شہید بنگلہ دیش
احمد ابو جان کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنے مسجد گیا ہوا تھا۔ مسجد سے واپسی پر بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔اُس کی سانس پھولی ہوئی تھی مگر کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دیکھا کہ دادی جان تو نماز پڑھ رہی تھیں اور گڑیا کھانا لگا نے میں امی جان کی مدد۔
احمد نے گڑیا سے پوچھا: آپی کیا آپ نے نماز پڑھ لی؟
گڑیا نے کہا : جی احمد بھائی ابھی امی جان کے ساتھ پڑھی ہے۔آپ بھی ہاتھ منہ دھو لیں اور ابو جان کو لے کر ڈائننگ ٹیبل پر آ جائیں۔دسترخوان لگ چکا ہے۔
احمد نے جلدی سے دونوں کام کر لیے اور اب وہ بے تابی سے دادی جان کی نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جب دادی جان نماز پڑھ چکیں تو احمد نے دیکھا کہ دادی جان کچھ پریشان سی ہیں مگر انہوں نے اپنی پریشانی کی وجہ احمد اور گڑیا کو نہیں بتائی۔
دادی جان نے احمد سے پوچھا :کیا بات ہے تم بہت بے چین نظر آرہے ہو؟
احمد کے ہاتھ میں موبائل تھا اس نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا : دادی جان! آپ کو پتا ہے بنگلہ دیش میں احمدیوں کا جلسہ ہورہا تھا وہاں کچھ شرارتی اور گندے لوگوں نے جلسہ گاہ پر حملہ کرکے بہت سے احمدیوں کو شدید زخمی کردیا ہے اور کچھ لوگ احمدیوں کے گھروں کو بھی جلا رہے ہیں۔ابو جان نے مجھے ابھی ایک احمدی خادم کی تصویر بھی دیکھائی ہے جو اس حملہ میں شہید ہوگئے ہیں۔ مسجد میں بھی سب ان کے بارے میں بات کر رہے تھے اور دعائیں کر رہے تھے۔
دادی جان : جی ہاں احمد بیٹا آپ نے سنا ہوگا آج کے خطبہ جمعہ کے آخر پر پیارے حضور نے پھر سے دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا ہے۔
گڑیا : جی دادی جان میں نے بھی سنا تھا اور ابھی نماز میں ان کے لیے دعا بھی کی ہے۔ مجھ لگ رہا ہے آپ بھی اسی وجہ سے پریشان ہیں۔
دادی جان نے گڑیا کو بہت محبت سے دیکھا اور کہا۔جی بیٹا آپ نے درست طور پر میری پریشانی کو بھانپا ہے۔ ہم سب کو ان مظلوم احمدیوں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔میں نے آپ سے ذکر کیا تھا ناں کہ کچھ عرصہ پہلے افریقہ میں دس احمدیوں کو کس بے دردی سے شہید کیا گیا تھا۔اب بھی وہاں پر حالات اچھے نہیں ہیں اور احمدیوں کے لیے خطرہ موجود ہے۔
احمد: جی دادی جان برکینافاسو کے علاقہ ڈوری کے شہیدوں کی کہانی مجھے یاد ہے۔
دادی جان: جی بیٹا۔ آج کے خطبہ جمعہ میں بھی پیارے آقا نے دوبارہ دعا کی تحریک فرمائی ہے۔احمد آپ بتائیں حضور انور نے کن ممالک کے لیے دعا کی تحریک کی ہے؟
گڑیا ہاتھ اٹھاتے ہوئے: میں بتاؤں؟
دادی جان نے گڑیا کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے پیار سے کہا۔ آپ سے بھی پوچھوں گی ابھی احمد کو بتانے دیں۔
احمد: جی دادی جان حضور انور نے پاکستان،الجزائر اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک کی ہے۔
دادی جان : شاباش احمد آپ نے درست بتایا مگر آپ برکینا فاسو بھول گئے شاید۔
احمد : جی دادی جان آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں وہ میرے ذہن میں نہیں رہا۔
دادی جان: چلیں کوئی بات نہیں۔اچھا گڑیا بیٹا آپ بتاؤ کہ پیارے حضور نے ہمیں کونسی دعا بہت زیادہ پڑھنے کا ارشاد فرمایا ہے؟
گڑیا : دادی جان مجھے دعا تو یاد نہیں۔
دادی جان چلو کوئی بات نہیں میں آپ کو پڑھ کر سناتی ہوں آپ دونوں میرے پیچھے پیچھے دہراتے جائیں۔ ٹھیک ہے؟ اس طرح سے ہر نماز کے بعد جب ہم یہ دعا پڑھیں گے تو حضورِ انور کے ارشاد پر عمل بھی ہوگا اور دعا بھی یاد ہوجائے گی۔
احمد اور گڑیا دونوں یک زبان بولے: جی دادی جان یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے۔ اس کے بعد ان دونوں نے دادی جان کے ساتھ آہستہ آہستہ دعا دہرائی: اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔ اب دادی جان نے بچوں کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ ان شاءاللہ دو تین روز تک آپ کو یہ دعا زبانی یاد ہوجائے گی۔
دادی جان نے مزید کہا: بچو چند روز پہلے ہم نے بات کی تھی ناں کہ شہید کون ہوتا ہے اور آخر شہادت میں ایسی کیا بات ہے کہ اسے اپنی جان خدا کی راہ میں دینے کا مزا آتا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کمزور لوگوں پر ہی ظالم ظلم کیوں کرتا ہے اور پھر وہ مظلوم اپنے دفاع میں کیوں نہیں جواب دیتا تو اس کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے چلو آپ سوچیں۔ ہم اس پر پھر مزید بات کریں گے۔
دادی جان آج جمعہ ہے۔ کھانے کے بعد ہم نے پیارے حضور کو خط بھی لکھنا ہے۔ ہماری مدد کیجیے گا۔ گڑیا نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
دونوں بچوں نے دادی جان کو پیار کیا اور وہ سب کھانا کھانے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر جانے لگے۔