الفضل ڈائجسٹ
(مرتبہ محمود احمد ملک)
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کا تاریخی انٹرویو (دوسری و آخری قسط)
مجلس خدام الاحمدیہ یُو کے کو صدسالہ خلافت جوبلی 2008ء کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک تاریخی انٹرویو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 اور 10مئی 2012ء میں شامل اشاعت ہے۔ اس انٹرویو میں سے انتخاب کی دوسری اور آخری قسط ہدیۂ قارئین ہے۔
٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ افریقہ میں مَیں نے اپنے قیام کو کافی Enjoy کیا۔ جب میں وہاں گیا تھا اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں ایک ایسی جگہ جارہا ہوں جہاں بجلی، گیس اور پانی نہیں ہے۔ سکول کے پرنسپل مجھے کماسی سے اپنے ساتھ سلاگا لے گئے جوغانا کے شمال میں ایک دُور دراز قصبہ ہے ۔یہاں ہماری رہائش ایک بہت چھوٹے سے مکان میں تھی۔ دو کمرے تھے اور سامنے تین چار فٹ کا برآمدہ تھا۔ ایک طرف کچن اور ٹائلٹ باتھ تھا۔ ایک کمرہ میں مَیں رہتا تھا اور ایک کمرہ میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔اس طرح رہنا بہت مشکل تھا اور آپ کو پتہ ہے کہ ایک احمدی کے لئے کتنی مشکل ہوسکتی ہے جہاں ساتھ ہی ایک فیملی بھی رہتی ہو۔ ٹائلٹ جانا ہو یا کسی اور جگہ جانا ہو اس کے لئے پہلے اعلان کرنا پڑتا تھاکہ میں باہر آرہا ہوں یا فلاں جگہ جانا چاہتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اپنی ہر حرکت کے بارہ میں پہلے سے آگاہ کرنا پڑتا تھا کہ مَیں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ میں چند ماہ ان کے ساتھ وہاں قیام پذیر رہا۔ پھر مَیں نے الگ گھر میں رہائش رکھ لی۔ ایک سال تک اپنی فیملی کے بغیر اکیلا رہا۔
سلاگا سے ستّر میل کے فاصلے پر ایک بڑا شہر ٹمالےؔ تھا۔ اُن دنوں ہم سکول کے لئے ایک نئے بلاک کی تعمیر کررہے تھے اور عمارتی سامان خریدنے ٹمالے جایا کرتے تھے بلکہ گھر کی اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کے لئے بھی وہاں جاتے تھے۔ ٹمالےؔ جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی کوئی اچھی سہولت موجود نہیں تھی۔ گورنمنٹ کی صرف ایک بس تھی جو صبح کے وقت اور پھر شام کو ٹمالےؔ جایا کرتی تھی۔ ہم اس سفر سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کب بس خراب ہوجائے گی۔ سب سے پہلے مَیں نے ٹمالےؔ میں رہنے والے مبلغین سے ہی چپاتی بنانا سیکھی تھی۔ عام طور پر مَیں ناشتہ بریڈ اور انڈے سے کرتا تھا۔ دوپہر کا کھانا نہیں ہوتا تھا۔ قریباً چار بجے سکول بند ہونے کے بعد مَیں شام کاکھانا تیار کرتا تھا۔’یام‘ یااسی قسم کے کسی سالن کے ساتھ کچھ چپاتیاں بناتا تھا۔ شروع کے اُن دنوں میں میرا وزن 25 پائونڈ کم ہوگیا تھا جو کچھ دیر بعد ٹھیک ہوگیا۔ تو یہ ایک Adventure تھا جسے مَیں نے Enjoy کیا۔
اُن دنوں ایک اَور ایڈونچر بھی ہوا۔ یہ بس جب ٹمالےؔجانے کے لئے سلاگاؔ پہنچتی تھی تو اس میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔ اس لئے ہم اس میں اُس وقت سوار ہوجاتے جب یہ ٹمالےؔ سے آرہی ہوتی اور پھر پہلے 17میل کے فاصلے پرواقع آخری سٹاپ (Lake) تک جاتے کیونکہ وہاں بس خالی ہوجایا کرتی تھی اور بیٹھنے کی جگہ مل جاتی تھی۔ لیکن اس طرح ہمیں مجموعی طور پر 34میل کا زائد سفر کرنا پڑتا تھا۔
