سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون تھا؟
کچھ دہائیوں سے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اور اس کے لیے بھی وہی طریقہ واردات استعمال کیا جا رہا ہے جو ہزاروں سال سے ایسی مہمات چلانے والے استعمال کرتے آئے ہیں۔ یعنی ثبوت تو ایک طرف رہا، عقل کو بھی استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں
دنیا میں بہت سے گروہوں کے خلاف نفرت انگیزی کی مہمات چلائی گئی ہیں۔ان کا ایک اہم طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں جو کچھ المیے گذر رہے ہیں، ان کا مورد الزام اس گروہ کو ٹھہرا دو جس کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ پھر لینا پکڑنا جانے نہ پائے کے شور میں بہت کم ذہن یہ تکلیف گوارا کرتے ہیں کہ حقائق کو پرکھ کر رائے قائم کریں۔
مظلوم پر الزام کیسے لگایا جاتا ہے
مثال کے طور پر جب ۶۴ء میں روم کا اکثر حصہ جل کر راکھ ہو گیا تو رومی بادشاہ نیرو نے اس کا الزام مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے کمزور گروہ پر لگا دیا اور انہیں بے دردی سے پھانسیاں دی گئیں اور شیروں کے آگے ڈالا گیا۔بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ آگ خود نیرو نے لگوائی تھی تا کہ اپنی مرضی سے روم کو از سر نو تعمیر کر سکے۔لیکن جب الزام اس معتوب گروہ پر لگایا گیا تو کسی نے حقیقت جاننے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔
جب ۱۰۹۵ء میں پوپ اربن دوم نے مسیحی دنیا کو مسلمانوں کے خلاف پہلی صلیبی جنگ کے لیے آمادہ کرنے کے لیے ایک تقریر کی تو اس تقریرمیں ان فرضی مظالم کا ذکر کیا جو فلسطین اور دوسرے علاقوں میں مسلمان مسیحی آبادی پر کر رہے تھے۔ اور یہاں تک کہا کہ بہت سے مسیحی لوگوں کو قتل کر دیا گیا ہے اور باقیوں کو غلام بنا لیا ہے۔ اور مسلمان نشانہ بازی کے لیے مسیحی لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور وہ ان کا پیٹ چاک کر کے انہیں بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ ان کی آنتیں باہر گر پڑیں۔ اور جو سلوک عورتوں سے کیا جا رہا ہے اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ان میں سے بہت کم الزامات درست تھے لیکن فوری طور پر پُر جوش نعرے لگنے لگے اور کیا امراء اور کیا غریب طبقہ سب مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔
جب چودھویں صدی میں یورپ میں طاعون پھیلی تو سب سے پہلے فرانس کے شہر ٹولوں (Toulon)میں کچھ کم عقل لوگوں کو خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہودیوں نے پانی میں زہر ملا دیا ہے جس کی وجہ سے طاعون پھیل رہی ہے۔چنانچہ یہودیوں کی بستی پر حملہ کر کے چالیس یہودیوں کو قتل کر دیا گیا۔اس کے بعد جوں جوں یورپ میں طاعون پھیلتی گئی اسی طرح مختلف مقامات پر یہود پر حملے کر کے انہیں اس نام نہاد جرم کی سزا دی گئی۔۱۴؍فروری ۱۳۴۹ءکو سڑاسبرگ کے مقام پر سینکڑوں کی تعداد میں یہودیوں کو زندہ جلا دیا گیا اور جو زندہ بچ گئے انہیں شہر بدر کر دیا گیا۔جب ۱۹۳۰ءکی دہائی میں جرمنی میں اقتصادی بحران عروج پر تھا اس وقت ہٹلر نے اس بحران کا سارا الزام یہودیوں پر لگا کر جرمن قوم کو ان کے خلاف بھڑکایا۔ آخری نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جب ہٹلر رخصت ہوا تو جرمنی کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا تھا۔
پاکستان میں مخالفین کا طریقہ کار
اسی طرح گذشتہ کچھ دہائیوں سے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اور اس کے لیے بھی وہی طریقہ واردات استعمال کیا جا رہا ہے جو ہزاروں سال سے ایسی مہمات چلانے والے استعمال کرتے آئے ہیں۔ یعنی ثبوت تو ایک طرف رہا، عقل کو بھی استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہر منفی بات کا الزام احمدیوں پر لگا دو۔ اگر کوئی ثبوت مانگے تو اس پر بھی قادیانی یا قادیانی نواز ہونے کا الزام لگا دو۔خود ہی ڈر کر خاموش ہو جائے گا۔ اگر کسی با اثر مجرم کو اس بات کا خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اب میں پکڑا جائوں گا تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اسے اپنے آپ کو بچانے کا آسان ترین طریق یہی نظر آتا ہے کہ یہ شور مچانا شروع کر دے کہ اصل میں یہ قادیانیوں کی سازش ہے تا کہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور اس جھوٹ پر رنگ بھی آئے چوکھا۔اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو فوری طور پر الزام لگا دو کہ یہ قادیانیوں کی سازش تھی۔ اگر تقسیم ہند کے وقت گورداسپور پاکستان کا حصہ نہیں بنا تو شور مچا دو یہ سب کچھ قادیانیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب دن دہاڑے ملک کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کر دیا گیا تو جماعت احمدیہ کے مخالفین نے جھٹ تقریریں شروع کر دیں کہ یہ قتل قادیانیوں کی سازش تھی۔ اور لطیفہ یہ کہ خود دوسرے وزیر اعظم کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں کہ اگر تم نےقادیانیوں کے خلاف اقدامات نہ اُٹھائے تو تمہارا حشر بھی لیاقت علی خان جیسا ہو گا۔
