روحانیت کے مراحل از براہین احمدیہ
حضور علیہ السلام نے سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات کے حوالہ سے روحانیت کے جو چھ مراحل بیان فرمائے ہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں اچھی طرح سمجھ کر ان پر عمل کی کوشش کی جائے تاکہ ہم اپنی زندگی کے اصل مقصد کو حاصل کرسکیں
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی تصنیف لطیف براہین احمدیہ حصہ پنجم میں قرآن کریم کے حوالہ سے یہ تصریح بیان فرمائی ہے کہ انسان کو اپنے کمالِ روحانی و جسمانی کی تکمیل کے لیے چھ مراتب طے کرنے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دونوں قسم کی ترقیات کو چھ چھ مرتبہ پر تقسیم فرماکر مرتبہ ششم کو ترقی کا کمال مرتبہ قرار دیا ہے۔قرآن کریم میں روحانی اور جسمانی وجود کی ترقیات کی یہ مطابقت ایسے خارق عادت طریق پر دکھلائی گئی ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے کبھی کسی انسان کے ذہن میں معرفت کا یہ نکتہ نہیں آیا اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کی کتاب میں اس کا ذکر ملتاہے۔ذیل میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں روحانی ترقی حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کامقرب بننے کے چھ ذرائع کا مختصرذکر کیا جائےگا۔حضور علیہ السلام نے قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں روحانی ترقی حاصل کرنے کا پہلا مرتبہ نماز اور یاد الٰہی میں خشوع اور فروتنی کو قرار دیا ہے۔چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
٭…’’پہلا مرتبہ روحانی ترقی کا یہ ہے کہ جو اس آیت میں بیان فرمایاگیا ہے یعنی قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ ھُمۡ فِیۡ صَلَاتِھِمۡ خٰشِعُوۡنَ (المؤمنون:2)یعنی وہ مومن نجات پاگئے جو اپنی نماز اور یاد الٰہی میں خشوع اور فروتنی اختیار کرتے ہیں اور رقّت اور گدازش سے ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 187)
٭…’’اوّل مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقت اور سوز وگداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الٰہی میں مومن کو میسر آتی ہے یعنی گدازش اور رقت اور فروتنی اور عجز ونیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا۔ اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کرکے خدائے عزّوجل کی طرف دل کو جھکانا …یہ خشوع کی حالت …وہ پہلا تخم ہے جو عبودیت کی زمین میں بویا جاتا ہے اور وہ اجمالی طور پر ان تمام قویٰ اور صفات اور اعضاء اور تمام نقش ونگار اور حسن و جمال اور خط وخال اور شمائل روحانیہ پر مشتمل ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 188)
٭…’’دنیا میں ہزار ہا خشوع کی حالتیں ایسی ہیں کہ رحیم خدا سے تعلق نہیں پکڑتیں اور ضائع جاتی ہیں۔ ہزار ہا جاہل اپنے چندروزہ خشوع اور وجد اور گریہ وزاری پر خوش ہوکر خیال کرتے ہیں کہ ہم ولی ہوگئے غوث ہوگئے قطب ہوگئے اور ابدال میں داخل ہوگئے اور خدا رسیدہ ہوگئے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں …یہ روحانی حالت کا پہلا مرتبہ جو حالت خشوع ہے طرح طرح کے اسباب سے ضائع ہوسکتا ہے…مثلاً اس خشوع میں کوئی مشرکانہ ملونی ہے یا کسی بدعت کی آمیزش ہے یا اور لغویات کا ساتھ اشتراک ہے …پس ان تمام ناپاک عوارض کے ساتھ حالت خشوع اس لائق نہیں ٹھہرتی کہ رحیم خدا اس سے تعلق پکڑ جائے …پس ایسا ہی خشوع اور سوز وگداز کی حالت گو وہ کیسی ہی لذّت اور سرور کے ساتھ ہو خدا سے تعلق پکڑنے کے لئے کوئی لازمی علامت نہیں ہے۔ یعنی کسی شخص میں نماز اور یاد الٰہی کی حالت میں خشوع اور سوز وگداز اور گریہ وزاری پیدا ہونا لازمی طور پر اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس شخص کو خدا سے تعلق بھی ہے۔ ‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 191-193)
قرآن کریم کے مطابق روحانی ترقی کا دوسرا درجہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لغو کاموں، لغو باتوں، لغو حرکتوں، لغو مجلسوں، لغو صحبتوں، لغو تعلقات اور لغو جوشوں سے کنارہ ہوکر اپنے ایمان کو ترقی دی جائے۔اس ضمن میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