ایک دفعہ مَیں اور ہمارے مبلغ رزاق بٹ صاحب ٹمالےؔ جارہے تھے۔ لیکن جب بس اپنے آخری سٹاپ (Lake) پر پہنچی تو خراب ہوگئی۔ یہ شام کا وقت تھا۔ اس وقت مَیں عمارتی سامان خریدنے جارہا تھا۔ سکول کی تعمیر کے سلسلہ میں وہاںسارے کام ہمیں خود ہی کرنے پڑتے تھے۔ بِلڈر بھی ہم ہی تھے اور کنٹریکٹر بھی ہم خود تھے۔سب کچھ ہم ہی ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا میرے بریف کیس میں کافی بڑی رقم موجود تھی اور رات ہو رہی تھی اس لئے ڈر تھا۔ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ یہ خوف تھا کہ کہیںکوئی یہ بریف کیس چھین کر نہ بھاگ جائے۔
آٹھ، نو اور پھر رات کے دس بج گئے لیکن بس کی مرمت کا کام مکمل نہ ہو سکا۔ آخر انہوں نے اعلان کیا کہ ایک ٹرک ڈرائیور کے ذریعہ جو ٹمالے جارہا تھا وہاں پیغام بھجوایا ہے اس لئے جلد ہی دوسری بس آجائے گی۔ لیکن یہ جلد ہی آٹھ گھنٹے طویل تھا۔ چنانچہ ساری رات ہمیں وہاں گزارنی پڑی۔ مجھے ایک بنچ نظر آیا جس پر مَیں بیٹھ گیا اور بریف کیس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلیا۔ تاکہ اگر مَیں سو جاؤں اور کوئی شخص بریف کیس چھیننے کی کوشش کرے تو جھٹکے سے میری آنکھ کھل جائے۔ میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آدھی رات آپ سولیں اور آدھی رات مَیں سولوں گا۔ اگلی صبح 4 بجے کے قریب بس آگئی اور پھر ہم ٹمالے پہنچے۔
ایک دفعہ سفر کے دوران راستہ میں ہی یہ بس خراب ہوگئی۔ جب ہمیں کوئی متبادل ذریعہ سفر نہ مل سکا تو ہم نے سامان سے لدے ہوئے ایک ٹرک پر بیٹھ کر 70 میل کا فاصلہ طے کیا ۔اس طرح کے کئی مواقع کو مَیں نے Enjoy کیا۔
جب ہم وہاں زرعی فارم چلا رہے تھے تو مَیں روزانہ اپنی رہائش سے فارم تک قریباً 35میل کا فاصلہ ٹریکٹر پر طے کیا کرتا تھا۔ کبھی خود ٹریکٹر چلا کر اور کبھی ٹریکٹر کے مڈگارڈ پر بیٹھ کر جاتا تھا۔ لیکن جتنی دیر وہاں پہنچنے میں لگتی تھی اس وقت تک آدمی اتنا تھک چکا ہوتا تھا کہ وہاں پہنچ کر کام کرنا مشکل ہوجاتا تھا۔ پھر مَیں نے رات فارم پر گزارنی شروع کردی۔ وہاں رہائش کے لئے کوئی کمرہ بھی نہیں تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔ ہم وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ رات کو قیام کرتے تھے۔ ایک جھونپڑی نما کمرے کے فرش پر دری بچھادی جاتی تھی جس پر سو جایا کرتے تھے۔ مَیں نے تو کئی راتیں جنگل میں بھی گزاری ہیں۔ رات کو جب آنکھ کھلتی تو اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھتا تھا کیونکہ اس علاقہ میں سانپ اور بچھو بہت پائے جاتے تھے۔
٭ زرعی ماہرین کی رائے تھی کہ غانامیںگندم نہیں اُگائی جاسکتی۔ مَیں نے محسوس کیا کہ ’ہماتان‘ موسم کے دوران درجہ حرارت گر جاتا ہے اس لئے گندم اُگائی جاسکتی ہے۔ مگر وہاں پانی نہیں تھا اس لئے تجویز کیا کہ دریائے وولٹا جو بُرکینافاسو سے آکر غانا میں سے گزرتے ہوئے سمندر میںگرتا ہے، وہاں اگر ہمیں پانی یا آبپاشی کی سہولتیں مل جائیں تو وہاں گندم کاشت کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ میرے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ نائیجیریا کے جس علاقہ میں آبپاشی کی سہولت موجود ہے وہاں گندم کاشت کی جارہی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمیں ایک پانی کا پمپ اور چھڑکائو کرنے والے آلات بھی میسر آگئے۔ اگرچہ اس کے ذریعے صرف چند ایکڑ رقبہ کو پانی دیا جاسکتا تھا لیکن یہ کم ازکم میرے تجربہ کے لئے کافی تھا۔
چنانچہ مَیںنے نائیجیریا سے اپنے ایک دوست سے گندم کے بیج منگوائے اور اس طرح گندم کی کاشت کا کامیاب تجربہ کیا۔ مَیں نے اس کام پر دو سال صَرف کئے تھے مگر بعد میں آبپاشی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اسے جاری نہیں رکھا جاسکا۔