یہ انسانی نفسیات ہے کہ وہ جس بیان کو بار بار سنے، خواہ وہ بیان صحیح ہو یا غلط، وہ اسے درست سمجھنے لگتا ہے۔ دو یونیورسٹیوں نے مشترکہ طور پر ایک تحقیق کی۔ اس تحقیق میں دو ہفتہ کے وقفہ سے طلبہ کو تین امتحانات کے مرحلہ سے گذارا گیا۔ان میں انہیں مختلف مختصرجملے سنائے گئے جس میں کچھ حقائق بیان کیے گئے تھے۔ ان میں آدھے جملےصحیح اور آدھے غلط تھے یعنی اس میں جو حقائق بیان کیے گئے تھے وہ درست نہیں تھے۔اور طلبہ کو کہا گیا کہ وہ ان جملوں کو ایک سے سات نمبر دے کر یہ اظہار کریں کہ وہ ان جملوں میں بیان کیے گئے حقائق کو صحیح سمجھتے ہیں یا غلط۔ اور اگر صحیح سمجھتے ہیں تو کتنا صحیح سمجھتے ہیں۔ ان امتحانات میں بیس ایسے جملے تھے جنہیں ہر امتحان میں شامل کیا گیا تھا اور باقی ایسے تھے جن کو صرف ایک امتحان میں سنایا گیا تھا۔جب یہ تجزیہ ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ جن جملوں کو تینوں امتحانات میں دہرایا گیا تھا، انہیں طلبہ زیادہ صحیح سمجھنے لگے تھے کیونکہ ان کے کان ان سے مانوس ہو گئے تھے۔یعنی جب کسی جملے کو خواہ وہ سچ تھا یا جھوٹ دوسرے امتحان میں دہرایا گیا تو طلبہ نے انہیں پہلے امتحان کی نسبت زیادہ صحیح ہونے کے نمبر دیے اور جب اسے تیسرے امتحان میں بھی دہرایا گیا تو طلبہ نے انہیں دوسرے امتحان سے بھی زیادہ صحیح ہونے کے نمبر دیے۔
(Frequency and the conference of referential validity, by Lynn Hasher and David Goldstein. Journal of verbal learning and verbal behavior,16, 107to 112,[1977])
اسی طرح جب کسی نفرت انگیزی کی مہم میں کسی غلط الزام کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور اس کی تردید سامنے نہیں آتی تو پھر معاشرہ اس الزام کو صحیح سمجھنے لگتا ہے۔جماعت احمدیہ کے مخالفین یہی طریقہ استعمال کرتے ہیں کہ ایک جھوٹ کو بار بار دہرائے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں سننے والوں کا ایک بڑا حصہ اسے صحیح سمجھنے لگتا ہے۔ بعض مرتبہ مخالفین جماعت احمدیہ کو الزام دیتے ہیں اور بعض مرتبہ کسی نمایاں احمدی پر الزام لگا کر شور مچاتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ احمدیوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔
۱۹۷۴ءکی کارروائی میں پاکستان توڑنے کا الزام
اس مضمون میں اس طرز پر جماعت احمدیہ پر لگائے گئے سینکڑوں الزامات میں سے صرف ایک کا تجزیہ پیش کیا جائے گا۔ہم یہ جائزہ لیں گے کہ کس طرح یہ بے بنیاد الزام لگایا گیا ؟ اور اسے بار بار ہر سطح پر دہرایا گیا۔ کس طرح حقائق سامنے آئے لیکن الزام پھر بھی لگتا رہا۔ اور اس الزام لگانے میں صرف مخالف مولوی احباب نہیں بلکہ ریاست کے ستون بھی شامل رہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ اور سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کے انتہائی تکلیف دہ واقعات ہیں۔اس سانحہ کے بعد پاکستان ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کردنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔اس کے فوری بعد دسمبر ۱۹۷۱ءمیں حکومت نے اس سانحہ کی وجوہات جاننے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا جوکہ ’حمود الرحمٰن کمیشن ‘کے نام سے معروف ہے۔اس کمیشن نے تحقیقات کے بعد جولائی ۱۹۷۲ءمیں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی۔اس کے بعد جب باقی گرفتار افسران واپس آئے تو اسی کمیشن نے مزید تحقیقات کر کے نومبر ۱۹۷۴ءکو اضافی رپورٹ بھی جمع کرادی۔حکومت پاکستان نے اس رپورٹ کو شائع کرنے کی بجائے خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔اور اس پر کوئی کارروائی بھی نہیں کی گئی۔
بہر حال جب ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے بارے میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی شروع ہوئی تاکہ بزعم خود یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ احمدیوں کا مذہب کیا ہے؟ جس مرحلہ پر جماعت احمدیہ کے وفد سے سوالات کیے جا رہے تھے تو شروع میں ہی ممبران اسمبلی کے پیش کردہ حوالے غلط ثابت ہونے لگے۔اس خفت کو مٹانے کے لیے اٹارنی جنرل صاحب نے کسی جریدے Impact کا حوالہ پڑھنا شروع کیا جس میں جماعت احمدیہ پر کچھ سیاسی الزامات لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔اٹارنی جنرل یحییٰ صاحب نے یہ عبارت پڑھنی شروع کی:
Many allege a Qadiani role in the breakup of Pakistan. Suggestion to this effect were made even in the correspondence column of Bangladesh Observer. Given this background the recent eruption of widespread disturbance should come as no surprise but it is deplorable too
ترجمہ : بہت سے لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان توڑنے میں قادیانیوں کا ہاتھ تھا۔ اس قسم کا الزام بنگلہ دیش آبزرور میں شائع ہونے والے خط میں بھی لگایا گیا تھا۔ اس پس منظر میں موجودہ فسادات کا پھیل جانا حیران کن تو نہیں ہے لیکن قابل افسوس ضرور ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس جریدہ کی اس تحریر کے متعلق اٹارنی جنرل صاحب سے استفسار فرمایا:
Who is the writer?
یعنی اس تحریر کو لکھنے والا کون ہے؟اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کمال قول سدید سے فرمایا I really do not know یعنی حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔حضور نے اگلاسوال یہ فرمایا
What is the standing of this publication?