٭…’’روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ وہ ہے …جس کی طرف قرآن شریف کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ(المومنون:4)یعنی رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جولغو کاموں اور لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور ایمان ان کا اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اس قدر کنارہ کشی اُن پر سہل ہوجاتی ہے کیونکہ بوجہ ترقی ٔ ایمان کے کسی قدر تعلق اُن کا خدائے رحیم سے ہوجاتا ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 198)
٭…’’غرض دوسرا مرتبہ روحانی وجود کا جو تمام لغو باتوں اور لغو کاموں سے پرہیز کرنا اور لغو باتوں اور لغو تعلقات اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہونا ہے یہ مرتبہ بھی اسی وقت میّسر آتا ہے کہ جب خدائے رحیم سے انسان کا تعلق پیدا ہوجائے۔ کیونکہ یہ تعلق میں ہی طاقت اور قوت ہے کہ دوسرے تعلق کو توڑتا ہے اور ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور گو انسان کو اپنی نماز میں حالت خشوع میسر آجائے جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے پھر بھی وہ خشوع لغو باتوں اور لغوکاموں اور لغو جوشوںسے روک نہیں سکتا۔ جب تک کہ خدا سے وہ تعلق نہ ہو جوروحانی وجود کے دوسرے مرتبہ پر ہوتا ہے …پس خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ اس کے یہی معنے ہیں کہ مومن وہی ہیں جو لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرتے ہیں اور لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرنا خدا تعالیٰ کے تعلق کا موجب ہے۔ گویا لغو باتوں سے دل کو چھڑانا خدا سے دل کو لگا لینا ہے کیونکہ انسان تعبّد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اور طبعی طورپر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت موجود ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 199-200)
روحانی ترقی کے تیسرے درجے کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف بیہودہ اور لغو باتوں سے کنارہ کشی اختیار کی جائے بلکہ بخل کی پلیدی سے بچا جائے اور اپنے مال کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
٭…’’روحانی وجود کا تیسرا درجہ وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے۔ وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ (المومنون:5) اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ مومن کہ جو پہلی دو حالتوں سے بڑھ کر قدم رکھتا ہے وہ صرف بیہودہ اور لغو باتوں سے ہی کنارہ کش نہیں ہوتا بلکہ بخل کی پلیدی کودُور کرنے کے لئے جو طبعاً ہر ایک انسان کے اندر ہوتی ہے زکوٰۃ بھی دیتا ہے یعنی خدا کی راہ میں ایک حصہ اپنے مال کا خرچ کرتا ہے۔ زکوٰۃ کا نام اسی لئے زکوٰۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے لِلّٰہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور جب بخل کی پلیدی جس سے انسان طبعاً بہت تعلق رکھتا ہے انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے تو وہ کسی حد تک پاک بن کرخدا سے جو اپنی ذات میں پاک ہے ایک مناسبت پیدا کرلیتا ہے ؎
کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے
اور یہ مرتبہ پہلی دو حالتوں میں پایا نہیں جاتا۔کیونکہ صرف خشوع اور عجز ونیاز یا صرف لغو باتوں کو ترک کرنا ایسے انسان سے بھی ہوسکتا ہے جس میں ہنوز بخل کی پلیدی موجود ہے لیکن جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنے اس مال عزیز کو ترک کرتا ہے جس پر اس کی زندگی کا مدار اور معیشت کا انحصار ہے اور جو محنت اور تکلیف اور عرقریزی سے کمایا گیا ہے تب بخل کی پلیدی اس کے اندر سے نکل جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایمان میں بھی ایک شدت اور صلابت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ دونوں حالتیں مذکورہ بالا جو پہلے اس سے ہوتی ہیں اُن میں یہ پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی بلکہ ایک چھپی ہوئی پلیدی ان کے اندر رہتی ہے۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ لغویات سے منہ پھیرنے میں صرف ترکِ شر ہے اور شر بھی ایسی جس کی زندگی اور بقا کے لئے کچھ ضرورت نہیں اور نفس پر اس کے ترک کرنے میں کوئی مشکل نہیں لیکن اپنا محنت سے کمایا ہوا مال محض خدا کی خوشنودی کے لئے دینا یہ کسبِ خیر ہے جس سے وہ نفس کی ناپاکی جو سب ناپاکیوں سے بدتر ہے یعنی بخل دُور ہوتا ہے لہٰذا یہ ایمانی حالت کا تیسرا درجہ ہے جو پہلے دو درجوں سے اشرف اور افضل ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 203-204)