٭ خلافت خامسہ کے انتخاب کے وقت جب میرے نام کا اعلان ہوا تو مَیں یہ دعا کر رہا تھا کہ حاضرین میں سے کوئی میرے لئے نہ کھڑا ہو۔ بلکہ پہلی دفعہ جب گنتی میں کوئی غلطی لگی تو مَیں نے سر اٹھا کر دیکھا توجو ہاتھ کھڑے تھے مجھے یہی لگ رہا تھا کہ بہت تھو ڑے سے ہاتھ ہیں۔ تو مَیں نے کہا شکر ہے کوئی اَور نامزد ہوجائے گا۔
دوسری دفعہ پھر انہوں ہاتھ کھڑے کروائے تو مَیں نے دیکھا تو کہا کہ ہیں تو کافی لیکن ابھی بھی کافی ہاتھ باقی ہیں جو کسی اَور کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ لیکن جب انہوں نے فائنل اناؤنسمنٹ کی تو مَیں پوری طرح کانپ اٹھا۔ بلکہ مَیں نے اسی مجلس میں یہ کہا کہ اب تو کوئی جائے مفر نہیں اور Excuse نہیں کر سکتے ، اس سے دوڑ نہیں سکتے۔ قواعد اجازت نہیں دیتے، نہیں تو مَیں شاید اس کو چھوڑ دیتا۔ … میرا تو نام جب صدر خدام الاحمدیہ کے لئے پیش ہوتا رہا، دو دفعہ پیش ہوا، مَیں تو وہاں بھی دعا کرتا رہا ہوںکہ نہ بنوں۔
٭ انتخاب خلافت کے وقت بطور ناظر اعلیٰ ساری انتظامی ذمہ داریا ں میرے سپرد تھیں، جماعت کے سارے معاملات چلانے کا ایک بوجھ تھا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تدفین کا معاملہ تھا ،وہ کہاں ہوگی ؟ جنازہ کب ہوگا؟ یہ سارے مسائل طے کرنے تھے۔
٭ مَیں عملی طور پر ایک ایسا آدمی تھا جس کے لئے دفتر میں مسلسل دوگھنٹے بیٹھنا بھی مشکل تھا۔ تقریباً ہر دو گھنٹے بعد دفتر سے اٹھ کر رائونڈ لگاتا اور مختلف دفاتر کو Visitکیا کرتا تھا۔ پھر واپس آکر دفتر بیٹھتا تھا۔ یہاں تک کہ ناظر اعلیٰ کی ذمہ داری ملنے کے بعد بھی میرا یہی دستور رہا، یہ ایک انتظامی عہدہ تھا۔ چنانچہ دفتر میں چھ سات گھنٹے گزارنے کے بعد مَیں اپنے فارم پر چلا جاتا تھا اور کچھ وقت وہاں گزارتا، اس دوران وہاں ایسے کام کیا کرتا تھا جس میں ذہنی بوجھ نہ ہو بلکہ اپنے ہاتھ سے مشقّت والاکام ہوتا تھا۔ بہرحال خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعدمیرے معمولات میں ایک U-turn آگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ مجھ سے کیسے ہوگیا؟ یہ اللہ ہی تھا جو تمام کامو ں کا کرنے والا تھا۔ پہلی ہی رات میرے اندرایک مکمل تبدیلی واقع ہوگئی تھی۔ مَیں صبح سے شام تک اور پھر رات گئے تک دفتر میں بیٹھ کر کام کرتا رہا۔ مجھے تقریر وغیرہ کرنے کا بالکل تجربہ نہیں تھا مگر خدا نے میری راہنمائی کی۔
٭ آجکل مَیںبہت صبح اٹھتا ہوں۔ نوافل ادا کرنے کے بعد قرآن کریم کے چند رکوع کی تلاوت کرتا ہوں۔ پھر نمازِفجر کے بعد سیر کے لئے جاتا ہوں۔ واپس آکر نہاکر ناشتہ کرتا ہوں۔ اس کے بعد پھر قرآن کریم کی کچھ تلاوت کرتا ہوں اور آیات قرآنی پر غور و فکر کرتا ہوں۔پھر چند منٹ استراحت کے بعد اپنے دفتر میں آجاتا ہوں جہاں میرے کاموں کا آغاز ہوتا ہے۔ مختلف دفتری امور کے علاوہ جماعتی عہدیداروں کے ساتھ میٹنگز اور دفتری ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ پھر نماز ظہرکی ادائیگی کے بعد مَیں دوپہر کا کھانا کھاتا ہوں۔ اس کے بعد چند منٹ قیلولہ کرتا ہوں اور پچیس سے تیس منٹ تک سوتا ہوں۔ پھر میں دوبارہ اپنے آفس میں آجاتا ہوں۔ پھر مغرب کی نماز سے ذرا پہلے مَیں چائے کے لئے اوپر گھر جاتا ہوں ۔ مغرب کی نماز کے بعد واپس اپنے دفتر میں آ کر سنتیں ادا کرتا ہوں اور پھر یہیں پر اپنی ڈاک دیکھتا ہوں۔ پھر عام ملاقاتوں کا سلسلہ قریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہتا ہے جس کے بعد رات کا کھانا کھاکر عشاء کی نماز کے لئے جاتا ہوں۔ اور پھر واپس اپنے دفتر میں آجاتا ہوں اور دوبارہ ڈاک دیکھتا ہوں۔ یہ سلسلہ رات گیارہ بجے تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اخبارات، جماعتی رسائل، یا کسی کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں جس کے بعد سونے کے لئے چلا جاتا ہوں۔
