براہین احمدیہ سے متعلق بعض ضروری امور
پہلے سے موجود لٹریچر میں جن موضوعات پر لکھا جا چکا ہے وہ عموماً براہین احمدیہ کے مضامین، اس سے متعلق علماء اور عوام کے تاثرات، اور کتاب کی تصنیف و اشاعت سے متعلق تاریخی واقعات پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ چند ایک اہم موضوعات درج ذیل ہیں جن پر مزید جمع و تدوین کی کافی گنجائش ہے
کتاب براہین احمدیہ سے متعلق کئی مضامین جماعتی لٹریچر میں پہلے سے موجود ہیں لیکن یہ کتاب اور اس کے موضوعات ایک بحربے کنار ہےجن کا احاطہ ممکن نہیں۔ براہین احمدیہ کے حوالہ سے تاریخ احمدیت،حیات احمد،براہین احمدیہ اور مولوی عبدالحق (بابائے اُردو) کا مقدمہ،ماہنامہ انصاراللہ کے دو عددبراہین احمدیہ نمبر دسمبر 1997ء اور فروری 1998ء تاریخی اور تحقیقی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ چونکہ اس مضمون میں ہمارا مقصد صرف ان اہم امور کا ذکر کرنا ہے جو ابھی تک مزید تحقیق کے مستحق ہیں۔اس لیے تفصیل میں جانے کی بجائے بعض تحقیقات کا اختصار سےذکر کیا گیا ہے۔
پہلے سے موجود لٹریچر میں جن موضوعات پر لکھا جاچکا ہے وہ عموماً براہین احمدیہ کے مضامین، اس سے متعلق علماء اور عوام کے تاثرات، اور کتاب کی تصنیف و اشاعت سے متعلق تاریخی واقعات پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ چند ایک اہم موضوعات درج ذیل ہیں جن پر مزید جمع و تدوین کی کافی گنجائش ہے۔
1) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا براہین احمدیہ کے زمانہ تک وسعت مطالعہ۔
2)براہین احمدیہ لکھنے کے دوران پیش آنے والے واقعات و حالات۔
3) براہین احمدیہ کے زمانہ کے عینی شاہدین اور بعد کے اصحاب کی روایات۔
اس کے علاوہ کئی موضوعات ترتیب دیے جاسکتے ہیں جو الگ الگ کتاب کا درجہ رکھتے ہیں، جیسا کہ براہین احمدیہ میں مذکور نشانات اور الہامات جو بعد کے زمانہ میں پورے ہوئے۔براہین احمدیہ جلد پنجم میں اس کی کسی قدر تفصیل موجود ہے۔غیر مذاہب اور دنیا کے مختلف ممالک میں براہین احمدیہ کے ذریعہ تعارف اور خطوط کا بھیجنا ایک الگ موضوع ہے جو ابھی تک کافی گمنامی میں پڑا ہوا ہے۔
بہرحال ہم نے اس تحقیق میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے براہین احمدیہ کی تائید میں لکھے جانے والی کتب کا تعارف پیش کیا ہے۔ نیزبعض حوالہ جات اور روایات متفرق طور پر آخر پر درج کیے ہیں جن سے الگ موضوعات کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
٭…براہین احمدیہ کی تائید اور دفاع میں مندرجہ ذیل کتب لکھی گئیں۔ (بعض اشتہارات بھی براہین احمدیہ کی تائید میں مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے لیکن وہ اس وقت خارج از بحث ہیں)
٭…براہین احمدیہ پر ریویو از مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی (رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7نمبر6-11 بمطابق جون تا نومبر 1884ء)
٭…تصدیق براہین احمدیہ بجواب تکذیب،خبط،تنقیہ وغیرہ از حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح الاول ؓ، مطبوعہ 1890ء۔
٭…القول الفصل و ما ھو بالھزل، براہین احمدیہ کے ریویو پر ریویو ازمیر حامد صاحب سیالکوٹی مطبوعہ 1891ء۔
٭…تائید براہین احمدیہ حصہ اول و دوم از شہاب الدین چشتی صابری مطبوعہ 1891ء۔
٭…رد تکذیب براہین احمدیہ حصہ اول عرف تہذیب المکذبین ازمولوی ابو رحمت حسن صاحب،مطبوعہ 1895ء۔
٭…رد تکذیب براہین احمدیہ حصہ دوئم، عرف وید و قرآن کا مقابلہ از مولوی ابو رحمت حسن صاحب، مطبوعہ 1900ء۔
براہین احمدیہ پر ریویو از مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی
کل صفحات :155
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا براہین احمدیہ پر ریویو اس لحاظ سے نہایت اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں بٹالوی صاحب نے ہر طرح سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دفاع کیا ہےنیزبراہین احمدیہ اور اس کے مصنف پر ہونے والے اعتراضات کا مدلل جواب دیا ہے۔رسالہ اشاعۃالسنہ جلد7 بمطابق 1884ء کے 155صفحات پر مشتمل (طویل ہونے کے باعث یہ ریویو کتاب کی حیثیت رکھتا ہے) اس ریویو سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔ اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لعل اللّٰہ یحدث بعد ذالک امرا۔ اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔
ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو۔ اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کے نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑا اٹھا لیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آ کر اس کا تجربہ و مشاہدہ کر لے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیرکو مزہ بھی چکھا دیا ہو۔‘‘ (اشاعۃالسنہ جلد ۷ نمبر ۶ صفحہ ۱۷۰،۱۶۹)
مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف صاحب ہمارے ہموطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے) ہمارے ہم مکتب اس زمانہ سے آج تک ہم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلت برابر جاری رہی ہے اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دئیےجانے کے لائق ہے۔‘‘ (اشاعۃالسنہ جلد ۷ نمبر ۶ صفحہ ۱۷۶)
’’مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اورمشاہدے کے رو سے (و اللّٰہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں اور نیز شیطانی القا اکثر جھوٹ نکلتے ہیں اور الہامات مؤلف براہین سے( انگریزی میں ہوں خواہ ہندی و عربی وغیرہ) آج تک ایک بھی جھوٹ نہیں نکلا۔ (چنانچہ ان کے مشاہدہ کرنے والوں کا بیان ہے گو ہم کو ذاتی تجربہ نہیں ہوا) پھر وہ القاء شیطانی کیونکر ہو سکتا ہے۔ کیا کسی مسلمان متبع قرآن کے نزدیک شیطان کو بھی یہ قوت قدسی ہے کہ وہ انبیا و ملائکہ کی طرح خدا کی طرف سے مغیبات پر اطلاع پائے اور اس کی کوئی خبر غیب صدق سے خالی نہ جائے حاشا و کلا۔ شاید یہاں ہمارے معترض مہربان مولف براہین احمدیہ کے ساتھ ہم کو بھی ملائیں اور ہم پر بھی فتویٰ کفر لگائیں اور یہ فرمائیں کہ اس جواب میں مولف براہین کو آنحضرت سے ملایا گیا ہے اور ان کے الہامات کو وحی نبوی کی مانند تصرف شیطانی سے معصوم ٹھہرایا گیا ہے۔ لیکن میں ان کے فتویٰ کفرسے نہیں ڈرتا کیونکہ میں خود ان پر فتویٰ کفر لگا سکتا ہوں۔ جو ان کے پاس آلہ یا سانچا یا میشین تکفیر ہے وہ میں بھی کہیں سے مستعار لے کر کام چلا سکتاہوں۔ ہاں ان کی بات کا یہ جواب دیتا ہوں کہ مؤلف براہین احمدیہ (جبکہ اس کے الہامات صادق ہوں اور ولایت مسلم) یا اور اولیاء امت محمدیہ اپنے الہامات میں نبیوں کی مثل معصوم نہیں تو محفوظ تو ہو سکتے ہیں خصوصاً ان الہامات میں جو قرآن اور دین اسلام کے موافق اور مؤید ہوں۔ ان الہامات میں حفاظت کا حصہ وہ بطور ورثہ بحکم العلماء ورثۃ الانبیاء عصمت انبیاسے پاتے ہیں۔ اِن میں اُن میں فرق یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام عموماً (یعنی اپنے ہر ایک الہام میں) معصوم ہوتے ہیں اور اولیاء خصوصاً ان الہامات میں جو شرع نبی کے مخالف نہ ہوں) اور ان الہامات پر وہ قائم و ثابت رہے ہوں محفوظ ہو تے ہیں۔ انبیا کے الہامات کی عامہ خلائق کو پابندی واجب ہے اولیاء کے الہامات کی پابندی غیر پر واجب نہیں۔ الہامات انبیاء اصل ہیں۔ یہ الہامات ان کی ظل۔ (اشاعۃ السنۃ جلد 7 نمبر9 صفحہ284)
’’اس کتاب کی خوبی اور بحق اسلام نفع رسانی اس کتاب کو بچشم انصاف پڑھنے اور ہمارے ریویو کو دیکھنے والوں کی نظروں میں مخفی نہ رہے گی۔ لہٰذا بحکم ’’ھل جزاء الاحسان الا الاحسان‘‘ کافہ اہل اسلام پر (اہلحدیث ہوں خواہ حنفی شیعہ ہوں خواہ سنی وغیرہ) اس کتاب کی نصرت اور اس کےمصارف طبع کی اعانت واجب ہے۔ مولف براہین احمدیہ نے مسلمانوں کی عزت رکھ دکھائی ہے اور مخالفین اسلام سے شرطیں لگا لگا کر تحدی کی ہے اور یہ منادی اکثر روئے زمین پر کر دی ہے کہ جس شخص کو اسلام کی حقانیت میں شک ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اس کی صداقت دلائل عقلیہ قرآنیہ و معجزات نبویہ محمدیہ سے (جس سے وہ اپنے الہامات و خوارق مراد رکھتے ہیں) بچشم خود ملاحظہ کر لے۔ پھر کیا اس احسان کے بدلے مسلمانوں پر یہ حق نہیں ہے کہ فی کس سہی فی گہر ایک ایک نسخہ کتاب اس کی ادنیٰ قیمت دے کر خرید کریں اور اس پر یہ شعر پڑھیں۔شعر
جمادے چند دادم جان خریدم
بحمد اللہ کہ بس ارزان خریدم
اب ہم اس ریویو کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں:۔اے خدا اپنے طالبوں کے رہنما ان پر ان کی ذات سے ان کے ما باپ سے تمام جہان کے مشفقوں سے زیادہ رحم فرما۔ تو اس کتاب کی محبت لوگوں کےد لوں میں ڈال دے اور اس کے برکات سے ان کو مالا مال کر دے اور کسی اپنے صالح بندہ کے طفیل اس خاکسار شرمسار گناہگار کو بھی اپنے فیوض و انعامات اور اس کتاب کی اخص برکات سے فیضیاب کر آمین و للارض من کاس الکرام نصیب۔ (اشاعۃ السنۃ جلد 7 نمبر11 صفحہ348)
تصدیق براہین احمدیہ از حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح الاول ؓمطبوعہ 1890ء کل صفحات :334
