جلسہ سالانہ بنگلہ دیش پر بلوائیوں کا حملہ: ایک چشم دید گواہ کی داستان
جب چاروں طرف سے شور اور ہنگامہ شروع ہوا تو ہم میں سے ہر ایک سمجھ گیا کہ بس اب خدا ہی ہے جو ہماری حفاظت کر سکتا ہے…اور اگر شہادت مقدر ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ثباتِ قدم عطا فرمائے
دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل برمانے دو
یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو وقت آنے دو
مورخہ ۳؍ مارچ ۲۰۲۳ء کو جماعتِ احمدیہ بنگلہ دیش کے ۹۸ویں جلسہ سالانہ کا آغاز بنگلہ دیش کے شمال میں واقع ضلع پنچگڑھ (Panchgarh) کے علاقہ احمد نگرمیں ہوا جسے ۵؍ مارچ کو مکمل ہونا تھا لیکن مخالفین و بلوائیوں کے حملوں کی وجہ سے ہم اپنا جلسہ مکمل نہ کر سکے۔ خاکسار کو بھی اس تاریخی جلسہ میں شامل ہونے اور ڈیوٹی دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ خاکسار نے ان چند دنوں میں جو واقعات مشاہدہ کیے وہ قارئین الفضل کی خدمت میں پیش ہیں۔
بدھ کے روز جلسہ کا معائنہ تھا جس میں خاکسار بھی شامل ہوا۔ خاکسار کی ڈیوٹی شعبہ تراجم میں تھی۔ امسال چونکہ باہر سے کوئی مرکزی مہمان نہیں آ رہے تھے جن کو ترجمہ کی ضرورت پیش آئے اس لیے Jalsa Bulletin میں بھی خاکسار کی ڈیوٹی تھی۔
جمعرات کو دوپہر کے بعد چٹاگانگ جماعت کے حلقہ Cox’s Bazar سے ۲۶؍ افراد کا ایک قافلہ معلم ذکر الٰہی صاحب کے ہمراہ آنے والا تھا جس میں نو مبائعین اور زیر تبلیغ دوستوں کے آنے کی اطلاع تھی۔ خاکسار دوپہر کے کھانے کے بعد جلسہ کے مرکزی دروازے میں ان کے استقبال کے لیے جا کھڑا ہوا۔ یہ دروازہ مسجد کی جانب کھلتا تھا۔ اتنے میں خبریں آنی شروع ہوئیں کہ مخالفین کا جلوس ہمارے جلسہ گاہ کی طرف آ رہا ہے۔ خاکسارنے مقامی لوگوں سے مشورہ کر کے معلم ذکر الٰہی صاحب کو بتایا کہ آپ لوگ آنے کا جو معروف راستہ ہے اس سے پہلے ہی اُتر جائیں اور دوسرے راستہ سے جلسہ گاہ آ جائیں۔ چنانچہ بروقت اطلاع ملنے پر یہ لوگ دوسرے راستہ سے بخیر و عافیت جلسہ گاہ پہنچ گئے۔ الحمد للہ
مکرم ظہور الاسلام صاحب جومجلس خدام الاحمدیہ ڈھاکہ کے مہتمم عمومی اور بریسال ریجن کے ریجنل قائد بھی ہیں مرکزی دروازے کی ڈیوٹی کے انچارج تھے۔ ان کی سرکردگی میں قریباً پچاس ساٹھ خدام وہاں جمع ہو گئے۔ مخالفین کا جلوس اب ہماری مسجد کے سامنے تک آ چکا تھا اور وہاں چند احمدی گھروں میں توڑ پھوڑ میں مصروف تھا۔ اتنے میں قائد صاحب کے پاس موجود واکی ٹاکی ( walkie-talkie)میں اطلاع آئی کہ زنانہ جلسہ گاہ کی دیوار کی حفاظت کے لیے جو دوسری جانب تھا خدام کی ضرورت ہے۔ قائد صاحب نے خاکسار اور بعض دیگر خدام کو اس طرف بھیجا۔ لجنہ مارکی کے پیچھے کچھ خالی جگہ تھی۔ چند درخت تھے اور اس کے پیچھے دیوار تھی۔ دیوار کے بالکل ساتھ چند احمدی اور غیر احمدی گھر بھی تھے۔ ہم وہاں تقریباً تیس خدام متعین ہو گئے۔ مکرم زاہد علی صاحب صدر خدام الاحمدیہ بنگلہ دیش نے وہاں آکر ہمیں بعض ضروری ہدایات دیں اور ہر حال میں مستورات کی حفاظت کی طرف توجہ دلائی۔ کچھ دیر بعد آہستہ آہستہ شور کم ہونا شروع ہو گیا۔رات کو ہمیں خبر پہنچی کہ ڈسٹرکٹ کمشنر اور پولیس سپرنٹنڈنٹ صاحب ہمارے جلسہ گاہ میں تشریف لائے تھے اور انہوں نے تسلی دلائی ہےکہ آپ لوگ جلسہ کریں، کوئی مشکل نہیں ہوگی۔
