مگر شرط اس کی اطاعت گزاری
کوئی سواسوسال پہلے کا ذکر ہے کہ ایک درویش نے شہرِ لاہور میں واقع کتب خانے میں موجود کتاب میں ایک نایاب حوالہ دریافت کیا۔ وطن جا کر اس نے جو اپنے مرشد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہاں سے وہ کتاب لے آئیں۔ چنانچہ درویش نے دوبارہ لاہور کا سفر اختیار کیا۔جب کتب خانے پہنچا تو شومیٔ قسمت کہ کتاب کا نام ہی ذہن میں نہ رہا۔ ہر چند تلاش کیا مگر کتاب نہ ملی۔ وہاں کے منتظم سے کتاب کا نفسِ مضمون بیان کر کے مدد چاہی تو اُس نے بھی عذر کر دیا۔ ناچار واپس آ کر مرشد سے صورتِ حال بیان کر دی۔ ابھی اس واقعہ کو کوئی ایک ہفتہ گزرا ہو گا کہ حضرت نے درویش کو فرمایا کہ صاحب آپ پھر جائیے۔ اب کے وہ کتاب آپ کو مل جائے گی۔ درویش بھی سعید فطرت تھا بلا توقف حکم کی اطاعت میں لاہور روانہ ہو گیا اور اسی کتاب خانے جا پہنچا۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ کتاب کا نام بھی یاد نہیں اور بظاہر صورتِ حال پچھلے سفر سے کچھ مختلف بھی نہیں کہ اس کے ملنے کی کوئی آس کوئی امید نظر آتی ہو، ایسے میں خواہ نخواہ سفر کی صعوبت اٹھانے کا کیا فائدہ! وہاں پہنچ کر منتظم سے سلام دعا کی اور اس کے میز پر پڑی ایک کتاب کو بے دھیانی میں اٹھا کر کھولا تو پتا چلا کہ مطلوبہ کتاب اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس خدائی تصرّف کو دیکھ کر درویش ششدر رہ گیا۔ منتظم سے ماجرا بیان کیا تو وہ بھی حیران ہو کر کہنے لگا کہ جناب اگر آپ کچھ دیر پہلے آتے تب بھی آپ کو یہ کتاب نہ ملتی کیونکہ ابھی ابھی باہر سے آئی ہے۔ اور اگر ذرا بھی دیر کے بعد آتے تب بھی یہ کتاب آپ کو نہ ملتی کیونکہ میں اسے فوراً اس کی جگہ پر رکھوا دیتا۔ یہ درویش ایڈیٹر رسالہ البدر، مبلغ بلاد انگلستان و امریکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ تھے جنہوں نے اپنے مرشد امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کی بلا توقف تعمیل کی اور اپنی آنکھوں سے خداتعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا۔
اللہ تعالیٰ اطاعت کو ایک بہت بڑی خوبی قرار دیتا ہے۔ تین لفظی حکم میں اس وراء الوراء ہستی نے گویا انسان کو دنیا و آخرت سنوارنے اور ایک بے مثال معاشرے کے قیام کی کلید عطا فرما دی: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔(النساء: ۶۰) اس دنیا اور ہفت آسمان میں جو بے مثال نظامِ قدرت جاری ہے اس کے پیچھے بھی تو اس کے بنانے والے کی اطاعت کارفرما ہے:ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ (حٰمٓ السجدہ :۱۲) کہ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں دھواں تھا اور اُس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یا مجبوراً چلے آؤ۔ اُن دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ والطَّاعَةُ فِيْمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، إِلَّاأَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلا طَاعَةَ (صحیح بخاری)یعنی مسلمان پر سننا اور اطاعت کرنا فرض ہے۔ خواہ وہ (امر) اسے اچھا لگے یا برا ۔سوائے اس کے کہ اسے کسی ایسی بات کا حکم دیا جائے جس میں (خدا اور رسولؐ کی) نافرمانی ہو۔ اگر اسے ایسی نافرمانی کا حکم دیا جائے توپھر اس پر کان نہیں دھرنا اور اطاعت نہیںکرنی۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور حکام کی اطاعت نہیں کرتے، شرعی، اخلاقی اور ملکی قوانین کی پاسداری نہیں کرتے وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ فرمایا: جس دن ان کے چہرے جہنم میں اوندھے کیے جائیں گے وہ کہیں گے اے کاش! ہم اللہ کی اطاعت کرتے اور رسول کی اطاعت کرتے۔ (الاحزاب :۶۷)
