الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
…………………………
قرآن کریم کی صداقت کا روشن ثبوت
ارم شہر کی دریافت
ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ جنوری 2012ء میںمکرم محمدزکریاورک صاحب کے قلم سے قرآن کریم کی صداقت کا ایک بیّن ثبوت یعنی اِرَمؔ شہر کی دریافت سے متعلق ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
عمان میں مدفون ایک شہر ارمؔ کا ذکر سورۃ الفجر میں ہؤا ہے جس میں عاد کی قوم آباد تھی۔ اس قوم کی سطوت و جبروت کا ذکر قرآن کریم کی 63 آیات میں موجود ہے۔ مثلاً:’’حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم عادسے کہا: کیاتم ہر ایک اونچے مقام پر جھوٹی شہرت کے لئے یادگار عمارتیں بناتے ہو اور تم بڑے بڑے محل تعمیر کرتے ہو جیسے تم ہمیشہ زندہ اور قائم رہوگے۔‘‘ (الشعراء 129-130:)
’’اور عاد کو بھی اور ثمود کو بھی (ایک ہلادینے والے عذاب نے پکڑ لیا)اور( اے اہل مکہ)تم کو ان بستیوں کا حال خوب معلوم ہے۔‘‘ (العنکبوت39:)
’’کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرے ربّ نے قومِ عاد سے کیا معاملہ کیا یعنی ارمؔ شہر والوں سے جو بڑے بڑے ستونوںوالی عمارتوں میں مسکن بناتے تھے وہ لوگ جن کے زور و قوت کے برابر کوئی قوم ان ملکوں میں پیدا ہی نہیں کی گئی تھی۔‘‘ (الفجر7:تا9)
’’اور عاد ایک ایسے عذاب سے ہلاک کئے گئے جو ہوا کی صورت میں آیا تھا جو یکساں چلتی تھی اور سخت تیزتھی اللہ نے ہو ا کو متواتر سات رات اور آٹھ دن ان کی تباہی کے لئے مقرر کر چھوڑا تھا۔ پس اے دیکھنے والے تو اس قوم کو ایک کٹی ہوئی گری پڑی حالت میں پائے گا گویا کہ وہ ایک کھوکھلے درخت کی جڑیں ہیںجن کو تیز آندھی نے گرادیا تھا۔‘‘ (الحاقہ 7:تا 9)
عربی قصص و حکایات میں محفوظ ایک شہر ’اوبار ‘ (Ubar) تھا۔ یہ شہر دولت سے مالامال ہونے کے علاوہ بد اعمالیوں اور فسق و فجور میں بھی شہرت رکھتا تھا۔ تین ہزار سال پہلے یہ شہر درخت سے نکلنے والے رَس ’لوبان‘ کا عظیم الشان تجارتی مرکز تھا۔ اونٹوں کے کارواں یہاں سے لمبے سفروں کے لئے روانہ ہوتے تھے۔ لوبان بطور مرہم کے استعمال ہونے کے علاوہ مُردوں کو جلانے کی رسوم میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ بعض لوگ اسے بطور خوشبو بھی جلاتے تھے۔ اس کی تجارت بہت نفع مند تھی۔
شہر اوبار کے مرکز میں ایک کنواں تھا جس کے ارد گرد ایک قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اور جس کسی کا اس کنویں کے پانی پر قبضہ ہوتا تھا وہی ہرچیز کو کنٹرول کرتا تھا۔ کنویں کے ارد گرد تاجروں کی آبادی تھی۔ دوسرے لوگ یہاں لین دین کے لئے یا کاروانوں میں شامل ہونے کے لئے آیا کرتے تھے۔ شہر بذات خود چھو ٹا تھا مگر اس میں بہت بڑی عارضی آبادی مقیم رہتی تھی۔
اوبار کا آخری بادشاہ شدّاد بن عاد بہت ریاکار، عیاش اور دولتمند شخص تھا۔ یہ شہر قہر الٰہی کے تحت اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تباہ ہوا۔ 230 بعد مسیح میں لوبان کی تجارت ایک دَم ختم ہوگئی۔ جب لوبان کی قیمت بھی گرگئی تو گویا یہ اس شہر کی اقتصادی موت تھی۔ اوبار کے اصل شہر کے موجودہ کھنڈرات میں جاکر مشاہدہ اور تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شہر کا قلعہ اُس سنک ہول (sink-hole)میں گر کر تباہ ہؤا تھا جو اُن کی واٹرسپلائی کا واحد ذریعہ تھا۔
