درس القرآن سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ مورخہ 29؍جولائی 2014ء بمقام مسجد فضل لندن
قرآن کریم کا علم و عرفان حاصل کرنا صرف ایک مہینے پر ہی منحصر نہیں بلکہ سارا سال رہنا چاہئے۔
جہاں مساجد ہیں، سینٹر ہیں، نماز باجماعت ہوتی ہے وہاں بھی درس کا انتظام ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے بھی مَیں تمام دنیا کی جماعتوں کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ مبلغین و مربیان جو ہیں وہ اپنی مقامی زبان میں جس حد تک تفسیر کبیر کا یا دوسری تفاسیر
جو جماعت میں ہیں بلکہ تفسیر کبیر ہی پہلے لینی چاہئے اس کا جس حد تک بہتر ترجمہ کر سکتے ہیں کریں اور درس دیا کریں اور جہاں مربیان نہیں ہیں وہاں کوئی بھی اردو پڑھنے والا لیکن صاحبِ علم قرآن کریم کا اس زبان میں ترجمہ کر کے درس دے سکتا ہے۔
یا انگلش میں فائیو والیم کمنٹری(Five Volume Commentary) ہے اس میں سے درس دے سکتے ہیں۔
قرآن مجید کی آخری چار سورتوں کا درس۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تفسیر کے حوالہ سے ان سورتوں کے مضامین کی پُر معارف تشریح۔ اجتماعی دعا
حضورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
’’تلاوت کرنے سے پہلے مَیں ایک دو باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں جس کا درس سے ہی تعلق ہے۔ کیونکہ یہاں کے رہنے والوں کو تو پتہ ہے، علم میں ہے کہ یہاں درس باقاعدہ ہوتا ہے۔ باہر کی دنیا کو یہ پتہ نہیں کہ رمضان کے مہینہ میں باقاعدگی سے شام کو یہاں درس ہوتا رہا۔ مختلف علماء دو دو دن درس دیتے رہے۔ اس لئے یہ واضح ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان میں یہاںپورے قرآن کریم کا درس ہوا۔ یہ نہیں کہ آخری تین یا چار سورتیں پڑھ کے درس دے دیا اور دعا ہو گئی اور رمضان اور قرآن کریم کا حق ادا ہو گیا۔ قرآن کریم کا حق اسی صورت میں ادا ہوتا ہے جب پورا رمضان اس پر توجہ دی جائے۔ اس کی تلاوت کی جائے۔ اس کی تفسیر سنی جائے۔ مساجد میں باقاعدہ درس ہوں۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ مختلف مذاہب سے، مختلف فرقوں سے، مختلف روایات کے ساتھ لوگ جماعت میں داخل ہو رہے ہیں اور غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ شاید یہ آخری دن کا درس ہی پورے رمضان کے جتنے دروس ہیں ان پر حاوی ہو گیا اور کافی ہو گیا۔ بعض دفعہ ایسی باتوں سے بدعات بھی راہ پا جاتی ہیں اس لئے وضاحت ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان بدعات کو ختم کرنے آئے تھے اور قرآن کریم کی محبت اور تعلیم کو دنیا میں پھیلانے آئے تھے۔ قرآن کریم کا پیار اور اس پر عمل کروانے کی تڑپ آپ میں کس قدر تھی۔ اس بارے میں آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن کریم کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیںگے ان کوآسمان پر مقدم رکھا جائے گا‘‘۔(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13) پھر فرمایا’’ تم ہشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا۔ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْاٰن۔ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن کریم میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہی ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مُصدّق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27)
پس قرآن کی یہ اہمیت ہے جس کی وجہ سے رمضان میں جماعت میں قرآن کریم کے درس کا سلسلہ خاص طور پر جاری ہے اور اسی حوالے سے آج اس سلسلے کا آخری درس ہے۔ لیکن اس درس اور دعا کے بعد درسوں کا سلسلہ بند نہیں ہو جاتا اور نہ ہونا چاہئے۔ قرآن کریم کا علم و عرفان حاصل کرنا صرف ایک مہینے پر ہی منحصر نہیں بلکہ سارا سال رہنا چاہئے۔ اس وجہ سے یہاں روزانہ فجر کی نماز کے بعد چند منٹ کے لئے قرآن کریم کا درس ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر بیان کی جاتی ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کو اس کو سننا چاہئے۔ اسی طرح جن جن دوسری جگہوں پر لوگ رہ رہے ہیں جہاں مساجد ہیں، سینٹر ہیں، نماز باجماعت ہوتی ہے وہاں بھی درس کا انتظام ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے بھی مَیں تمام دنیا کی جماعتوں کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ مبلغین و مربیان جو ہیں وہ اپنی مقامی زبان میں جس حد تک تفسیر کبیر کا یا دوسری تفاسیر جو جماعت میں ہیں بلکہ تفسیر کبیر ہی پہلے لینی چاہئے اس کا جس حد تک بہتر ترجمہ کر سکتے ہیں کریں اور درس دیا کریں اور جہاں مربیان نہیں ہیں وہاں کوئی بھی اردو پڑھنے والا لیکن صاحب علم قرآن کریم کا اس زبان میںترجمہ کر کے درس دے سکتا ہے۔ یا انگلش میں فائیو والیم کمنٹری(Five Volume Commentary) ہے اس میں سے درس دے سکتے ہیں۔ جہاں یہ بھی نہیں ہے وہاں مختلف زبانوں میں تراجم کے مختصر نوٹس بنا کر اور اب تو کئی زبانوں میں قرآن کریم چھپ چکے ہیںان میں سے درس دیں۔ بہر حال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ درس قرآن کریم کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہنا چاہئے۔ پس اس وضاحت کو تمام دنیا کی جماعتوں کو سامنے رکھنا چاہئے
أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَّبَّ۔ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ۔ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ۔ وَا مْرَاَتُہٗ۔ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ۔ فِیْ جِیْدِھَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ۔ (اللھب)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ۔ وَلَمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔ (الاخلاص)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ مِنْ شَرِّمَاخَلَقَ۔وَمِنْ شَرِّغَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ۔ وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِیْ الْعُقَدِ۔وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۔ (الفلق)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ۔ اِلٰہِ النَّاسِ۔ مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ۔ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔ (النَّاس)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے نام کے ساتھ جو بےانتہا رحم کرنے والا بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوئے اور وہ بھی ہلاک ہو گیا۔ اس کے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا۔ وہ ضرور ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا۔ اور اس کی عورت بھی اس حال میں کہ وہ بہت ایندھن اٹھائے ہوئے ہو گی۔ اس کی گردن میں کھجور کی چھال کا مضبوطی سے بنا ہوا رسّہ ہو گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو بےانتہا رحم کرنے والا بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ تو کہہ دے کہ وہ اللہ ایک ہی ہے اللہ بے احتیاج ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور اس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو بےانتہا رحم کرنے والا بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ تو کہہ دے کہ میں چیزوں کو پھاڑ کر نئی چیز پیدا کرنے والے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ من شر ما خلق۔ اس کے شر سے جو اس نے پیدا کیا۔ اور اندھیرا کرنے والے کے شر سے جب وہ چھا چکا ۔اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔ اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو بےانتہا رحم کرنے والا بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تو کہہ دے میں انسانوں کے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں۔ انسانوں کے بادشاہ کی۔ انسانوں کے معبود کی۔ بکثرت وسوسے پیدا کرنے والے کے شر سے جو وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ وہ جو انسانوں کے ساتھ دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ خواہ وہ جنوں میں سے ہو یعنی بڑے لوگوں میں سے یا عوام الناس میں سے۔
سورۃ اللہب میں جو مضمون بیان ہوا ہے۔تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَّبَّ۔ کہ ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوئے اور وہ بھی ہلاک ہو گیا اور مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ۔ اس کے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا۔ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ۔ وہ ضرور ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا۔