٭ دنیا میں جہاں بھی احمدی احباب میرے ارد گرد ہوتے ہیں، وہی میری پسندیدہ جگہ ہوتی ہے۔ مگر مجھے افریقہ بہت پسند ہے خاص طور پر غانا کیونکہ مَیں نے کچھ عرصہ یہاں گزارا اور میری ابتدائی اور عملی زندگی کا آغاز غانا ہی سے ہوا۔
٭ قادیان میں جب آپ بہشتی مقبرہ میں داخل ہوتے ہیں خصوصاً وہ احاطہ جہاں حضرت مسیح موعودؑ کا مزار ہے، اس وقت کے جذبات کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ جذبات اُبل رہے ہوتے ہیں۔جب آپ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اُس وقت اپنے پرقابو نہیں رہتا اور پھر جب آپ ان گلی کُوچوں کودیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ انہی گلیوں میں حضرت مسیح موعودؑ کے مبارک قدم پڑے تھے۔
میرا خیال ہے کہ قادیان میں جانے والے ہر فرد کے ایسے ہی جذبات اور احساسات ہوتے ہیں۔ اور مکّہ اور مدینہ جانے والوں کے جذبات اور احساسات اس سے بھی بڑھ کر ہوں گے۔
٭ مَیں نے احمدی طلباء کو ریسرچ کے میدان میں جانے کے لئے کہا ہے کیونکہ مغربی ملکوں میں ریسرچ کی فیلڈ کا مستقبل روشن ہے۔ بالخصوص چاروں سائنسز یعنی فزکس، کیمسٹری، میڈیسن اور کمپیوٹر سائنس کے مضامین میں۔ اسی طرح ایشیائی لوگوں کی بقا بھی اسی میں ہے کہ وہ مقامی لوگوں کی ضرورت بن جائیں کیونکہ اگر انہیں آپ کی ضرورت نہ ہو تو جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے اُن کے دلوں میں آپ کے لئے نفرت کے مخفی جذبات پائے جاتے ہیں۔اگر آپ تعلیم یافتہ نہیں اور ان کے لئے کارآمد نہیں ہیں تو یہ آپ کو پسند نہیں کریں گے۔ خاص طور پر پچھلے چند سالوں میں رُونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے بھی یہ لوگ پہلے کی نسبت زیادہ حسّاس ہوگئے ہیں۔ اس لئے اب مسلمانوں کو تو خاص طور پر خود کو ریسرچ سے منسلک کرنا چاہئے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب تر لایا جائے۔ اور یہ چیلنج نہ صرف اِس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے وقت جبکہ جماعت کی بنیاد رکھی گئی تھی اُس وقت بھی یہی سب سے بڑا چیلنج تھا اور قیامت تک یہی سب سے بڑا چیلنج رہے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں روحانی ترقی کے ذریعہ قرب الٰہی کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے جس کے لئے ہمیں قرآن کریم کا مطالعہ اور قرآن کریم کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مطالعہ اور آپ کی عطا کردہ راہنمائی کے ذریعہ اپنے روحانی معیار کو بلند کریں، اپنی ذہنی استعدادوں کو صیقل کریں، اپنے آپ کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے منور کریں۔ اسی طرح ہمیں چاہئے کہ اپنے عہد بیعت پر مضبوطی سے قائم رہیں اور خلفاء کی طرف سے دی جانے والی ہدایات پر مضبوطی سے کاربند ہوں۔
٭ جو لوگ وقت کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں، اُن کو فعّال بنانے کے لئے سب سے پہلے تو اُنہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ کون ہیں۔ جب ایک دفعہ اُنہیں یہ احساس ہوجائے گا کہ وہ احمدی ہیں اور یہ کہ احمدی ہونے کا مقصد کیا ہے تو آپ انہیں فعّال بناسکیں گے۔ ان پر سختی کرنے سے یا صرف اُنہیں حکم دینے سے یا ان کے خلاف ایکشن لینے سے انہیں فعّال نہیں بنایا جاسکتا۔ انہیںاپنا دوست بنائیں۔ خدام الاحمدیہ میں ایک ایسی ٹیم ہونی چاہئے جو اپنے ایمان میں نہایت پختہ ہو۔ کوئی بحث یا کوئی دلیل جو احمدیت، اسلام ، مذہب یاخداکے خلاف ہوانہیں اپنے ایمان سے ہٹانہ سکے۔ اس ٹیم کے ممبران خشک مُلّاں کی طرح نہیں ہونے چاہئیں۔ وہ ایسے افراد کے ساتھ دوستی کر کے اُنہیںاپنے قریب لائیں۔