یعنی اس اشاعت یا جریدہ کی حیثیت کیا ہے؟یعنی کیا یہ کوئی معیاری جریدہ ہے یا کوئی غیر معیاری جریدہ ہے۔اس کی حیثیت ایسی ہے بھی کہ نہیں کہ اس کو دلیل کے طور پر پیش کیا جائے۔چونکہ یہ ایک غیر معروف نام تھا اس لیے اس سوال کی ضرورت پیش آئی۔اس سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب نےایک بار پھر نہایت بے نفسی سے فرمایا May be nothing at all, Sir یعنی جناب شاید اس کی وقعت کچھ بھی نہیں ہے۔خیر اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے دریافت فرمایا : Have we any thing to do with thisیعنی کیا ہمارا اس تحریر سے کوئی تعلق ہے؟اس کا جواب یہ موصول ہوا Nothing I do not say you have any thing to do…یعنی کوئی نہیں،میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کا اس سے کوئی تعلق ہے۔(کارروائی سپیشل کمیٹی ۱۹۷۴ءصفحہ ۳۶۴تا ۳۶۸)
یہ عجیب صورت حال تھی کہ پاکستان کے اٹارنی جنرل قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران ایک جریدے کا حوالہ پڑھ کر پاکستان میں رہنے والی ایک جماعت پر ملک سے غداری کرنے اور ملک توڑنے کا الزام لگا رہے تھے اور انہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ یہ تحریر کس کی ہے اور اس جریدے کی کوئی وقعت ہے بھی کہ نہیں۔اور اس غیر معروف جریدے کا حوالہ پڑھ کر احمدیوں پر الزام لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ اس مسئلہ پر خود حکومت پاکستان کے قائم کردہ کمیشن نے اپنی رپورٹ حکومت کو جمع کروا دی تھی۔ اگر قومی اسمبلی کے اراکین کو حقائق سے کچھ بھی دلچسپی تھی تو یہ رپورٹ پڑھ لیتے۔انہیں علم ہوجاتا کہ یہ ایک بے سروپا الزام تھا۔جب یہ رپورٹ شائع ہوئی تو تمام دنیا کو علم ہو گیا کہ اس رپورٹ میں جماعت احمدیہ پر اس قسم کا کوئی لغو الزام نہیں لگایا گیا تھا۔لیکن اس نفرت انگیزی کے ماحول میں کسی کو حقائق جاننے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
جنرل ضیاء صاحب کے دور میں نفرت انگیزی
۱۹۸۳ء میں پاکستان جنرل ضیاء الحق صاحب کے مارشل لاء کے شکنجے میں گرفتار تھا۔ وہ نوے روز کے لیے اقتدار میں آئے تھے لیکن ان کو اقتدار سے چمٹے ہوئے چھ برس گذر چکے تھے۔ انہیں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کسی نہ کسی مسئلہ کی بیساکھیوں کی ضرورت رہتی تھی۔ ان دنوں ایک طرف یہ شور و غوغا بلند کیا جا رہا تھا کہ احمدیوں نے اپنے مخالف مولوی یعنی اسلم قریشی صاحب کو اغوا کر کے قتل کر دیا ہے۔ اسلم قریشی صاحب کے جنازے ادا ہو رہے تھے اور یہ بیانات داغے جارہے تھے کہ اب تو احمدیوں نے دوسرے علماء کو بھی دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے یہ اعلانات ہو رہے تھے کہ جماعت احمدیہ کے سربراہ کو گرفتار کر کے تفتیش کرو، اگر دو روز میں اسلم قریشی کا سراغ نہ ملے تو ہمیں پھانسی دے دینا۔ اس ڈرامے کا انجام تو یہ ہوا کہ کچھ سال بعد جب اسلم قریشی صاحب منظر عام پر آئے تو انکشاف ہوا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر ایران چلے گئے تھے اور وہاں انہوں نے دوسری شادی کر لی تھی۔
لیکن اس کے ساتھ ایک اور الزام بھی لگایا جا رہا تھا اور وہ یہی الزام تھا کہ اصل میں یہ احمدیوں کی سازش تھی جس وجہ سے پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔اور یہ الزام ان فوجی افسران کی طرف سے لگایا جا رہا تھا جو کہ ۱۹۷۱ءمیں مشرقی پاکستان کے محاذ جنگ پر مقرر تھے۔ ان میں سے سب سے نمایاں نام جنرل امیر عبد اللہ خان نیازی صاحب کا تھا جو کہ مشرقی پاکستان کے سیکٹر پر پاکستانی افواج کی کمان کر رہے تھے اور انہوں نے اس محاذ پر ہتھیار ڈالے تھے۔ اور اس کے بعد وہ جنگی قیدی بن گئے اور اپریل ۱۹۷۵ءمیں انہیں رہا کر دیا گیا۔حکومت پاکستان نے فوری طور پر انہیں حراست میں لے لیا اور انہیں فوج سے برطرف کر کے ان کے تمغے واپس لے لیے گئے۔اور ان کی رہائی کے بعد حمود الرحمٰن کمیشن نے لفٹیننٹ جنرل نیازی صاحب اور بعد میں رہا ہونے والے افسران کو طلب کر کے تفتیش کی اور اپنی اضافی رپورٹ مرتب کر کے حکومت پاکستان کو بھجوا دی۔سابقہ رپورٹ کی طرح حکومت پاکستان نے اس رپورٹ کو بھی منظر عام پر نہیں آنے دیا اور اسے بھی سرکاری سرد خانے میں خفیہ رکھ دیا گیا۔بہرحال نیازی صاحب نے رہا ہونے کے بعد سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور جمعیت العلماء پاکستان میں شمولیت کر کے ان کے جلسوں میں تقاریرشروع کر دیں اور جب قومی اتحاد نے وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو صاحب کے خلاف تحریک شروع کی تو امیر عبد اللہ خان نیازی صاحب اس تحریک میں سرگرم رہے۔جب جنرل ضیاء صاحب نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگا دیا تو اس کے بعد جنرل نیازی صاحب نےسیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور مارشل لاء حکومت میں ان کی پنشن اور مراعات بحال کر دی گئیں۔
جنرل نیازی صاحب کی الزام تراشی
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ احمدیوں کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکانے کا ایک طریق یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی نمایاں احمدی پر کوئی سنگین الزام لگا دو اور اس کے بعد جماعت احمدیہ کے روایتی مخالفین یہ شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ لوجی ثابت ہو گیا کہ یہ احمدیوں کی سازش تھی اور حقیقت جاننے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔یہی طریقہ جنرل نیازی صاحب نے استعمال کیا۔انہوں نے ۱۹۸۳ءمیں ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار وہ خود نہیں بلکہ وہ جنرل اور سیاستدان ہیں جو انہیں فوج کے ہیڈکوارٹر سے احکامات دے رہے تھے اور ان جنرلوں اور سیاستدانوں کے ڈانڈے اسرائیل سے ملتے تھے۔انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے ایم ایم احمد نے ایک پلان تیار کیا تھا۔(ایم ایم احمد سے مراد صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ہیں جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے بڑے صاحبزادے تھے اور انہوں نے تین مختلف حکومتوں میں سیکرٹری خزانہ، ڈپٹی چیئر مین پلاننگ کمیشن اور صدر پاکستان کے مشیر کی حیثیث سے خدمات انجام دیں۔)