جمعہ کے روز صبح خاکسار ریلوے سٹیشن گیا۔ ٹرین میں خاکسار کے ایک زیر تبلیغ دوست آ رہے تھے۔ واپسی پر ہم نے الیکٹرک رکشہ کروایا جس کے ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ آج ملّانوں کے پروگرام کچھ اچھے نہیں ہیں اور وہ جمعے کے بعد جلوس نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے جمعہ کے بعد کچھ نہ کچھ ہوگا۔ بہر حال ہم بخیر و عافیت جلسہ گاہ پہنچ گئے۔
چٹاگانگ جماعت سے دو بسیں بھر کر جلسہ کے لیے روانہ ہوئیں۔دو بسوں میں سے ایک تو جمعہ سے پہلے پہنچ گئی جبکہ دوسری بس لیٹ ہو گئی۔ صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے کہا کہ فی الحال اس بس کو جلسہ گاہ کے باہر ہی کہیں رکوا دیا جائے کیونکہ چاروں طرف سے مخالفین کے جلوس آر ہے تھے۔تھوڑی دیر بعد ہی چاروں طرف سے جلوس اور ہنگاموں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ اور آن کی آن میں جلسہ کے اطراف میں کئی جگہوں سے دھواں نظر آنے لگا۔ ہم سمجھ گئے کہ مختلف اطراف سے مخالفین آگے بڑھ رہے ہیں اورکئی جگہوں پر آگ لگا رہے ہیں۔ ہر طرف سے شور بڑھ رہا تھا۔ ہم دعاؤں میں مشغول تھے۔ ہمارے پاس چند لکڑی کے سونٹے تھے۔ وہ بھی ایسے نہیں کہ خاص کسی مقصد کے تحت تیار کیے گئے ہوں۔ پھر خبر آئی کہ شدت پسند جلسہ گاہ کی دوسری طرف آگے بڑھ رہے ہیں اور جابجا آگ لگا رہے ہیں، خاص طور پر جلسہ گاہ کے شمالی جانب سے اور ادھر دریا پار کر کے مشتعل افراد نے چند گھروں کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔ جلسہ گاہ کے شمالی جانب سب سے خطرناک اور غیر محفوظ جگہ تھی کیونکہ اس طرف دریا ہے۔ دریا کی دوسری طرف جو شہر اور گاؤں ہے ان سے دریا کے سہارے جلسہ گاہ کی جانب آنا آسان ہے۔ دریا اور جلسہ گاہ کے درمیان کوئی بڑی سڑک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے پولیس کی گاڑی بھی وہاں نہیں جا سکتی تھی۔
ادھرہمارے بعض احباب نے مرکزی دروازے پر پہنچ کر جذباتی ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ ہمیں باہر جانے دیں ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن قائد صاحب نے جواب دیا جب تک کوئی مرکزی ہدایت نہیں آئے گی ہم دروازہ نہیں کھولیں گے۔ اسی طرح کچھ وقت اَور گزر گیا۔ ابھی ہر طرف سے ہنگامہ آرائی کی آوازیں آرہی تھیں اور دھویں کے بادل اٹھ رہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں جلسہ گاہ کے شمالی جانب حملہ آور جلسہ گاہ کی دیوار توڑنے کی کوشش کرنے لگے ۔