اس سورت میں دشمنوں کے اپنی آگ میں جل جانے کا اور اسلام کی ترقی کا ذکر ہے۔ اور اس ترقی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع میںبتا دیا تھا۔ آپ کے چچا اور ان جیسے دشمنوں کی دین کو ختم کرنے کی جو خواہش تھی۔جِن کو اپنی دولت اور طاقت اور کثرت پر بڑا فخر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب لوگ اپنی آگ میں جل جائیں گے اور پھر جیسا کہ اسلام کی تاریخ گواہ ہے ایسا ہی ہوا۔
اسی طرح اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دعویٰ سے پہلے بھی 1883ء میں یہ الہام ہوا۔تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَّبَّ۔ اور پھر 1893ء میں دوبارہ یہ الہام ہوا۔(براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 609 حاشیہ، تحفہ بغداد، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 27-28) تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی تسلی دی کہ آپ کے دشمن بھی اپنی دولت اپنی طاقت اپنی کثرت کے باوجود ختم ہو جائیں گے اور اپنی آگ میں جل جائیں گے۔ بھسم ہو جائیں گے۔ اور یہ جو آپ کے دشمن اسلام تھے یہ بیرونی بھی ہیں اور اندرونی بھی۔ کھل کے دشمنی کرنے و الے بھی ہیں جو اسلام سے دشمنی کرنے والے ہیں اور آپ پر تکفیر کے فتوے لگانے والے بھی ہیں۔
تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَّبَّ۔اللہ فرماتا ہے کہ دشمنوں کی تمام کوششیں اور اسلام کو تباہ کرنے کے حیلے جب بھی ہوں گے تباہی کا منہ دیکھیں گے۔ بلکہ ایک حقیقی رنگ میں جلیں گے بھی۔ ایک تو ان کا جلنا حقیقی رنگ میں آگ میں جلنا ہو گا۔ جب بھی اسلام کی ترقی دیکھیں گے ایک غصے کی آگ میں جلیں گے۔ اسی طرح احمدیت کے مخالف جو ہیں وہ بھی اپنی آگ میں جل رہے ہیں۔ حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔ غصے کی آگ میں جل رہے ہیں۔بہر حال دنیا میں بھی ان کی تباہی ہے اور قیامت کے دن بھی ایسے مخالفین کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ مقدر کی ہوئی ہے جو دین کے مخالف ہیں، جو نبیوں کا انکار کرنے والے اور ظلم کرنے والے ہیں۔
پھر وَا مْرَاَتُہٗ۔حَمَّا لَۃَ الْحَطَبِ۔ یہ لوگ جو اسلام پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں اور کسی نہ کسی صورت میں مصروف ہیں کہ اسلام کی طاقت کو توڑ دیں۔ آج یہ کامیاب ہوئے بھی تو یہ ان کی ایک عارضی کامیابی ہو گی۔ کبھی مستقل کامیاب نہیں ہو سکتے۔ آج کل دنیا میں دو اڑھائی سال سے عرب سپرنگ (Arab Spring)کی ایک ٹرم شروع ہوئی ہوئی ہے۔ یہ عرب سپرنگ جو ہے یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے کہ عرب کے کسی ایک ملک میں ایک فتنہ پیدا ہوا۔ حکومت کے خلاف رعایا کھڑی ہوئی اور آپس میں یہ مار دھاڑ شروع ہوئی۔ پھر دوسرے ملک میں، پھر تیسرے میں۔ یہ دیکھا دیکھی نہیں ہے بلکہ ایک plan کے تحت بڑے طریقے سے لگتا ہے یہ کیا گیا ہے۔اسلامی ممالک کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی ان لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ایسی ہی یا اس جیسی اور بھی جو کوششیں ہیں یہ کرتے رہیں گے لیکن کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہتھیار بھی یہ لوگ خود بناتے ہیں۔ خود بیچتے ہیں۔ خود انہی قوموں کو، حکومت کو بھی دیتے ہیں۔ اور مخالفین کو بھی پھر لڑواتے ہیں تا کہ طاقت کمزور ہو۔ ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ عراق کی اتنی ترقی ہو گئی ہے کہ یورپ کے ملکوں کے برابر ہے۔ لبنان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ تو فرانس کی طرح ہے۔ پیرس کہلاتا تھا۔ اسی طرح اور ملک ہیں۔ گو دنیاوی ترقی کی وجہ سے ان مسلمانوں نے بھی مار کھائی۔ لیکن دنیا داروں کو ان کی یہ دنیاوی ترقی بھی پسند نہیں آئی اور اسی لئے سب کچھ کیا گیا اور اب ہر ملک کو لڑایا جا رہا ہے۔ ایک بڑی سوچی سمجھی سکیم کے تحت لڑایا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے بعض تیل کی دولت والے جو ممالک ہیں وہ بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ کھجور کی رسّی کا بٹا ہو ا جو رسّہ ہے وہ ان کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے۔
اسی طرح یہ جو تیل کی دولت ہے یہ جماعت کے خلاف بھی آگیں لگوانے میں استعمال ہو رہی ہے۔ اب اس کی مثال ہم نے دو دن پہلے ہی دیکھی۔ یہ نام نہاد مُلّاں یا مذہبی لوگ جنہوں نے اسلام کا غلط تصور لوگوں میں پیدا کر دیا ہے۔ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کو غلط رنگ میں پیش کیا اور لوگوں کو بھڑکایا۔ یہ اپنے زور سے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ کسی زمانے میں پاکستان میں مولوی کو تو ایک عام سا آدمی سمجھا جاتا تھا اور جو گاؤں کا زمیندار تھا وہ اس کو تنخواہ دیا کرتا تھا۔ آج مولوی حکومت کر رہا ہے۔ اس لئے کہ یہ تیل کی دولت والے ملک جو ہیں انہوں نے ان کو خرید کر اس کام پر ابھارا ہوا ہے، اکسایا ہوا ہے کہ آگیں لگاؤ اور اکثر یہی کہا جاتا ہے اوراب تو یہ کھلی بات ہے کہ کویت اور سعودی عرب سے ان کی مدد کی جا رہی ہے تا کہ احمدیوں پر ظلم کرو۔ لیکن خدائی تقدیر یہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ بھی فرمایا کہ آخر کار یہ لوگ اپنی آگ میں جل جائیں گے۔ ان کی حسرتیں ان کے دلوں میں رہ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت، وہ حقیقی اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے وہی ترقی کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ایک تفسیر میں غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ07:) کے معنی بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ’’ انہی کی طرف قرآن شریف کی آخری چار سورتوں میں اشارہ ہے جیسا کہ سورۃ تبّت کی پہلی آیت یعنی تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَّب۔ اس موذی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مظہر جمال احمدی یعنی احمد مہدی کا مکفّر اور مکذب اور مہین ہو گا۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 214-215)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکفیر کرنے والے، آپ کی تکذیب کرنے والے، آپ کی اہانت کرنے والے ہوں گے اور آپ خود دیکھ لیں کہ آجکل کفر کے فتوے لگ رہے ہیں۔ اسی زمرہ میں آجکل کے علماء بھی آتے ہیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ ’’غرض آیتتَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَّب۔ یہ قرآن شریف کے آخری سپارے میں چار آخری سورتوں میں پہلی سورت ہے۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موذی دشمنوں پر دلالت کرتی ہے ایسا ہی بطور اشارۃ النص اسلام کے مسیح موعود کے ایذا دہندہ دشمنوں پر اس کی دلالت ہے۔‘‘
جو دشمن حضرت مسیح موعود کو ایذادینے والے ہیں۔ تکلیفیں پہنچانے والے ہیں ان پر بھی یہ ثابت ہوتی ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا اس وقت مسیح موعود کے ایذادہندہ، تکلیفیں پہنچانے والے وہ تمام علماء بھی ہیں جو جماعت کے خلاف آگ بھڑکا رہے ہیں۔ حکومتیں سیاسی مقاصد کے لئے ان کے پیچھے ہیں اور اب یہ گوجرانوالہ میں مثلاً جو واقعہ ہوا یا اس سے پہلے مختلف وقتوں میں واقعات ہوتے رہے ہیں۔ گوجرانوالہ میں1974ء میں بھی بڑے ظلم ہوئے تھے اور سب سے زیادہ شہادتیں وہیں ہوئی تھیں ۔ جب سب کچھ جل گیا تو پھر وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی ہوش آئی۔ انہوں نے فوج اور نفری اور پولیس بھیجی بلکہ اس سے پہلے جو مقامی پولیس تھی اس کی نگرانی میں ہی یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ تو بہر حال حکومت کے سیاسی مقاصد ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مُلّاں کی کوئی سٹریٹ ویلیو (Street Value) ہے۔ اس کے پاس ایک منبر ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو بھڑکا سکتا ہے۔ اس سیاسی مقصد کے لئے ان کے پیچھے حکومتیں ہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس وقت اسلامی بادشاہت جن کی تیل کی آمد ہے وہ بھی ان آگیں لگانے والوں کو اپنی آمد دے رہی ہیں۔ بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