حضرت مسیح موعود مہدی و معہود علیہ السلام کی معرکہ آرا تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ ملقب بہ البراہین الاحمدیہ علی حقیۃ کتاب اﷲ القرآن والنبوۃالمحمدیہ جس کو آپ علیہ السلام نے کمال تحقیق اور تدقیق سے تالیف کر کے منکرین اسلام پر حجت اسلام پوری کرنے کے لیے بوعدہ انعام دس ہزار شائع کیا تھا۔ اس تصنیف منیف پر پنڈت لیکھرام نے ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کو ملاحظہ فرمانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی حکیم نورالدینؓ کو ایک خط مرقوم فرمایا جس میں لکھا۔ ’’… میں آپ کو ایک ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ حال میں لیکھرام نام ایک شخص نے میری کتاب براہین کے ردّ میں بہت کچھ بکواس کی ہے۔ اور اپنی کتاب کا نام ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ رکھا ہے۔ یہ شخص اصل میں غبی اور جاہل مطلق ہے ا ور بجز گندی زبان کے اور اس کے پاس کچھ نہیں۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خواں اور دنی استعداد ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے۔ کتاب میں دورنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں۔ جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں توہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بد شکل ہیں۔ وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی عملی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے۔ غرض اس شخص نے خواندہ ہندوؤں کی منت سماجت کر کے اور بہت سی کتابوں کا اس نے خیانت آمیز حوالہ لکھ کر یہ کتاب تالیف کی ہے۔ اس کتاب کی تالیف سے ہندوؤں میں بہت جوش ہو رہا ہے یقین ہے کہ کشمیر میں بھی یہ کتاب پہنچی ہوگی کیونکہ میں نے سنا ہے کہ لالہ لچھمن داس صاحب ملازم ریاست کشمیر نے تین سو روپیہ اس کتاب کے چھپنے کے لیے دیا ہے۔ شاید یہ بات سچ ہو یا جھوٹ ہو لیکن اس پُرافتراءکتاب کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے اور یہ عاجز ابھی ضروری کام سراج منیر سے، جو مجھے درپیش ہے بالکل عدیم الفرصت ہے اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا اورنہ آپ کی تعریف کی رُو سے بلکہ قوی یقین سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ جما دیا ہے کہ جس قدر اﷲ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیے آپ کے دل میں جوش ڈالا ہے اور میری ہمدردی پر مستعد کیا ہے، کوئی دوسرا آدمی ان صفات سے موصوف نظر نہیں آتا۔ اس لیے میں آپ کو یہ بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ اول سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کئے ہیں۔ ان سب کو ایک پرچہ کاغذ پر بیاد داشت صفحہ کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں اور جس قدر اﷲ تعالیٰ آپ کو جوابات معقول دل میں ڈالے وہ سب الگ الگ لکھ کر میری طرف روانہ فرماویں اور جو کچھ خاص میرے ذمہ ہوگا، میں فرصت پاکر اس کا جواب لکھوں گا۔ غرض یہ کام نہایت ضروری ہے اور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جدو جہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرف متوجہ ہوں اور جس طرح مالی کام میں آپ نے پوری پوری نصرت کی ہے اس سے یہ کم نہیں ہے کہ آپ خدا داد طاقتوں کی رو سے بھی نصرت کریں۔
آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہورہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لیے بہت زور لگا رہے ہیں۔ میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے اور اعلائے کلمۃ الاسلام کے لیے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے۔ بہت جلد مجھ کو اطلاع بخشیں۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے اور آپ کا مدد گار ہو۔ آپ اگر مجھے لکھیں تو میں ایک نسخہ کتاب مذکور کا خرید کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان ۲۶؍ جولائی ۱۸۸۷ء‘‘
(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ ۴۲، ۴۳)
اس ارشاد کی تعمیل میں حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ نے پنڈت لیکھرام کی کتاب تکذیب براہین احمدیہ کے جواب میں تصدیق براہین احمدیہ جیسی لاجواب کتاب تصنیف فرمائی جو ۱۸۹۰ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔ اس کتاب میں جو بجواب تکذیب۔تتفیہ۔خبط وغیرہ ہے اس میں آریہ صاحبان کے اعتراضات کے جواب میں نہایت معقول دلائل دیے گئے ہیں اور مختلف مقامات پر قرآن کریم کی نہایت لطیف تفسیر کی گئی ہے اور اسلام کی صداقت بڑے زور سے ثابت کی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب پر یہ ریویو فرمایا: ’’حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کے معلومات رکھتے ہیں۔ فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے۔ فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ طیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں مناظراتِ دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر وسیع رکھتے ہیں۔ بہت سی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں۔ حال میں کتاب ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۷ حاشیہ)