پھر تھوڑی دیر بعد اطلاع پہنچی کہ محترم امیر صاحب نے جلسہ گاہ سے باہر نکل کر دفاع کرنے کی اجازت دی ہے کیونکہ بلوائی جلسہ گاہ کے اردگرد نہتے احمدیوں کے گھروں پر حملہ آور تھے اور ان احمدیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا مقصود تھا۔ اس کے ساتھ ہی پچاس ساٹھ افراد باہر نکلے۔ کچھ تو دائیں جانب ایک گلی کی طرف روانہ ہوئےجو دریا کے پار نکلتی ہے۔بعض لوگ بائیں جانب نکلے جدھر شہر سے آنے والی سڑک ہے جو مسجد اور جامعہ احمدیہ سے ہوتے ہوئے شالشیڑی کی طرف جاتی ہے۔ اس راستہ کے دوسری جانب سے بھی بلوائی حملہ آور تھے۔ میں نے دائیں جانب تھوڑی دور جا کر دیکھا کہ ایک خادم ایک بچے کو گود میں لیے ایک گھر سے نکل رہے ہیں۔ ان کا گھر نذرِ آتش کیا جاچکاتھا۔ ان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں۔ خاکسار نے خاتون اور بچے کی جلسہ گاہ میں داخل ہونے میں مدد کی۔ اتنے میں احمدی بہن بھائیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرتے کرتے ہمارے بعض خدام و انصار زخمی ہو چکے تھے۔ کیونکہ ہمارے پاس ڈنڈے کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ ہم تو مارپیٹ کرنے میں مہارت بھی نہ رکھتے تھے اور نہ ہماری اس قسم کی کوئی تیاری تھی جبکہ حملہ آوروں کے پاس ہر قسم کا اسلحہ تھا۔
اس کے بعد خاکسار اور مکرم ولی الرحمٰن صاحب اور بعض افراد جن کی تعداد پندرہ سے بیس ہو گی دوسری جانب بڑی سڑک پر آگئے۔ ادھر حملہ آوروں کا ایک گروہ تھا جو ہمارے باہر نکلنے اور تھوڑی مزاحمت دیکھنے پر بھاگ کے کھیت کی طرف چلا گیا۔ ہم وہاں جم گئے۔ حملہ آور ہماری طرف اینٹوں اور کنکروں کی بارش کر رہے تھے۔ ان میں سے بعض کے ہاتھوں میں چھروں کی قسم کا اسلحہ بھی تھا۔ بہرحال ہمارے قدم جمے رہے باوجودیکہ حملہ آورتھیلے بھر بھر کے اینٹیں روڑے لا کر ہم پر پھینک رہے تھے، ان کے پاس غلیلیں تھی جن کے ذریعے وہ ہم پر گلیلے اور چھوٹے پتھر چلا رہے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کا بے حد فضل و احسان ہے کہ ہم میں سے کوئی دوست زیادہ زخمی نہیں ہوا۔ ہماری اس ٹیم میں مکرم ولی الرحمٰن صاحب معلم، مکرم شاہ احسان صاحب مربی سلسلہ، مکرم ابو صالح احمد صاحب مربی سلسلہ، اکرام خان فہیم، عتیق الرحمٰن ہزاری اور بعض دیگر خدام شامل تھے۔ سب نے اس نازک موقعے پر بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے حملہ آوروں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی۔ وہ ہمیں دھمکی دے رہے تھے کہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے اور ہمارے گھر جلائے ہیں۔ ہم نے جواب دیا ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہم تو جلسہ کرنے آئے ہیں۔اتنے میں انہوں نے پھر بارش کی طرح اینٹیں برسانا شروع کر دیں۔ لیکن ہم خاموش رہے تاکہ فساد نہ پھیلے۔ ان میں سے بھی بعض تھے جو اپنے لوگوں کو روک رہے تھے۔ اتنے میں پولیس نے آکے ہمیں پیچھے ہٹا دیا اور ان کو بھی پیچھے ہٹا دیا۔یہاں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ پولیس شروع سے ہی وہاں خاموش تماشائی بنی کھڑی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