یہ ایک مسلسل جدّوجہد ہے اور دنیا کے اختتام تک مسلسل یہی طریق عمل رہے گا۔ کیونکہ قرآن مجید کہتا ہے ’’ذَکِّر‘‘ یعنی تم لوگوں کو مسلسل نصیحت اور یاد دہانی کراتے رہو اور انہیں مسلسل خدا تعالیٰ کی طرف اور اچھے کاموں کی طرف بلاتے رہو۔ مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور ہر ایک سے اس کی طبیعت اور نیچر کے مطابق ڈیل (Deal) اور ٹریٹ (Treat) کیا جاتاہے۔
٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عہدیداران کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ
لوگ عام افرادِ جماعت کے بُرے سلوک کو تو برداشت کرلیتے ہیں اور زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ لیکن عہدیداران کی طرف سے زیادتی ہو تو شکوے شکایات اس حد تک جاتے ہیں کہ بالآخر جماعت سے ہی لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں۔ اس لئے جماعتی عہدیداران کو اپنا رویّہ تبدیل کرنا چاہئے، وہ نیک اور متقی ہونے چاہئیں اور اُن کو ایسا طرزعمل اختیار کرنا چاہئے جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہر صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا‘‘۔
٭ دینی اور گھریلو ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرنے کے لئے یاد رکھیں کہ دن میں24گھنٹے ہوتے ہیں۔ اپنے دن کو ذمہ داریوں کے لحاظ سے تقسیم کرلیں۔
آپ کو اپنے بچوں کی ضروریات کا خیال بھی رکھنا چاہئے اور ان کو کچھ وقت دینا چاہئے۔ کبھی بچوں اور فیملی کی طرف زیادہ توجہ درکار ہوگی تو کبھی جماعتی کام کی طرف۔ شام کو بالعموم فیملی کے لئے اور جماعتی کاموں کے لئے وقت نکالا جا سکتا ہے۔
جب ایک دفعہ آپ باقاعدگی سے جماعتی کاموں کے لئے روزانہ ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے وقت نکالنا شروع کر دیں گے تو پھر آپ اس کو ایڈجسٹ کر سکیں گے تا کہ آپ اپنے گھر والوں کو بھی کچھ نہ کچھ وقت دے سکیں گے۔آٹھ بجے شام تک آپ کے بچے ہوم ورک اور کھانے سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں اور آپ کی بیوی بھی فارغ ہوچکی ہوتی ہیں اس وقت آپ ان کے ساتھ کچھ وقت گزار سکتے ہیں۔ آپ کو اپنے بچوں کو کچھ نہ کچھ وقت ضرور دینا چاہئے۔ بالخصوص ان مغربی ملکوں میں جہاں جب بچے بڑے ہورہے ہوں تو اُن کے مسائل بھی سر اٹھا نے لگتے ہیں۔ جب وہ بارہ تیرہ سال کے ہوتے ہیں یعنی Teenager ہوتے ہیں تو مناسب یہی ہے کہ آپ اُن کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھیں تاکہ وہ آپ کے کنٹرول میںرہیں اوراپنے مسائل آپ کے ساتھ Discuss کرسکیں۔
بعض لوگ جماعتی کاموں کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وقت جماعتی کاموں میںصرف کریں ۔ لیکن یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ٹھیک ہے کہ اس طرح کے لوگ بھی ہونے چاہئیں مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کے ذہنوں میں یہ بات بھی رہنی چاہئے کہ آپ کے بیوی بچوں کا بھی آپ پر حق ہے ۔
٭ دنیا کے مسائل مختلف قسم کے ہیں۔ غیرترقی یافتہ ممالک اپنے معاشی مسائل سے دوچار ہیں جس کی ایک وجہ اُن کے اپنے لوگوں کی کرپشن ہے۔ نیز بڑی طاقتوں کی Exploitation ہے۔ یہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر آپ خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے تو کوئی دوسرا آپ کے حالات نہیں بدل سکتا۔