اس پریس کانفرنس کے فوری بعد جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف رسالے ’ختم نبوت ‘نے اس پریس کانفرنس پر ایک اداریہ لکھا۔ اس اداریے کا عنوان تھا ’ایم ایم احمد پلان‘ اس کے آخر میں اس جریدے کے مدیر نے یہ زہر فشانی کی کہ ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ جس ایم ایم احمد پلان کا حوالہ آپ نے اپنی پریس کانفرنس میں دیا تھا، اس کی تفصیلات بھی قوم کے سامنے لے آئیں۔ ہم ان جنرلوں اور سیاستدانوں سے تو واقف نہیں جن کے ڈانڈے تل ابیب سے ملے ہوئے ہیں۔البتہ ایک بات ہم ضرور جا نتے ہیں کہ قادیانی امت کے (افراد جو پاکستان کی کلیدی اور اہم ترین اسامیوں پر فائز ہیں) کے ڈانڈے تل ابیب سے ملے ہوئے ہیں۔ اس ٹولہ کے اسرائیل کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم ہیں۔(رسالہ ختم نبوت جلد ۲)
باقر صدیقی صاحب اس کھیل میں شامل ہوتے ہیں
رسالہ ’ختم نبوت‘ تو جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لیے وقف تھا۔اس کے کچھ ہفتوں کے بعد اس رسالے میں ایک اداریہ شائع ہوا۔ اس اداریے کا عنوان تھا ’سقوط پاکستان قادیانیوں کی سازش کا نتیجہ تھا‘۔اس اداریے کے مندرجات ملاحظہ ہوں :’’لیجئے سقوط مشرقی پاکستان کے سلسلے میں ’ایم ایم احمد پلان ‘ایک اور شہادت سامنے آئی ہے۔حال ہی میں روزنامہ جنگ میں مشرقی پاکستان کے سابق چیف آف سٹاف ریٹائرڈ بریگیڈیئر باقر صدیقی کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے المیہ مشرقی پاکستان پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ہمارے حکمرانوں، ان کے مشیروں اور پاکستان کی تیسری قوت کے دعویدار نے ایم ایم احمد کے اس پلان کوعملی جامہ پہنانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔جانشین حکومت چھوڑے بغیر مشرقی پاکستان سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے۔یہ پاکستانی قوم کے خلاف سازش تھی اس میں دوسرے بھی شامل تھے۔‘‘(روزنامہ جنگ مڈویک میگزین ۲۸ستمبر۸۳ء)
اس سے قبل سابق مشرقی پاکستان کے آخری کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عبداللہ خان نیازی ریٹائرڈ نے بھی اپنی ایک پریس کانفرنس میں ایم ایم احمد پلان کا ذکر کیا تھا۔ ہم نے بھی انہی صفحات میں اس پر تبصرہ کیا تھا۔کسی اہم فوجی افسر کی طرف سے ایم ایم احمد پلان کا یہ دوسری مرتبہ ذکر ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان، قادیانیوں کی ایک بہت بڑی سازش کا نتیجہ ہے…
مجلس ختم نبوت کے اکابرین بہت پہلے سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ قادیانیت ایک خالص سیاسی پارٹی کا نام ہے جو استعماری طاقتوںکے آلہ کار کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ (رسالہ ختم نبوت جلد ۲نمبر ۱۸)
اس کے بعد اس اداریے میں واویلا کیا گیا کہ احمدیوں کے موجودہ لیڈر جاسوسی کا کام کر رہے ہیں اور حکومت سے سوال کیا گیا کہ کیا اب بھی ان کی غداری میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔ بہر حال جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ جنرل ضیاء صاحب کے دور کے اس مرحلہ پر احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈا عروج پر تھا کہ ان لوگوں نے مجاہد ختم نبوت مولانا اسلم قریشی صاحب کو اغوا بلکہ شہید کر دیا ہے اور دوسرے علماء کو بھی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ باز آجائو ورنہ تمہارا انجام بھی اسلم قریشی جیسا ہوگا۔ اور اب تو احمدیوں نے بہت سے علماء کو اغوا اور قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔اور اس شور و غوغا کے ساتھ یہ بھی واویلا کیا جارہا تھا کہ یہ احمدیوں کی سازش تھی جس کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوا۔ اس الزام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ یاد رکھا جائے کہ یہ الزام لگانے والے دو اشخاص تھے۔ پہلے جنرل امیر عبد اللہ نیازی صاحب جو کہ اس جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کے محاذ پر پاکستانی فوج کی کمان کر رہے تھے اور دوسرے بریگیڈیئر باقرصدیقی صاحب جو اس وقت مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج کے چیف آف سٹاف تھے۔ گویا یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ اس جنگ کے دوران یہ دونوں صاحبان ذمہ دار عہدوں پر فائز تھے۔ اس لیے اس سے زیادہ معتبر گواہی کیا ہو گی ؟
جنرل نیازی صاحب کی کتاب
بہر حال اس قسم کے الزامات کی آڑ میں ۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ءکو جماعت احمدیہ پر ظالمانہ پابندیوں پر مشتمل آرڈیننس جاری کر دیا گیا۔اور اس کے ساتھ جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔لیکن یہ الزام اس کے بعد بھی لگایا گیا۔ اور یہی طریق اختیار کیا گیا کہ کسی نمایاں احمدی پر الزام لگا کر عوام میں اشتعال پیدا کر دو۔
چنانچہ ۱۹۹۸ءمیں جنرل (ریٹائرڈ) امیر عبد اللہ خان نیازی صاحب نے سقوط مشرقی پاکستان پر ایک کتاب لکھ کر شائع کروائی۔ اس میں انہوں نے سب سے پہلے ایک احمدی یعنی ایم ایم احمد صاحب پر ان الفاظ میں الزام لگایا :
“On his return from Rawalpindi in September 1971 after the aforementioned briefing, my Chief of Staff, Brigadier Baqir, told me that he had heard from reliable source that the decision has been taken at the highest level that the Army in East Pakistan to be made a scapegoat, and the junta had decided to give up East Pakistan. There were rumors in political circles that Yahya and Bhutto had taken vital decisions in Larkana. However, details were not available. It was said that they had decided to get rid of East Pakistan, and had directed MM Ahmad to prepare plans for the implementation of their decision.