اس کی مثال بتانے کے بعد کہ یہ ایذاء دہندہ دشمنوں پر دلالت کرتا ہے فرمایا کہ ’’مثلاً آیت ھُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْ لَہٗ بِالھُدٰ ی وَ دِینِ الحَقِّ لِیُظْھِرَ ہٗ علَی الدِّینِ کُلِّہٖ (التوبۃ33:)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہے اور پھر یہی آیت مسیح موعود کے حق میں بھی ہے ۔ جیسا کہ تمام مفسر اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پس یہ بات کوئی غیر معمولی امر نہیں ہے کہ ایک آیت کا مصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہوں اور پھر مسیح موعود بھی اسی آیت کا مصداق ہوں۔ بلکہ قرآن شریف جو ذوالوجوہ ہے اس کا محاورہ اسی طرز پر واقع ہو گیا ہے۔ (یعنی مختلف معنی رکھتا ہے۔ تفسیریں کی جا سکتی ہیں۔) اس کا یہ طریق ہے کہ ایک آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد اور مصداق ہوتے ہیں اور اسی آیت کا مصداق مسیح موعود بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ آیت ھُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالھُدٰ ی سے ظاہر ہے‘‘۔ اور فرمایا کہ ’’رسول سے مراد اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور مسیح بھی مراد ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ آیت تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ جو قرآن شریف کے آخر میں ہے آیت مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کی ایک شرح ہے جو قرآن شریف کے اول میں ہے کیونکہ قرآن شریف کے بعض حصے بعض کی تشریح ہیں۔‘‘
پھر اس کے بعد جو سورۃ فاتحہ میں وَلَاالضَّالِیْن ہے اس کے مقابل پر اس کی تشریح میں سورۃ تبت کے بعد سورۃ اخلاص ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں سکھلائی گئی ہیں۔ ایک یہ دعا کہ خدا تعالیٰ اس جماعت میں داخل رکھے جو صحابہ کی جماعت ہے۔ پھر اس کے بعد اس جماعت میں داخل رکھے جو مسیح موعود کی جماعت ہے جن کی نسبت قرآن شریف فرماتا ہے وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ04:) غرض اسلام میں یہی دو جماعتیں مُنْعَم عَلَیْھِم کی جماعتیں ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے آیتصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں۔ پس اس منعم علیہ گروہ سے اگر باہر نکلیں گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب کو سہیڑنے والے ہوں گے۔ اب دیکھ لیں کہ آپس میں کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے ۔ یہی نہیں کہ احمدیوں کو مارا جا رہا ہے یا آگیں لگائی جا رہی ہیں۔ آپس میں بھی ہر فرقہ ایک دوسرے کو مار رہا ہے۔ احمدی تو ظلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ابتلاء میں ڈالتا ہے لیکن اس ابتلاء کے بعد احمدیوں سے انعامات کا بھی وعدہ ہے لیکن دوسرے لوگ جو ابتلاء میں پڑتے ہیں ان کے ساتھ انعامات نہیں۔
پھر فرمایا کہ یہی دو جماعتیں مُنْعَم علیہم کی جماعتیں ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے آیتصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں کیونکہ تمام قرآن کریم پڑھ کر دیکھو۔ جماعتیں دو ہی ہیں۔ ایک صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت۔ دوسری واٰخرین منھم کی جماعت جو صحابہ کے رنگ میں ہے اور وہ مسیح موعود کی جماعت ہے ۔ پس جب تم نماز میںاِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ06:-07) پڑھو یا ویسے دعا پڑھ رہے ہو۔ تو دل میں یہی ملحوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عام دعوت ہے کہ یہ دعا پڑھو اور نیک نیتی سے پڑھو۔ خدا تعالیٰ سے یہ راہ طلب کرو تو اللہ تعالیٰ اس راستے پر ڈالے گا۔ اور بے انتہا خط عرب لوگ بھی لکھتے ہیں۔ ان کے بہت سارے خطوط آتے ہیں۔ افریقہ سے بھی مسلمانوں میں سے بہت سارے خطوط آتے ہیں کہ ہم نے دعا کا تجربہ کر کے دیکھا، پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری صحیح رہنمائی کی اور ہمیں احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ فرمایا کہ یہ دعا پڑھو کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ تو دل میںیہی ملحوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں۔ فرمایا یہ تو سورۃ فاتحہ کی پہلی دعا ہے۔ دوسری دعا غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود کو دکھ دیں گے اور اس دعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورۃ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَب ہے۔‘‘
تیسری دعا وَلَاالضَّآلِّیْنَ ہے۔ اس کے مقابل پر قرآن کے آخر میں سورۃ اخلاص ہے۔ یعنیقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۔ لَمْ یَلِدْ۔ وَلَمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ(الاخلاص2تا 5)۔ اور اس کے بعد دو اور سورتیں ہیں یعنی سورۃ فلق اور سورۃ الناس۔ فرمایا کہ یہ دونوں سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس۔ سورۃ تبت اور سورۃ اخلاص کے لئے بطور شرح کے ہیں۔ ان میں اس کی تشریح اور تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اور ان دونوں سورتوں میں یعنی آخری دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانے سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جبکہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جبکہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا پر پھیلے گی ۔ پس سورۃ فاتحہ میں ان تین دعاؤں کی تعلیم بطور براعت الاستہلال ہے یعنی ایک روشن کرنے والی ایسی نئی چیز بیان کی گئی ہے یعنی وہ اہم مقصد جو قرآن میں مفصل بیان کیا گیا ہے مختصر طورپر اس روشنی کی طرف اس سورۃ میں اشارہ کر دیا گیا۔ اور قرآن کریم میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ فرمایا کہ سورۃ فاتحہ میں بطور اجمال اس کا افتتاح کیا ہے اور پھر سورۃ تبت اور سورۃ اخلاص اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس میں ختم قرآن کے وقت میں انہی دونوں بلاؤں سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے۔
پس افتتاح کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں سے ہوا اور پھر اختتام کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں پر کیا گیا۔ پھر فرماتے ہیں کہ یاد رہے ان دونوں فتنوں کا قرآن شریف میں مفصل بیان ہے اور سورۃ فاتحہ اور آخری سورتوں میں اجمالاً ذکر ہے۔ مثلاً سورۃ فاتحہ میں وَلَاالضَّآلِّیْنَ میں صرف دو لفظ میں سمجھایا گیا ہے کہ عیسائیت کے فتنے سے بچنے کے لئے دعا مانگتے رہو جس سے سمجھا جاتا ہے کوئی فتنہ عظیم الشان درپیش ہے جس کے لئے اہتمام کیا گیا ہے۔ نماز کے پنج وقت میں یہ دعا شامل کر دی گئی اور یہاں تک تاکید کی گئی کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ حدیث لَا صَلوٰۃَ اِلَّا بِالْفَاتِحَۃِ۔ سے ظاہر ہوتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ اس جگہ ان لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اہل حدیث ہیں۔ حدیثوں پر عمل کرنے والے اور قرآن پر چلنے والے ہیں اور سورۃ فاتحہ پر ہمیشہ زور دیتے ہیں کہ اس کے بغیر نماز پوری نہیں ہوتی حالانکہ سورۃ فاتحہ کا مغز مسیح موعود کی تابعداری ہے جیسا کہ متن میں ثابت کیا گیا ہے۔(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 217تا 219 مع حاشیہ) اس مضمون میں جہاں بیان فرما رہے ہیں اس میں بڑی تفصیل سے آپ نے ثابت فرمایا۔
پھر سورۃ اخلاص ہے اس میں جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوگیا خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا بڑا ثبوت دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’اس اقلّ عبارت کو جو بقدر ایک سطر بھی نہیں دیکھنا چاہئے کہ کس لطافت اور عمدگی سے ہر ایک قسم کی شراکت سے وجود حضرت باری کا منزہ ہونا بیان فرمایا ہے‘‘۔ یہ چھوٹی سی عبارت ہے اور بڑی اعلیٰ رنگ میں اس چھوٹی سی عبارت میں اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے شرک سے پاک ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔فرماتے ہیں کہ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرکت ازروئے حصر عقلی چار قسم پر ہے۔ یعنی جہاں تک عقل کا تقاضا ہے عقل انحصار کرتی ہے چار قسموں کے اندر شرکت ہو سکتی ہے یا عدد میں فرمایا کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے۔ تعداد کے لحاظ سے شرکت ہوتی ہے۔ ایک دو تین چار۔ کبھی مرتبے میں شرکت ہوتی ہے۔ کسی کا سٹیٹس ہے مقام ہے، اس میں شرکت ہے کہ فلاں بھی اس مقام کا آدمی ہے۔ کبھی نسب میں۔ رنگ و نسب۔ خاندانی لحاظ سے ہوتا ہے کہ ہم بھی اتنے بڑے خاندان کے فلاں۔ کبھی فعل میں اور تاثیر میں۔ کام کیا اور اس کام کے اثرات کیا ہیں اس میں شرکت ہوتی ہے۔ گو بہت سارے لوگ ایک ہی طرح کے کام کرتے ہیں اور ایک ہی طرح کے اثرات بھی اس میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتےہیں دنیا والے ایک چیز بناتے ہیں اس کے مقابل پر دوسری چیز بن جاتی ہے۔ کاریں بنانے والے ہیں ایک کار بنانے والی کمپنی ایک چیز بناتی ہے۔ اس کے مقابلے پر دوسری وہی اس میں سہولیات مہیا کر کے وہ چیز بنا دیتی ہے۔ اس طرح مقابلہ چلتا رہتا ہے۔ تو بہر حال شرکت ہے جہاں مقابلہ ہو رہا ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ اس کو اس صورت میں ان چاروں قسم کی شراکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلایا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے۔ دو یا تین نہیں ۔ وہ ایک خدا ہے احد ہے دو تین نہیں ہو سکتا۔ وہ صمد ہے یعنی اپنے مرتبہ وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے۔ اس کا جو مقام ہے ضرورت کا اور اس کا اور جو مقام ہے اس سے چیزوں کا مطالبہ یا تقاضا کرنے کا یا جس مقام تک کوئی انسان سوچ سکتا ہے اس میں وہ ایک ہے۔ محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے جس کی احتیاج کی ہر وقت ضرورت ہے۔ ہر انسان اس کا محتاج ہے۔ پس وہ منفرد ہے، ایک ہے کیونکہ اس جیسا کوئی اَور ہو ہی نہیں سکتا جو احتیاج پوری کر سکے۔ دنیاوی احتیاجیں جو ہیں جیسا کہ ایک خطبہ میں مَیں نے گزشتہ دنوں بیان کیا تھا وہ سب اس پر ہی منحصر ہیں۔ایک مریض ڈاکٹر سے علاج کرا رہا ہے۔ بیشک ڈاکٹر علاج کر رہا ہے، دوائیاں دے رہا ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا تو اس کو شفا نہیں ہو سکتی۔ انسان کی جیب میں رقم ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میری احتیاج اس رقم سے پوری ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس رقم سے وہ چیز ملے۔مریض بازار جاتا ہے۔ راستے میں ہارٹ اَٹیک ہوتا ہے اور وہ فوت ہو جاتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر اس کا فضل ہو تو سب اسباب کے ساتھ احتیاج پوری ہو سکتی ہے۔ اور پھر فرمایا اور بجز اس کے تمام چیزیںممکن الوجود ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کا وجود پیدا نہیں ہوسکتا۔ جو ازل سے ہے ابد تک رہے گا۔ اس کی کوئی مثال نہیں اور باقی سب چیزیں بن سکتی ہیں، پیدا ہو سکتی ہیں، دیکھی جا سکتی ہیں اور دوسری تمام چیزیں ہالک الذات ہیں۔ یعنی اپنی ذات میں ہلاک ہونے والی ہیں۔ انسان پیدا ہوتا ہے آخر میں مر جائے گا۔ کوئی چیز آپ بناتے ہیں ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔ آخر میں ختم ہو جاتی ہے اور اسی لئے کمپنیاں جو چیز بناتی ہیں بہت بڑی مشہور کمپنیاں بھی جو کہتی ہیں کہ ہماری چیزیں دیرپا ہیں کبھی مستقل ضمانت نہیں دیتیں اور اس کی بھی گارنٹی دو تین سال سے زیادہ نہیں دیتیں۔ فرمایا کہ وہ باقی چیزیں ہالک الذات ہیں جو اس کی طرف ہر دم محتاج ہیں۔ اس کا فضل نہ ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔
پھر فرمایا وہ لَمْ یَلِدْ ہے یعنی اس کا کوئی بیٹا نہیں۔ تا بوجہ بیٹا ہونے کے اس کا شریک ٹھہر جائے اور وَلَمْ یُوْلَدْہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اس کا کوئی شریک بن جائے۔ اور وہ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اس سے برابری کرنے والا نہیں تا باعتبار فعل کے اس کا کوئی شریک پاوے۔ اس کے برابر کام بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ سو اس طور سے ظاہر فرما دیا کہ خدا تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اور منزہ ہے اور وحدہٗ لا شریک ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کےصَمَد ہونے کا صحیح ادراک پیدا ہو جائے اور انسان اسےصَمَد سمجھے تو کسی دوسرے کی طرف نظر ہو ہی نہیں سکتی۔ وہی ہے جو ہماری احتیاجیں پوری کرنے والا ہے جیسا کہ مَیں نے مثالیں دیں۔(ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 518)
پس اسی کی طرف اگر ہم جھکیں تو جتنی بھڑکائی ہوئی آگیں بھی ہیں وہ بھی خود ٹھنڈی ہو جائیں گی یا بھڑکانے والے خود اس میں بھسم ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جماعت پہ۔ کبھی دوسروں پر انحصار نہیں کیا۔ افریقن ممالک میں جماعت تبلیغ کرتی ہے۔ پھر وہاں مساجد بنائی جاتی ہیں یا اور سہولتیں دی جاتی ہیں۔ پہلے کبھی خیال نہیں آتا کسی تبلیغی جماعت کو، کسی ملک کو لیکن جب جماعت وہاں پر مرکز اور سینٹر کھول لیتی ہے، مسجد بنا دیتی ہے تو اکثر علماء پیچھے پہنچ جاتے ہیں اور ان میں وہ ہیں جو سعودی عرب سے تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں کہ ہم مسجد بنا دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہے وہ نومبایع جماعتیں بھی جو ہیں ان میں بڑا ایمان اور اخلاص ہے۔ وہ کہتے ہیں پہلے تو تم آئے نہیں اب جب یہ ہمیں دین سکھانے آ گئے۔ دین سکھا دیا۔اللہ تعالیٰ کی حقیقت ہمارے دل میںپیدا کر دی۔ اس کی وحدانیت ہمارے دل میں پیدا کر دی تو اب تم کیا کرنے آئے ہو۔ چلے جاؤ۔ دو دن ہوئے ایک غیر از جماعت دوست بڑے پڑھے لکھے ہیں ملنے آئے تھے۔ گیمبیا میں آجکل سرکاری طور پر بڑے اعلیٰ عہدے پرہیں۔ کہتے ہیں کہ وہاں کم از کم یہ آرام ہے کہ مالکی لوگ ہیں جو شدّت پسند نہیں۔ لیکن اسی وجہ سے اب افریقن ملکوں میں بھی بعض تنظیموں نے شدّت پسندی شروع کر دی ہے اور ان کو بھی ہوا دینے والے یہ تیل کی دولت والے ملک ہیں کیونکہ انہوں نے اب وہاں سے نوجوانوں کو اکٹھا تعلیم کے لئے اور تربیت کے لئے سعودی عرب لے جانا شروع کر دیا ہے ۔اور پھر پیسے بھی دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ نوجوان جب واپس آتے ہیں تو وہی شدت پسندی کی تعلیم لے کر اور اپنے علاوہ ہر فرقے کو کافر کہہ کر اس کو قتل کرنے والے بن کر آتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے خطرہ بہر حال وہاں بھی بڑھ رہا ہے۔
پھر سورۃ الفلق ہے اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں۔ یعنی یہ زمانہ اپنے فساد عظیم کی رو سے اندھیری رات کی مانند ہے۔ سو الٰہی قوتیں اور طاقتیں اس زمانے کی تنویر کے لئے درکار ہیں۔ انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 604) یعنی الٰہی طاقتیں ہوں گی تو تبھی روشنی نظر آئے گی۔ اور یہ الٰہی طاقتیں اور قوتیں اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وابستہ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اس زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشگوئی بھی فرما دی تھی۔ پس اسلام پھیلانے کی خواہشمند قوتیں یا نام نہاد خواہشمند قوتیںکہوں گا، چاہے وہ سنجیدگی سے اٹھی ہیں یا طاقت حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں وہ ناکام ہوں گی۔ اور یہ بھی ایک منصوبہ بندی ہے کہ پہلے شدت پسند گروہ بنائے گئے۔ پھر اب ایک خلافت کا شوشہ چھوڑا گیا۔ لیکن ان سب چیزوں نے ناکامی کا منہ دیکھنا ہے۔ خلافت بھی اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے ہی قائم ہوئی ہے اور اسی نے ہی قائم رہنا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ چند دن ہوئے بی بی سی کی ایک نمائندہ جو کوئی ڈاکیو منٹری بنا رہی ہیں میری پاس آئی تھیں کہ خلافت کی حقیقت کیا ہے اور جماعت احمدیہ کی خلافت کیا ہے اور یہ جو نعرے اٹھتے ہیں خلافت کے یہ کیا ہیں؟ ان کو بھی مَیں نے یہی جواب دیا تھا کہ یہ خلافت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق قائم ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے قائم ہوئی اور اس کی ضمانت بھی اپنی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور قرآن کریم بھی ہمیں اس کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اور جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے گا چاہے وہ دنیاوی طاقتیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لئے استعمال کریں یا بعض گروہ اپنی عارضی حکومتیں قائم کرنے کے لئے استعمال کریں اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا اور کچھ دن بعد خود ہی ختم ہو جائے گی۔
پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقْ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’ بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا اَوروں پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر فلاں نہ ہوتا تو میں ہلاک ہو جاتا‘‘۔ فرمایا کہ یہ کہتے ہیں کہ’’ میرے ساتھ فلاں نے احسان کیا‘‘ نہ کیا تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔فرماتے ہیں کہ’’ وہ نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ میں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جس کی تمام پرورشیں ہیں۔ رب یعنی پرورش کنندہ وہی ہے۔ اس کے سوا کسی کا رحم اور کسی کی پرورش نہیں ہوتی۔ حتی کہ جو ماں باپ بچے پر رحمت کرتے ہیں دراصل وہ بھی اسی خدا کی پرورشیں ہیں اور بادشاہ جو رعایا سے انصاف کرتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے وہ سب بھی اصل میں خدا تعالیٰ کی مہربانی ہے۔ ان تمام باتوں سے اللہ تعالیٰ نے یہ سکھلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برابر کوئی نہیں۔ سب کی پرورشیں اسی کی ہی پرورشیں ہوتی ہیں۔‘‘ یعنی جو مادی پرورشیں ہیں، دنیاوی پرورشیں ہیں یا لوگ خیال رکھتے ہیں چاہے وہ ماں باپ ہی ہوں یا حکومتیں ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی پرورشیں ہی ہیں۔ اس کے بغیر نہیں ہو سکتیں۔’’ بعض لوگ بادشاہوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نہ ہوتا تو میں تباہ ہو جاتا اور میرا فلاں کام بادشاہ نے کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ یاد رکھو ایسا کہنے والے کافر ہوتے ہیں۔ انسان کو چاہئے کہ کافر نہ بنے مومن بنے۔ اور مومن نہیں ہوتا جب تک کہ دل سے ایمان نہ رکھے کہ سب پرورشیں اور رحمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔‘‘
