حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ سچا مسلمان بننے کی کوشش کرے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۷؍ اپریل ۲۰۰۶ء)

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

آج کل کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قسم ہا قسم کی ایجادیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ کام کی سہولت کے لئے انسان نے ایسی ایجادیں کر لی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور اس جدید ٹیکنالوجی کو ترقی دینے میں اس چھوٹے سے ملک کا بھی بڑا حصہ ہے۔ لیکن جیسا کہ ابتدائے دنیا سے ہوتا آیا ہے جب انسان مادیت پر انحصار کرنا شروع کر دیتا ہے تو روحانیت میں کمی واقع ہونی شروع ہو جاتی ہے اور یہی آج کل کی دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے۔ دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھول چکا ہے اور دنیاوی او ر مادی مفاد حاصل کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے… حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا تھا کہ وہ صرف دنیا کی خوبصورتیوں اور حسن اور آرام و آسائش اور ایجادوں کے پیچھے پھرتا رہے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد تو بہت بڑا تھا۔ اتنا بڑا مقصد کہ اگر اس کو انسان حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اس دنیا کی جو نعمتیں ملنی ہیں وہ تو ملیں گی ہی، دنیا سے جانے کے بعد اخروی اور دائمی زندگی کا بھی حصہ ملے گا۔ اگلے جہان میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا وارث بنے گا۔

اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذّاریات: 57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس آیت کی رو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہوجانا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے۔ کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا۔ بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدّعا ٹھہرا رکھا ہے، خواہ کوئی انسان اس مدّعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدّعا بلاشبہ خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہی ہے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد نمبر 10صفحہ 414)

تو یہ ہے انسان کی پیدائش کا مقصد جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد بیان کر دیا اور فرما دیا کہ کیونکہ تمہارا اس دنیا میں آنا بھی میری مرضی سے ہے اور دنیا سے جانا بھی میری مرضی سے ہو گا اس لئے تم وہی کام کرو جس کا مَیں نے حکم دیا ہے۔ اور ہر انسان کو براہ راست تو اللہ تعالیٰ حکم نہیں دیتا بلکہ اپنی سنت کے مطابق انبیاء بھیجتا آیا ہے جو مختلف قوموں میں آتے رہے اور اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے اور اس کی عبادت بجا لانے کی تعلیم دیتے رہے۔ اور یہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے اور ایک خدا کے آگے جھکنے اور اس کی عبادت کرنے کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھی انسان کو دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس کے جسمانی اعضاء اور طاقتیں بھی اور اس کی ذہنی صلاحیتیں بھی ایسی رکھی ہیں جو اسے دوسری مخلوق سے ممتاز کرتی ہیں۔ پس یہ انسان کی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جب وہ اپنی صلاحیتوں، اپنی ذہنی اور جسمانی طاقتوں کو دیکھے اور ان ایجادات اور سہولیات کی طرف دیکھے جوان صلاحیتوں کی وجہ سے اسے ملیں تو بجائے خدا سے دور لے جانے کے اسے خدا کے قریب کرنے والی بنیں اور وہ اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے کے قابل ہو سکے۔

بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہر انسان پر اللہ تعالیٰ وحی کر کے رہنمائی نہیں کرتا اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک سنت رکھی ہوتی ہے اور وہ انبیاء کے ذریعہ اصلاح ہے جو وہ مختلف لوگوں میں بھیجتا رہا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں اور قویٰ کے لحاظ سے اس قابل ہو گیا ہے کہ روحانیت کے اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کر سکے تو آخری شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور دین مکمل کرنے اور اپنی نعمتوں کے انتہا تک پہنچنے کا اعلان فرمایا اور یہ اعلان فرمایا کہ اب قیامت تک یہی دین ہے جو قائم رہنے والا دین ہے۔ اگر اس کے ساتھ چمٹے رہو گے تو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے فائدے اٹھاتے رہو گے۔

لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ کچھ عرصے بعد (آپ کی وفات کے کچھ عرصے بعد) امت مسلمہ پراندھیرا زمانہ آئے گالیکن وہ مستقل اندھیرا زمانہ نہیں ہو گا بلکہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عاشق صادق کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھیجے گا جو مسیح و مہدی ہو گا۔ ایسا نبی ہو گا جو آپؐ کی پیروی میں آنے والا نبی ہو گا وہ آ کر پھر اس اندھیرے زمانے کو روشنیوں میں تبدیل کرے گا۔ وہ پھر مسلم اُمہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے روحانیت کے نور کی کرنیں بکھیرے گا۔ اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ کل اقوام عالم اور تمام مذاہب والوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے گا۔ وہ اس زمانے میں جب مادیت کا دَور دَورہ ہو گا بندے کو خدا سے ملا نے اور اس کے مقصد پیدائش کو پہچاننے کی طرف توجہ دلائے گا۔ اور اس سلسلے میں یعنی مسیح و مہدی کے آنے کے بارے میں سب سے زیادہ توجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دلائی ہے کہ جب وہ آئے تو چاہے برف پر گھٹنوں کے بل پر بھی جانا پڑے اسے جا کر میرا سلام کہنا کیونکہ وہی اللہ کا پہلوان ہے جو اس اندھیرے زمانے اور مادیت کے دور میں جب دنیااپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھلا بیٹھی ہو گی میری (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی)تعلیم کے مطابق تمہیں تمہارے پیدا کرنے والے خدا سے ملائے گا تاکہ تم اپنے مقصد پیدائش کو پہچان سکو۔

پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور خدا کے پہلوان کو پہچانا اور مانا اور اس مسیح ومہدی کی جماعت میں شامل ہوئے۔ لیکن ہمارا اس جماعت میں شامل ہونا، ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننا اس صورت میں فائدہ دے گا جب ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے خدا جو بے حد مہربان اور رحمان و رحیم خدا ہے کے آگے جھکنے والے بنیں گے۔ اس کی عبادت سے غافل نہیں ہوں گے۔ دنیا کی مادی روشنی، یہ چکا چوند دنیا کی توجہ کھینچنے والی چیزیں ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی نہیں ہوں گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button