روحانی ترقی کا چوتھا درجہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو نفسانی جذبات اور شہوات ممنوعہ سے بچایا جائے۔ حضور علیہ السلام اس درجہ کو حاصل کرنے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
٭…’’روحانی وجود کا چوتھا درجہ وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ لِفُرُوۡجِھِمۡ حٰفِظُوۡنَ (المومنون:6)یعنی تیسرے درجہ سے بڑھ کر مومن وہ ہیں جو اپنے تئیں نفسانی جذبات اور شہوات ممنوعہ سے بچاتے ہیں۔ یہ درجہ تیسرے درجہ سے اس لئے بڑھ کر ہے کہ تیسرے درجہ کا مومن تو صرف مال کو جو اُس کے نفس کو نہایت پیارا اور عزیز ہے خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے لیکن چوتھے درجہ کا مومن وہ چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں نثار کرتا ہے جو مال سے بھی زیادہ پیاری اور محبوب ہے یعنی شہوات نفسانیہ۔ کیونکہ انسان کو اپنی شہواتِ نفسانیہ سے اس قدر محبت ہے کہ وہ اپنی شہوات کے پورا کرنے کے لئے اپنے مال عزیز کو پانی کی طرح خرچ کرتا ہے اور ہزار ہا روپیہ شہوات کے پورا کرنے کے لئے برباد کردیتا ہے اور شہوات کے حاصل کرنے کے لئے مال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ دیکھا جاتا ہے ایسے نجس طبع اور بخیل لوگ جو ایک محتاج بھوکے اور ننگے کو بباعث سخت بخل کے ایک پیسہ بھی دے نہیں سکتے شہوات نفسانیہ کے جوش میں بازاری عورتوں کو ہزارہا روپیہ دے کر اپنا گھر ویران کرلیتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ سیلاب شہوت ایسا تُند اور تیز ہے کہ بخل جیسی نجاست کو بھی بہا لے جاتا ہے۔ اس لئے یہ بدیہی امر ہے کہ بہ نسبت اس قوت ایمانی کے جس کے ذریعہ سے بخل دُور ہوتا ہے اور انسان اپنا عزیز مال خدا کے لئے دیتا ہے یہ قوتِ ایمانی جس کے ذریعہ سے انسان شہواتِ نفسانیہ کے طوفان سے بچتا ہے نہایت زبردست اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں نہایت سخت اور نہایت دیرپا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہے کہ نفسِ امّارہ جیسے پرانے اژدہا کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالتی ہے۔ اور بخل تو شہوات نفسانیہ کے پورا کرنے کے جوش میں اور نیز ریا اور نمود کے وقتوں میں بھی دُور ہوسکتا ہے مگر یہ طوفان جونفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ نہایت سخت اور دیرپا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دُور ہو ہی نہیں سکتااور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اس کی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دور کرنے والی قوتِ ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کرکے پامال کرسکے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے رحم سے کیونکہ شہواتِ نفسانیہ کا طوفان ایک ایسا ہولناک اور پُر آشوب طوفان ہے کہ بجز خاص رحم حضرت احدیت کے فرو نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے حضرت یوسف کو کہنا پڑا وَمَاۤ اُبَرِّیٴُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ (یوسف :۵۴) یعنی میں اپنے نفس کو بَری نہیں کرتا نفس نہایت درجہ بدی کا حکم دینے والا ہے اور اس کے حملہ سے مخلصی غیر ممکن ہے مگر یہ کہ خود خدا تعالیٰ رحم فرماوے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 205-206)
قرآن کریم کی رُو سے روحانی وجود بننے اور قرب الٰہی حاصل کرنے کا پانچواں ذریعہ امانتوں اور عہدوں کے ہر ایک پہلو کا خیال رکھنااور تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
٭…’’پانچواں درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے: وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ لِاَمٰنٰتِھِمۡ وَعَھۡدِھِمۡ رٰعُوۡنَ(المومنون:9)۔ یعنی پانچویں درجہ کے مومن جو چوتھے درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو صرف اپنے نفس میں یہی کمال نہیں رکھتے جو نفسِ امّارہ کی شہوات پر غالب آگئے ہیں اور اس کے جذبات پر اُن کو فتح عظیم حاصل ہوگئی ہے بلکہ وہ حتی الوسع خدا اور اس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جہاں تک طاقت ہے اس راہ پر چلتے ہیں۔ خدا کے عہدوں سے مراد وہ ایمانی عہد ہیں جو بیعت اور ایمان لانے کے وقت مومن سے لئے جاتے ہیں جیسے شرک نہ کرنا خون ناحق نہ کرنا وغیرہ …پس اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ وہ مومن جو وجودِ روحانی کے پنجم درجہ پر ہیں حتی الوسع اپنی موجودہ طاقت کے موافق تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارتے اور کوئی پہلو تقویٰ کا جو امانتوں یا عہد کے متعلق ہے خالی چھوڑنا نہیں چاہتے اور سب کی رعایت رکھنا اُن کا ملحوظِ نظر ہوتا ہے اور اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ موٹے طورپر اپنے تئیں امین اور صادق العہد قرار دے دیں بلکہ ڈرتے رہتے ہیں کہ در پردہ اُن سے کوئی خیانت ظہور پذیر نہ ہو۔ پس طاقت کے موافق اپنے تمام معاملات میں توجہ سے غور کرتے رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اندرونی طور پر اُن میں کوئی نقص اور خرابی ہو اور اسی رعایت کا نام دوسرے لفظوں میں تقویٰ ہے … انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں رُوحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط وخال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سرسے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طورپر آنکھیں اور کان اورہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طورپر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں۔ ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کےمقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 207-210)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں روحانی ترقی حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کےمقرب بننے کا چھٹا اور آخری ذریعہ اپنی نمازوں پر آپ محافظ اور نگہبان بننا قرار دیا ہے۔ حضور علیہ السلام اس ذریعہ کو حاصل کرنے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
٭…’’چھٹا درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اِس آیت کریمہ میں ذکر فرمایاہے وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِھِمۡ یُحَافِظُوۡنَ (المومنون:10) یعنی چھٹے درجہ کے مومن جو پانچویں درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو اپنی نمازوں پر آپ محافظ اور نگہبان ہیں یعنی وہ کسی دوسرے کی تذکیر اور یاد دہانی کے محتاج نہیں رہے بلکہ کچھ ایسا تعلق ان کو خدا سے پیدا ہوگیا ہے اور خدا کی یاد کچھ اس قسم کی محبوب طبع اور مدارِ آرام اور مدارِ زندگی ان کے لئے ہوگئی ہے کہ وہ ہروقت اس کی نگہبانی میں لگے رہتے ہیں اور ہردم ان کا یادِ الٰہی میں گزرتا ہے اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی خدا کے ذکر سے الگ ہوں …وہ درحقیقت نماز اور یاد الٰہی کو اپنی ایک ضروری غذا سمجھتے ہیں جس پر ان کی زندگی کا مدار ہے اور یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے اور اس کی محبتِ ذاتیہ کا ایک افروختہ شعلہ جس کو روحانی وجود کے لئے ایک رُوح کہنا چاہیے اُن کے دل پر نازل ہوتا ہے اور ان کو حیاتِ ثانی بخش دیتا ہے اور وہ رُوح ان کے تمام وجود روحانی کو روشنی اور زندگی بخشتی ہے۔ تب وہ نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے خدا کی یاد میں لگے رہتے ہیں بلکہ وہ خدا جس نے جسمانی طورپر انسان کی زندگی روٹی اور پانی پر موقوف رکھی ہے وہ ان کی رُوحانی زندگی کو جس سے وہ پیار کرتے ہیں اپنی یاد کی غذا سے وابستہ کردیتا ہے۔ اس لئے وہ اس روٹی اور پانی کو جسمانی روٹی اور پانی سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اور اس کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہیں اور یہ اس رُوح کا اثر ہوتا ہے جو ایک شعلہ کی طرح اُن میں ڈالی جاتی ہے۔ جس سے عشقِ الٰہی کی کامل مستی اُن میں پیدا ہوجاتی ہے اس لئے وہ یاد الٰہی سے ایک دم الگ ہونا نہیں چاہتے وہ اس کے لئے دکھ اُٹھاتے اور مصائب دیکھتے ہیں مگر اس سے ایک لحظہ بھی جدا ہونا نہیں چاہتے اور پاس انفاس کرتے ہیں۔ اور اپنی نمازوں کے محافظ اور نگہبان رہتے ہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمد یہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 212-213)
حضور علیہ السلام نے سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات کے حوالہ سے روحانیت کے جو چھ مراحل بیان فرمائے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں اچھی طرح سمجھ کر ان پر عمل کی کوشش کی جائے تاکہ ہم اپنی زندگی کے اصل مقصد کو حاصل کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد اور راہنمائی فرمائے اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والا بنائے تاکہ ہم اُس کے مقرب بندوں میں شامل ہوجائیں۔ آمین
٭…٭…٭