ان مسائل کی ایک اَور وجہ غیرترقی یافتہ ملکوں کی لیڈرشپ بھی ہے۔ اب تک موجودہ جمہوری نظام والے ممالک میں صرف انڈیا ہی ہے جس کے لیڈر تیسری دنیا کے ممالک سے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ افریقن ممالک میں سے کوئی ایسی شخصیت مجھے دکھائی نہیں دی جو اپنے ملک کے ساتھ مخلص اور وفادار ہو سوائے اُن کے جنہوں نے اپنے ملکوں کی آزادی کے لئے بڑی محنت اور جدوجہد کی ہے جیسا کہ غانا میں کوامے نکرومہ کی اپنے وطن کے لئے اخلاص اور وفا واضح طور پرنظر آتی ہے۔ دراصل یہ کوامے نکرومہ ہی تھے جنہوں نے سارے افریقہ کی آزادی کی بنیاد رکھی۔
اگر مسلمان ممالک کے لیڈر اپنے ملک اور اپنے عوام سے مخلص ہوں اور اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیراہوں یا کم ازکم قرآنی ہدایات کی پیروی کریں تو ان مسلمان اقوام میں باہمی کشیدگی اور دشمنی نہ ہو۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب کبھی کوئی مسلمان ملک کسی دوسرے مسلمان ملک کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہو تو باقی سب مل کر جارحیت کرنے والے ملک کے خلاف کارروائی کریں یہاںتک کہ ان کے باہمی معاملات طے پاجائیں اور صلح ہوجائے۔ اور آپس میں معاملات طے پاجائیں تو اس کے بعد پھرآپس میں کوئی دشمنی یا کینہ نہ رکھیں۔ اس کے بعد اس ملک کی ترقی میں مدد کرنی چاہئے۔
لیڈرشپ کو جانچنے کے بہت سے پہلو ہیں مگر مختصراً یہ کہ جو کوئی بھی اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہو میرے نزدیک وہی شخص ایک اچھا لیڈر ہے۔ آپ سب کو علم ہے کہ مغربی طاقتوں کے دوہرے معیار ہیں۔ ایک معیار اپنے لئے اور دوسرا غیروں کے لئے۔ ایک معیار غریب قوموں کے لئے ہے اور دوسرا امیر قوموں کے لئے۔ اگر وہ ساری دنیا کے لوگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنے لگ جائیںاور اگر وہ دنیا میں قیامِ امن کے لئے سنجیدہ ہوں توآپ کو ان مغربی طاقتوں کا افریقن ممالک کے ساتھ یا بہت سے ایشیائی ملکوں کے ساتھ یا مشرقی یورپ کے مسلمان ممالک کے ساتھ مختلف سلوک نظر نہیں آئے گا۔ بوسنیا اور سربیا کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں کہ وہاں کیا ہوتا رہا ہے۔ اس طرح تو امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مغربی طاقتیں قیام امن کے لئے مخلص اور سنجیدہ نہیں ہیں۔
٭ یہ خیال کہ مذہب دنیاوی ترقی اور کیریئر کے راستہ میں رکاوٹ ہے، اس بارہ میں قرآن کریم کی تعلیمات بہت واضح ہیں۔ آپ قرآن کریم پڑھتے ہیں، یہ کتاب آپ کو ماڈرن سائنس، کائنات، ٹیکنالوجی بلکہ ہر چیزکے بارہ میں بتاتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ بھی وضاحت فرما چکے ہیں کہ یہ بات درست نہیں کہ مذہب جدید سائنس سے ہم آہنگ نہیں۔ اگر آپ ایک وکیل ہیں تو مذہب یہ نہیں کہتا کہ آپ وکیل نہیں بن سکتے۔ اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو مذہب یہ نہیں کہتا کہ آپ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتے۔
قرآن اور اسلام خود جدید علوم اور جدید سائنس کی طرف راہنمائی کررہا ہے۔تو پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ اس کا راستہ روکے یا ایسے دنیاوی امور میں رکاوٹ ڈالے۔
1908ء میں جب جان کلیمنٹ نے حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کی۔ جان کلیمنٹ نیوزی لینڈ کے ایک ماہر فلکیات تھے اور انہوں نے ہی سمندری طوفانوںکو نام دئیے تھے۔ انہوں نے بھی یہی سوال کیا تھا کہ سائنس کے بارہ میں اسلام کیا کہتا ہے؟ حضرت مسیح موعودؑ نے جواب دیا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ جدید علوم اور جدید ٹیکنالوجی کو Explore کیا جائے اور ان سے فوائد حاصل کئے جائیں، اس میںکوئی روک نہیں۔
