قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے
اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہئے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگرکوئی حالت سفریا بیماری میں روزہ رکھتا ہے۔ تو یہ معصیت ہے۔ کیونکہ غرض تو اللہ تعالےٰ کی رضاہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جوحکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے۔ اور اپنی طرف سے اس پرحاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔اس نے تو یہی حکم دیا ہے مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ (البقرہ:۱۸۵)اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں۔
(ملفوظات جلد۹صفحہ۷۳،۷۲،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتاہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پرعمل کرنا چاہیے۔ کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کازور دکھاکر کوئی نجات حاصل کرسکتاہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہویا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمباہو بلکہ حکم عام ہے اوراس پرعمل کرنا چاہیے۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توان پر حکم عدولی کافتویٰ لازم آئے گا۔
(ملفوظات جلد۹صفحہ ۴۳۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
الفضل نے بچپن کا کھویا اخبار واپس کر دیا ہے