When General Hamid, COAS, visited in October, I told him what Brigadier Baqir had told me, but he denied it.” (The Betrayal of East Pakistan, by Lt. General A.A.K.Niazi, published by Oxford Pakistan 1999, p 94-.95)
ترجمہ: جب ستمبر ۱۹۷۱ءمیں میرے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر صدیقی اس بریفنگ کے بعد راولپنڈی سے واپس آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اعلیٰ ترین سطح پر اس ٹولےنے فیصلہ کیا ہے کہ مشرقی پاکستان سے نجات حاصل کی جائے اور مشرقی پاکستان میں فوج کو اس غرض کے لیے قربانی کا بکرا بنا یا جائے۔ اور ایم ایم احمد کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے منصوبہ بنائیں۔
جب جنرل حمید چیف آف آرمی سٹاف ہمارے پاس اکتوبر میں آئے تو میں نے انہیں جو کچھ بریگیڈیئر باقر نے کہا تھا بتایا مگر انہوں نے اس کی تردید کی۔
جب بھی کسی گروہ نے اپنے سر سے کوئی الزام اتارنا ہو تو آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ایک مجرب طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی اور گروہ پر الزام لگائو اور ان میں ایک احمدی کا نام بھی ڈال دو۔ اس کے بعد ایک مخصوص طبقہ اس جھوٹ کو قادیانی سازش کا نام دے کر فوری طور پر شہرت دینے لگ جائے گا اور کوئی ثبوت مانگنے کی ہمت بھی نہیں کرے گا۔بہر حال یہ واضح ہے کہ اس کتاب میں بھی اس الزام کولگانے والے دو اشخاص نظر آتے ہیں۔ ایک لیفٹیننٹ امیر عبد اللہ نیازی صاحب اور دوسرے بریگیڈیئر باقرصدیقی صاحب۔ بریگیڈیئر صدیقی صاحب نے یہ بیان کیا کہ انہوں نے با وثوق ذرائع سے اس پلان کے بارے میں سنا ہے لیکن جنرل نیازی صاحب نے یہ دریافت کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ با وثوق ذرائع کون سے تھے ؟ اور اس کے بعد اتنی خوفناک سازش کے انکشاف کے بعد وہ ایک ماہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے اور کسی سے دریافت کرنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ کیا معاملہ ہے ؟ اور جب کچھ افسر ان کے پاس آئے تو ان سےاس الزام کےبارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے اس کی تردید کر دی۔
جنرل نیازی صاحب یہ بیان کرنے کے بعد کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں کس طرح ہتھیار ڈالے، یہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہتھیار ڈالنے کے بعد اس وقت مشرقی پاکستان کے چیف سیکرٹری مظفر حسین صاحب کو کنٹونمنٹ منتقل کیا تو انہوں نے غصہ میں کہا کہ ایم ایم احمد پلان پر عمل کر دیا گیا ہے۔اور پھر لکھتے ہیں کہ پاکستان آنے کے بعد ایک سینیئر سیاستدان ظفر احمد انصاری صاحب نے انہیں بتایا کہ حقیقت میں ایسا منصوبہ بنایا گیا تھا اور ایم ایم احمد نے یہ پلان بنایا تھا اور حکومت نے ان کے پیش کردہ بارہ امکانات میں سے یہ منصوبہ اپنا لیا تھا کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر دیا جائے۔
(The Betrayal of East Pakistan, by Lt. General A.A.K.Niazi, published by Oxford Pakistan 1999, p 220-۔222) )
الزام لگانے والوں کو کون نواز رہا تھا؟
واضح ہوکہ اس وقت جنرل نیازی صاحب مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج کے کمانڈر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے اور مظفر حسین صاحب مشرقی پاکستان کے چیف سیکرٹری تھے۔ اور اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دونوں کو علم تھا کہ خود پاکستان کی حکومت نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے لیکن ہتھیار ڈالنے سے قبل دونوں کو یہ خیال تک نہیں آیا کہ اتنی خوفناک سازش کے بارے میں ایک دوسرے سے بات ہی کر لیتے یا ملک میں کسی اور کو اس سازش کے بارے میں آگاہ کرتے۔ لیکن ہتھیار ڈالنے کے بعد انہیں خیال آیا کہ اوہو! یہ تو ہمارے ملک کے خلاف ایک منصوبہ بنایا گیا تھا اور ہمیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ اور رہا یہ دعویٰ کہ ظفر احمد انصاری صاحب نے جنرل نیازی صاحب کو یہ راز کی بات بتائی کہ ایم ایم احمد نے جو مختلف تجاویز تیار کی تھیں ان میں سے ایک یہ منصوبہ بھی تھا جس پر عمل کر کے مشرقی پاکستان کو ایک سازش کے تحت علیحدہ کیا گیا تھا،تو اس کے متعلق عرض ہے کہ حیرت ہے کہ اتنے جہاندیدہ سیاستدان ہونے کے باوجود ظفر احمد انصاری کو بھی کبھی یہ خیال تک نہیں آیا کہ وہ اس خوفناک سازش کے بارے میں پہلے آواز بلند کرتے تا کہ یہ سازش ناکام ہو۔ اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ظفر احمد انصاری صاحب جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالفین میں سے ایک تھے اور انہوں نے ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک زہریلی تحریر بھی رقم کی تھی۔جن دنوں میں جنرل نیازی صاحب اور بریگیڈیئر باقر صدیقی صاحب جنرل ضیاء صاحب کی حکومت سے اپنی مراعات بحال کروا کے اس قسم کے بیانات جاری کر رہے تھے اور ان بیساکھیوں کا سہارا لے کر جماعت احمدیہ کے مخالفین زور و شور سے یہ الزامات لگا رہے تھے کہ درحقیقت پاکستان کا ٹوٹنا پاکستانی احمدیوں کی سازش کا نتیجہ تھا، اسی دور میں جنرل ضیاء صاحب نے ظفر احمدانصاری صاحب کو بھی نوازا تھا۔