اس کے بعد خاکسار جلسہ گاہ میں واپس داخل ہوا۔ سٹیج کی طرف جاتے ہوئے شمالی جانب سے آوازیں آ رہی تھی کہ مخالفین نے دیوار توڑ دی ہے۔ اُدھر مدد کی ضرورت ہے۔ خاکسار اُدھر جا کے حیران رہ گیا۔ یہ ایک تنگ جگہ تھی جو ایک گلی کی صورت میں آگے جاتی ہے۔ تینوں طرف غیراحمدیوں کی جگہ ہے۔ ایک طرف Areca palm کا باغ ہے۔ ادھر رہائش کے لیے خیمے لگوائے گئے تھے۔ ایک خیمے میں صرف کمبل رکھے ہوئے تھے اور سارے جلسہ گاہ میں اسی خیمے سے کمبل فراہم کیے جاتے تھے۔دیوار کے پاس متعدد ٹائیلٹس اور غسل خانے بنوائے گئے تھے۔ ادھر جا کے دیکھا کہ بیس سے تیس افراد وہاں موجود تھے۔ دیوار واقعی ٹوٹ چکی تھی۔ دیوار کی دوسری جانب حملہ آور نظر آرہے تھے۔ اور تینوں طرف سے موسلادھار بارش کی طرح اینٹیں ہمارے پر برس رہی تھیں۔ وہاں کھڑا رہنا بھی مشکل نظر آرہا تھا۔ اتنا یاد ہے کہ اس وقت خاکسار کےسامنے مکرم زاہد الاسلام صاحب مربی سلسلہ اور خالد مسند صاحب مربی سلسلہ موجود تھے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ہی مکرم ڈاکٹر عبد اللہ شمس بن طارق، نائب نیشنل امیر بنگلہ دیش وہاں آئے۔ خاکسارکھڑا ہو گیا اور اپنے دفاع کی جیسی تیسی کوشش کی۔ لیکن ہم تعداد میں اتنے تھوڑے تھےکہ بلوائیوں کے حملہ کو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔ خاکسار حالات کی سنگینی کو دیکھ کر فوراً سٹیج کی جانب گیا اور دیوار توڑے جانے کی اطلاع دی۔ اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس جانب حفاظت کی غرض سے بلانے لگا۔اسی وقت وہاں اور بھی لوگ حفاظت کی خاطر شامل ہونے لگے۔
اس وقت خاکسار نے خداتعالیٰ کی خاص تائید کا مشاہدہ کیا۔ حملہ آوروں نے بہت سے پٹرول بم خیمہ جات کی طرف پھینکنے شروع کر دیے۔ خاص طور پر کمبلوں والے خیمے کی طرف تاکہ اسے نذرِآتش کیا جا سکے۔ خدا کی قدرت دیکھیں کہ وہاں آگ تو لگی لیکن زیادہ پھیلی نہیں۔ ایک پٹرول بم تو ہمارے سامنے کھلی جگہ پر گھاس پر گرا۔ یکدم آگ لگ گئی لیکن پھیلی نہیں۔ یہ ایک عجیب واقعہ تھا جو خاکسار کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اگر آگ لگ جاتی تو پھر خدا جانے کتنا نقصان ہو جاتا۔ سب ڈٹ کے سامنے کھڑے تھے اور اپنا دفاع کررہے تھے۔ پھر معلوم ہوا کہ مخالفین نے دیوا ر پار کرنے کے لیے سیڑھی بھی لگائی تھی جو بعد میں ہمارے خدام ہماری طرف لے آئے۔ یہ وقت بہت نازک تھا اور محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو ہمارے قدم وہاں جمے رہے اور اپنا دفاع کیا۔
اس سانحے میں شہادت کا عظیم رتبہ پانے والے محترم زاہد حسن صاحب شہید