پس مذہب جدید سائنسی علوم کے حصول میں مانع نہیں ہے بلکہ وہ تو کہتا ہے کہ دونوں ایک ساتھ کارفرما ہیں، مذہب سائنس کے متعلق معلومات دیتا ہے اور سائنس مذہب کے متعلق بتاتی ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے سائنسی تجربات کی بنیاد قرآنی آیات پر مبنی تھی۔جب مذہب سائنسی تحقیقات میں کوئی روک نہیں ڈالتا تو پھر باقی معاملات میں کیوں روک بنے گا!۔
البتہ مذہب اس سے ضرورروکتا ہے کہ مثلاً اگر دنیا کہے کہ طوائف کے پاس جائو یا اس قسم کے بُرے کام کروتو اسے رکاوٹ تو نہیں کہتے یہ تو اخلاقی تعلیم ہے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ مذہب کو شراب نوشی یا کسی ایسی چیز سے جو نشہ کا عادی بنانے والی ہو منع نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن مذہب ایسی باتوں سے روکتا ہے۔ اگر اس قسم کی باتوں کو آپ دنیوی معاملات کہتے ہیںتو پھر ٹھیک ہے مذہب ان سے روکتا ہے۔
٭ دنیا کے لوگوں اور اُن کی لیڈرشپ کو خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ جب تک وہ اس بات کو نہیں سمجھتے اور اس کا احساس نہیں کرتے کہ انہیں اپنے خالق کی ہدایات اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے اور یہ کہ وہ ان سے کیا چاہتا ہے، اس وقت تک دنیا میں صحیح معنوں میں امن کا قیام نہیں ہوسکتا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ مَیں دو ہی مقاصد لے کر آیا ہوں۔پہلا یہ کہ لوگوں کا تعلق خدا سے جوڑوں اور دوسرا یہ کہ انسان کو دوسرے انسانوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کروں۔
٭ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلی کا کلیۃً تعلق Check and balance system سے ہے۔ دنیا کے نظام میں جو اعتدال اور توازن اس کے خالق نے رکھا تھا اس کو اگر خراب کیا جائے تو لازماً اس کے نتیجہ میں عدم توازن کے مسائل پیدا ہوں گے۔ مگر اب جدید تحقیق کرنے والے اپنے مؤقف کوتبدیل کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف پٹرول اور گیسز کا استعمال اور درختوں کا کاٹا جانا ہی اس تبدیلی کا سبب نہیں ہے۔ تاہم میرے خیال میں اس بات میں بھی صداقت ہے، خاص طور پر افریقہ اور ایشیا کے ممالک میںجنگلات بڑی تیزی سے بلکہ مَیں تو کہوں گا کہ ظالمانہ طور پر کاٹے جارہے ہیں اور اس کے مقابل پر نئے درخت لگانے کی طرف توجہ نہیں ہے۔ دوبارہ جنگلات لگانے اور ان کے احیاء کے لئے کوئی کام نہیں ہورہا۔ اسی طرح یہاں پر بھی چونکہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے جنگلات میں کمی ہورہی ہے۔ شہروں اور قصبوں میں شجر کاری کی جاسکتی ہے لیکن یہ نہیں کی جا رہی۔
اس کے ساتھ ساتھ جہاں آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، لوگوں میں سُستی بھی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہر شخص کار کے ذریعہ سفر کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ تیسری دنیا کے ملکوں مثلاً نائیجیریا میں کاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ جب حکومت نے اس مشکل کے حل کے لئے ایسا اقدام کیا کہ ایک دن طاق نمبروں والی کاروں پر اور دوسرے دن جفت نمبر والی کاروں پر پابندی لگادی تو لوگوں نے اس مسئلہ کا یہ حل نکالا (کہ چونکہ اُس وقت وہاں کے لوگوںکے پاس پیسے کی فراوانی تھی) ہرگھرانے نے دوکاریں خرید لیں ایک طاق نمبر والی اور دوسری جفت نمبروالی۔