جنرل ضیاء صاحب کو اپنی غیر قانونی حکومت کو دوام اور جواز دلانے کے لیے کسی نہ کسی شعبدہ بازی کی ضرورت رہتی تھی۔انہوں نے جولائی ۱۹۸۳ءمیں ایک کمیشن بنایا تاکہ آئین میں کچھ نام نہاد اسلامی تبدیلیاں لائی جائیں اور ظفر انصاری صاحب کو اس کمیشن کا صدر نامزد کیا۔ ظفر انصاری صاحب نے اس کا صلہ دیتے ہوئے ان کی مرضی کے مطابق آئین میں ایسی تبدیلیوں کی سفارشات دیں جن کو ’اسلامی تبدیلیوں ‘کا نام دیا جا رہا تھا لیکن حقیقت میں ان کا مقصد صرف جنرل ضیاء صاحب کو خوش کرنا تھا۔
حقا ئق سے پردہ اٹھتا ہے
بہر حال حقائق ہمیشہ کے لیے پوشیدہ نہیں رکھے جاسکتے۔ جماعت احمدیہ پر اور بعض اور لوگوں پر بھی اس قسم کے الزامات لگائے جاتے رہے لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اس سانحہ پر بننے والے کمیشن یعنی حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی۔لیکن ۲۰۰۰ء میں یہ رپورٹ کسی طرح پردہ سے برآمد ہو کر منظر عام پر آ گئی۔
چنانچہ مجبوراَ ًحکومت کو بھی اس رپورٹ سے پردہ اُٹھانا پڑا اور حقائق سامنے آگئے۔ کیا اس رپورٹ میں جماعت احمدیہ کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا ؟ اس رپورٹ میں اس قسم کا کوئی لغو الزام نہیں لگایا گیا تھا۔ کیا اس میں ایم ایم احمد یا کسی اور احمدی پر یہ الزام لگایا گیا تھا؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔ اس کے برعکس اس رپورٹ کے مطابق آخر وقت میں بھی جوکوشش کی گئی کہ کسی طرح پاکستانی فوج کو مکمل خفت سے بچایا جائے دونوں ممالک کی افواج پیچھے ہٹیں اور اقوام متحدہ کو بیچ میں ڈال کر کوئی پر وقار حل تلاش کیا جائے، وہ ایم ایم احمد کی قیادت میں کی گئی تھی۔ انہوں نے آخر وقت میں بھی صدر یحییٰ خان صاحب کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن صدر اس سے قبل ہی فیصلے کر چکے تھے اور ایسے اقدامات اٹھانے کا وقت گذر چکا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں بہت سے جنرلوں پر شدید تنقید کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے فرائض ادا نہیں کیے اور انہیں اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے بر عکس وہ واحد جنرل جنہوں نے اس جنگ میں جام شہادت نوش کیا اور جن کو اس رپورٹ میںBold and capable commander کا نام دیا گیا ہے جنرل افتخار جنجوعہ شہید تھے جو کہ احمدی تھے۔ان کے متعلق یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ ان کے سپرد جس علاقہ پر قبضہ کرنے کا کام ہوا تھا، انہوں نے اس سے بہت آگے جا کر مد مقابل کے علاقہ پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔اس کے علاوہ اس رپورٹ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کمیشن کے رو برو جنرل نیازی صاحب یا بریگیڈیئر صدیقی صاحب یا کسی اور گواہ نے ایم ایم احمد پلان کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ یہ قصہ بعد میں پاکستانیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
(Hamood ur Rahman Commission Report , published by Vanguard ,p 213 -215, 260)
الزام لگانے والے خود مجرم تھے
اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس کمیشن نے جن افراد کو اس شکست کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان پر مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی ان کی فہرست اس رپورٹ کے آخر میں درج ہے۔ ان افراد میں ایک بھی احمدی نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے افراد جس ملک کے بھی شہری ہوں اس کے سب سے زیادہ وفادار اور خیرخواہ ہوتے ہیں۔پھر اس رپورٹ میں سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کس کو قرار دیا گیا تھا؟ یہ حقیقت قابل توجہ ہے کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں جن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان پر مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی تھی ان میں دو نمایاں نام انہی اشخاص کےتھے جو کہ فرضی ایم ایم احمد پلان کے حوالے سے اس کا ذمہ دار ایم ایم احمد (صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ) کو قرار دے رہے تھے یعنی جنرل امیر عبد اللہ خان نیازی اور بریگیڈیئر باقر صدیقی صاحب۔ اور کئی سالوں سے ان سابق افسران کے بیانات کے حوالے دے کر جماعت احمدیہ کے روایتی مخالفین یہ شور و غوغا بلند کر رہے تھے کہ ہر سانحے کی طرح یہ سانحہ بھی احمدیوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔یعنی جو خود مجرم تھے وہ بڑھ چڑھ کر احمدیوں پر الزام لگا رہے تھے۔ہمارا مقصد کسی غیر متعلقہ سیاسی بحث میں الجھنا نہیں ہے۔ یہاں بغیر کسی تبصرہ کے صرف وہ حقائق درج کیے جا رہے ہیں جو کہ اس کمیشن کی رپورٹ میں درج ہیں۔ پڑھنے والے خود نتیجہ اخذ کر سکتے ہیںہم اختصار سے جائزہ لیتے ہیں کہ اس رپورٹ میں امیر عبداللہ خان نیازی صاحب اور بریگیڈیئر باقر صدیقی صاحب پر کیا فرد جرم لگائی گئی تھی۔