شام کے قریب پولیس کی نفری فائرنگ کرتے ہوئے اس علاقہ میں آ داخل ہوئی۔ اس پر بلوائی منتشر ہو گئے۔ اتنے میں ہمیں معلوم ہواکہ ہمارے ایک بھائی شہید ہو چکے ہیں جن کی نعش کو دیوار کے اسی ٹوٹے ہوئے حصہ سے باہر نکل کر اندر لایا گیا تھا۔ اور ایک بھائی جن کا نام نایان اسلام (Noyon Islam)تھا بری طرح زخمی ہوئے تھے ان کو بھی یہیں سے اندر لایا گیا۔ شام تک ہمارے بہت سارے افراد زخمی اور ایک شہید ہوچکے تھے۔ جبکہ علاقے میں احمدی گھروں میں آگیں لگنے اور لوٹ مار کی خبریں آرہی تھیں۔ خاکسار اسی جگہ ساری رات ڈیوٹی دیتا رہا۔رات گیارہ بجے تک شہر کی طرف سے مخالفین کی اشتعال انگیز تقریروں کی آوازیں آ رہی تھیں جن میں وہ ہمارے خلاف بد زبانی کر تے ہوئے لوگوں کو انگیخت کر رہے تھے ۔ نیز یہاں سے جلسہ گاہ کو مٹا دینے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ بہت سے خدام اس وقت وہاں ڈیوٹی پر موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ گاہ کی دیوار کو جو نقصان پہنچایا گیا تھا اسے راتوں رات مرمّت کر دیا گیا۔ رات ڈیڑھ بجے خاکسار کو فرصت ملی تو کھانا کھایا اور نماز وغیرہ ادا کی۔اور اگلے روز یعنی ہفتے کی صبح دوسری ٹیم کے آنے پر سونے کے لیے گیا۔ صبح پتاچلا کہ حکومتی انتظامیہ کی طرف سے ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم گیارہ بجے تک جلسہ گاہ خالی کر دیں۔ احمدی اطاعت کرتے ہوئے جلسہ گاہ خالی کرنے لگے۔ ہمیں محترم امیر صاحب کی طرف سے پیغام ملا کہ مربیان اور معلمین جلسہ گاہ میں رہیں گے۔ کیونکہ اطلاعات آ رہی تھیں کہ دوپہر تین بجے مخالفین اپنے ایک ساتھی کا جنازہ پڑھیں گے جو پولیس کی گولی سے مارا گیا تھا۔ اور اس وقت خطرہ تھا کہ کوئی بدمزگی نہ ہو۔ ہم تیار بیٹھے ڈیوٹی دے رہے تھے۔ لیکن سب ٹھیک ہی رہا۔ معلوم ہوا کہ پولیس نے ان کو ہنگامہ نہیں کرنے دیا۔ہماری ڈیوٹیاں بھی چلتی رہیں۔
رات قریباً ساڑھے آٹھ بجے جب خاکسار پندرہ خدام کے ساتھ اسی جگہ جہاں دیوار توڑی گئی تھی ڈیوٹی دے رہا تھا تو اچانک چاروں طرف سے شور بلند ہونا شروع ہوا۔ ہم جہاں ڈیوٹی دے رہے تھے اس کے ایک طرف پانی کا حوض تھا۔ وہاں خاکسار نے چند خدام کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی جن میں سے ایک خادم سیڑھی لگا کر باہر کے حالات و واقعات کا جائزہ لے رہا تھا کہ دریا کے دوسری پار کوئی خطرہ ہے کہ نہیں۔ خدام نے مجھے بتایا کہ دریا کے اس طرف بہت لوگ جمع ہوئے ہیں۔ اتنے میں قریب کی ایک مسجد سے لاؤڈسپیکر پر اعلان کیا گیا کہ ’’قادیانی ہمارے گھروں میں آگ لگا رہے ہیں اور ہمارے لوگوں کو مار رہے ہیں۔ علاقہ کے لوگ جلد جمع ہو جائیں‘‘۔ جبکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ یہ صرف لوگوں کو حملے پر اکسانے کی ایک چال تھی۔ چند منٹ کے اندر دریا کے دوسری طرف سے یہی اعلان ہونے لگا۔ تب ہم سمجھ گئے کہ ان کا ارادہ خطرناک ہےاور آج کی رات ایک نہایت مشکل رات ہے۔ اعلان ہوتے ہی چاروں طرف سے شور بلند ہونے لگا۔معلوم ہو رہا تھا کہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہو چکے ہیں اور ہم پر حملہ کرنے والے ہیں۔ ہمیں صدر صاحب خدام الاحمدیہ کی طرف سے ہدایت پہنچی تھی کہ اگر حملہ ہوا توجہاں تک بس چلے ہم اپنا دفاع کریں گے۔ اور اگر لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہوں تو واپس جامعہ کی طرف چلے آئیں۔ لیکن جب چاروں طرف سے شور اور ہنگامہ شروع ہوا تو ہم میں سے ہر ایک سمجھ گیا کہ بس اب خدا ہی ہے جو ہماری حفاظت کر سکتا ہے۔ کیونکہ واپس جامعہ جانا بھی ناممکن نظر آتا تھا۔ ادھر بھی چونکہ ہنگامہ آرئی ہو رہی تھی اس لیے واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ ہم سب نے یہی سوچا کہ اب خدا ہی ہے جو ہماری حفاظت فرما سکتا ہے اور اگر شہادت مقدر ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ثباتِ قدم عطا فرمائے۔ ایک عجیب کیفیت تھی جو خاکسار بیان نہیں کر سکتا۔ زیرِ لب دعائیں جاری تھیں۔ اتنے میں خدام نے جو اوپر سے دیکھ رہے تھے بتایا کہ ہجوم دریا میں داخل ہو چکا ہے اور پانی سے آواز آ رہی ہے۔ خاکسار نے واکی ٹاکی ( walkie-talkie ) میں اطلاع دے دی اور بس۔ اتنے میں اچانک فائرنگ کی آواز آنی شروع ہوئی۔ پتا چلا کہ BGB یعنی بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (Border Guard Bangladesh) کے سپاہی اور پولیس بھی موقعہ پر پہنچ چکے ہیں۔ ان کی فائرنگ کی وجہ سے حملہ آور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن دریا کے دوسری طرف ابھی بھی ہجوم موجود تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کلمہ گو مسلمانوں پر حملہ کرنے والے یہ لوگ بھی نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ قادیانیوں کے آستانے کو ہم جلا دیں گے۔ قادیانیوں کو پکڑو اور ذبح کرو۔ یہ نعرے مسلسل بلند ہو رہے تھے۔ اتنے میں ہمیں معلوم ہوا کہ یہ افواہ پھیلائی گئی ہے کہ ہم نےان کے دو آدمیوں کو قتل کیا ہے۔ اس وجہ سے وہ لوگ بہت جوش میں ہیں۔ بعد میں اطلاع آئی کہ پولیس نے یہ افواہ پھیلانے والے آدمی کو گرفتار بھی کر لیاہے۔
حکومتی انتظامیہ کی طرف سے اعلان شروع ہو گیا کہ قادیانیوں کا جلسہ بند کر دیا گیا ہے اور حالات پر سکون ہیں اس لیے آپ لوگ واپس گھروں کو چلے جائیں۔ اگر آپ لوگوں نے دریا پار کرنے کی کوشش کی تو گولی چلا دی جائے گی۔ مخالفین شور کر رہے تھے کہ گولیاں چلاؤ ہم شہید ہو جائیں گے۔اس وقت خاکسار کے ہمراہ پندرہ خدام تھے۔تھوڑی دیر بعد مسجد سے بھی یہی اعلان شروع ہو گیا کہ آپ لوگ گھر واپس جائیں۔ لیکن شریر لوگ اپنے بد ارادے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ وہ دریا کے پار اکٹھے ہی رہے اور نعرے لگاتے رہے۔ پھر خدام نے خاکسار کو بتایا کہ دریا کے اس کنارے کے راستہ سے پولیس اور BGB کی گاڑیاں آرہی ہیں اور ادھر بھی فائر کیا گیا ہے تاکہ لوگ ہٹ جائیں۔ یہ حالات مسلسل رات ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہے۔ اس کے بعد شور دھیما پڑنے لگا اور بالآخر بہت حد تک خاموشی چھا گئی۔ لیکن ڈیوٹی پر متعین خدام نے مجھے بتایا کہ بعض لوگ دریا کےدوسرے کنارے پر بدستور موجود ہیں۔ Torch کے ذریعہ دیکھ رہے ہیں کہ ابھی تک BGBوہاں موجود ہے یا نہیں۔ پھر آہستہ آہستہ حالات ٹھیک ہو گئے۔ خاکسار نے باری باری خدام کو پاس والے خیمے میں نماز پڑھنے بھیجا۔ رات ڈیڑھ بجے محترم صدر صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ تشریف لائے اور ہماری حوصلہ افزائی فرمانے کے ساتھ ساتھ اَور بھی محتاط رہنے کی تلقین کی تاکہ کوئی خفیہ حملہ نہ کر سکے۔ اُس رات ہمیں تین بجے کھانا کھانے کا موقع ملا۔ Rickshaw Van کے ذریعہ ڈیوٹی کی جگہ پرہی ہمیں کھانا پہنچایا گیا۔ اس رات خدام نے بڑی دلیری سے ڈیوٹی دی۔ لگ رہا تھا اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہمارے دلوں کو مضبوطی بخش رہے ہیں۔ جمعہ کے بعد سے ہی بجلی نہیں تھی۔ جنریٹر چل رہا تھا۔ لیکن ہم تو احتیاط کے پیشِ نظر روشنی بند کر کے پہرہ دے رہے تھے ۔موبائل فون کی بیٹری کی چارجنگ ختم ہو گئی تھی۔ گویا ہم دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھے۔ خوب دعاؤں کا موقع بھی مل رہا تھا اور خدا تعالیٰ نے ہمارے دلوں کو سکینت بخشی۔ مجھے یقین ہے کہ جو اُس رات کو ڈیوٹی دے رہے تھے سب کے ایمان کو بہت تقویت پہنچی ہوگی۔صبح کی شفٹ کی ٹیم آنے پر خاکسار نے صبح ساڑھے سات بجے ڈیوٹی ختم کی۔
اس کے بعد حالات آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگے۔ مقدمات درج ہوئے۔ پولیس نے بہت سے شرپسندوں کو گرفتار کر لیا۔ گاؤں کے رہنے والے اکثر مرد فرار یا روپوش ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن جو خوف و ہراس ان لوگوں نے علاقے میں پیدا کیا ہے اس کا اثر دیر تک رہنے والا ہے۔ خاکسار کے خیال میں شر پسند ایسے حملے آئندہ بھی کر سکتے ہیں۔
پیر کے روز صبح بجلی کی ترسیل بحال ہوگئی۔ہفتہ کی شام سے پیر کے روز تک علاقے میں انٹرنیٹ بھی بند تھا۔ خاکسارکو بدھ تک مسلسل چھ راتیں اسی جگہ ڈیوٹی دینے کی توفیق ملی۔ اس عرصہ میں شالشیڑی اور احمد نگر کے چند گھروں میں جانے اور لوگوں سے حال دریافت کرنے کی توفیق بھی ملی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب احمدی احباب نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا۔
