بچوں کی نیک تربیت کے لئےرہنما اصول
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 فروری 1989ء میں خصوصیت سے واقفین نو بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں بعض راہنما اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا
’’جہاں تک اخلاق حسنہ کا تعلق ہے اس سلسلے میں جو صفات جماعت میں نظر آنی چاہئیں وہی صفات واقفین میں بھی نظر آنی چاہئیں بلکہ بدرجہ اولیٰ نظر آنی چاہئیں۔ ان صفات حسنہ سے متعلق، ان اخلاق سے متعلق میں مختلف خطبات میں آپ کے سامنے مختلف پروگرام رکھتا رہا ہوں اور اُن سب کو ان بچوں کی تربیت میں خصوصیت سے پیش نظر رکھیں۔
خلاصۃً ہر واقف زندگی بچہ جو وقف نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اُس کو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہئے اور یہ نفرت اُس کو گویا ماں کے دودھ میں ملنی چاہئے اور باپ کی پرورش کی بانہوں میں۔ جس طرح ریڈی ایشن کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے اس طرح سچائی اُس کے دل میں ڈوبنی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا۔ ضروری نہیں ہے کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اُس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجے کے مومنوں کے لئے ضروری ہے اس لئے اب ان بچوں کی خاطر اُن کو اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہو گی اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز بنانا ہو گا اور احتیاط کرنی ہو گی کہ لغو باتوں کے طور پر یا مذاق کے طور پر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے کیونکہ یہ ایک خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو آپ نے بہرحال پورا کرنا ہے۔ اس لئے ایسے گھروں کے ماحول سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں۔
قناعت کے متعلق میں نے کہا تھا اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہئے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہئے اور عقل اور فہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے یہ تربیت کریں تو ایسا ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دیانت اور امانت کے اعلیٰ مقام تک اُن کو پہنچانا ضروری ہے۔
بچپن سے اُن کے اندر مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہئے۔ ترش رُوئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی۔ ترش رُو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ اس لئے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ تحمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ صفت بھی واقفین بچوں میں بہت ضروری ہے۔ یعنی یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں۔
مذاق اچھی چیز ہے یعنی مزاح۔ لیکن مزاح کے اندر پاکیزگی ہونی چاہئے اور مزاح کی پاکیزگی دو طرح سے ہوا کرتی ہے۔ کئی طرح سے ہو سکتی ہے لیکن میرے ذہن میں اس وقت دو باتیں ہیں خاص طور پر۔ ایک تو یہ کہ گندے لطائف کے ذریعے دل بہلانے اور اپنے یا غیروں کے دل بہلانے کی عادت نہیں ہونی چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ لطافت ہو اُس میں ،مذاق اور مزاح کے لئے ہم لطافت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں یعنی لطیفہ کہتے ہیں اُس کو ۔لطیفہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ بہت ہی نفیس چیز ہے اور ہر قسم کی کرختگی اور بھونڈھاپن لطافت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ کثافت سے تعلق رکھتا ہے۔
(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 88-87)
٭…٭…٭