رمضان کی عبادتیں مشکلات سے بچنے کا ذریعہ ہیں
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰٰ عنہ فرمودہ ۳۱؍جولائی ۱۹۱۴ء)
مومن رمضان میں پانی پینا خدا تعالیٰ کے لئے ترک کرتا ہے۔ بیوی کے تعلقات خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑتا ہے۔ اپنی نیند کو قربان کر کے خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاتا ہے۔ یہ خداتعالیٰ انسان کو نمونہ دکھاتا ہے کہ تم ایک مہینہ مشق کر کے دیکھ لو تاکہ اگر تمہیں کہیں یہ باتیں پیش آئیں تو آسانی سے کر سکو
۱۹۱۴ء کےاس خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے رمضان کی عبادت کے فلسفہ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس کی عبادات بطور مشق کے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔حضورؓ نے جماعت کو قیام اللیل کرنے کی بھی نصیحت فرمائی۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ (البقرة : ۱۸۴)
اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان، کس قدر فضل اور کس قدر رحمت ہے کہ اس نے مسلمانوں پر جو شریعت نازل فرمائی ہے اور جو آنحضرتﷺ کے ذریعہ عمل کرنے کے لئے احکام اتارے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ناقابل عمل ہو۔ بلکہ ہر ایک وہی حکم دیا ہے جسے انسان آسانی سے کر سکتا ہے۔ کھانا پینا انسان کے لئے ایسے لازمی اور ضروری حوائج ہیں کہ اگر انسان کو کہا جائے کہ تم کو یہ ایک مدت تک چھوڑنے پڑیں گے تو وہ یہ سن کر گھبرا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کیا لطیف پیرائے میں یہ بات بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اے مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ یہ حکم سن کر ممکن تھا کہ لوگ گھبرا جاتے کہ کس طرح ہم کھانا پینا اور ایک حد تک بولنا، عورتوں سے تعلق رکھنا قطع کر سکیں گے۔ اس لئے فرمایا۔ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ۔ یہ کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ کوئی اس کو کر نہ سکے۔ یہ حکم تو ہم پہلے بندوں کو بھی دیتے آئے ہیں اس لئے تمہارے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔
قرآن شریف کا یہ ایک معجزہ ہے
کہ جو حکم دیتا ہے اس حکم کی وجہ سے جو خطرات اورمشکلات انسان کے دل میں پیدا ہونے ہوتے ہیں ساتھ ہی ان کا جواب دے دیتا ہے تو جہاں یہ حکم دیا کہ اے مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں وہاں ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ ممکن ہے تمہیں یہ بات بڑی معلوم ہو کہ کس طرح کھانا پینا اور بہت حد تک بولنا اور عورت سے صحبت کرنا ترک کر سکیں گے اور فطرتاًتمہیں یہ خیال پیدا ہوا ہو گا لیکن دراصل یہ کوئی ایسا حکم نہیںجس پر تم عمل نہ کو سکو۔اس حکم پر تو تم سے پہلےلوگ بھی عمل کرتے آئے ہیںاور وہ ایک ایسا مجرب نسخہ ہےکہ اگر تم اس پر عمل کرو گےتو متقی ہو جاؤ گے۔
انسان کے عمل مشق اور اس کی طاقتوں کے مطابق ہوتے ہیں۔ ایک انسان جو بہت سوتا ہے اس کی عادت ہی زیادہ سونے کی ہو جاتی ہے لیکن اگر وہ اپنے سونے کو کم کرنا چاہے تو کم بھی کر سکتا ہے۔ پس بہت حد تک انسان کی ایسی طاقتیں ہوتی ہیں کہ جیسی ان کو مشق کرائی جائے ویسا ہی وہ کام دینے لگ جاتی ہیں اس لئے جو شریعتیں آتی ہیں وہ انسان کے اندر ایسے جوارح پیدا کردیتی ہیں کہ جن کے مشق کرنے کی وجہ سے انسان کسی موقع پر بھی مشکلات اور مصائب کا شکار نہیں ہو سکتا۔
خدا تعالیٰ کے لئے کھانا ترک کرنا اس بات کی مشق ہوتی ہے کہ کبھی مصیبت آپڑے تو کوئی پرواہ نہ ہو۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے لئے پانی پینا، عورت سے صحبت کرنا چھوڑنا اور راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرنا ان باتوں کے لئے تیار کرنا ہے کہ اگر کوئی ایسی تکلیف اٹھانی پڑے اور کچھ چھوڑنا پڑے تو انسان گھبرائے نہیں۔ ماہ رمضان میں مومن محض خدا تعالیٰ کے لئے کھانا چھوڑتا ہے جو کہ اس بات کا نمونہ ہے کہ اگر کبھی اسے خدا کی راہ میں کچھ چھوڑنا پڑے تو وہ ضرور چھوڑ دے گا۔ مومن رمضان میں پانی پینا خدا تعالیٰ کے لئے ترک کرتا ہے۔ بیوی کے تعلقات خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑتا ہے۔ اپنی نیند کو قربان کر کے خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاتا ہے۔ یہ خداتعالیٰ انسان کو نمونہ دکھاتا ہے کہ تم ایک مہینہ مشق کر کے دیکھ لو تاکہ اگر تمہیں کہیں یہ باتیں پیش آئیں تو آسانی سے کر سکو۔