جنرل نیازی صاحب پر یہ الزام لگایا گیا کہ جب واضح آثار نظر آ رہے تھے کہ جنگ شروع ہونے والی ہے اور مد مقابل افواج سرحد پر جمع ہو چکی تھیں پھر بھی جنرل نیازی صاحب نے جنگی حکمت عملی اپنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔محاذ کے کمانڈر کی حیثیت سے ان میں پیشہ وارانہ مہارت اور بصیرت کا مکمل فقدان نظر آرہا تھا۔وہ مجرمانہ غفلتوں کے مرتکب ہوئے۔انہیں ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ حکمت عملی سے پیچھے ہٹ کر دریائوں کو مد مقابل کے سامنے رکاوٹ بنا کر ڈھاکہ کا دفاع کریں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اس کے نتیجہ میں اس وقت ہتھیار ڈال دیے جب دفاع کرنا ممکن تھا۔انہوں نے جان بوجھ کر ڈھاکہ کے دفاع کے معاملہ میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور شرمناک طریق پر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا۔مشرقی پاکستان کا دفاع کرنے کی بجائے انہوں نے ہیڈ کوارٹر کو خلافِ واقعہ مایوس کن رپورٹیں بھجوانی شروع کیں تا کہ ہتھیار ڈال سکیں کیونکہ وہ جنگ لڑنے اور اپنے ماتحتوں کی قیادت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔انہوں نے اپنے فرائض ادا کرنے کی بجائے پان کی تجارت شروع کر دی۔اور ان کی ذات پر بہت سے اخلاقی الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔اس وجہ سے وہ اپنی افواج میں ڈسپلن بھی برقرار نہیں رکھ سکے۔جب شرمناک طریق پر ہتھیار ڈالنے کے بعد وہ جبل پور کے مقام پر بھارتی قید میں تھے، اس وقت انہوں نے اپنے جونیر افسران کو لالچ اور دھمکیاں دے کر اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ اگر پاکستان میں تحقیقات ہوں تو وہ غلط بیانی کر کے حقائق چھپائیں تا کہ وہ اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کر سکیں۔اور جب وہ پاکستان آگئے تو انہوں نے کمیشن کے سامنےعمداَ ًغلط بیانی کی کہ وہ خود تو لڑنے کے لیے تیار تھے لیکن انہیں ہیڈکوارٹر کی طرف سے ہتھیارڈالنے کا حکم دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ اس رپورٹ میں ان پر جو اخلاقی الزامات لگائے گئے ہیں وہ اس نوعیت کے ہیں کہ انہیں نہ ہی دہرایا جائے تو بہتر ہے کیونکہ کسی بھی مسلمان پر جب اس قسم کا الزام لگے تو سب سے زیادہ احمدیوں کے دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔
(Hamood ur Rahman Commission Report , published by Vanguard 519 -520)
اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس رپورٹ میں بریگیڈیئر باقر صدیقی صاحب کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ جیسا کہ پہلے حوالہ درج کیا گیا ہے وہ بھی بھرائی ہوئی آواز میں اس سانحہ کی ذمہ داری ایم ایم احمد پلان پر لگاتے رہے تھے۔ان کے متعلق اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس محاذ پر چیف آف سٹاف کی حیثیت سے اپنے کمانڈر کو مناسب پیشہ وارانہ مشورے نہیں دیے۔انہوں نے جنرل نیازی صاحب کی سازش میں شامل ہو کر ہیڈ کوارٹر کو غلط اور مایوس کن رپورٹیں بھجوائیں تاکہ جنگ لڑنے کی بجائے ہتھیار ڈال دیے جائیں۔اور ان میں جنگ لڑنے کی ذہنی سکت ہی نہیں رہی تھی اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے فرائض ادا کرنے کی بجائے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔وہ دوران جنگ غیر ضروری طور پر کمان تبدیل کرتے رہے۔اور اس سے مزید افراتفری پیدا ہو گئی۔ہتھیار ڈالتے ہوئے انہوں نے ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہت سی قیمتی مشینری تباہ نہیں کی اور وہ مشینری مد مقابل فوج کے ہاتھ لگ گئی۔دوران قید انہوں نے مد مقابل فوج سے دوستانہ تعلقات پیدا کیے اور ان کے تعاون سے وہ کلکتہ کے بازار جا کر شاپنگ کرتے رہے۔اور جنرل نیازی صاحب کی طرح انہوں نے بھی دوسرے افسران کو لالچ اور دھمکیوں کے ذریعہ جھوٹی گواہیاں دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ اس رپورٹ کے مطابق باقر صدیقی صاحب بھی جنرل نیازی صاحب کی طرح اپنے فرائض ادا کرنے کی بجائے پان کی تجارت میں مشغول رہے۔
(Hamood ur Rahman Commission Report , published by Vanguard p 522)
کیا الزام لگانے والوں نے کوئی شرمندگی محسوس کی
یہ تھی ان گواہوں کی حقیقت جن کے بیانات کو بنیاد بنا کر جماعت احمدیہ کے مخالفین اپنے بے بنیاد الزامات کی دکان چلا رہے ہیں۔ یعنی جج صاحبان نے جن لوگوں کو مجرم قرار دیا تھا وہی لوگ چلا چلا کر احمدیوں پر الزامات لگا رہے تھے۔ان حقائق کا سرسری مطالعہ ظاہر کر دیتا ہے کہ کس طرح پاکستان میں ہر چیز کا بے سروپا الزام احمدیوں پر لگا دیا جاتا ہے اور ایک طبقہ انہیں شہرت دے کر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم چلاتا رہتا ہے۔بہر حال ۲۰۰۰ء میں تو یہ رپورٹ منظر عام پر آگئی اور حکومت پاکستان نے اسے شائع کرنے کی اجازت بھی دے دی۔تو کیا اس کے بعد اس حوالے سے احمدیوں پر الزامات لگانے کا سلسلہ ختم ہوا؟
جماعت احمدیہ کے مخالفین میں ایک خوبی ضرور ہے اور وہ یہ کہ جب ان کے جھوٹ کا پول کھل جائے اور ان کے الزامات واضح طور پر غلط ثابت ہوجائیں تو بھی ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی اور وہ حسب سابق اپنے الزمات دہراتے جاتے ہیں۔ اور جیسا کہ مضمون کے شروع میں ایک تحقیق درج کی گئی تھی کہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب ایک بات کو بار بار سنے تو اسے صحیح سمجھنے لگتا ہے۔اتنی شرمندگی اٹھانے کے بعد بھی جماعت احمدیہ کے مخالفین اسی اعتماد سے یہ الزام لگاتے گئے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ باقی مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرح جمعیت العلماء پاکستان بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہی ہےاور اسی سیاسی جماعت نے جنرل نیازی صاحب کو اپنے ایک لیڈر کے طور پر پیش کرنا شروع کیا تھا۔ اور جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے خلاف سیاسی مہم چلائی جا رہی تھی تو جنرل نیازی صاحب اس کے جلسوں میں نمایاں لیڈر کے طور پر تقریریں بھی کر رہے تھے۔