پہلے ایڈیشن کے آخر پرتصدیق براہین احمدیہ جلد دوم سے متعلق درج ذیل دو اشتہار ملتےہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلد دوم بھی شائع ہونے کے لیے پنجاب پریس سیالکوٹ میں جا چکی تھی اور ۷۰۰ کے قریب اس کے صفحات دوسرے اشتہار میں بتائے گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ جلد شائع ہوئی یا نہیں، پنجاب پریس سیالکوٹ میں جانے کے بعد اس کے شائع ہونے اور منظر عام پر آنے میں کیا رکاوٹ حائل ہوئی اس بارہ میں ہمارا لٹریچر خاموش نظر آتا ہے۔
اشتہار اول اور دوم کی عبارت یہاں درج کی جاتی ہے۔
تصدیق براہین احمدیہ جلد دوم
اس بیش قیمت کتاب کی دوسری جلد بھی بڑے اہتمام کے ساتھ پنجاب پریس سیالکوٹ میں چھپ رہی ہے۔اور عنقریب فروخت کے لیے بالکل تیار ہوجائے گی۔ اس جلد میں بھی بڑے ضروری اور مفید مطلب مضامین پر بحث کی گئی ہے خصوصاً مسئلہ تناسخ کی تردید میں بڑا مفصل مضمون لکھا گیا ہے۔ درخواستیں جلد آنی چاہئیں۔
المشتہر۔عبدالکریم بورڈ سکول سیالکوٹ
اشتہار دوم کی عبارت مندرجہ ذیل ہے۔
تصدیق براہین احمدیہ
مصنّفہ جناب مولوی نورالدین صاحب حکیم ریاست جموں بجواب تکذیب۔خبط۔تنقیہ۔ وغیرہ۔ اس میں آریہ صاحبان کے اعتراضات کے جواب نہایت معقول دلائل سے دیے گئے ہیں۔ اور مختلف مقامات قرآن کریم کی نہایت لطیف تفسیر کی گئی ہے۔ اس کتاب نے لاریب مخالفین کا منہ کھٹا کر دیا ہے اور اسلام کی صداقت بڑے زور کے ساتھ ثابت کی گئی ہے۔ پہلی جلد نہایت عمدہ ولایتی کاغذ پر چھپ کر تیار ہے قیمت ۸
حصہ دوم جو قریب ۷۰۰ صفحہ کے ہے زیر طبع ہے۔ اس میں مکذب براہین نے طبع ثانی میں جو تصدیق کی نسبت خامہ فرسائی کی ہے اس کا جواب بھی مد نظر ہے۔
القول الفصل و ما ھو بالھزل، براہین احمدیہ کے ریویو پر ریویو ازمیر حامد صاحب سیالکوٹی
کل صفحات :112
یہ کتاب حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی ؓ کی طرف سے مولوی محمد حسین بٹالوی کے براہین احمدیہ کےریویو پر ریویو ہے۔پہلے دو صفحات پر ایک نظم اور پھر ۴ صفحات پر انٹروڈکشن کے عنوان کے تحت اس کتاب کا تعارف درج فرمایا ہے۔اس کے علاوہ کتاب کے کل۱۱۲ صفحات ہیں۔کتاب کے سرورق پر سنہ اشاعت درج نہیں لیکن کتاب کے اندر موجود تعارف سے واضح ہوتا ہے کہ مصنف نے اسے 1890ء میں تصنیف فرمایا اور 1891ء میں پنجاب پریس سیالکوٹ میں غلام قادر فصیح صاحب کے اہتمام سے شائع کیا۔
٭…تائید براہین احمدیہ حصہ اول و دوم از شہاب الدین چشتی صابری مطبوعہ 1891ء
کتاب کا کسی قدر تعارف خود مصنف کے قلم سے : ’’اے صاحبان جن کو حق اور حق پسندی سے پیار ہے۔ ان کے لیے تائید براہین احمدیہ المعروف عینک چشم آریہ کا یہ دوسرا حصہ تیار ہے۔جس پہلو سے دیکھو گےیہی ثابت ہوگا کہ انسان کے لیے نجات جاودانی کا وسیلہ قرآن شریف ہے۔جس کے مقابلہ میں آریہ وید کی تعلیم نہایت ہی خفیف و ضعیف ہے۔بلکہ روحانی تعلیم اور معجز نمائی میں آریہ وید پرلے درجہ کا نحیف ہے۔اس حصہ میں نسخہ خبط احمدیہ مصنفہ پنڈت لیکھرام کا جواب با صواب ہے۔غور سے پڑھو گے تو ثابت کر لو گے کہ پنڈت صاحب کی لچرتحریر و تقریر کی کس طرح مٹی خراب ہے۔مجھے نہ مرزا صاحب کی کسی طرح رعایت ہے نہ پنڈت صاحب کے ساتھ عناد و بیجا شکایت ہے۔ صرف حق و باطل میں تمیز کرنے کے لیے عوام کی خدمت منظور ہے۔ اگر کوئی برا مانے تو اس کا قصور ہے۔
مہربانی کر کےاول سے آخر تک مطلع فرمائیے۔
خاکپائے
نیازمند شہاب الدین صابری
(حصہ دوم تائید براہین احمدیہ المعروف عینک چشم آریہ صفحہ۳)
تائید براہین احمدیہ کا پہلا حصہ فی الحال دستیاب نہیں ہوسکا، دوسرے حصہ کے صفحات کی تعداد 86 ہے۔
کتاب کے مصنف شہاب الدین چشتی صابری کے حالات معلوم نہیں ہو سکے۔تاریخ احمدیت میں لائف آف احمد مصنفہ عبدالرحیم درد صاحب کے حوالہ سے صرف اتنا ذکر ملتا ہے کہ نکودر ضلع جالندھر کے ایک عرائض نویس شہاب الدین غوری نے بھی اس کے جواب میں ایک کتاب ’’تائید براہین احمدیہ‘‘ لکھی جو 1891ء میں قیصری پریس جالندھر سے طبع ہوئی۔ (لائف آف احمد صفحہ 124)(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۳۱۴)
رد تکذیب براہین احمدیہ حصہ اول عرف تہذیب المکذبین:
صفحات :130
یہ کتاب تکذیب براہین احمدیہ مصنفہ پنڈت لیکھرام کا جواب ہے۔اس کتاب میں عقلی و نقلی جوابات کے علاو ہ مصنف نے الزامی جواب دینے کا طریق استعمال کیا ہے اور ویدوں کی غیر مہذب تعلیمات پر بحث کی ہے۔اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔پہلا ایڈیشن ۱۸۹۵ءمیں ۱۳۰ صفحات پر اور تیسرا ایڈیشن ۱۹۰۹ء میں ۱۵۰ صفحات پر میرٹھ سے شائع ہوا۔
رد تکذیب براہین احمدیہ حصہ دوئم، عرف وید و قرآن کا مقابلہ :
صفحات : 152
