تنظیم لجنہ اماء اللہ کی ضرورت (قسط چہارم)
(گذشتہ سے پیوستہ)۱۵۔ چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں، چھوٹے بڑے، غریب امیر سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر کی کوئی تفریق نہ ہو۔ بلکہ غریب اور امیر دونوں میںمحبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں۔
۱۶۔اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمت اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لئے بعض طریق تجویز کئے جائیں اور ان کے مطابق عمل کیا جائے۔
۱۷۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ چونکہ سب مدد اور سب برکت اور سب کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اس لئے دعا کی جائے اور کروائی جائے۔
جماعتِ احمدیہ کی خواتین کی یہ تنظیم اپنے خلیفہ کی قیادت میں دھیرے دھیرے ایک مضبوط عمارت بنتی چلی گئی۔ قادیان سے تنظیم کی شاخیں پھوٹ پھوٹ کر ہندوستان کے دوسرے شہروں میں پھلنے پھولنے لگیں۔ حضورؓکے ساتھ خواتین مبارکہ خصوصی طور پر حضرت امّاں جان ؓ(حضرت اُمّ المومنین)، ان کی دو شعائراللہ صاحبزادیاں، دوسری خواتین مبارکہ اور بہت سی ابتدائی احمدی لجنہ کی ممبرات نے اپنے خلیفہ کا ساتھ دیتے ہوئے ہندوستان کے بیشتر شہروں میں لجنہ اما اِللہ کی تنظیمیں جاری کیں، یعنی ہر شہر میں لجنہ کا ایک دفتر امیر جماعت کی نگرانی میں کھول کر خواتین کی ایک ممبر صدر اور اسکے ساتھ مدد گار خواتین کی عاملہ بنا کر حضرت مصلح موعودؓکی ہدایات کے مطابق خواتین کی، تعلیمی، تربیتی اور فکری ترقی کے میدان کھلنا شروع ہو گئے۔
یہاں تک کہ محض تین برس بعد ۱۹۲۵ء میں سیالکوٹ میں حضرت مصلح موعودؓکی اجازت اور راہنمائی سے چندہ اکٹھا کر کے مدرسۃالبنات کی بنیاد ڈالی گئی۔ سیالکوٹ کی اچھی تعلیم یافتہ ممبرات نے اپنی خدمات مفت پیش کیں۔
تقسیم بر صغیر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ایک پورا باغ ایک جگہ سے دوسری جگہ لگادیا۔ ربوہ کو حضرت چھوٹی آپا کی صدارت میں لجنہ مرکزیہ کی حیثیت حاصل رہی۔
مردوں کے ساتھ ساتھ ہماری عورتوں نے بھی داعوت الی اللہ میں اپنا کردار بہت احسن رنگ میں نبھایا ہے پمفلٹ لٹریچرتقسیم کرنااپنے ملنے والوں اور ہمسایہ میں جماعت کاتعارف کرانا بک سٹال نمائش لگاناوغیرہ۔
لجنہ کے شوق تبلیغ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بہت اُبھارا۔ آپ کا ایک خواب تھا جس میں آپ کولجنہ کا تیر کہا گیا تھا۔ لجنہ ربوہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۸۲ء میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں لجنہ کے ان تیروں میں سے ہوں جو خاص اہم وقت کے لیے بچا کے رکھے جاتے ہیں اور اپنے وقت پر انہوں نے استعمال ہونا ہے لیکن بعض اوقات ایسی ہنگامی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ ان کے بعد کے لیے بچائے ہوئے تیروں کو وقت سے پہلے بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ آج ایک ایسا ہی وقت ہے…بنیادی طور پر میں سمجھتا ہوں، سب سے اہم مطلب جو اس کا ہے وہ یہی ہے کہ لجنہ کو یعنی احمدی مستورات کو جہاد میں حصہ لینا پڑے گا …ہر احمدی خاتون کو خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی تبلیغ میں جھونک دیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ایک کھلا چیلنج ہے تمام دنیا کی خواتین کے لیے احمدی خواتین سی کوئی اور خواتین تو لا کر دکھاؤ کتنی عظمت کی زندگی ہے کتنی اعلیٰ مقاصد کے لیے وقف ہیں ان کی لذتوں کے معیار بدل چکے ہیں ان کے دلوں میں باقی رہنے والی لذات ہیں جو اس زندگی میں بھی اس کا ساتھ دیتی ہیں اور اس دنیا میں بھی احمدی خواتین اپنے خلفائے کرام کے زیر سایہ صبر ورضائے ا لٰہی، توکل، زہد اور تقویٰ کی روایت چلتی جارہی ہیں بلکہ اولاد کی تربیت کرکے نئی نسلوں کے ذریعے جماعت کو ایک اور عظیم قوت فراہم کرتی جا رہی ہیں۔
آج اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم اور پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسروراحمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تربیت، راہنمائی اور دعاؤں سے لجنہ اماء اللہ عالمگیر کی کامیابیوں کا سفر جاری ہے۔
پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:’’ لجنہ کی تنظیم کے قیام سے آپ کو، احمدی عورت کواللہ تعالیٰ نے وہ مواقع میسر فرمائے دیے جہاں آپ اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو مزید چمکا سکتی ہیں پس اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ ‘‘
(الفضل انٹرنیشنل۱۹؍ جون ۲۰۱۵ء صفحہ ۲۰)
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ اماء الله بھارت کے پچیسویں اجتماع کے موقع پر عطا فرمودہ اپنے خصوصی پیغام میں فرمایا: ’’میراپیغام یہ ہے کہ آپ احمدی مستورات ہیں جنہوں نے خداتعالیٰ کے خاص فضل سے زمانے کے امام کو مانا اورآپ کے بعد خلافت احمدیہ سے وابستہ ہوکر اس کی برکات سے متمتع ہورہی ہیں۔ آپ نے خلیفۂ وقت کی رہ نمائی میں اسلامی تعلیمات سے سب دنیا کو روشناس کرواناہے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ اورآپ کی اولادا ن تعلیمات پرعمل پیرا ہو تاکہ آپ اپنے قول وفعل دونوں سے اسلامی تعلیمات کا پرچار کرسکیں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍ نومبر ۲۰۱۹ء صفحہ ۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسروراحمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہر حکم پر دل وجان سےعمل کریں اور ہماری زندگیوں کا مقصد خدا تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور محبت ہو۔ آمین
(جاری ہے)