خطاب بطرز سوال و جواب
اختتامی خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع برموقع جلسہ سالانہ جرمنی فرمودہ ۲۱؍اگست۲۰۲۲ء
سوال نمبر1:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیاکے موجودہ جنگی حالات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:پہلے تویورپ اورمغربی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک اس زعم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جنگوں کی صورتحال،فسادکی صورتحال،علاقوں اورملکوں کی تباہی کے حالات جہاں پیداہوئے ہیں یاہورہے ہیں۔وہ ہم سے ہزاروں میل دورہیں اورہم محفوظ ہیں۔حالات خراب ہیں،بم پڑرہے ہیں،لوگ مررہے ہیں،عورتیں بیوہ ہورہی ہیں،بچے یتیم ہورہے ہیں،لوگ اپاہج ہورہے ہیں تو وہ ایشیاءمیں اورمشرق وسطیٰ میں اورغریب ممالک میں ہورہے ہیں۔ہمیں کیافرق پڑتاہے۔ترقی یافتہ ملک ان ملکوں کو اسلحہ فراہم کرتے رہے کہ ہمارااسلحہ بکتارہے۔یہ مرتے ہیں تومریں ہمیں کیافرق پڑتاہے۔لیکن بھول گئے کہ یہ حالات ان پربھی آسکتے ہیں اوراپنی ترقی کے زعم میں ان کی عقلیں ماری گئیں اورآنکھیں اندھی ہوگئیں اورپھراب سب دنیادیکھ رہی ہے کہ وہی ہواجس کاخطرہ تھا اوریورپ میں بھی جنگی حالات پیداہوگئے ہیں۔یوکرین کی وجہ سے روس اورنیٹوکے ممالک آمنے سامنےکھڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ بہترجانتاہے کہ برتری کس نے حاصل کرنی ہے یادونوں کی طرف کتنا نقصان ہوناہے…پھرہم دیکھتے ہیں کہ اب تائیوان کا معاملہ بھی کھڑاہوگیا ہے اورصاف ظاہرہے کہ اب پوری دنیاخوفناک جنگ کے دہانے پرکھڑی ہے۔
سوال نمبر2:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے موجودہ جنگی حالات میں امن کے قیام کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:بہت خوفناک حالات ہیں۔ایسے میں اگرکوئی امیدکی کرن ہے امن کی ضمانت ہے توایک ہی وجود ہے۔جس کو اللہ تعالیٰ نے امن وسلامتی کی تعلیم کے ساتھ دنیامیں بھیجاتھا۔جوشہنشاہ امن ہے۔جواللہ تعالیٰ کوسب انسانوں سے زیادہ پیاراہے۔جس پراللہ تعالیٰ کی آخری کامل اورمکمل شریعت اتری جس کی تعلیم پیارومحبت کی تعلیم ہے۔جس نے اپنے خداتعالیٰ کے تعلق کی وجہ سے اوراپنے اوپراتری ہوئی دنیاکی تعلیم کو دنیامیں پھیلانے اوردنیاکوتباہی سے بچانے کی فکر اوراس کے لیے شدیددردمحسوس کرنے کی وجہ سے اپنی زندگی ہلکان کرلی تھی۔اس حدتک اپنی حالت کرلی تھی اورکرب سےتڑپ کر اورروروکراللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺکوفرمایاکہ لعلک باخع نفسک الایکونوامومنین۔کیاتواپنی جان کو اس لیے ہلاک کردے گاکہ وہ مومن نہیں ہوتے۔پس یہ ہے وہ ذات جودل میں انسانیت کے لیے دردرکھتی تھی کہ لوگ اپنے پیداکرنے والے کی طرف رجوع کریں اورتباہی سے بچ جائیں۔
سوال نمبر3: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جماعت احمدیہ کوآنحضرتﷺسے محبت کے اظہارکے لیے کس بات کی طرف توجہ دلائی؟
جواب: فرمایا:حقیقت میں ہم آنحضرتﷺکی تعلیم پر عمل کرنے والےاورآپﷺسے محبت کرنے والے ہیں۔جماعت کا لٹریچراس بات کا گواہ ہے۔ہرسال ہزاروں سعید فطرت لوگ اس تعلیم اورمحبت کودیکھ کرجماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہوتے ہیں۔غیربھی یہ کہنے پرمجبورہیں کہ اسلام کی یہ تعلیم توایسی پُراثراورمحبت اورسلامتی پھیلانے والی تعلیم ہے کہ یہی دنیاکے امن کاآج واحدحل ہے…ہمارے مخالفین جوبھی چاہےسوچیںاورکریں۔ہماراکام ہے کہ اگرہمیں آنحضرتﷺسے سچی محبت ہے تو آپﷺکی تعلیم کواپنائیں اوردنیامیں پھیلائیں۔دنیاکوبتائیں کہ آج دنیاکی امن وسلامتی کایہی واحدحل ہے۔پس آؤاورامن وسلامتی کی تعلیم دینے والے اس عظیم وجودسے جڑکردنیاوآخرت میں اپنی سلامتی کے سامان کرلو۔
سوال نمبر4: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدنیامیں حقیقی امن کےقیام کےلیے کس امرکی طرف توجہ دلائی؟