فرمایا ’’ اسی طرح بچے اور تمام رشتہ داروں کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رحم ہونا ضروری ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل مَیں ہی تمہاری پرورش کرتا ہوں۔ جب خدا تعالیٰ کی پرورش نہ ہو تو کوئی پرورش نہیں کر سکتا۔ دیکھو جب خدا تعالیٰ کسی کو بیمار ڈال دیتا ہے تو بعض دفعہ طبیب کتنا ہی زور لگاتے ہیں مگر وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ طاعون کے مرض کی طرف غور کرو۔ سب ڈاکٹر زور لگا چکے مگر یہ مرض دفع نہ ہوا۔ (اُس زمانے میں طاعون پھیلا ہوا تھا) اصل یہ ہے کہ سب بھلائیاں اس کی طرف سے ہیں اور وہی ہے کہ جو تمام بدیوں کو دور کرتا ہے۔ (ملفوظات جلد6 صفحہ 24-25۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
سورۃ الفلق میں وَمِنْ شَرِّغَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شر سے بھی بچائے جس میں زمانے کی برائیاں انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں اور سچائی کی روشنی بجھ چکی ہے۔ گناہوں کے اندھیرے دنیا پر چھائے ہوئے ہیں یا ایک امکانی صورت میں ہوں۔ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ ان برائیوں سے بھی بچائے، اندھیروں سے بھی بچائے، سچائی کی روشنی بجھ چکی ہو ان سے بھی بچائے یا بے چینیوں اور محرومیوں نے گھیرا ہوا ہے ان سے بھی اللہ تعالیٰ بچائے۔ امید کی جب کوئی کرن نہ نظر آتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس شر سے بھی بچائے۔ یہ بھی اس دعا کا مطلب ہے۔
پس یہ زمانہ ہمیں بڑا واضح نظر آ رہا ہے۔ آجکل یہی کچھ ہے۔ سچائی بھی مفقود ہے۔ برائیاں بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں۔ ٹی وی کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ہرگھر میں برائیوں نے اڈے ڈالے ہوئے ہیں۔ مادی خواہشات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ بے چینیاں اور محرومیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ روحانیت کی کمی ہر جگہ نظر آتی ہے۔ پس اس حالت میں مسیح موعود کی جماعت جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے وہی ہے اگر وہ یہ دعا حقیقت میں کرے، غور سے کرے، سمجھ کے کرے تو ان چیزوں سے بچ سکتی ہے اور زمانے کو بچا سکتی ہے۔
مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان شرور سے بچنے کی یہ دعا سکھائی ہے اور ان سے نکلنے کی دعا سکھائی ہےکہ کس طرح نکلا جا سکتا ہے۔ اور جب دعا سکھائی تو مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر انتظام بھی کر دیا۔ اللہ کرے کہ اس دعا کا اِدراک بھی ان لوگوں کو حاصل ہو۔اسی طرح عمومی طور پر دنیا کو بھی اسلام کی حقیقی روشنی نظر آئے۔
پھروَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِیْ الْعُقَدِ۔ یہ فرما کر ایسے نفوس کی شرارت سے بچنے کی دعا سکھائی ہے جو گرہیں یا معاہدے تڑوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس میں مختلف قسم کے معاہدات ہیں۔ لوگوں کے اپنے ذاتی معاملات بھی ہیں۔ فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے ایک کے کان میںکچھ کہا دوسرے کے کان میں جا کے کچھ پھونکا۔ ذاتی معاملات خراب ہوتے چلے گئے۔ بلکہ بہت سارے معاملات جو میاں بیوی کے تعلقات کی خرابی کے پہنچتے ہیں۔ جب تحقیق کرو تو بعض دفعہ پتہ لگتا ہے کہ عورت فلاں عورت کی باتوں میں آ گئی تھی۔ اس کی وجہ سے میاں کے خلاف ہو گئی۔ یا میاں نے بلا وجہ فلاں مرد کی باتوں میں آ کے اپنی بیوی پر الزام لگانے شروع کردئیے۔ تو یہ بھی معاہدات ہیں۔ یہ تو ذاتی سطح کے ہیں۔ یہ دعا ایسی ہے جو ذات سے لے کے جماعتی رنگ تک ہرچیز پر حاوی ہے۔بعض لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ دے کر بات کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس طرح فرمایا اور خلیفہ وقت نے تو اس طرح کہہ دیا۔ یہ غلط بات ہے۔ اپنی سمجھ کا قصور ہوتا ہے۔ یا کسی اور رنگ میں خلافت سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نظام خلافت کے لئے دل میں بے چینیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کا آغاز جماعتی نظام کے خلاف بے چینیاں پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اس کے شر سے بھی بچنے کی دعا کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کو غلط رنگ میں پیش کردیں گے۔ اس کی تشریح کے لئے مختلف حیلے بہانے تلاش کریں گے۔ کبھی خلفاء کے بیانات کو لے کر کہیں گے کہ دیکھو پہلے خلیفہ نے یہ کہا، اب یہ یہ کہتا ہے۔ تو مختلف رنگ ہیں جس میں جماعتی طور پر بھی فساد پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح دنیاوی رنگ میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض کہ شیطان کی کوشش یہ ہے کہ انسان میں فتنہ پیدا کیا جائے اور جس کے لئے اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت بھی مانگی تھی۔ پس اس کے شر سے بھی بچنے کی اور ان فتنوں سے بھی بچنے کی دعا کرنی چاہئے۔
پھر حسد سے بچنے کی دعا سکھائی۔ اسلام کی ترقیات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہونی ہیں یا وابستہ ہیں۔ جو حسد کرنے والے ہیں ان کو ہضم نہیں ہو سکتیں نہ ہو رہی ہیں۔ اس لئے یہ دعا بھی اس آخری زمانے میں بڑی ضروری ہے۔
پھر سورۃ الناس میں ان شرور سے بچنے کا روحانی علاج بھی بتا دیا کہ اپنے معبود حقیقی کو پہچانو گے تو ان شرور سے بچے رہو گے جو اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ ورنہ کوئی اور راستہ نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان تین سورتوں کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں
’’ تم اے مسلمانو! نصاریٰ سے کہو‘‘۔ یعنی مسلمانوں سے مراد وہ حقیقی مسلمان ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقت کو اور پیغام کو سمجھا۔’’ کہوکہ وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہو ااور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے۔ اور تم جو نصاریٰ کا فتنہ دیکھو گے اور مسیح موعود کے دشمنوں کا نشانہ بنو گے۔ یوں دعا مانگا کرو کہ میں تمام مخلوق کے شر سے جو اندرونی اور بیرونی دشمن ہیں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو صبح کا مالک ہے یعنی روشنی کا ظاہر کرنا اس کے اختیار میں ہے‘‘۔
اب اس میں دو فتنوں کا ذکر کیا۔ ایک نصاریٰ کا فتنہ جو اپنے طور پر تبلیغ کر کے عیسائیت پھیلا رہے ہیں جو اس زمانے میں بہت زیادہ تھی اور دوسرا مسیح موعود کے دشمنوں کا فتنہ جس میں دونوں شامل ہیں۔ اپنے بھی اور غیر بھی۔ فرمایا’’ اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو صبح کا مالک ہے یعنی روشنی کا ظاہر کرنا اس کے اختیار میں ہے۔ اور میں اس اندھیری رات کے شر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور انکار مسیح موعود کے فتنہ کی رات ہے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس وقت کے لئے یہ دعا ہے جبکہ تاریکی اپنے کمال کو پہنچ جائے اور میں خدا کی پناہ ان زن مزاج لوگوں کی شرارت سے مانگتا ہوں جو گنڈوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکتےہیں یعنی جو عقدے شریعت محمدیہ میں قابل حل ہیں اور جو ایسے مشکلات اور معضلات ہیں جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ذریعہ تکذیب ٹھہراتے ہیں ان پر اور بھی عناد کی وجہ سے پھونکیں مارتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کی باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔ذریعہ تکذیب ٹھہراتے ہیں۔ جھٹلانے کا ذریعہ ٹھہراتے ہیں اور پھر عناد کی وجہ سے، دشمنی کی وجہ سے، ان پر اور بھی بعض حاشئے چڑھا دیتے ہیں۔’’ یعنی شریر لوگ اسلام کے دقیق مسائل کو جو ایک عقدہ کی شکل پر ہیں دھوکہ دہی کے طور پر ایک پیچیدہ اعتراض کی صورت پر بنا دیتے ہیں تا لوگوں کو گمراہ کریں‘‘۔
اسلام کے مخالف جو ہیں وہ یہی کچھ کر رہے ہیں۔ اسلام پر اعتراض اس کے خلاف کتابیں لکھی جاتی ہیں اور جان بوجھ کر لکھی جاتی ہیں۔ خود ہی بعض باتیں پیدا کرواتے ہیں پھر اس پر خود ہی اس کے خلاف مضامین لکھتے ہیں۔ پہلے بھی میں نے ذکر کیا تھا گزشتہ دنوں یہاں کسی شخص نے عراق کی نام نہاد خلافت جو ہے اس کو خلافت راشدہ کے ساتھ منطبق کر کے خلافت راشدہ پر بھی اعتراض کر دیا اور نعوذ باللہ حضرت ابوبکر کی ذات پر اعتراض کر دیا کہ وہ بھی ایسی تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ
’’ان نظری امور پر اپنی طرف سے کچھ حاشیے لگا دیتے ہیں اور یہ لوگ دو قسم کے ہیں‘‘۔ یعنی اس زمانے میں دو قسم کے مخالفین ہیں۔’’ ایک تو صریح مخالف اور دشمن دین ہیں‘‘۔ اسلام کے مخالف ہیں’’ جیسے پادری‘‘ یا ایسے لوگ یا مختلف سکالرز جو اپنے آپ کو بڑا مذہب کا ماہر سمجھتے ہیں اور اسلام پر اعتراض کرتے ہیں۔ ’’جو ایسے تراش خراش سے اعتراض بناتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ علمائے اسلام ہیں جو اپنی غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے‘‘۔ یہ بھی دشمن ہیں۔علماء ایک غلطی میں پھنس گئے۔ اب چھوڑنا نہیں چاہتے ’’اور نفسانی پھونکوں سے خدا کے فطری دین میں عقدے پیدا کرتے ہیں۔ اور زنانہ خصلت رکھتے ہیں کہ کسی مرد خدا کے سامنے میدان میں نہیں آ سکتے۔ صرف اپنے اعتراضات کو تحریف تبدیل کی پھونکوں سے عُقدہ لا ینحل بنانا چاہتے ہیں اور اس طرح پر زیادہ تر مشکلات خدا کے مصلح کی راہ میں ڈال دیتے ہیں‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مصلح بھیجا، مسیح موعود کو بھیجا اس کی راہ میں مشکلات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’وہ قرآن کے مکذّب ہیں کہ اس کی منشاء کے برخلاف اصرار کرتے ہیں اور اپنے ایسے افعال سے جو مخالف قرآن ہیں اور دشمنوں کے عقائد سے ہم رنگ ہیں دشمنوں کو مدد دیتے ہیں‘‘۔ اب عیسائیوں میں تو ایک فرقہ ایسا پیدا ہونے لگ گیا جنہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہیں آنا اور جب انہوں نے کہا تھا میں دوبارہ اس دنیا میں آؤں گا تو نعوذباللہ شراب کے نشے میں تھے لیکن مسلمانوں میں خاص طور پر ابھی تک یہ نظریہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوپر بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے دوبارہ آنا ہے۔ تو بہر حال دشمنوں کی مدد یہ خود کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ
’’پس اس طرح ان عقدوں میں پھونک مار کر ان کو لا ینحل بنانا چاہتے ہیں‘‘ جو حل نہ کئے جا سکیں۔ ’’پس ہم ان کی شرارتوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور نیز ہم ان لوگوں کی شرارتوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں جو حسد کرتے اور حسد کے طریقے سوچتے ہیں اور ہم اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسد کرنے لگیں۔‘‘ حسد کرتے ہیں، حسد کے طریقے سوچتے ہیں پھر جب وہ حسد کرنا شروع کریں، مطلب کہ عملی رنگ میں تکلیفیں پہنچا کر اس حسد کا اظہار کرنے لگ جائیں اس سے پناہ مانگو۔ یہ اس کا وسیع مطلب ہے’’ اور کہو کہ تم یوں دعا مانگا کرو کہ ہم وسوسہ انداز شیطان کے وسوسوں سے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے اور ان کو دین سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے کبھی بطور خود اور کبھی کسی انسان میں ہو کر خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔‘‘ یعنی کبھی تو وہ شیطان جو ہے خود دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے کبھی کسی اور ذریعہ سے وسوسے پیدا کرتا ہے۔ ان سب چیزوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔’’ وہ خدا جو انسانوں کا پرورندہ ہے انسانوں کا بادشاہ ہے انسانوں کا خدا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جو اس میں نہ ہمدردی انسانی رہے گی جو پرورش کی جڑ ہے۔‘‘ جو خدمتیں بعض حکومتیں کرتی ہیں ان میں انسانی ہمدردی کوئی نہیں ہوتی۔ ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں تا کہ ان قوموں کو زیر کیا جائے۔
دنیا کے ملکوںکی حکومتوں کی بہت ساری ایڈ (Aid) ایجنسیاں ہیں جو مدد کے نام پر اپنے پروجیکٹ شروع کرتی ہیں اور ستّر اسّی فیصد اس میں سے خود اپنے لوگوں کے لئے واپس لے جاتی ہیں اور یہ صرف سنی سنائی بات نہیں۔ مجھے ایک ایڈ ایجنسی (Aid Agency) سے غانا میں واسطہ پڑا تھا۔ اس نے مجھے خود بتایا کہ یہ ہماری اتنی ایڈ(Aid) ہوتی ہے اس میں سے اتنا فیصد تو ہم واپس لے جاتے ہیں باقی دس پندرہ بیس فیصد ہے جو خرچ کرتے ہیں اور وہ بھی صرف نام نہاد۔ اس لئے کہ حکومتیں ہمارے زیر اثر رہیں۔ سچی ہمدردی کوئی نہیں جو پرورش کی جڑ ہے فرمایا کہ’’ اور نہ سچا انصاف رہے گا جو بادشاہت کی شرط ہے۔‘‘ حقیقی بادشاہ کو تو سچا انصاف کرنا چاہئے۔ ایسا زمانہ آئے گا جو سچا انصاف بھی نہیں رہے گا اور یہ انصاف نہیں ہے۔’’ تب اس زمانے میں خدا ہی خدا ہو گا جو مصیبت زدوں کا مرجع ہو گا‘‘۔ ایسے وقت میں جو مصیبت والے لوگ ہیں خدا کی طرف رجوع کریں گے تو تبھی خدا ان کی مشکلات دور کر سکے گا۔ ’’یہ تمام کلمات آخری زمانے کی طرف اشارات ہیں جبکہ امان اور امانت دنیا سے اٹھ جائے گی۔
اب دیکھ لیں اپنے لئے ان کے اور اصول ہیں۔ یہ انصاف کیا کر رہے ہیں۔ اسرائیل جو بھی کر رہا ہے یہ کہتے ہیں ٹھیک کر رہا ہے۔ کسی حکومت نے آج تک اس کو ردّ نہیں کیا۔ یہ جو اَب بے دریغ فلسطینیوں کو مارا جا رہا ہے اور بعض انصاف پسند یہاں ایسے ہیں جو اَب بولنے لگ گئے ہیں بلکہ پچھلے دنوں یہاں کی ایک سابق ایم پی نے بڑا واضح طور پر کہا کہ پچھلے ساٹھ سال سے تم نے ایک تو ان کی زمین پر قبضہ کر لیا۔ ان پر ظلم کر رہے ہو اور پھر یہ کہتے ہو کہ وہ لوگ مظلوم نہیں ہیں اسرائیلی مظلوم ہیں۔ اس نے یہ بھی بڑا واضح طور پرکہاکہ یہ سب کچھ اس لئے ہےکہ امریکہ اور یورپ کی جو معیشت ہے وہ ان اسرائیلیوں کے کنٹرول میں ہے۔ دنیا کی تجارتوں پر یہودیوں کا قبضہ ہے اس لئے یہ کچھ نہیں کر رہے۔
فرمایا’’غرض قرآن نے اپنے اوّل میں بھی مَغْضُوْب عَلَیْھِمْ اور ضالّین کا ذکر فرمایا ہے اور اپنے آخر میں بھی جیسا کہ آیت لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَد بصراحت اس پر دلالت کر رہی ہے اور یہ تمام اہتمام تاکید کے لئے کیا گیا اور نیز اس لئے کہ تا مسیح موعود اور غلبہ نصرانیت کی پیشگوئی نظری نہ رہے اور آفتاب کی طرح چمک اٹھے‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 220تا 222) یعنی عیسائیت کا غلبہ اور مسیح موعود کی آمد دونوں چیزیں کھل کے سامنے آ جائیں۔ اور پھر انسان ان کاموازنہ کر کے مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’فرشتہ نیکی میں ترغیب اور مدد دیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہےاَیَّدَھُمْ بِرُوْح مِنْہ۔ اور شیطان بدی کی ترغیب دیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے۔یُوَسْوِسُ۔ ان دونوں کا انکار نہیں ہو سکتا۔ ظلمت اور نور ہر دو ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ عدم علم سے عدم شئے ثابت نہیں ہو سکتا‘‘۔ اگر کسی بات کا علم نہ ہو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ چیز ہی موجود نہیں۔ کسی نے کوئی چیز دیکھی نہیں تو اس سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ اس چیز کا وجود ہی کوئی نہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’ماسوائے اس عالَم کے اَور ہزاروں عجائبات ہیں‘‘۔ یہ جو ہم عالَم دیکھتے ہیں دنیا ہے اس کے علاوہ بھی تو اللہ تعالیٰ کے بہت سارے عجائبات ہیں۔’’ گو لَا یُدْرَکہوں‘‘۔ ان تک انسان کا سوچ اور ادراک اور فہم پہنچ نہ سکے۔’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس میں شیطان کے ان وساوس کا ذکر ہے جو کہ وہ لوگوں کے درمیان ان دنوں میں ڈال رہا ہے‘‘۔ یہ زمانہ ایسا ہے جو شیطان وسوسے پیدا کر رہا ہے۔ فرمایا’’ بڑا وسوسہ یہ ہے کہ ربوبیت کے متعلق غلطیاں ڈالی جائیں جیسا کہ امیر لوگوں کے پاس بہت مال و دولت دیکھ کر انسان کہے کہ یہی پرورش کرنے و الے ہیں‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ کے وجود کا، اس کی ہستی کا انکار کر کے بھی یہ کام کیا جا رہا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں
’’اس واسطے حقیقی ربّ النَّاس کی پناہ چاہنے کے واسطے فرمایا۔ پھر دنیاوی بادشاہوں اور حاکموں کو انسان مختار مطلق کہنے لگ جاتا ہے۔ اس پر فرمایا کہ مَلِکِ النَّاس اللہ ہی ہے۔ پھر لوگوں کے وساوس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ مخلوق کو خدا کے برابر ماننے لگ پڑتے ہیںاور ان سے خوف و رجاء رکھتے ہیں۔ اس واسطے اِلٰہِ النَّاس فرمایا۔ یہ تین وساوس ہیں ان کے دور کرنے کے واسطے یہ تین تعویز ہیں اور ان وساوس کا ڈالنے والا وہی خنّاس ہے جس کا نام توریت میں زبانی عبرانی کے اندر ناحاش آیا ہے۔ جو حوّا کے پاس تھا۔ چھپ کر حملہ کرنے والا‘‘۔ شیطان ظاہر ہو کے حملہ نہیں کرتا۔ چھپ کے حملہ کرتا ہے۔’’ اس سورت میں اسی کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دجال بھی جبر نہیں کرے گا بلکہ چھپ کر حملہ کرے گا تاکہ کسی کو خبر نہ ہو۔ جیسا کہ پادریوں کا حملہ ہوتا ہے‘‘۔ اور ان سے مراد صرف پادری نہیں ہیں۔ ایک تو ایسے پادری جو فتنہ پیدا کرنے والے ہیں ہر پادری بھی نہیں ہے اور دوسرے مغرب کے وہ لوگ جو اپنے آپ کو عالم سمجھتے ہیں سکالر سمجھتے ہیںاور اسلام کے خلاف ہیں۔ فرمایا ’’یہ غلط ہے کہ شیطان خود حوّا کے پاس گیا ہو بلکہ جیسا کہ اب چھپ کر آتا ہے ویسا ہی تب بھی چھپ کر گیا تھا۔ کسی آدمی کے اندر وہ اپنا خیال بھر دیتا ہے اور وہ اس کا قائمقام ہو جاتا ہے۔
