حضرت مسیح موعودؑ کی خوبصورت یادیں
آپؑ کی عظیم الشان صاحبزادیؓ کے قلم سے
پیارے بچو!حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت مسیح موعودؑ کی صاحبزادی تھیں۔ آپ کا حافظہ بہت تیز تھا۔ آپ اکثر اپنے بچپن کے واقعات اور حضرت مسیح موعودؑ، حضرت امّاں جانؓ اور اپنے بھائیوں وغیرہ کی مزے مزے کی باتیں سنایا کرتیں۔آج ہم آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق کچھ واقعات خود ان کی زبانی سنائیں گے۔
آپؓ فرماتی ہیں:میری عُمر کے گیارہ سال اور چوبیس دن کُل حضرت مسیح موعودؑ کی حیات ِمبارکہ میںگزرے تھے۔اس عمر کے بچوں کو تو کچھ یاد نہیں رہتا۔یہ خدا تعالیٰ کااحسان ہے کہ کچھ بچپن کی یادیں جو اکثر ذاتی باتیں ہیں۔ لوگوں کے لیے معمولی مگر میرے لیے بیش بہا خزانہ ہیں،الحمداللہ کہ جو بھی یاد ہے۔بہت صاف،اور میرے دل پر نقش ہیں،گویا اس وقت بھی دیکھ رہی ہوں، سن رہی ہوں،آپ کابات کرنا، آپ کا اُٹھنا، آپ کا بیٹھنا، آپ کا سونا،سوتے میں کروٹ لینا،ٹہلنا،لکھنا،غرض سب کچھ دل پر نقش ہے۔حالانکہ پڑھنے میں بھی وقت گزرتا،بڑاحصّہ دن کا،اور پھر کھیلنا بھی۔مگر جب بھی موقعہ ہوتا،میں ضرور وہ وقت حضرت مسیح موعودؑ کے پاس گزارنا پسند کرتی تھی۔ کاش کہ اور زیادہ موقعہ ملتا،اکثر چھوٹی باتیں بھی آپ سے پوچھ لیتی۔
ہمارے بچپن میں ایک کھلونا آتا تھا’’look and laugh‘‘ دور بین کی صورت کا۔اس میں دیکھو تو عجیب مضحکہ خیز صورت دوسرے کی نظر آتی تھی۔ جب یہ کھلونا لاہور سے کسی نے لاکر دیا۔ آپ کو یہ چیز میں نے دکھائی۔ آپ نے دیکھا اور تبسم فرمایا کہا:’’اب جاؤ دیکھو اور ہنسو کھیلو، مگر دیکھو یاد رکھنا میری جانب ہرگز نہ دیکھنا‘‘
سب والدین بچوں کو تہذیب سکھاتے ہیں مگر یہ ایک خاص بات تھی اللہ تعالیٰ کا فرستادہ نبی مؤدب بن کر بھی آتا ہے اور خود اس کو اپنا اَدب بھی اپنی ذاتی شخصیت کے لیے نہیں، بلکہ اس مقام کی عزت کی لیے جس پر اس کو کھڑا کیا گیا، اس ذاتِ پاک و برتر کے احترام کی وجہ سے جس نے اس کو خاص مقام بخشا۔جس کی جانب سے وہ بھیجا گیا سکھاناپڑتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی زبان میں معجزانہ اثر تھا آپ نہ بات بات پر ٹوکتے نہ شوخیوں پر جھڑکنے لگتے بلکہ انتہائی نرمی سے فرماتے کہ یوں نہ کرو۔جس بات سے آپ نے منع کیا مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھول کر بھی وہ بات پھر کی ہو۔وہ پیار بھری زبانِ مُعْجِز بیان کہ ایک بار کہا پھر عمر بھر کو اس بات سے طبیعت بیزار ہو گئی۔
مجھے اور مبارک احمد کو قینچی سے کھیلتے دیکھ کر تنبیہہ فرمائی کیونکہ قینچی کی نوک اس وقت میں نے مبارک احمد کی طرف کر رکھی تھی فرمایا: ’’کبھی کوئی تیز چیز قینچی،چُھری،چاقو اس کے تیز رُخ سے کسی کی طرف نہ پکڑاؤاچانک لگ سکتی ہے، کسی کی آنکھ میں لگ جائے کوئی نقصان پہنچے تو اپنے دل کو بھی ہمیشہ پچھتاوارہے گا اور دوسرے کو تکلیف۔‘‘ یہ عمر بھر کو سبق ملا اور آج تک یاد ہے۔
اس با ت سے بھی آپ نے روکا ہوا تھا کہ کبھی ڈھیلا،پتھر کسی کی جانب نہ پھینکو۔ کسی کے بے جگہ لگ جائے کسی کی آنکھ ہی پھوٹ جائے،سر پھٹ جائے۔ اس کا ہمیشہ خیال رہتا تھا اور ہمیشہ بچوں کو اس امر پر روکا ٹوکا ہے۔
میں بچہ تھی بالکل چھوٹی، جب بھی آپ نے مجھے کہا اور شاید کئی بار کہ ’’جب تم آنکھ کھلے کروٹ لیتی ہو اس وقت ضرور دعا کر لیا کرو۔‘‘ میں اٹھ نہ سکوں، بیمار ہوں،کچھ ہو یہ عادت میری اب تک قائم ہے دعا کرتے کرتے درود پڑھتے نیند آجاتی ہے، پھر آنکھ کھلے تو وہی سلسلہ۔یہ سب آپ کے الفاظ کی برکت ہے۔