جواب: فرمایا:ہم دیکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ امن بڑی اہم چیز ہے۔امن کی باتیں ہوتی ہیں ہرکوئی کہتاہے امن بہت اہم چیز ہے اورامن کی حالت ہی گھرکے سکون اورسلامتی کی بھی ضمانت ہے۔اوربین الاقوامی سطح پربھی سکون وسلامتی کی ضمانت ہے۔اورخواہش بھی رکھتے ہیں کہ ہرسطح پرامن قائم ہو۔لیکن صرف خواہش امن پیدانہیں کردیتی کیونکہ یہاں بھی امن کی خواہش خودغرضی کے لیے ہوتی ہے اوریہی ہم دنیامیں دیکھتے ہیں۔اگرخودغرضی نہ ہوتو لڑائیاں ہوہی نہیں سکتیں۔بالعموم جب کوئی امن کی بات کرتاہے توامن کی خواہش اپنے لیے ہوتی ہے بلکہ عموماًجب انسان دعابھی کرتا ہے یعنی بعض دفعہ خواہش کااظہارزبان پربھی آجاتاہے۔اگردعانہیں بھی ہورہی ہوتوانسان یہی کہتاہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اورمیرے بیوی بچوں کومیرے قریبیوں کو امن میں رکھے۔دوسروں کے امن میں رہنے کے لیے یہ درد نہیں ہوتایاانسان اپنی زندگی سکون سے بسرکرنے کے لیے دولت چاہتاہے اوراس کواچھاسمجھتاہےتواس کامطلب یہ نہیں کہ دشمن کے لیے بھی وہ دولت کواچھاسمجھتاہے۔بلکہ صرف اپنے لیے دولت کو اچھاسمجھتاہے۔اگرصحت کو اچھاسمجھتا ہے تو اس کامطلب یہ نہیں کہ دشمن کے لیے بھی اچھی صحت چاہتاہے۔دشمن کے لیے تویہی چاہے گاکہ وہ نادارہواورکمزورہوتاکہ اس کی دشمن پر فوقیت رہے۔اسی طرح عزت ومرتبہ لوگ چاہتے ہیں تواپنے لیے۔ہرشخص کے لیے نہیں چاہتے…پس صرف امن کی خواہش ہے تووہ فسادکاذریعہ ہوسکتی ہے۔کیونکہ اس میں صرف خودغرضی شامل ہے کیونکہ جولوگ امن چاہتے ہیں وہ اس رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف انہیں اوران کے قریبیوں کو یاان کی قوم کوامن حاصل رہے۔ورنہ دوسروں کے لیے اوردشمنوں کے لیے وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے امن کو مٹادیں۔پس اگراس اصول کو رائج کردیاجائے کہ اپنے لیے اورمعیاراوردوسرے کے لیے اورتودنیامیں جوبھی امن قائم ہوگا وہ چندلوگوں کا امن ہوگا…حقیقی امن تبھی ہوگا جوذاتی،خاندانی،نسلی،قومی اورملکی ترجیحات سے بالاہوکرقائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ایک مرکزی محورکے حصول کے لیے کی جائے۔اوریہ اسی صورت میں ہوسکتاہے جب انسان اس بات کوسمجھ لے اوراس کافہم و ادراک پیداکرلے کہ میرے اوپرایک بالاہستی ہے جومیرے لیے ہی امن نہیں چاہتی،جومیرے گھراورملک کے لیے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ تمام ملکوں کے لیے امن چاہتی ہے۔پس آنحضرتﷺکی تعلیم،امن کانقطہ محوریہ احساس ہے کہ ایک بالاہستی مجھے دیکھ رہی ہے جس کے لیے میں نے اپنے قول وفعل کو ایک کرناہے۔ہمیشہ اس اصول پرچلنے کے لیے آنحضرتﷺکے بتائے ہوئے اس سنہری اصول کو سامنے رکھناہوگاکہ دوسرے کے لیے بھی وہی پسندکرے جو اپنے لیے پسندکرتے ہو۔پس اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئےہمیشہ یہ سوچ رکھنی ہوگی کہ اگرمیں صرف اپنے لیےیااپنی قوم کے لیے یاصرف اپنے ملک کے لیے امن کامتمنی ہوں تو اس صورت میں مجھے اللہ تعالیٰ کی مدد،اس کی نصرت اوراس کی خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔جب اس عقیدے پر انسان قائم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطرسب کچھ کرناہے تبھی حقیقی امن قائم ہوسکتا ہے۔ورنہ نہیں۔
سوال نمبر5: حقیقی امن کے قیام کے لیے کس عقیدہ پرعمل کرنالازم ہے؟
