اس تعلیم و تربیت کا اثر نمایاں نظر آتا ہے ۔ اس کی پہلی مثال حضرت عائشہؓ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست علم حاصل کرکے آگے اُمت کی معلمہ بنیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی صلاحیتوں پر بڑا بھروسا تھا ۔
حضرت عائشہؓ کے علم کی دوسری عورتوں کے علم پر فضیلت کے بارے میں فرمایا:’’اگر امت کی عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو عائشہؓ کا علم ان تمام عورتوں سے بڑھ جائے۔‘‘
حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں :’’میں نے عائشہؓ سے بڑھ کر علم قرآن رکھنے والا۔ حلال حرام کا عالم۔علمِ فقہ۔ شعرو ادب۔ طب کا ماہر۔ تاریخِ عرب اور علم الانساب کا عالم کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
جب ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی عورت کی تعلم و تر بیت کی اس قدر فکر تھی تو کیسے ممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تعلیم کو آگے پھیلانے والے اس ہم فرض سے غافل رہیں۔ لجنہ اماء اللہ کا قیام اس بات کا واضح صاف ثبوت ہے کہ آپ اپنی امت کی آنے والی نسلوں کو سنوارنے کے لئے حقیقی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا کرنا چاہتے تھے ان میں اتفاق وحدت، اخلاقی ،روحانی تبدیلی، ان کے دلوں میں خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت پیدا کرنا چاہتے تھے جس کے لئے بہت ضروی تھا کہ عورتوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کیاجائے تاکہ وہ اپنی قوم وطن اور جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ بن کر ابھریں اپنی نسلوں کوخدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حقیقی عاشق بنا سکیں۔
قادیان میں تعلیم کے لیے اوّلیت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کےبتائے ہوئے طریقِ تعلیم کو دی گئی ۔آپؑ نے فرمایا تھا:’’علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے، خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا یخْشَی اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهٖ الۡعُلَمٰٓؤُا۔(الفاطر: 29)اگر علم سےاللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو وہ علم ترقی کا ذریعہ نہیں ۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 7 ایڈیشن 1988ء)
حضرت مسیح موعودؑکی وفات کے بعدخدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق خلافت کا عظیم لشان نظام شروع ہوا۔ اسلام احمدیت کی روشنی کا سفر پوری دنیا میں پھیلنا شروع ہوا۔
(جاری ہے)