اس میں قرآن اور وید کی تعلیمات کا موازنہ کر کے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن ہی کامل کتاب ہے اور ویدوں کی تعلیم ناقص، خلاف قانون قدرت اور حیاءسوز ہے۔ متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ زیر نظر ایڈیشن تیسری مرتبہ 1904ء میں النذیر پریس میرٹھ میں منشی نذیر حسین کے اہتمام سے طبع ہوا۔
مولوی ابو رحمت حسن صاحب کا تعارف
مولوی ابو رحمت حسن صاحب کے جس قدر حالات دریافت ہوئے ہیں وہ مزید تحقیق کے محتاج ہیں کیونکہ ان کی بیعت کا صریح ذکر نہیں ملتا لیکن ان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خطوط لکھنا اور خود حاضر ہو کر اپنی برادری کی مخالفت کا ذکر کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ بہرحال آپ احمدی ہی تھے اور ایک وقت تک اپنے ایمان کو خفیہ رکھتے رہے۔آپ کئی کتب کے مصنف اور کامیاب مناظر تھے اور آپ کی تبلیغ کا زیادہ کام ہندو اور آریہ مذہب کے خلاف تھا۔ آپ کی تصنیفات کی ایک نامکمل فہرست درج ذیل ہے۔
٭…تہذیب المکذبین، رد تکذیب براہین احمدیہ حصہ اول
٭…وید و قرآن کا مقابلہ، رد تکذیب براہین احمدیہ حصہ دوئم
٭…وید کی حقیقت
٭…قرآن کی حقیقت کا جواب
٭…رد خطرات
٭…تحقیق الالہام
٭…مباحثہ کسیر
٭…مباحثہ موضع سکندرآباد
٭…مباحثہ موضع رسول پور
٭…صلوٰۃ اور سندھیا کی کتاب
٭…ید بیضا بجواب رسالہ کالی چرن
٭…ہدایت تامہ بجواب قسم نامہ
ان کتب کے علاوہ ماہوار رسالہ ’’النذیر‘‘ میںجو منشی نذیر حسین کے زیر اہتمام میرٹھ سے شائع ہوتا تھا میں آپ کے کئی مضامین اور کتب کا ذکر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملفوظات میں آپ کا دو دفعہ ذکر ملتا ہے۔جو یہاں درج کیا جاتا ہے۔
حضرت حکیم الامۃ نے مولوی ابو رحمت حسن صاحب کا ذکر سنایا۔ کہ وہ بڑے اخلاص سے خط لکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس آیت پر (أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا، سورۃ الانبیاء آیت ۹۲) مخالف اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تہذیب کے خلاف ہے۔ فرمایا کہ جو خدا تعالیٰ کو خالق سمجھتے ہیںتو کیا اس خلق کو لغو اور باطل قرار دیتے ہیں۔ جب اس نے ان اعضاء کو خلق کیا اس وقت تہذیب نہ تھی۔ خالق مانتے ہیں اور خلق پر اعتراض نہیں کرتے ہیں تو پھر اس ارشاد پر اعتراض کیوں؟ دیکھنا یہ ہے کہ کیازبان عرب میں اس لفظ کا استعمال ان کے… عُرف کے نزدیک کوئی خلاف تہذیب امر ہے۔ جب نہیں تو دوسری زبان والوں کا حق نہیں کہ اپنے عرف کے لحاظ سے اسے خلافِ تہذیب ٹھہرائیں۔ ہر سوسائٹی کے عُرفی الفاظ اور مصطلحات الگ الگ ہیں۔ (الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ صفحہ ۸ تا ۱۰ مورخہ ۱۰؍ نومبر ۱۹۰۲ء)
مولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی۔ حضور میرے واسطے دُعا فرمائی جاوے کہ پیشتر تو میری زندگی اور رنگ میں تھی مگر اب جب سے میں نے علی الاعلان حضور کے عقائد کی اشاعت اپنا فرض مقرر کر لیا ہے تو میری برادری بھی مخالف ہو گئی ہے اور درپئے آزار ہے اور عام طور سے لوگ بھی مجمعوں میں کم آتے ہیں۔اس پر حضرت اقد س نے فرمایا کہ آپ صبر سے کام لیں اور استقلال رکھیں۔ آپ دیکھ لیں گے کہ پہلے سے بھی زیادہ لوگ آپ کے مجمعوں میں جمع ہوں گے اور ساری مشکلات دُور ہو جاویں گی۔ ایسی مشکلات کا آنا از بس ضروری ہے۔ دیکھو امتحان کے بغیر کسی کی کچھ قدر نہیں ہوتی۔ دنیا ہی میں دیکھ لو کہ پاسو ں کی کیسی پُوچھ ہوتی ہے کہ کیا پاس کیا ہے۔ پس جو لوگ خدائی امتحان میں پا س ہو جاتے ہیں پھر اُن کے واسطے ہر طرح کے آرام وآسائش، رحمت اور فضل کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ دیکھو۔ قرآن شریف میں صاف فرما یا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ(العنکبوت:۳)صرف زبان سے کہہ لینا تو آسان ہے مگر کچھ کر کے دکھانا اور خدائی امتحان میں پاس ہونا بڑی بات ہے۔
دیکھو۔ ہماری ہی ابتدائی حالت پر غور کرو کہ اوّل اوّل ہمارے ساتھ ایک آدمی بھی نہ تھا۔ مولوی محمد حسین نے ہمارے واسطے کُفر کا فتویٰ تیار کیا اور پشاور سے لے کر بنارس تک تمام ہندوستان کے بڑے بڑے مولویوں کی دو تین صد مُہریں لگوائیں اور فتویٰ دے دیا کہ ان کا قتل کرنا، ان کا مال لوٹ لینا، ان کی عورتیں چھین لینا سب جائز ہے۔ اور یہ لوگ کافر، اکفر، ضال، مضل اور یہود نصاریٰ سے بھی بد تر ہیں۔ مگر دیکھ لوکہ ان کی کیا پیش گئی۔ خدا تعالےٰ نے ان کو کیسا ذلیل کیا۔
پس سچے مومن بننا چاہیے۔ دیکھو آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم کے حالات پر ذرا نظر ڈالو۔ آپ کے زمانہ میں کیسی مشکلات کا سامنا تھا۔ مگر آپ کے اور آپ کے صحابہ ؓ کے وفا، صدق، صبر اور استقامت نے کیا کچھ کر دکھایا۔ یقینا جانو کہ اگر کروڑ توپ بھی ہوتی۔ جب بھی یہ کام جو ان لوگوں کے ایمان، صدق، صبر اور استقلال نے کر دکھایا۔ ہر گز ہرگز نہ کر سکتی۔ دیکھو آپ کے پاس نہ کوئی فوج تھی نہ توپیں تھیں نہ سپاہی تھے مگر اﷲ تعالیٰ نے کیسی تائید کی کہ بڑے بڑے لوگ خس وخاشاک کی طرح فتح ہوتے چلے گئے۔