بعض محققین کے مطابق قومِ عاد کا مرکزی قلعہ موجودہ شہرالشسر(Ash Shisar) کے نیچے مدفون ہے اور اوبار (Ubar) کے نام سے معروف ہے۔
اوبار شہر کا ذکر مشہور زمانہ عربی کتاب الف لیلۃ و لیلۃ میں بھی ہوا ہے ۔ اسی طرح لارنس آف عریبیہ نے اس شہر کا ذکر کتاب Atlantis of Sandمیں بھی کیا تھا۔ اس حوالہ سے ایک کتاب "Arabia Felix” کے برطانوی مصنّف اور محقّق برٹرام ٹامس نے 1932ء میں لکھا تھا کہ عمان کے بدوؤں نے اُن سے شدّاد ابن عاد کی جنت ارضی کے وجود کا ذکر شہر اوبار کے حوالہ سے کیا تھا جو ریت کے نیچے کہیں مدفون تھا۔ عرب بدوؤں نے ٹامسؔ کو ریت میں بنے ہوئے صدیوں پرانے وہ راستے بھی دکھائے تھے جو شہر اوبار کی طرف لے جا تے تھے۔
چنانچہ تین ہزار سال پرانے شہر اوبار کی تلاش کے لئے 1981ء میں مسٹر کلیپ (Clapp) نے ایک منصوبہ شروع کیا۔ انہوں نے کیلیفورنیا کی شہرہ آفاق Huntington Library، میں محفوظ پرانے مسودات اور نقشوں سے اس کا تعین کر لیا کہ حقیقت میں شہر اوبار عمان میں ریت کے نیچے کہیں دفن ہے۔ مسٹر کلیپ (Clapp)نے اس مقصد کے لئے جو نقشے استعمال کئے ان میں مشہور یونانی جیوگرافر بطلیموس Ptolemy کے بنائے ہوئے ہزاروں سال پرانے نقشے بھی شامل تھے جو اُس نے 200 صدی قبل مسیح بنائے تھے۔ اسکندریہ کے یونانی نقشہ نویس نے اپنے نقشوں میں ایک اہم تجارتی مرکز کا مقام بھی دیا تھا جس کا نام اس نے Omanum Emporium لکھا تھا۔ بطلیموس کے نقشے اور سیٹلائٹ کے ذریعے لی گئی تصاویر کے مطابق اس شہر کا اصل مقام شہرالشسر(Ash Shisar) کے نخلستان میں بنتا تھا۔ کیونکہ 1984ء میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے سپیس شٹل چیلنجر کے ریڈار امیجنگ سسٹم (remote sensing satellites) سے لی جانے والی تصاویر کی مدد سے اس کے صحیح مقام کا تعین بھی کیا گیا تھا جس کے بعد نومبر1991ء میں اس شہر کی تلاش اور کھدائی کا کام شرو ع ہوا تھا اور جنوری 1992ء میں یہ شہر تلاش زمین سے برآمد کرلیا گیا۔ اب اس شہر کی کھدائی مکمل طور پر کی جاچکی ہے۔
جب اوبار شہر کے مقام کی کھدائی کا کام شروع ہؤا تو 600 فٹ ریت کے نیچے مدفون ایک قلعہ دریافت ہؤا جو قریب دو ہزار سال پرانا تھا۔ آٹھ سمتوں پر مشتمل اس مضبوط قلعہ کی دیواریں60 فٹ لمبی، دو فٹ موٹی اور بارہ فٹ اونچی تھیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ شہر لوبان (خوشبو) کی خریدوفروخت کا اپنے وقت کا عظیم الشان مرکز تھا۔ جنوبی عمان کے علاقہ الربع الخالی سے اس شہر کے جو آثار دریافت ہوئے ہیں اس کے مطابق گھروں کی دیواریں آٹھ سمت کے کٹے ہوئے چونے (لائم سٹون) کے پتھروں سے بنی ہوئی تھیں۔ قلعے کے آٹھ بلند مینار تھے جن میں سے سات میناروں کے آثار مل گئے ہیں جو پکی اینٹوں سے بنے ہوئے تھے۔ گھروں میں کشادہ کمرے تھے جن میں لوبان جلانے کے لئے چولہے بنائے گئے تھے۔
تاریخی طور پر ارم شہرتین ہزار سال تک تجارت کا اہم مرکز رہا اور یہ 300 بعد مسیح میں نابود ہؤا تھا۔ جیورس زارینز نے چار بار یہاں کھدائی کا کام کیا تھا اور یوں اس نے بھی ثابت کر دیا تھا کہ واقعی تاریخ میںعاد نام کی کوئی قوم تھی جس نے ارم شہر آباد کیا تھا۔ بہرحال اس برباد شہر اور اس کے نابود قلعہ کی دریافت قرآن مجید کی صداقت کا ایک روشن ثبوت ہے۔
…*…*…*…
مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15دسمبر 2012ء میں مکرم ارشد خاں صاحب نے اپنے والد مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب ولد مکرم شیر محمد خاں صاحب 1928ء میں لوع کھیتری ضلع پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ ایک ماہ کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا۔آپ کُل تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ سترہ سال کی عمر میں آپ آرمی میں بطور ڈرائیور بھرتی ہوگئے اور وہیں پرائمری تک تعلیم بھی حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد سرگودھا میں مقیم ہوئے اور چار سال تک فیصل آباد سے سرگودھا تک پرائیویٹ بس چلاتے رہے۔
1952ء میں ترگڑی ضلع گوجرانوالہ میں آپ کے خاندان کو زمین الاٹ ہوگئی تو وہاں زمینداری شروع کردی۔اُس وقت ترگڑی کے امیر جماعت ایک بہت ہی بزرگ مکرم ملک محمدالدین صاحب تھے جو چودھری صاحب کو تبلیغ بھی کرتے رہتے تھے۔لیکن آپ ہمیشہ سخت مخالفانہ طرزعمل دکھاتے۔ اسی طرح آپ کی برادری کے مکرم راناقاسم علی خاں صاحب بھی احمدی تھے اور اسی طرح سرگودھا کے مکرم رانا ماسٹر احمد خاںبھی تبلیغ کرتے رہے۔ بالآخر 1965ء میں مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب نے 37سال کی عمر میں احمدیت قبول کرلی۔ اگرچہ ابتدائی طور پر آپ کے گھروالوں اور برادری کی طرف سے شدید مخالفت ہوئی مگر پھر خاموشی ہوگئی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ آسیہ بی بی صاحبہ بھی ایک نیک خُو عورت تھیں اور پانچ سال بعد 1970ء میں انہوں نے بھی بیعت کرلی۔
1974ء کے فسادات میں مکرم چودھری صاحب کی برادری میں موجود غیراحمدی رشتہ دار ایک بار پھر شدید مخالفت پر اُتر آئے۔ بارہا آپ کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔ حتّٰی کہ آپ کے ایک سگے بیٹے نے تو مخالفت کی انتہا کردی جو حضرت مسیح موعودؑ کی کتب آپ کے گھر سے اٹھا کر لے گیا اور اُن کو جلادیا۔ برادری نے آپ کے چھوٹے بچوں کو چھیننے کی دھمکی بھی دی تاکہ اُن کے بقول بچوں کا دین آپ خراب نہ کرسکیں۔ نیز آپ کی اہلیہ کو آپ سے علیحدہ کرنے کی بھی برادری نے کافی کوشش کی لیکن انہوں نے بڑی دلیری کے ساتھ اپنے خاوند کا ساتھ دیا۔ مخالفت کی شدّت یہاں تک بڑھی کہ دیگر احمدیوں کو بھی چودھری صاحب سے ملنے سے زبردستی روک دیا گیا۔ اور آخر گاؤں والوں اور برادری والوں نے انتہائی اقدام کے طور پر خود فیصلہ کر لیا کہ فلاں دن ہم چودھری صاحب سے اُن کے مسلمان ہونے کا اعلان کروا کے چھوڑیں گے۔ چنانچہ اُس روز برادری والوں نے اپنے کئی علماء بلوائے اور دیگوں کا انتظام بھی کیا گیا۔ پھر چودھری صاحب کو مجمع میں بلایا گیا۔ آپ نے اُن کی بات سُن کر کہا کہ اچھا چلو بتائو کہ مسلمان ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا کلمہ تو ایک ہی ہے، بس آپ مرزا صاحب کو گالیاں دے دیں ورنہ یہ ہجوم کچھ بھی کرگزرے گا۔ اس پر آپ نے کہا کہ خداتعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم مشرکوں کے جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو ورنہ غصہ میں آکر وہ تمہارے سچے خدا کو گالیاں دیں گے۔
پھر چودھری صاحب نے بڑی دلیری سے کہا کہ مَیں نہ گالیاں دوں گا اور نہ ہی احمدیت کو چھوڑوں گا۔ اس پر لوگ آپ کو بُرابھلا کہتے ہوئے منتشر ہوگئے اور پھر دس سال تک برادری کی طرف سے نہ صرف آپ کا بائیکاٹ کیا گیا بلکہ جھوٹے مقدمات میں بھی الجھایا جاتا رہا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ ہر مقدمہ سے بری ہوتے رہے لیکن اس دوران برادری کی طرف سے شدید مخالفت ہوتی رہی۔ تاہم آپ اُن لوگوں کے ساتھ حُسنِ سلوک ہی کرتے رہے اور ہرممکن اُن کی مدد کرتے رہے۔