اب جیسا کہ میں نے پہلے شروع میں ذکر کیا تھا کہ بڑی سوچی سمجھی سکیم کے تحت یہ سب عرب سپرنگ وغیرہ کا چکر چل رہا ہے۔ یہ ان چھپے ہوئے حملوں کا نتیجہ ہی ہے۔ کاش کہ عرب دنیا اس چیز کو سمجھ سکے۔ فرماتے ہیں
’’کسی ایسے مخالف دین کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈال دی تھی اور وہ بہشت جس میں حضرت آدم رہتے تھے وہ زمین پر ہی تھا کسی بد نے ان کے دل میں وسوسہ ڈال دیا۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 244-245۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’جب ماں کی تولیت سے نکل کر آئے تو انسان کو بالطبع ایک متولّی کی ضرورت پڑتی ہے۔ طرح طرح سے اپنا متولی اَور لوگوں کو بناتا ہے جو خود کمزور ہوتے ہیں اور اپنی ضروریات میں غلطاں ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے کی خبر نہیں لے سکتے لیکن جو لوگ ان سب باتوں سے منقطع ہو کر اس قسم کا تقویٰ اور اصلاح اختیار کرتے ہیں ان کا وہ خود متولی ہو جاتا ہے اور ان کی ضروریات اور حاجات کا خود کفیل ہو جاتا ہے۔ انہیں کسی بناوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ وہ اس کی ضروریات کو ایسے طور سے سمجھتا ہے کہ یہ خود بھی اس طرح نہیں سمجھ سکتا اور اس پر اس طرح فضل کرتا ہے کہ انسان خود حیران رہتا ہے۔ گر نہ ستانی بہ ستم مے رسد۔ والی نوبت ہوتی ہے (یعنی محنت و مشقت کے بغیر ہی مل جاتا ہے۔)
فرماتے ہیں’’ لیکن انسان بہت سے زمانے پا لیتا ہے۔ جب اس پر ایسا زمانہ آتا ہے کہ خدا اس کا متولی ہو جائے یعنی اس کو خدا تعالیٰ کی تولیت حاصل کرنے سے پہلے کئی متولیوں کی تولیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہےقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ۔ اِلٰہِ النَّاسِ۔مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ۔ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔پہلے حاجت ماں باپ کی پڑتی ہے پھر جب بڑا ہوتا ہے تو بادشاہوں اور حاکموں کی حاجت پڑتی ہے۔ پھر جب اس سے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جن کو میں نے متولی سمجھا ہوا تھا وہ خود ایسے کمزور تھے کہ ان کو متولی سمجھنا میری غلطی تھی کیونکہ انہیں متولی بنانے میں نہ تو میری ضروریات ہی حاصل ہو سکتی تھیں اور نہ ہی میرے لئے کافی ہو سکتے تھے۔ پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور ثابت قدمی دکھانے سے خدا تعالیٰ کو اپنا متولّی پاتا ہے۔ اس وقت اس کو بڑی راحت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ جب خدا تعالیٰ کو اپنا متولی پاتا ہے تب راحت حاصل ہوتی ہے’’ اور ایک عجیب طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔ خصوصاً جب خدا کسی کو خود کہے کہ میں تیرا متولّی ہوا تو اس وقت جو راحت اور طمانیت اس کو حاصل ہوتی ہے وہ ایسی حالت پیدا کرتی ہے کہ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حالت تمام تلخیوں سے پاک ہوتی ہے۔ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 52-53۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم ایسی حالت اپنے اندر پیدا کرنے والے ہوں اور اس رمضان کے بعد بھی اپنی ان حالتوں اور کیفیتوں کو جاری رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے ہم میں خاص طور پر اس میں پیدا فرمائیں۔
اب اس کے بعد دعاؤں کی طرف ہم آتے ہیں۔ اس کے بعد دعا ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ و اٰلِ مُحَمَّدٍ
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 208)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے لئے سب سے پہلے دعا کرنی چاہئے۔ امت مسلمہ کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ احمدی جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کیا ان کے لئے ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں، جو توقعات اپنے ماننے والوں سے رکھی ہیں ان پر ہم پورا اترنے والے ہوں۔ عالم اسلام کے لئے عمومی دعا کہ خدا تعالیٰ انہیں باہمی اتحاد اور ہمدردی عطا فرمائے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا دشمن ان کی پھوٹ سے بلکہ پھوٹ پیدا کر کے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس سے بچائے۔ نظام جماعت عالمگیر کے لئے اور تمام احباب و خواتین کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کی مشکلات کو دور فرمائے۔ واقفین زندگی کے لئے، وقف نَو کے مجاہدین کے لئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب واقفین زندگی کو جو اس وقت میدان عمل میں ہیں ان کے کاموں میں آسانیاں پیدا فرمائے۔ ان کی تائید و نصرت فرمائے اور جس مقصد کے لئے وہ گئے ہیں ان کو حاصل کرنے والے ہوں۔ اسی طرح واقفین نَو کو اللہ تعالیٰ اپنے وقف نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ بہت سارے ایسے واقفین نَو ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب میدان عمل میں آ چکے ہیں۔ مربیان بن کر بھی اور دوسری مختلف فیلڈز میں بھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو خالص ہو کر خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے ماں باپ نے ان کے پیدا ہونے سے پہلے جو وعدے کئے تھے اور پھر انہوں نے خود اس کی تجدید کی اللہ تعالیٰ ان کو یہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دجال کے فتنے کے شر سے بچنے کے لئے، خدا تعالیٰ ان کی چالوں اور خطرناک منصوبوں سے بچا کے رکھے۔ ان کے برے ارادوں سے بچا کے رکھے۔ کیونکہ دنیا کےجو حالات ہیں وہ ایسے ہیں کہ دنیا کے امن کو اچانک برباد کیا جا سکتا ہے۔اس لئے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اشاعت اسلام اور احمدیت کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ جلد ہمیں اس کا وسیع تر غلبہ دکھائے۔ شہدائے احمدیت کے لئے اور ان کے پسماندگان کے لئے۔ اور جیسا کہ پہلے مَیں نے ذکر کیاہے گوجرانوالہ میں جو کارروائی ہوئی ہے اس میں جو ایک دو بچیاں ہیں ان میں ایک تو بالکل آٹھ ماہ کی بچی اور ایک سات آٹھ سال کی بچی اور ان کی دادی شہید ہوئے ہیں۔ ایک دو اور مریضوں کی حالت خطرناک ہے۔ ان سب کے لئے دعا کریں۔ شہداء کا جو مقام ہے وہ اللہ تعالیٰ نے دینا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں دوںگا۔ ان کے پیچھے رہنے والوں کو بھی صبر اور حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے اور جو بیمار ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ صحت عطا فرمائے۔ یعنی جو ان زخموں کی وجہ سے اس وقت ہسپتالوں میں داخل ہیں اور ان کا علاج ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صحت دے۔
اسیران راہ مولیٰ کی جلد آزادی کے لئے بھی۔ اس میں پاکستان میں بھی کچھ ہیں۔ کچھ دوسرے ممالک میں بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو آزاد فرمائے۔ اسی طرح ان اسیران کے جو اہل و عیال ہیں جو عارضی طور پر ان کے سائے سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ ان کے جلد ملنے کے سامان پیدا فرمائے۔ اسی طرح انفرادی اور مختلف نوع کے جو معاملات ہیں جس میں مختلف لوگ گرفتار ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مسائل حل فرمائے۔ ہر قسم کے بیماروں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی بیماریاں دور فرمائے۔ مختلف لوگوں پر چٹیاں پڑی ہوئی ہیں ان کی نااہلی کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ انہیں دور فرمائے۔قرضوں کے بوجھ کو اتارے۔ مصیبت زدگان کے لئے جو سیاسی ظلموںکا نشانہ بن رہے ہیں یا مذہبی ظلموں کا نشانہ بن رہے ہیں یا قومی تعصبات کا نشانہ بن رہے ہیں سب پر اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ پھر بغیر کسی مذہب و ملّت کی تخصیص کے دنیا کے تمام وہ لوگ جو اقتصادی بدحالی کا شکار ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور فرمائے۔ مردوں اور عورتوں کے ازدواجی اور خاندانی جھگڑوں سے نجات کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ یہ دور فرمائے۔ بیوگان اور یتامیٰ کے لئے اور حقوق سے محروم لوگوں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ ایسی بچیوں کے جن کے رشتوں میں تاخیر ہو رہی ہے اللہ تعالیٰ ان کےلئے جلد رشتوں کے سامان پیدا فرمائے بے اولاد لوگوں کو اولاد کی خوشیاں عطا فرمائے۔ طلباء کے لئے جو امتحانوں میں اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں یا امتحان دے چکے ہیں اور نتیجے کا انتظار ہے ان سب کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابیاں عطا فرمائے۔ پھر بیروزگاروں کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی بیروزگاری دور فرمائے۔ تاجروں کے لئے مزدوروں کے لئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے اپنے حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ زمینداروں کے لئے ان کی مشکلات دور فرمائے۔ مقدمات میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ درویشان قادیان کے لئے اور اہل ربوہ کے لئے اللہ تعالیٰ ان سب کی مشکلات دور فرمائے۔ خاص طورپر ربوہ کے اور پاکستان کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے اللہ تعالیٰ جلد ان کی آزادی کے سامان پیدا فرمائے۔ مختلف دنیاوی خطوں میں اسلام کے نام پر ستائے جانے والے جتنے بھی لوگ ہیں اور جن میںسب سے اوّل تو جماعت احمدیہ ہے اللہ تعالیٰ ان کی سب مشکلات کو دور فرمائے۔