ہمیں خیال آیا کہ ہمارا نام مہدی ہے۔ عیسٰی ہے اور کرشن کے نام سے بھی اﷲ تعالیٰ نے ہمیں پکارا ہے اور انہیں تینوں کی آمد کی انتظار میں اس وقت تین بڑی قومیں لگی ہوئی ہیں۔ مسلمان مہدی کے، عیسائی عیسٰی کی آمد ثانی کے اور ہندو کرشن اوتار کے۔ چنانچہ ان ناموں میں یہی حکمت الٰہی ہے۔
مولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی کہ حضور کرشن کے معنے ان کی لغت کے بموجب ہیں وہ روشنی جو آہستہ آہستہ دنیا کو روشن کرتی ہے۔ تاریکی جہالت کے مٹانے والے کا نام کرشن ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کے متعلق جو گوپیوں کی کثرت مشہور ہے اصل میں ہمارے خیال میں بات یہ ہے کہ اُمّت کی مثال عورت سے بھی دی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن شریف سے بھی اس کی نظیر ملتی ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ الخ (التحریم:۱۲)یہ ایک نہایت ہی باریک رنگ کا لطیف استعارہ ہوتا ہے۔ اُمت میں جوہرِ صلاحیت ہوتا ہے اور نبی اور امت کے تعلق سے بڑے بڑے حقائق معارف اور فیضان کے چشمے پیدا ہوتے ہیں اور نبی اور امت کے سچے تعلق سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جن سے خدائی فیضان اور رحم کا جذب ہوتا ہے۔ پس کرشن اور گوپیوں کے ظاہری قصّہ کی تہہ میں ہمارے خیال میں یہی راز حقیقت پنہاں ہے۔ مولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی کہ گوپی کے معنے یوں بھی ہیں کہ گو کہتے ہیں زمین کو اور پی پالنے والے یعنی کرشن جی کے مریدان با صفا ایسے لوگ تھے جو نیک مزاج اور مخلوق کی پرورش کرنے والے تھے۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ انسان کو زمین سے بھی تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا(الحدید:۱۸) ارض کے زندہ کرنے سے مراد اہل زمین ہیں۔(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ صفحہ ۷-۸ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء)
غیر ممالک میں براہین احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی دعوت
براہین احمدیہ کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی خطوط مختلف مذاہب کے لیڈروں اور معروف شخصیات کے نام لکھے، اوراپنے ایک خط کا انگریزی ترجمہ کروا کربراہین احمدیہ کے مضامین کا تعارف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں قادیان آنے کی دعوت بھی دی۔ ذیل میں اس خط کا مضمون اور انگریزی اخبارات سے تین متعلقہ حوالہ جات درج ہیں۔اہل قلم حضرات اس بارہ میں تحقیق کر کے الگ سےمضمون بھی لکھ سکتے ہیں۔یہاں صرف اختصار کے ساتھ ذکر کرنا اور توجہ دلانا مقصود ہے۔
خط جو مختلف مذاہب کے لیڈروں کے نام بھیجا گیا
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بعد ما وجب گزارش ضروری یہ ہے کہ یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت قادر مطلق جلشانہٗ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لیے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بیخبر ہیں صراطِ مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں) دکھاوے اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے جس کے ۳۷ جز چھپ کر شائع ہو چکی ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے…لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لیے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط (جس کی دو سَو چالیس کاپی چھپوائی گئی ہیں، معہ اشتہار انگریزی جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہیں) شائع کیا جاوے اور اُس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرت مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامت سے منکر ہیں اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاویں یہ ان حضرات نیچریہ یا مولوی صاحبان کو کہا جاتا ہے جو اسلام کو مانتی ہیں اور پھر وجود خوارق اور کرامات سے منکر اور اس عاجز پر بدظن ہیں۔ یہ تجویز اپنی فکر اور اجتہاد سے نہیں قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچنے پر رجوع کریں گے) ملزم و لاجواب و مغلوب ولا جواب و مغارب ہو جاویں گے بناء علیہ پر یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں (اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدر ہیں) ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کی کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حبۃ اللہ اس خط کے مضمون کی طرف سے توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گے اگر اپنی اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہوگی اور اس کارروائی کے (کہ آپ کو خط رجسٹری شدہ ملا اور پھر آپ نے اُس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب براہین احمدیہ میں پوری تفصیل سے بحث کی جاوے گی اور اصل مدعا خط جس کی ابلاغ کے لیے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے کہ دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے اس دین کی حقانیت اور قرآن شریف کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں کی (خوارق و پیشگوئیوں) شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ) کے صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر آسمانی نشانوں کو بچشم خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط و نیت سے (جو طالب صادق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اِسی جگہ قادیان میں مشرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جاویں گے۔ اس شرط و نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے۔ اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں۔ اب آپ تشریف نہ لاویں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا اور اگر آپ آویں اور ایک سال تک رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سَو روپیہ ماہوارہ کے حساب سے آپ کو حرجانہ یا جرمانہ دیا جاوے گا۔ اس دو سَو روپیہ ماہوارہ کو آپ اپنی شایان شان نہ سمجھیں یا تو اپنی حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اُس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے۔ طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لیے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی نہیں۔ اگر آپ بذات خود تشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا (تصدیق خوارق) میں توقف نہ فرماویں آپ اپنی شرط اظہار اسلام (تصدیق خوارق) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کومتعدد انگریزی اُردو اخباروں میں شائع کیا جاوے گا ہم سے اپنی شرط دو سَو روپیہ ماہوار حرجانہ یا جو آپ پسند کریں اور ہم اُس کی ادائی کی طاقت بھی رکھیں۔عدالت میں رجسٹری کرائیں بالآخر یہ عاجز حضرت خداوندکریم جلشانہ کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر اُن کی اشاعت کے لئے ایک آزاد سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے ہم کو جگہ دی۔ اس گورنمنٹ کا بھی حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے۔ والسلام علی من اتبع الہدی فقط
راقم خاکسار غلام احمد قادیانی
(۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ)
(مکتوبات احمدیہ جلد دوم صفحہ ۳تا ۵، قدیم ایڈیشن)
Mr Bradlaugh has received a curious invitation which many people wil
propbably hope he may accept.Mirza Gulam Ahmad who says that he has been commissioned by the Almighty, has sent the junior member for Northampton, by registered letter, an invitation to visit the punjab, there to be converted to Islamism, and he offers to guarantee Mr Bradlaugh 200 rupee per month, with food and lodging. Mr Bradlaugh has the invitation under consideration.
[ The Western Daily Press, Bristol, Saturday, June 6 1885, Page 3 Column 4th]
AN OFFER TO AN INFIDEL.
Bradlaugh Invited to Go to India and Become a Moslem.
London, June 4.— Charles Bradlaugh, the famous infidel, who is always elected a member of Parliament for Northampton and always rejected by the House, has now an opportunity of getting converted and of making handsome wages during the process. The offer comes from Prince Mirza Gholam Ahmed, C. I. E., an Indian potentate of fabulous wealth and a Mahomedan of great proselyting zeal.
The Prince has read Mr. Bradlaugh’s works sympathetically, and believes that with a proper course of teaching by Moselm sages he would become a bright and shining light of Islamism. He proposes that Bradlaugh shall come to his domain in the Punjab, and put himself under tuition with a view to his conversion. The Prince agrees to furnish the neophyte with a suitable palace and a retinue of servants, to provide for all his household expenses, which shall be on a scale of magnificence consistent with the honor due the Prince’s guest, and to furnish him an allowance of 200 rupees per month during the entire process of conversion. Mr. Bradlaugh is said to be seriously considering the invitation, although he says that the task of getting converted would probably be a life-long job.