ہر انسان کو مشق کرانے کی ضرورت
دنیا کی سب گورنمنٹوں میں کچھ اس قسم کی فوجیں ہیں جو کہ سارا سال کام کرتی ہیں اسی طرح مومنوں میں بھی ایک گروہ ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ(ال عمران:۱۰۵) اور گورنمنٹوں کی ایک ریز رو فوج ہوتی ہے جو کہ سال میں ایک یا دو مہینے کام کرتی ہے۔ اور جب جنگ کا موقع ہوتا ہے تو چونکہ ان کو مشق کروائی ہوئی ہوتی ہیں اس لئے فوراً ان کو بلا لیا جاتا ہے۔ چونکہ عام طور پر تمام مسلمان بارہ مہینے روزے نہیں رکھتے اور نہ ہی تہجد پڑھتے ہیں اس لئے رمضان میں خصوصیت فرمادی کہ تمام مسلمان اس ایک ماہ میں مشق کریں۔ گو خداتعالیٰ کا ایک گروہ ایسا بھی ہوتا ہے جو سارا سال ان باتوں میں لگا رہتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم یہ مشق کرو تاکہ تم مشکلات سے بچ جاؤ۔ جس گورنمنٹ کی فوج مشق کرتی رہتی ہیں وہ دشمن سے شکست نہیں کھاتی۔ اسی طرح جس قوم کے لوگ متقی اور نیک ہوتے ہیں۔ اور جو خداتعالیٰ کے لئے ہر ایک چیز کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں شیطان کی مجال ہی نہیں ہوتی کہ ان کو زک دے سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان دنوں میں جو جماعت بدی سے بالکل محفوظ رہتی ہے اس پر شیطان کو حملہ کرنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ
شیطان بھی پلید اور ناپاک دلوں پر ہی حملہ کرتا ہے
ایک شرابی دوسرے شرابی کو ہی شراب پینے کے لئے کہے گا لیکن اس کو یہ کبھی جرأت نہیں ہوگی کہ کسی متقی کو کہے۔ تو جب تمام جماعت متقی ہو جاتی ہے تو شیطان بھی حملہ نہیں کر سکتا۔ فرمایا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو شیطان کے حملوں سے بچ جاؤ گے۔ چونکہ تم میں سے ہر ایک فرد سپاہی ہوگا اور اس نے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے مشق کی ہوئی ہوگی۔ اس لئے شیطان کو حملہ کرنے کی جرأت ہی نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک مسلمان تمام سپاہی تھے شیطان نے ان پر کوئی حملہ نہیں کیا لیکن جب خال خال رہ گئے تو اس وقت ان پر حملہ کیاگیا۔ اور شیطان نے ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ان کو تباہ کردیا۔ ایک زمانہ تو ایسا ہوتا ہے کہ جب خاص خاص لوگ خدا تعالیٰ کے حضور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرتے ہیں لیکن یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فضل اور کرم ہے کہ اس نے ایک ایسا موقع بھی رکھ دیا ہے جس میں سب لوگ مل کر رات کو عبادت کرسکتے ہیں۔ کیونکہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو کہ ہمیشہ رات کو نہیں اٹھ سکتے۔ چنانچہ بعض مزدوری پیشہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ دن کو محنت کرتے ہیں اس لئے رات کو ان کا اٹھنا مشکل ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے ایسے لوگوں کو اجازت دے دی تھی کہ ہمیشہ تہجد نہ پڑھا کرو مگر رمضان میں تو سب کو اٹھنا پڑتا ہے اس لئے مل کر سب کی دعائیں اس وقت جب کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں قبول کرتا ہوں قبولیت کے درجہ کو پہنچ جاتی ہیں۔ چنانچہ روزوں کے ساتھ ہی خداتعالیٰ فرماتا ہے:وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنّى فَإِنّى قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُو الي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرۃ:۱۸۷)ہے۔روزوں کے مبارک دن ہوتے ہیں۔ پس مبارک ہے وہ انسان جو ان سے فائدہ اٹھائے۔