چنانچہ ڈھٹائی ملاحظہ ہو کہ اسی سیاسی جماعت نے ۲۰۰۹ء میں ایک کتاب’’ تحریک ختم نبوت سیدنا صدیق اکبر ؓتا شاہ احمد نورانی صدیقی ‘‘شائع کی۔ اس کتاب کے مصنف محمد احمد ترازی صاحب تھے اور اسے افق پبلیکیشنز کراچی کی طرف سے شائع کیا گیا۔ اس کے صفحہ ۳۷۶سے ۳۹۷تک یہی اوٹ پٹانگ الزام دہرایا گیا ہے کہ احمدیوں کی سازش کی وجہ سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تھا۔حالانکہ ایک عرصہ قبل یہ حقیقت شائع ہو چکی تھی کہ اصل میں اس سانحہ کا مجرم اس شخص کو قرار دیا گیا تھا جسے یہ سیاسی جماعت پگڑی پہنا کر اپنےجلسوں میں ایک لیڈر کے طور پر پیش کرتی رہی تھی۔
لیکن یہ قوم کی بد قسمتی ہے کہ جب احمدیوں پر کوئی الزام لگایا جائے تو ایک طبقہ بغیر کسی ثبوت کے ان الزامات کو صحیح تسلیم کر لیتا ہے اور ان الزامات کی آڑ میں اصل مجرم اپنے آپ کو بچا کر ملک کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔یہ معین الزام بھی اب تک پاکستان کے احمدیوں پر لگایا جاتا ہے۔چنانچہ ۲۰۱۸ءمیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی صاحب ( جو اب معزول ہو چکے ہیں) نے اپنے ایک مخالفانہ فیصلہ میں یہی الزام بہت شد و مد سے دہرایا۔ چونکہ الفضل انٹرنیشنل میں اس پر تبصرہ پہلے ہی شائع ہو چکا ہے، اس لیے ان حقائق کو اس مضمون میں نہیں دہرایا جائے گا۔اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ ۵۴پر احمدیوں کے بارے میں درج یہ عبارت ملاحظہ ہو :
For this purpose, they have been supporting the forces responsible for the separation of East Pakistan, and further with their negative political attitude they are lending their patronage to the so called secessionist movements in Baluchistan and NWFP.
ترجمہ: اسی غرض کے لیے انہوں نے ان طاقتوں کی مدد کی تھی جنہوں نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا تھا اور وہ اپنے منفی سیاسی رویہ کے ساتھ بلوچستان اور سرحد میں نام نہاد علیحدگی کی تحریکوں کی سرپرستی کر رہےہیں۔
جو حقائق اس مضمون میں درج کیے جا چکے ہیں ان کی روشنی میں یہ الزام مضحکہ خیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ایک عدالتی فیصلہ کی عبارت ہے۔لیکن اس جھوٹ کی بنیاد پر احمدیوں پر یہ بے بنیاد الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ پہلے بھی ان کی سازش کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا تھا اور اب بھی یہ پاکستان کو توڑنے کی سازش کر رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی پاکستان کی ریاست کی عملداری ختم کرنے اور ملک کو توڑنے کی سازش وہ مذہبی انتہا پسند گروہ کر رہا ہے جو ہمیشہ سے احمدیوں کی مخالفت میں پیش پیش رہا ہے۔یہ ایک المیہ ہے کہ احمدیوں کی مخالفت کی آڑ میں انتشار پھیلانے والے اپنے آپ کو بچا کر قوم کو نقصان پہنچانے کا دھندا جاری رکھتے ہیں۔ آج سے پچاس سال قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ۲۷؍ مئی ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس شوریٰ سے خطاب فرماتے ہوئے جماعت احمدیہ کے خلاف بنائی جانے والی مختلف سازشوں کا ذکر فرمایا تھا اور اسی خطاب کے دوران آپؒ نے فرمایا تھا: ’’منجملہ بہت ساری خبروں کے جو ہمیں ایک سال سے مل رہی تھیں اور جن کے متعلق ہم نے حکومت کو بتا دیا تھا۔ ایک خبر یہ تھی کہ جماعت کے افراد پر قاتلانہ حملے کیے جائیں اور اس میں ملک میں فتنہ و فساد پیدا کر کے ملک کو ختم کیا جائے کیونکہ اصل مقصد جماعت کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ملک کو نقصان پہنچانا ہے۔ لوگ ہمارے خلاف ایجی ٹیشن کرنا آسان سمجھتے ہیں، اس طریقہ پر تحریک چلا کر اصل مقصد ملک کو تباہ کرنا ہے اور بس۔‘‘( رپورٹ ہنگامی مجلس شوریٰ ۱۹۷۳ءصفحہ ۱۱۳)
یہ تاریخ بار بار دہرائی گئی ہے۔ جس ملک میں احمدیوں کے خلاف شورش برپا کی جاتی ہے اس شورش کا مقصد صرف احمدیوں کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ اصل مقصد اس ملک میں انتشار پھیلانا اور اسے تباہ کرنا ہوتا ہے ، احمدیوں کی آڑ میں یہ فتنہ و فساد شروع کیا جاتا ہے پھر اس کا دائرہ بڑھتے بڑھتے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس طرح مسلمانوں میں فساد پیدا کر کے عالم اسلام کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دو سال سے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف فساد برپا کیا جا رہا تھا۔ ان کی قبریں تباہ کی جا رہی تھیں، ان کی مساجد کے مینارے گرائے جا رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح آخر کار اس فساد کا دائرہ بڑھا دیا گیا اور اب معلوم ہوتا ہے کہ پورا ملک ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو رہا ہے اور ریاست کے ستون ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ یہ صورت حال اتنی گھمبیر ہو چکی ہے کہ اس بارے میں دلائل دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کرے کہ پاکستانی قوم اور با اثر طبقے تاریخ کے آئینے میں اپنا اصل دشمن پہچاننے کی کوشش کریں اور دوسرے ممالک بھی پاکستان کی مثال سے کوئی سبق حاصل کر کے اپنے ممالک کو ایسے فتنوں سے محفوظ رکھیں۔
٭…٭…٭