[Daily Kennebec journal. Augusta, Monday Morning June 08, 1885, Page 2 Column 2nd ]
There is a pious Mohammaden prophet in the Punjaub in India, who says that he is specially inspired to convert the Western civilized world to the faith of Islam. A few days ago a gentleman of St. Louis received a document from him of which the following is the opening paragraph :
From Gulam Ahmad, an humble servant of the eternal God and a follower of the chief prophet (Muhammad):
To — : Sir- With all respect and humility I (the compiler of “Burahin-i-Ahmadia’’) beg to say that the Almighty has commissioned me to try, like the Nazarene prophet (Christ), to amend the morals of mankind with utmost humility, lowliness, respect, submission and meekness, and to point out the un-acquainted the straight way by which we can obtain salvation, perceive the manifestations of heavenly life, and by which the marks of being loved by the Almighty become visible even in this physical world. For this purpose the book entitled “ Burahin-i-Ahmadia’’ has been compiled of which 592 pages have been printed and published, according to the synopsis of contents given in the accompanying notice. But as the publication of the entire book will take a long time, it has been determined, for the sake of conviction, to invite th dissenters by sending out this special epistle, together with the enclosed notice to all the distinguished clergy and Jews of note throughout all the continents of the world, as far as its transmission may be possible, and similarly to the chief leaders of Buddhists,Brahmas, Aryas, naturalists, Parsis and the bigoted Maulavis ( who do not believe in the existence of miracles and unusual deeds, and are hence suspicious against me.)
He invited the gentleman to visit him in India, ‘‘If you do not come’’ he says ‘‘ you will yourself be answerable to God. After awaiting your arrival for three months, the statement of your indifference will ipso facto be noted in the book as stated above ; but in case you do come fail to behold any heavenly signs during your stay with me for the time specified you shall be paid 200 rupees per month (besides food and accomodation which will be supplied free to all) as compensation to cover your damages, or as s recovery of fine in default of my promise. If you deem this sum inadequate to your dignity I am even ready to pay as damages or fine for unfulfilling promise whatever suitable sum you propose yourself, proportionate to your rank if it be not beyond my means. It is, however, necessary that visitors desirous of recovering damages or fine should ask my permission beforehand through a registered note of their intent of coming over to me to enable me to limit the number according to the availability of my estate, but it is not requisite to do it otherwise. Finally, I thank God that he has been pleased to display, through his infinite grace, the reasons and doctorines of this true religion, and has placed me for the spread of it under the protection of the liberal government of the British nation to whom I am grateful through the sense of obligation and gratitude. “Peace to all the followers of righteousness.” With due respect, I beg to remain sir, your obedient well-wisher.
MIRZA GULAM AHMAD.
Of Kadian, District Gurdaspur, Punjaub , India, Asia.
Provided one wants to investigate the religion of Islam, Mr Ahmad certainly makes that investigation as pleasant and inexpensive as could be expected.
[NEW-YORK DAILY TRIBUNE, SUNDAY, MARCH, 27, 1887. Page 11 Last Column ]
حضور نے کن حالات میں کتابیں تصنیف فرمائیںایک دفعہ فرمایا : مضمون لکھتے ہوئے جب بے ہوشی ہوجاتی ہے تو قلم ہاتھ سے گر جاتا ہے۔ہوش آنے پر پھر لکھنے لگ جاتا ہوں۔(روایت حافظ ابراہیم صاحب)(الحکم مسیح موعودؑ نمبر مورخہ28،21مئی 1935ءصفحہ 4)
محنت کے باعث آپ کی صحت پر اثرات
حضرت سید سرور شاہ صاحب کی پہلی ملاقات کے احوال میں لکھا ہے کہ اس وقت حضور اتنے کمزور معلو م ہوتے تھے کہ مولوی ابراہیم نے واپس آنے پر جب یہ پوچھا کہ آپ کا ان کی نسبت کیا خیال ہے تو آپ نے کہا کہ اور خیال میں کیا بتاؤں وہ اتنے کمزور ہیں کہ اگر یہ کسی بیماری کا نتیجہ نہیں تو وہ چند دن کے مہمان ہی معلوم ہوتے ہیں۔(اصحاب احمد جلد پنجم سیرت حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب صفحہ 39)
براہین احمدیہ میں یورپ کے جدید فلاسفروں اور دہریوں کا ردّ
خواجہ کمال الدین مرحوم ایک دفعہ فرماتے تھے کہ انگلستان میں مجھے دہریوں کی ایک بہت بڑی سوسائٹی میں خدا کی ہستی اور معرفت پر لیکچر دینے کا موقعہ ملا۔ لیکچر کے بعد سوال و جواب کا وقت تھا۔ پانچ پانچ منٹ کا وقت سائل اور مجیب کے لیے مقرر تھا۔ظاہر ہے کہ پانچ منٹ میں اعتراض کرنا تو بہت آسان ہوتا ہے مگر جواب دینا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔ مگر خدا کی شان جو ان دہریوں نےاعتراض کیا میں نے پانچ منٹ میں ایسا برجستہ اور دندان شکن جواب دیا کہ وہ حیران ہوگئے۔ وجہ یہ کہ قریباً قریباً ان تمام اعتراضات کا جواب میں حضرت صاحب کی کتاب براہین احمدیہ میں پڑھ چکا تھا۔
(مجدد اعظم جلد اول صفحہ 95)
٭…٭…٭