اس جلسہ میں جو کچھ دیکھا اور گزرا اس کی ایک جھلک لکھنے کی توفیق ملی ہے۔ان حملوں سے ہمارے ایک بھائی شہید ہوئے۔ سوکےقریب افراد زخمی ہوئے۔ بعض شدید زخمی بھی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں ایک احمدی بہن بھی شامل ہیں۔ کم و بیش دوسو گھروں، دکانوں اور کاروبار کو لوٹ مار کے بعد جلادیا گیا اس واقعے میں احمدیوں کی سب سے قیمتی متاع یعنی قرآنِ کریم کے نسخے بھی شہید ہوئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ جنہوں نے یہ کام کیا وہ ’تربیت یافتہ‘ تھے۔ عام لوگ نہیں تھے۔اللہ اور رسول کے نام پر انہوں نے ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی۔یہاں تک کہ بعض گھروں میں جانور بھی زندہ جلا دیے گئے۔احمد نگر اور شالشیڑی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اکثر احمدی جلسہ گاہ میں تھے۔اس وجہ سے خالی گھروں کو انہوں نے لوٹا اور آگ لگائی۔آگ لگانے کے لیے Gunpowder استعمال کیا گیا تھا جس کی وجہ سے نقصان بہت زیادہ ہوا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اسلام کے علم برداروں نے یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا۔
اس واقعہ کو بنگلہ دیش کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے رپورٹ کیا۔ حکومتِ بنگلہ دیش کے دو وزیر اس علاقہ میں آئے اور اپنے بیانات ریکارڈ کروائے جن میں ایسے حملوں کو اسلامی تعلیم کے خلاف قرار دیا۔ بنگلہ دیش کے حزب اختلاف کی پارٹی BNP یعنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (Bangladesh Nationalist Party) کے بعض لیڈر بھی یہاں آئے۔ گو ان کے بیانات سیاسی رنگ رکھتے ہیں مگر بہرحال یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ سیاست دانوں کو بھی اس میں دلچسپی لینی پڑی۔ قومی روزناموں میں ایک ہفتہ تک مسلسل اس بارے میں خبریں شائع ہوتی رہیں۔ بلکہ بعض میں تو اب تک ہو رہی ہیں۔ بہت سارے مضامین شائع کیے گئے اور سب لوگوں نے اس واقعہ کی مذمت کی۔ الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس خبر کو بڑی اہمیت کے ساتھ نشر کیا گیا۔ ٹی وی کے ٹاک شوز میں اس بارے میں کئی دن تک چرچا رہا۔ کیا حکومت یا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے؟اس بارے میں بھی گفتگو ہوئی۔ سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بحث چلتی رہی۔ بہت لوگوں نے اس واقعے کے بارے میں اپنے فیس بُک اکاؤنٹس سے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ بہت ساری ویڈیوز بھی بنائی گئیں۔ حقوق انسانی پر کام کرنے والی مختلف تنظیموں نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں صحیح کارروائی کریں اور مجرمین کی سزا یقینی بنائیں۔
ہمارے شہید دوست مرحوم زاہد حسن سے خاکسار کا جنوری ۲۰۲۳ء میں تعارف ہوا تھا۔اگرچہ ان سے ایک ہی مرتبہ ملاقات ہوئی تھی لیکن پھر بھی ان کی شخصیت ایسی تھی کہ انسان انہیں بھول نہیں سکتا۔بہت نیک طبع اور منکسر المزاج نوجوان تھے۔اللہ تعالیٰ اس شہادت کے بدلے بنگلہ دیش میں ایک انقلاب پیدافرمائےاور ہم جلد وہ دن دیکھیں جب ہمارے جلسہ میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس شرکت فرمائیں۔ ان شاء اللہ
٭…٭…٭