عالم اسلام کے مسائل بھی بہت الجھے ہوئے اور گھمبیر ہو رہے ہیں۔ ان کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔ صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ اپنی مشکلات سے نجات پانے والے ہوں۔ دکھوں سے چُور انسانیت کے لئے جو کسی رنگ میں بھی کسی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہے ان کے لئے دعا کریں۔ جماعت کے ابتلاء کے دَور کے ختم ہونے کے لئے عمومی دعا کریں۔ خصوصاً یہ دعا مَیں پہلے بھی خطبہ میں کہہ چکا ہوں۔ اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ (سنن ابی داؤد ابواب الوتر باب ما یقول الرجل اذا خاف قوماً حدیث 1537)یہ دعا کریں۔
پھر اسی طرح دنیا میں مختلف جگہوں پر لوگ بڑی مالی قربانی کرتے ہیں ۔ ان کے تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں کی فہرستیںاور لسٹیں بھی آ رہی ہیں۔ ان سب مخلصین کے لئے دعائیں کریں اللہ تعالیٰ ان کی ان قربانیوں کو قبول فرمائے۔ خدمت پر کمربستہ جماعت عالمگیر کے تمام کارکنان اور کارکنات کے لئے دعا کریں۔ اس میں تمام دفتروں میں کام کرنے والے بھی ایم ٹی اے میں کام کرنے والے بھی سب کارکن آ جاتے ہیں۔ مختلف لوگوں کو جتنے بھی مختلف مسائل میں گرفتار ہیں۔ان کے جغرافیائی مسائل ہیں، جنگ و جدل کے مسائل ہیں عراق میں شام میں لیبیا میں نائیجیریا میں فلسطین میں اور کئی ملکوں میں اس قسم کے مسائل میں لوگ گرفتار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ان مشکلات سے نکالے اور آسانیاں پیدا فرمائے۔ اسی طرح حوادث زمانہ کے متاثرین جو دنیا میں کہیں بھی ہوں کسی بھی خطے میں ہوں گو حضرت مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے یہ حوادث اب بڑھ گئے ہیں لیکن انسانی ہمدردی کا تقاضا پھر بھی یہ ہےکہ ہم ان کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور کرے اور ان کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
کرب کے وقت کی ایک دعا ہے۔ ہم پڑھتے ہیں۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْم۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ رَبُّ الْاَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْم۔(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الکرب حدیث 6346)اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عظمتوں والا اور بڑا ہی بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی عرش کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو کہ آسمانوں زمین اور عرش کریم کا رب ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ سے اس کی محبت مانگیں۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَآئِ الْبَارِدِ۔(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب دعاء داؤدؑ اللھم انی اسئلک حبک … الخ حدیث 3490) اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ان لوگوں کی محبت جو تجھ سے پیار کرتے ہیں اور اس کام کی محبت جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے میرے خدا! ایسا کر کہ تیری محبت مجھے اپنی جان اپنے اہل و عیال اور ٹھنڈے شیریں پانی سے بھی زیادہ پیاری اور اچھی لگے۔
یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَی دِیْنِکَ۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب الدعا یا مقلب القلوب حدیث 3522) اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ اے اللہ میں تجھ سے ہدایت تقویٰ عفت اور غناء مانگتا ہوں۔
پھر ایک دعا یہ بھی کرنی چاہئے کہ اَللّٰھُمَّ لَاتَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَ عَافِنَا قَبْلَ ذَالِکَ۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ما یقول اذا سمع الرعد حدیث 3450) اے اللہ تُو ہمیں اپنے غضب سے قتل نہ کرنا۔ اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کرنا اور اس سے پہلے ہمیں بچا لینا۔
پھر اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجْأَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سُخْطِکَ۔ (صحیح مسلم کتاب الرقاق باب اکثر اھل الجنۃ الفقراء … الخ حدیث 6943)اے اللہ میں تیری نعمت کے زائل ہوجانے تیری عافیت کے ہٹ جانے تیری اچانک سزا اور ان سب باتوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں جن سے تُو ناراض ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آجکل آدم کی دعا پڑھنی چاہئے۔ یہ دعا اوّل ہی مقبول ہو چکی ہے اور وہ دعا یہ ہے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِن لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 275۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور گھاٹا پانے والوں میں سے ہوں گے۔
پھر ایک دعا ہے جسے مَیں نے دعاؤں کے لئے تحریک میں خاص طورپر پڑھنے کے لئے کہا تھاکہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔اے ہمارے رب! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دینا بعد اس کے جو تُو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تُو بہت عطا کرنے والا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہماری جماعت ہر نماز کی آخری رکعت میں بعد رکوع یہ دعا بکثرت پڑھے کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 9۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) یعنی اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی کامیابی عطا کر اور آخرت میں بھی کامیابی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
پھر تذکرے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا ہے کہ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِنَ السَّمَآئِ رَبِّ لَاتَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ۔ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم )رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ۔ اے میرے رب! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر۔ اے میرے رب! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تُو خیر الوارثین ہے۔ اے میرے رب! اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تُو سب فیصلہ کر دینے والوں سے بہتر ہے۔ (تذکرہ ایڈیشن چہارم 2004ء صفحہ 37)
پھر آپ کی ایک یہ دعا بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کہ یَارَبِّ فَاسْمَعْ دُعَآئِیْ وَمَزِّقْ اَعْدَائَکَ وَ اَعْدَائِیْ وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْلَنَاحُسَامَکَ وَلَاتَذَرْمِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا۔(تذکرہ ایڈیشن چہارم 2004ء صفحہ 426) اے رب العزت میری دعا سن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر اور اپنا وعدہ پورا کر اور اپنے بندے کی مدد کر اور ہم کو اپنے عذاب کے دن دکھا (یعنی مخالفین کے لئے) اور اپنی تلوار ہمارے لئے سونت کر دکھا۔ اور نہ چھوڑ کافروں میں سے کسی شریر کو۔
پھر آخر میں آپ کی ایک دعا ہے تنہائی کی کہ اے میرے خدا! میری فریاد سن کہ میں اکیلا ہوں۔ اے میری پناہ! اے میری سپر! میری طرف متوجہ ہو کہ مَیں چھوڑا گیا ہوں۔ اے میرے پیارے اے میرے سب سے پیارے مجھے اکیلا مت چھوڑ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیری درگاہ میں میری روح سجدہ میں ہے۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانی صفحہ 553 حصہ پنجم)
اب دعا کر لیں۔ ‘‘