میں چھوٹی سی تھی بھائی پیا ر کرتے ہر کہنا مانتے۔ اِدھر حضرت امّا ں جان کا پیار اور سب سے بڑھ کر حضرت مسیح موعودؑکی ناز برداریاں اور بے حد خیال رکھنا۔اپنے بچپن سے مجھ پر بے حدشفقت فرمائی …میں چھوٹی تھی تو رات کو اکثر ڈر کر آپؑ کے بستر میں جاگُھستی۔ جب ذرا بڑی ہونے لگی تو آپؑ نے فرمایا کہ ’’جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں(اس وقت میری عمر کوئی پانچ سال کی تھی )تو پھر بستر میں اس طرح نہیں آگھسا کرتے۔ میں تو اکثر جاگتا رہتا ہوں، تم چاہے سو دفعہ مجھے آواز دو میں جواب دوں گا اور پھر تم نہیں ڈرو گی۔ اپنے بستر سے ہی مجھے پکار لیا کرو۔‘‘
پھر میں نے بستر پر کود کر آپ علیہ السلام کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔ جب ڈر لگتا پکار لیتی،آپ علیہ السلام فوراًجواب دیتے۔ پھر خوف اور ڈر لگنا ہی ہٹ گیا۔ میرا پلنگ آپ علیہ السلام کے پلنگ کے پاس ہی ہمیشہ رہا۔ بجز چند دنوں کے جب مجھے کھانسی ہوئی تو حضرت امّاں جان بہلا پھسلا کر ذرا دُور بستر بچھوا دیتی تھیں کہ ’’تمہارے ابّا کو تکلیف ہو گی‘‘۔ مگر آپ علیہ السلام خود اٹھ کر سوتی ہوئی کا،میر اسر اُٹھا کر ہمیشہ کھانسی کی دوا مجھے پلاتے تھے۔ آخری شب بھی جس روز آپ علیہ السلام کا وصال ہوا۔ میرا بستر آپ کے قریب بالکل قریب ہی تھا کہ بس ایک آدمی ذرا گزرسکے، اتنا فاصلہ ضرور ہوتا۔
ایک بار میرے چھوٹے بھائی صاحب حضرت مرزا شریف احمدصاحبؓ نے،وہ بھی آخر بچہ ہی تھے، اصرار کیا کہ:۔ ’’میرا پلنگ بھی ابّا کے قریب بچھا دیں۔‘‘ مگر میں نے اپنی جگہ چھوڑنا نہیں مانا، حضرت امّاں جان نے فرمایا کہ ’’یہ ہمیشہ پاس لیٹتی ہے کیا ہو گا، آخر شریف کا بھی دل چاہتا ہے۔ ایک دو دن یہ اپنی ضد ذرا چھوڑ دے بھائی کو لیٹنے دے تو کیا حرج ہو جائے گا۔‘‘ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’ نہیں یہ لڑکی ہے اس کا دل رکھنا زیادہ ضروری ہے۔‘‘
حالانکہ حضرت امّا ںجا ن چھوٹے بھائی صاحب کو لے کر اس رات ان کی دلداری کے لیے خود بھی بیت الدعا میں زمین پر ان کو ساتھ لے کر سوئیں مگر میرا بستر وہیں رہا۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ اس بات پر پھر میرا دل بھی دکھا تھا اور ندامت محسوس ہوئی۔
اسی طرح قبل بلوغت کم عمری میں آپ روزہ رکھواناپسند نہ فرماتے تھے۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت امّا ں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بہت بڑی دعوتِ افطاری دی تھی۔یعنی جو خوا تین جماعت تھیں سب کو بلایا ہوا تھا۔ اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں نے روزہ رکھ لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ’’آج میرا روزہ پھر ہے‘‘۔آپ علیہ السلام حجرہ میں(جنہوں نے ہمارا گھر قادیان کا دیکھا ہے وہ سمجھ لیں گی کہ کون سا کمرہ تھا)تشریف رکھتے تھے۔ پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔غالباًحضرت امّاں جان بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔آپؑ نے ایک پان اٹھا کر مجھے دیا کہ: ’’لو یہ پان کھا لو تم کمزور ہو ابھی روزہ نہیں رکھنا توڑ ڈالو روزہ۔‘‘
میں نے پان تو کھا لیا مگر آپ سے کہا کہ’’صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ )نے بھی رکھا ہے اُن کا بھی تڑوادیں۔‘‘ فرمایا۔’’بلاؤاُس کو بھی۔‘‘ میں بُلا لائی، وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھا کر دیا اور فرمایا: ’’ لو یہ کھا لو تمہارا روزہ نہیں ہے۔‘‘ میری عمر اس وقت دس سال کی ہو گی۔