جواب: فرمایا:حقیقی امن دنیا میں لانے کے لیے یہی عقیدہ اوراس پر عمل کارگرہوگاکہ دنیاکاایک خداہے جویہ چاہتاہے کہ سب لوگ امن میں رہیں۔اورجب یہ عقیدہ ہوگا،اس پرعمل ہوگاتوپھرہی انسان کی خواہشات خودغرضی سے بالاہوں گی۔بلکہ دنیاکو عام نفع پہنچانے والی ہوںگی۔اورجب یہ ہوگاتوہماری سوچوں اورامن وسلامتی قائم کرنے کے اورہی معیارہوںگے۔ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ فلاں بات کاہمیں فائدہ پہنچتاہے یانہیں بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کہ ساری دنیاپراس کاکیااثرہے۔دنیاوالے توہمیشہ اپنے فائدہ کے لیے دوسروں کے امن کو بربادکرتے رہتے ہیں۔لیکن جویہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایک بالاہستی ہے تووہ کبھی جرأت نہیں کریں گےکیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگرہم نے ایساکیاتوایک بالاہستی ہمیں کچل کررکھ دے گی۔غرض کہ حقیقی امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک ایک بالاہستی کو تسلیم نہ کیاجائے۔جب تک اس کی محبت دل میں پیدانہ ہو۔اوریہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والاہے صرف اسلام نے ہی آنحضرتﷺکے ذریعہ پیش کیاہے۔
سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیامیں حقیقی امن کے قیام کے لیے احمدیوں کو کیاتاکیدفرمائی؟
جواب: فرمایا:پس اگراپنی عاقبت سنوارنی ہے،امن وسلامتی سے رہناہے توہمیں اللہ تعالیٰ کے اس کلام جوآنحضرتﷺپراترااس کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھناچاہیئے کہ یھدی بہ اللّٰہ من اتبع رضوانہ سبل السلام۔اس روشن کتاب کی ہدایت کایہ حکم ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں۔اس روشن کتاب کی ہدایت کو پڑھنااورسامنے رکھنا چاہیے تبھی سبل السلام پرچلنے والے ہوںگے۔سلامتی کے راستے پر چلنے والے ہوںگے۔اس کتاب کاکوئی بھی حکم ایسا نہیں جوانسانی امن بربادکرنے والاہو۔پس یہ پیغام ہے جواپنوں اورغیروں کودیناہماراکام ہے۔اوریہی دنیاکے امن کی ضمانت ہےاوریہی وہ انقلاب تھاجوآنحضرتﷺنے اپنے صحابہ میں پیداکیا اورعملی طورپر ایسی جماعت تیارکردی جواذاخاطبھم الجاھلون قالواسلاما۔اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے توکہتے سلام۔اس کا مصداق بنادیااوریہی وہ حالت ہے جب ہم میں پیداہوجائے اورہم دنیامیں پیداکردیں توہماراحال اورحاضر بھی امن میں ہوگااورہمارامستقبل بھی امن میں ہوگا۔پس ایک بہت بڑاکام ہے حضرت مسیح موعودؑ کے ماننے والوں کا،جنہوں نے اپنے گھروں اوراپنے ماحول میں بھی امن اورسلامتی پیداکرنی ہے اوردنیامیں بھی امن اورسلامتی پیداکرنی ہے۔اوریہ کام اسی وقت ہوگاجب ہمارے دل بھی خالص توحید سے پُرہوںگےاوردنیاکوبھی حقیقی توحیدکی طرف لانے والے ہوںگے۔یہ بات یقینی ہے کہ توحید کامل کے قیام کے بغیرامن قائم ہوہی نہیں سکتا۔اورتوحیدقائم نہیں ہوگی تولڑائیاں بھی جاری رہیں گی۔لڑائیاں توتبھی بندہوسکتی ہیں جب حقیقی مواخات پیداہو۔آپس میں محبت اورپیارپیداہو،بھائی چارے کی صورتحال پیداہو۔امن اس وقت تک قائم ہوہی نہیں سکتاجب تک لوگوں کے اندرحقیقی مواخات پیدانہ ہواورحقیقی مواخات ایک خداکومانے بغیرپیدانہیں ہوسکتی۔
سوال نمبر7:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطاب کے آخرپر دعاکے حوالہ سے کیاتلقین فرمائی؟
جواب: فرمایا:ہم اب دعاکریں گے۔دعامیں سب یہ بھی دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو جلسہ کی برکات کاحامل بنائے اورہرایک کوحضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کا وارث بنائے۔دنیاکے حالات میں جلد ہرطرح سے امن و سلامتی پیدافرمائے تاکہ ہم اپنے جلسے وسیع پیمانے پراوراسی شان سے ہرقسم کی فکروں سے آزادہوکر منعقدکرسکیں اور اپنی روحانی اورعلمی پیاس بجھانے کاجلسوں کو ذریعہ بنائیں۔ اورحقیقت میں اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے والے بن جائیں۔اللہ تعالیٰ کے پیاراوراس کے فضل کو سمیٹنے والے ہم ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
سوال نمبر8: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ جرمنی کی حاضری کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:کل حاضری جلسہ کی 19782ہے۔جس میں مستورات 9482 اور مرد حضرات 10300 اور اس کے علاوہ جودوسرے ذرائع سے لوگ جلسہ سالانہ کی کارروائی دیکھ رہے ہیں یاسن رہے ہیں ان کی تعدادبھی چالیس ہزارسے اوپر ہے۔