کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
اے معزّز بزرگانِ اسلام! !مجھے اِس بات پر یقین کلی ہے کہ آپ سب صاحبان پہلے سے اپنے ذاتی تجربہ اور عام واقفیت سے ان خرابیوں موجودہ زمانہ پر کہ جن کا بیان کرنا ایک دردانگیز قصّہ ہے بخوبی اطلاع رکھتے ہوں گے اور جو جو فساد طبائع میں واقعہ ہو رہے ہیں اور جس طرح پر لوگ بباعث اغوا اور اضلال وسوسہ اندازوں کے بگڑ تے جاتے ہیں آپ پر پوشیدہ نہ ہوگا۔ پس یہ سارے نتیجے اسی بات کے ہیں کہ اکثر لوگ دلائل حقیتِ اسلام سے بے خبر ہیں اور اگر کچھ پڑھے لکھےبھی ہیں تو ایسے مکاتب اور مدارس میں کہ جہاں علوم دینیہ بالکل سکھائے نہیں جاتے اور سارا عمدہ زمانہ ان کے فہم اور ادراک اور تفکّر اور تدبّر کا اور اور علوم اور فنون میں کھویا جاتا ہےاور کوچۂ دین سے محض ناآشنا رہتے ہیں پس اگر ان کو دلائل حقیت اسلام سے جلد تر باخبر نہ کیا جائے تو آخر کار ایسے لوگ یا تو محض دُنیا کے کیڑے ہو جاتے ہیں کہ جن کو دین کی کچھ بھی پروا نہیں رہتی اور یا الحاد اور ارتداد کا لباس پہن لیتے ہیں۔ یہ قول میرا محض قیاسی بات نہیں بڑے بڑے شرفا کے بیٹے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں جو بباعث بے خبری دینی کے اصطباغ پائے ہوئے گرجا گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اگر فضل عظیم پروردگار کا ناصر اور حامی اسلام کا نہ ہوتا اور بذریعہ پُر زور تقریرات اور تحریرات علماء اور فضلاء کے اپنے اس سچے دین کی نگہداشت نہ کرتا تو تھوڑا زمانہ نہ گزرنا پاتا جو دُنیا پرست لوگوںکو اتنی خبر بھی نہ رہتی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس ملک میں پیدا ہوئے تھے بالخصوص اس پر آشوب زمانہ میں کہ چاروں طرف خیالات فاسدہ کی کثرت پائی جاتی ہے اگر محققان دین اسلام جو بڑی مردی اور مضبوطی سے ہر یک منکر اور ملحد کے ساتھ مناظرہ اور مباحثہ کر رہے ہیں اپنی اس خدمت اور چاکری سے خاموش رہیں تو تھوڑی ہی مدّت میں اس قدر شعار اسلام کا ناپدید ہو جائے کہ بجائے سلام مسنون کے گڈبائی اور گڈمارننگ کی آواز سنی جائے پس ایسے وقت میں دلائل حقیت اسلام کی اشاعت میں بدل مشغول رہنا حقیقت میں اپنی ہی اولاد اور اپنی ہی نسل پر رحم کرنا ہے کیونکہ جب وبا کے ایام میں زہر ناک ہوا چلتی ہے تو اس کی تاثیر سے ہر یک کو خطرہ ہوتا ہے۔
شاید بعض صاحبوں کے دل میں اس کتاب کی نسبت یہ وسوسہ گزرے کہ جو اب تک کتابیں مناظرات مذہبی میں تصنیف ہو چکی ہیں کیا وہ الزام اور افحام مخاصمین کے لئے کافی نہیں ہیں کہ اس کی حاجت ہے لہٰذا میں اس بات کو بخوبی منقوش خاطر کردینا چاہتا ہوں جو اس کتاب اور ان کتابوں کے فوائد میں بڑا فرق ہی ہے وہ کتابیں خاص خاص فرقوں کے مقابلہ پر بنائی گئی ہیں اور ان کی وجوہات اور دلائل وہاں تک ہی محدود ہیں جو اس فرقہ خاص کے ملزم کرنے کے لئے کفایت کرتی ہیں اور گو وہ کتابیں کیسی ہی عمدہ اور لطیف ہوں مگر ان سے وہی خاص قوم فائدہ اُٹھا سکتی ہے کہ جن کے مقابلہ پر وہ تالیف پائی ہیں لیکن یہ کتاب تمام فرقوں کے مقابلہ پر حقیت اسلام اور سچائی عقائد اسلام کی ثابت کرتی ہے اور عام تحقیقات سے حقانیت فرقان مجید کی بپایہ ثبوت پہنچاتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو جو حقائق اور دقائق عام تحقیقات میں کھلتے ہیں خاص مباحثات میں انکشاف ان کا ہرگز ممکن نہیں کسی خاص قوم کے ساتھ جو شخص مناظرہ کرتا ہے اس کو ایسی حاجتیں کہاں پڑتی ہیں کہ جن امور کو اس قوم نے تسلیم کیا ہوا ہے ان کو بھی اپنی عمیق اور مستحکم تحقیقات سے ثابت کرے بلکہ خاص مباحثات میں اکثر الزامی جوابات سے کام نکالا جاتا ہے اور دلائل معقولہ کی طرف نہایت ہی کم توجّہ ہوتی ہے اور خاص بحثوں کا کچھ مقتضاہی ایسا ہوتا ہے جو فلسفی طورپر تحقیقات کرنے کی حاجت نہیں پڑتی اور پوری دلائل کا تو ذکر ہی کیا ہے بستم حصّہ دلائل عقلیہ کا بھی اندراج نہیں پاتا…۔
(براہین احمدیہ حصہ اوّل ،روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۷تا۹)