خدا تعالیٰ مومنین کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کی نہ صرف اطاعت کرتے ہیں بلکہ سنتے ہی ان کی اطاعت بجا لاتے اور اس کے نتیجے میں اپنے رب کی بخشش کے طلبگار ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ سنتے ہی اطاعت کرنے میں لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے سہولتیں پیدا کرتا چلا جاتا اور انہیں بامراد کرتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جیسے ہی کسی نے خبر دی کہ ان کے عزیز دوست نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے تو انہوں نے دیر نہ لگائی اور فوری طور پر ایمان لے آئے اور ہمیشہ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کا بے مثال نمونہ قائم فرمایا۔ حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین روحانی آسمان پر ستاروں کی مانند اسی لیے چمک رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ و رسول کی بلا عذر اور فوری اطاعت کو اپنا حرزِ جان بنا رکھا تھا۔ امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتاہے۔ بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی۔ ‘‘
دورِ آخرین میں بھی ہمیں اطاعت کے ایسے نمونے ملتے ہیں کہ دورِ اول کے صحابہ کی یاد تازہ ہونے لگتی ہے۔ بھیرہ کے ایک ماہر حکیم نے دنیا گھوم کر علم حاصل کیا، طبابت میں نام کمایا، راجوں مہاراجوں کے درباروں میں مقبول ٹھہرے اور بالآخر اپنے وطن میں ایک شفاخانہ بنواکر اپنے لوگوں کی خدمت کے ارادے سے ایک عالیشان مکان کی تعمیر شروع کردی۔ سامانِ عمارت لینے لاہور گئے تو سوچا کہ قادیان نزدیک ہے، امامِ وقت سے بھی ملاقات کر لیں۔ فوری واپسی اس قدر ضروری تھی کہ دو طرفہ کرایہ طے کر کے یکہ کروایا۔ لیکن قادیان پہنچے تو امامِ وقت کے ارشاد کی اطاعت میں وہاں کے ایسے مکین ہوئے کہ ان کے واہمہ اور خواب میں بھی کبھی وطن کا خیال نہ آیا۔
اکتوبر ۱۹۰۵ء میں حضرت اقدسؑ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کو رشتہ داروں سے ملانے دہلی تشریف لے گئے جہاں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ بیمار ہو گئے۔ حضرت اقدسؑ نے حضرت مولوی صاحبؓ کو بلانے کے لیے تار دلوادیا۔ تار لکھنے والے نے غالباً اپنی طرف سے ’بلاتوقف‘ کے الفاظ لکھ دیے۔ جب حضرت مولوی صاحبؓ کو یہ تار قادیان پہنچا تو آپ اپنے مطب میں تشریف رکھتے تھے۔ یہ کہتے ہوئے فوری اٹھ کھڑے ہوئے کہ حضرت صاحب نے بلا توقف بلایا ہے اور وہیں سے دہلی کے لیے روانہ ہو گئے۔ نہ گھر گئے، نہ لباس بدلا اور نہ بستر لیا۔ جیب میں ریل کے کرائے کی رقم بھی نہ تھی۔ بٹالہ اسٹیشن پر خالی جیب دہلی کی ٹرین کے انتظار میں ٹہل رہے تھے کہ ایک ہندو رئیس نے اپنی بیوی کے لیے نسخہ لکھوایا اور بطور ہدیہ دہلی کا ٹکٹ اور معقول نقدی پیش کردی۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے نام سے کون واقف نہیں۔ آپؓ حیاتِ قدسی میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کی اہلیہ کہہ رہی تھیں کہ گھر کی ضروریات کے لیے رقم نہیں۔ بچوں کی تعلیمی فیس بھی ادا نہیں ہو سکی کہ اس دوران دفتر نظارت سے انہیں دہلی اور کرنال تبلیغی سفر پر جانے کے لیے بلاوا آگیا۔ آپ نے سلسلے کی اطاعت میں اپنی اہلیہ کو دورِ اول کے صحابہ کی قربانیاں یاد دلائیں اور خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے گھر سے نکلے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یکصد روپے کا انتظام کر دیا اور تمام حاجات پوری ہو گئیں۔
