صحبت صالحین
آنحضورﷺ نے فرمایا کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے یعنی دوست کے اخلاق کا اثر انسان پر ہوتا ہے اس لئے اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کسے دوست بنا رہا ہے
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔(سورۃ التوبہ: ۱۱۹) ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔معیت یا کسی کا ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جس کے باعث انسان کی مثال اس شخص کی سی ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر فرمایا کہ ایسا شخص پھر کہے گا کہ یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا۔لَقَدۡ اَضَلَّنِیۡ عَنِ الذِّکۡرِ بَعۡدَ اِذۡ جَآءَنِیۡ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِلۡاِنۡسَانِ خَذُوۡلًا۔ (سورۃ الفرقان آیت:۲۹-۳۰) کہ اے وائے ہلاکت کاش میں فلاں شخص کو پیارا دوست نہ بناتا اس نے یقیناً مجھے اللہ کے ذکر سے منحرف کر دیا بعد اس کے کہ وہ میرے پاس آیا اور شیطان تو انسان کو بےیارو مدد گار چھوڑجانے والا ہے۔
پس ہر ایسےشیطان سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہیے۔ اپنی روحانیت کو بڑھانے کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہیے۔قرآن کریم اور کتب احادیث کےمطالعہ کی طرف بہت توجہ دینی چاہیے اور اس زمانے میں دین کو سمجھنے کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہیے۔ یہ بات بھی صحبت صادقین کے زمرے میں آتی ہے کہ آپؑ کے علم کلام سے فائدہ اٹھایا جائے۔
آنحضرت ﷺفرماتے ہیں:’’بُرے ہم نشین اور اچھے ہم نشین کی مثال عطار اور لوہار کی ہے۔ عطار کے پاس بیٹھے گا تو وہ تجھے تحفہ دے گا یا تو اس سے خوشبو خریدے گا یا کم از کم تجھے پہنچ جائے گی، اگر لوہار کے پاس بیٹھو گے تو کپڑے جلیں گے یا پھر دھوئیں اور گلے سڑے پانی کی بو تجھے تکلیف دے گی۔‘‘(مسلم کتاب البروالصلۃ)
کس قدر آسان فہم مثال ہے۔ اب جو شخص قرآن کریم کی تلاوت کرنے، اس کے مضامین و مفاہیم کو سمجھنے اسی طرح آنحضورﷺ کی سیرت وسوانح اور آپﷺ کےاسوہ حسنہ سے سبق حاصل کرنے اور حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء کے علم کلام اور صحبت سے فائدہ اٹھانے میں اپنا وقت گزارے گا ظاہر ہے کہ وہ انہی سے فیض حاصل کرنے والا ہوگا جبکہ برعکس اس کے جو لغویات میں وقت گزارے گا وہ وہی کچھ اپنے حصہ میں اکٹھا کرنے والا ہوگا۔
اسی طرح ایک اور موقع پر آنحضورﷺنے فرمایا کہ’’آدمی اپنے قریبی دوست کے طریق پر عمل کرتا ہے۔ پس اسے چاہیے کہ غور و فکر کرے کہ وہ کس کا ساتھی ہے۔‘‘ (ابوداؤد کتاب الادب)حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’جو شخص شراب خانہ میں جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی پرہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں لیکن ایک دن آئے گا وہ ضرور پئے گا۔ پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہیے۔ کہ صحبت میں بڑی تاثیر ہے۔ جو شخص نیک صحبت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت کے ہی رنگ میں ہو لیکن وہ صحبت اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے گی۔ اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز آجائیگا۔‘‘(ملفوظات جلد ششم صفحہ ۲۴۷)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ’’انسان ہمیشہ اپنے گندے جلیسوں کی و جہ سے تباہی کے گڑھے میں گرا کرتا ہے۔ وہ پہلے تواپنے دوستوں کی مصاحبت پر فخر کرتا ہے۔ مگر جب اسے کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ لَیْتَنِیْ لَمْ اَ تَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًاکہ اے کاش میں فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا اس نے تو مجھے گمراہ کردیا۔ اسی و جہ سے قرآن کریم نے مومنوں کو خاص طور پر نصیحت فرمائی ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔(التوبہ:۱۱۹)یعنی اے مومنو! تم ہمیشہ صادقوں کی معیت اختیار کیا کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گردوپیش کی اشیاء سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر وہ اپنی دوستی اور ہم نشینی کے لئے ان لوگوں کا انتخاب کرے گا جو اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوں گے اور جن کا مطمح نظر بلند ہو گا تو لازماً وہ بھی اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور رفتہ رفتہ اس کی یہ کوشش اس کے قدم کو اخلاقی بلندیوں کی طرف بڑھانے والی ثابت ہوگی۔ لیکن اگر وہ برے ساتھیوں کا انتخاب کرے گا تو وہ اسے کبھی راہ راست کی طرف نہیں لے جائیں گے۔ بلکہ اسے اخلاقی پستی میں دھکیلنے والے ثابت ہوں گے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۴۸۱)
حضرت مصلح موعود ؓ نے مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک سکھ طالبعلم تھا جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑی عقیدت تھی۔ تو اس نے آپؑ کو لکھا کہ پہلے تو مجھے خدا کی ہستی پر بڑا یقین تھا لیکن اب مجھے کچھ کچھ شکوک و شبہات پیدا ہونے لگ گئے ہیں۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو جواب دیا کہ تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی دہریت کے خیالات رکھتا ہے جس کا تم پہ اثر پڑ رہا ہے، اس لیے اپنی جگہ بدل لو۔ چنانچہ اس نے اپنی سیٹ بدل لی اور خودبخود اس کی اصلاح ہوگئی۔ فرماتے ہیں کہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان پر کتنا برا اثر پڑتا ہے۔ یعنی یہی حکمت ہے جس کے ماتحت رسول کریمﷺ جس کسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے تو بڑی کثرت سے استغفار فرمایا کرتے تھے تاکہ کوئی بری تحریک آپؐ کے قلبِ مُطہّر پر اثر انداز نہ ہو۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۴۸۱، ۴۸۲)
پھر ایک حدیث میں روایت ہے اور بہت اہم ہے جس کی طرف والدین کو بھی توجہ دینی چاہیے اور ایسے نوجوانوں کو بھی جو نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ یعنی دوست کے اخلاق کا اثر انسان پر ہوتا ہے۔ اس لئے اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کسے دوست بنا رہا ہے۔(سنن ابی داؤد۔ کتاب الادب۔ باب من یومر ان مجالس)
اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے ہم جلیسوں میں صادقین اور صالحین کا ساتھ رکھنے والا ہو اور اپنی روحانی حالتوں کی پرواہ کرتے ہوئے انہیں سنوارنے والاہو۔ خدا کرے کہ ہم ان معیاروں پر اترنے والے ہوں جن کی توقع حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے لوگوں سے کی ہے۔ آمین