پس گیسوں کا اخراج مسلسل بڑھ رہاہے۔ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بھی ماحول کو متاثر کر رہے ہیں۔ پھر جنگلوں کو کاٹا جانا، مشینری کا استعمال، حتیٰ کہ پنکھے اور لائٹس یہ سب چیزیںگرین ہائوس کو متأثر کر رہی ہیں۔ان سب چیزوں پر غور کرنا ہوگا کہ کس طرح اس مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے؟ مگر درخت اور پودے لگانا سب سے اہم کام ہے۔ جب مَیں چھوٹی عمرکا تھاتو سفر کرتے ہوئے راولپنڈی سے اوپر مری کی طرف جاتے تو وہاں گھنے جنگلات دکھائی دیا کرتے تھے مگر اب وہ سارا علاقہ اور پہاڑ بنجر زمین کی طرح نظر آتے ہیں۔
٭ بعض یورپین ملکوں میں عورتوں کے سر ڈھانکنے سے متعلق قانون سازی کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
اگر مسلمانوں میں اتحاد ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے لباس اور مذہب کا حصہ ہے اور یہ ہماری عورتوں کے تقدس اور احترام سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر دنیا کی عورتیں ہر ملک میں متحد ہوں تو وہ کہہ سکتی ہیں کہ ہم سکارف میں اپنے آپ کوزیادہ آرام میں محسوس کرتی ہیں ۔یہ ہمارے تقدس کے لئے ہے۔ ہم اِسے ترک نہیں کرنا چاہتیں۔ عورتوں کی بہت سی تنظیمیں ہیں جنہوں نے دوہرے انداز اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ بعض اوقات وہ کہتی ہیں کہ ہم سکارف نہیں چاہتیں اور بعض جگہوں پر وہ سکارف نہیں پہننا چاہتیں۔ لیکن جب مسلمان لڑکی کی پہچان کا معاملہ ہو تو وہ کہتی ہیں کہ ہماراسکارف ہونا چاہئے۔
سب سے پہلے تو آپ کو اپنے دل کو پاک صاف کرنا ہوگا۔ اگر مسلمان دنیا کے تمام ممالک متحد ہوں اور وہ پُر زور انداز میںکہیں کہ یہ ہمار ا مذہبی فریضہ ہے کہ ہماری عورتیں سکارف اوڑھیں اور ہم اسے کسی صورت بھی چھوڑ نہیں سکتے اور دنیا کے کسی بھی ملک کی کوئی مسلمان لڑکی سکارف کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔ تو ایسی صورت میں میرا خیال ہے کہ عیسائیوں کی طرف سے سکارف کے خلاف اس طرح کا شور و غوغا نہیں ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے ہم اپنے ان مذہبی معاملات پر مضبوطی سے کاربند نہیں ہیں۔
صرف سکارف اوڑھنا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک بطور مسلمان کے مذہب پر مکمل طور پر عمل نہ کیا جائے۔ مَیں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ احمدی لڑکیاں جو مضبوط ایمان والی ہیں، انہوں نے ایسے اعتراضات کے باوجود اپنے سروں سے سکارف نہیں ہٹایا۔ ایک لڑکی کو اِس وجہ سے اُس کے باس (Boss) کی طرف سے نوٹس دیا گیا تھا کہ اگر اس نے کام کے دوران اپنے دفتر میں سکارف اوڑھنا نہ چھوڑا تو اُسے کام سے فارغ کردیا جائے گا۔ اس احمدی لڑکی نے کہا کہ وہ سکارف لینا نہیں چھوڑے گی ۔ اُس آدمی یعنی اس کے باس (Boss) نے اسے ایک مہینہ کا نوٹس دیا تھا۔ وہ بہت نیک لڑکی تھی،اس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ۔ اس لڑکی نے بتایا کہ باس (Boss) کی دی ہوئی مدّت ختم ہونے سے پہلے خود اُس باس (Boss) کو ہی کام سے فارغ کردیا گیا۔
تو آپ کا خدا سے ذاتی تعلق ہونا چاہئے اور مسلمان ممالک میں یکجہتی ہونی چاہئے ۔اگر وہ سب اکھٹے اور متحد ہوں تو ان کا جواب یہ ہو گاکہ اچھا اگر تم ایسا کروگے تو ہم تمہیں یعنی مغربی ممالک کو تیل دینا بند کردیں گے۔تو اس کے نتیجہ میں یہ لوگ ڈھیلے پڑ جائیں گے۔ مگر کون ہے جو اس قدر جرأت والا قدم اٹھائے!؟
٭ اس سوال کے جواب میں کہ اگر انگلستان اور پاکستان کا میچ ہورہا ہو تو حضورانور کس کو Support کریں گے؟ حضورانور نے فرمایا کہ ’’حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ‘‘۔
عرض کیا گیا کہ اگر دونوں ملکوں کی نیشنیلٹی ہو تو پھر؟
حضور انور نے فرمایا کہ پھر آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کو زیادہ Benefitsکہاں مل رہے ہیں؟
…ژ…ژ…ژ…