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ) کراچی میں تھے کہ آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ملا کہ فوری طور پر ڈھاکہ بنگلہ دیش روانہ ہو جائیں کیونکہ وہاں پر جماعتی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ وہاں جا کر ان کی راہنمائی کریں۔ ڈھاکہ جانے کے لیے ہوائی جہاز کا پتا کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کوئی جگہ نہیں ہے۔ چانس پر ٹکٹ لے کر ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ انتظامیہ نے کہا کہ آج توسیٹ ملنا ممکن ہی نہیں کیونکہ آپ سے پہلے چانس کی کافی سواریاں موجود ہیں۔ اگر بالفرض جہاز میں کوئی سیٹ نکل بھی آئی تو پہلے اُن کی باری آئے گی۔ کچھ دیر انتظار کے بعد انتظامیہ نے اعلان کر دیا کہ ڈھاکہ جانے والا جہاز روانگی کے لیے تیار ہے جس پر وہ تمام لوگ جو چانس پر جانے کے لیے آئے ہوئے تھے مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ مگر حضرت صاحب اس یقین کے ساتھ وہاں موجود رہے کہ یہ جہاز مجھے ضرور لے کر جائے گاکیونکہ خلیفۂ وقت کا منشا یہ ہے کہ میں فوراً ڈھاکہ جاؤں۔ چنانچہ آپ انتظار میں ہی تھے کہ اعلان کیا گیا کہ ڈھاکہ جانے والے جہاز میں ایک شخص کی جگہ خالی ہے اگر کسی مسافر کے پاس ٹکٹ ہے تو فوراً پہنچے۔ آپ نے فوراً پیش قدمی کی اوراسی جہاز میں ڈھاکہ روانہ ہوئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے امام کی بلاتوقف اطاعت کرنے والے وجود کے لیے راستے آسان کر دیے اور اس کے مقاصد کو پورا فرمادیا۔
ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ امامِ وقت کی بلاتوقف اطاعت فی ذاتہٖ کامیابی و کامرانی کی نوید بن جاتی ہے۔ تاریخ میں دو اقوام کا ذکر آتا ہے۔ ایک کے نبی نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ سامنے شہر ہے، اس میں داخل ہو جاؤ تو فتح تمہاری ہے۔ لیکن انہوں نے اطاعت کرنے میں توقف کیا اور حیلے بہانے کرنے لگے۔ نتیجۃً ان کی پوری نسل اپنی موعود زمین میں داخل نہ ہو سکی۔ دوسری جانب ایک ایسی قوم کا ذکر آتا ہے جس نے اپنے نبی سے اپنے شہر کے اندر لڑنے کامعاہدہ کر رکھا تھا۔ شہر سے کوئی سو میل دور ایک مقام پر جب اُس نبی کو بےسروسامانی کی حالت میں جنگ درپیش ہوئی تو اسے انصارِ مدینہ کی بابت کچھ فکر دامنگیر ہوئی۔ مشورہ مانگا تو انصاری سردار سعد بن معاذؓ نے اپنی قوم کی نمائندگی میں کامل اطاعت کا یقین دلایا اور پھر مثالی انداز میں اطاعت کا جوا اپنے کندھوں پر رکھ کر دکھایا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ جتنے سال قومِ موسیٰ صحرا میں سرگرداں پھرتی رہی اتنے سالوں میں مسلمان معلوم دنیا کے معتد بہ حصے کو زیرِ نگیں کر چکے تھے۔ گویا اطاعت میں برکت ہے اور سنتے ہی اطاعت کرنے میں خاص برکت رکھی گئی ہے۔
آج ہم احمدی وہ خوش نصیب قوم ہیں جو خلافت کی برکت سے نبوت کے چشمےسے سیراب ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے امام کی آواز کو سنیں اور اس پر لبیک کہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے حضورِ انور بڑے تواتر سے ہماری توجہ دعاؤں کی طرف مبذول کروا رہے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم حضورِ انور کے ارشاد پر بلاتوقف لبیک کہتے ہوئے دعاؤں میں لگ جائیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو طلب کریں۔ اگر ہم پورے دل اور پوری جان اور حسنِ نیت سے ایسا کرنے لگ جائیں تو امامِ وقت کی اطاعت کی برکت سے خدا تعالیٰ ہمارے لیے تاریخ دہرائے گا، خود ہمارے لیے راستے ہموار کرتا چلا جائے گا اور ہم بھی اپنے امام کی اقتدا میں اپنی عاجزانہ اور حقیرانہ دعاؤں کی قبولیت کی بدولت اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضلوں کو آسمان سے نازل ہوتا دیکھیں گے جس طرح ماضی میں اللہ کے پیارے دیکھتے تھے۔ ان شاء اللہ العزیز
خدا کا ہے وعدہ خلافت رہے گی
یہ نعمت تمہیں تا قیامت ملے گی
مگر شرط اس کی اطاعت گزاری
رہے گا خلافت کا فیضان جاری
٭…٭…٭
جزاک اللہ عمدہ سیر حاصل مضمون