مکرم چودھری فرزند علی خاں صاحب کی وفات 1997ء میں ہوئی اور ترگڑی میں ہی تدفین ہوئی۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں عطا کیں۔
…٭…٭…٭…
مکرم مقصود احمد صاحب کو ئٹہ شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10 دسمبر 2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق مکرم مقصود احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب آف کوئٹہ کو سیٹلائٹ ٹائون کوئٹہ میں 7؍دسمبر2012ء کو دو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے اُس وقت شہید کردیا جب آپ اپنے بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آرہے تھے۔ آپ کی پیشانی پر 4 اور کاندھے میں ایک گولی لگی۔ ا ٓپ کو ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ آپ راستے میں ہی شہید ہوگئے۔ آپ کی تدفین احمدیہ قبرستان کوئٹہ میں عمل میں آئی۔شہید مرحوم کی عمر 31سال تھی۔ آپ کے پسماندگان میں والد مکرم نواب خانصاحب کے علاوہ بیوہ مکرمہ ساجدہ مقصود صاحبہ، ایک بیٹی اور ایک بیٹا مسرور شامل ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 14؍دسمبر 2012ءکے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔
مکرم مقصود احمد صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد محترم کی پڑدادی حضرت بھاگ بھری صاحبہؓ کے ذریعہ ہوا جو قادیان کے قریبی گاؤں ننگل کی رہنے والی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کرکے ضلع ساہیوال میں رہائش پذیر ہوگیا اور 1965ء میں کوئٹہ چلاگیا۔
مکرم مقصود احمد صاحب کوئٹہ میں ہی پیدا ہوئے۔ وہیں مڈل تک تعلیم حاصل کی اور پھر والد صاحب کے ساتھ ٹھیکیداری کے کام میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔
11؍نومبر 2012ء کو مکرم مقصود احمد صاحب کے بڑے بھائی مکرم منظوراحمد صاحب کو بھی نامعلوم افراد نے شہید کر دیا تھا۔ اُن کی شہادت سے پہلے مکرم مقصود احمد صاحب بلڈنگ کنسٹرکشن کی ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے اور اپنے بڑے بھائی مکرم منظوراحمد صاحب کے ساتھ ہارڈویئر کی دکان میں ہاتھ بھی بٹاتے تھے،لیکن بھائی کی شہادت کے بعد انہوں نے دکان کی مکمل دیکھ بھال سنبھال لی تھی۔
مکرم مقصود احمد صاحب کو 20؍ اگست 2009ء کو نامعلوم افراد نے اغوا بھی کر لیا تھا اور12دن کے بعدبھاری تاوان دینے کے عوض آپ باز یاب ہوئے تھے۔ مرحوم خدمتِ خلق کا بے حد شوق رکھتے تھے اور جب بھی میڈیکل کیمپس لگائے جاتے تو مرحوم نہ صرف ان میڈیکل کیمپس کیلئے اپنی گاڑی مہیا کرتے بلکہ خود ڈرائیو کرکے بھی ساتھ جاتے تھے۔ اسی طرح دعوت الی اللہ کے پروگراموں میں بھی اپنی گاڑی پیش کرتے اور ساتھ بھی جاتے۔ کوئٹہ میں آنے والے مربیان کا بہت خیال رکھتے اور اُن کی خدمت کرکے خوشی محسوس کرتے۔ آپ کم گو مگر بہت خوش اخلاق، ملنسار اور مہمان نواز شخص تھے۔ سادہ طبیعت کے مالک تھے اور کسی کو ناراض نہیں کرتے تھے۔ سیکیورٹی کی ڈیوٹی بڑے شوق سے دیا کرتے تھے۔ جمعہ پر ڈیوٹی خاص طور پر دیا کرتے تھے۔ شہادت سے تین چار روز قبل خود اپنا چندہ مکمل طور پر ادا کیا۔ آپ کا گھر مرکزِ نمازبھی تھا۔
…٭…٭…٭…