آنحضرتﷺ کے وقت میں تہجد کی جماعت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں صحابہ نے پسند کیا کہ بعض لوگ چونکہ سست ہوتے ہیں اس لئے جماعت سے مل کر وہ بھی پڑھ لیا کریں گے۔ پس بہتر ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے نفسوں سے ڈرتے ہیں اور سحری کھانے سے پہلے پچھلی رات یا پھر پہلی رات ہی باجماعت پڑھ لیا کریں اور جن کو اپنے نفسوں پر قابو ہے وہ الگ گھر میں پڑھ لیا کریں۔ اصل مدعا تو قرآن کریم کا پڑھنا اور دعاؤں میں مشغول رہنا ہے۔ گھر میں بھی لمبی لمبی سورتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس زمانہ میں ہمارے لئے بہت سی مشکلات ہیں۔ دنیا کے مقابلہ میں پہلے ہی ہماری جماعت ایک قلیل جماعت تھی لیکن اب تو اس میں سے بھی کچھ حصہ الگ ہو گیا ہے۔ پہلے ہم غیر احمدیوں کے حملوں کو اندرونی حملے کہا کرتے تھے لیکن اب تو اندرونی در اندرونی شروع ہو گئے ہیں اس لئے جو شخص باوجود دشمنوں کے تین حلقوں سے گھرا ہوا ہونے کے آرام سے سوتا ہے وہ بیوقوف ہے اور خصوصاً اس وقت جب کہ اسے جاگنے اور دشمن کے مقابلہ کے لئے تیاری کرنے کا موقع بھی مل جائے۔ تم ان دنوں میں خوف خدا کو مد نظر رکھ کر دعائیں کرو تاکہ خدا تعالیٰ اس اندرونی فتنہ کو دور کردے۔ تم خوب سمجھ رکھو کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کے بغیر نہ کبھی پہلے کچھ ہوا اور نہ اب ہوگا۔ تمہارے پاس فوج، لشکر، عزت، دولت، آلات وغیرہ کچھ نہیں جس سے تم نے تمام دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تمہاری کامیابی کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اگر اس کو پکڑ لوگے تو کامیاب ہو جاؤ گےاور وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی چوکھٹ کو پکڑ لو۔اور اسی کے آگے عرض کرو کہ ہمیں تمام دشمنوں سے بچائیے۔ ایک ڈاکو اسی وقت تک کسی کے مال پر حملہ کرتا ہے جبکہ وہ پولیس کے ہیڈ کوارٹر سے دور ہوتا ہے اور اگر تھانے کے پاس ہو تو وہ حملہ نہیں کرتا۔ تم بھی خدا تعالیٰ کے حضور گر جاؤ اور اس کی چوکھٹ کو پکڑ کر اس سے پناہ مانگو پھر تم پر کوئی حملہ نہیں کر سکے گا اور اگر کرے گا تو اس بادشاہوں کے بادشاہ کے سپاہی اس کو خود پکڑ کر سزا دیں گے۔ یہ دن ضائع مت کرو فتنے بند نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں، مصائب کم نہیں ہو رہے بلکہ زیادہ ہو رہے ہیں اس لئے تم سستی نہ کرو۔مسلمانوں کی تاریخ پڑھ کر حیرانی آتی ہے کہ عین جنگ کے موقع پر بھی باقاعدہ تہجد پڑھتے تھے۔
سارا دن لڑائی میں مشغول رہتے اور رات کو بجائے سونے کے خدا تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے
جنگ یرموک میں عیسائی بادشاہ نے اپنے ایک آدمی کو کوئی بات دریافت کرنے کے لئے رات کو مسلمانوں کے لشکر میں بھیجا۔ تو اس نے واپس آکر کہا کہ ہم کبھی ان پر غالب نہیں آسکتے۔ ہمارے سپاہی تو راستہ میں ہی کمریں کھولنی اور ہتھیار اتارنے شروع کر دیتے ہیں تاکہ چل کر جلدی آرام کریں۔ لیکن وہ تو رات کو بھی دعاؤں اور خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ تم خدا تعالیٰ کا نام لو۔کون پسند کرتا ہے کہ اس کا نام مٹادیا جائے۔ نام کے بقاء کے لئے ہی لوگ اولاد کے متمنی ہوتے ہیں تو جب کمزور انسان پسند نہیں کرتا کہ اس کا نام مٹ جائے تو وہ بڑی قدرتوں اور طاقتوں والا خدا کب پسند کر سکتا ہے کہ اس کا نام مٹ جائے اگر تم خدا تعالیٰ کے نام لیوا ہوگے تو تمہارا مٹانا خدا کے نام کا ہی مٹانا ہو گا۔ پس اس کی چوکھٹ پر گر جاؤ اور دعاؤں میں لگے رہو۔ ممکن ہے کہ تم میں سے کسی کی دعا قبول ہو جائے اور یہ موجودہ فتنہ دور ہو جائے۔ اس رمضان سے بہت سے فوائد حاصل کر کے گزرو اور خدا تعالیٰ کی عبادت کرو۔ جب تمہارے ذریعہ خدا تعالیٰ کا نام روشن ہوگا اور تم اس کے دروازے پر جھک جاؤ گے تو کوئی تمہیں تباہ نہیں کر سکے گا۔ اور اگر تم اس کے دروازے سے ہٹ جاؤ گے تو اس کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں وہ کسی اور قوم کو بھیج دے گا۔ کیونکہ وہ ہمارا محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں۔ ایک باغبان باغ میں درخت لگاتا ہے لیکن جو بے پھل درخت ہوتا ہے اس کو کاٹ دیتا ہے تاکہ وہ بے فائدہ جگہ کو نہ گھیرے رہے اور پھر وہ جلانے کے کام آتا ہے۔ تو یہ باغ مسیح موعود علیہ السلام نے لگایا ہے۔ اگر یہ پھل نہ دے گا تو اور باغ لگایا جائے گا۔ پس جو کوئی اس باغ میں بے پھل کھڑا ہے اس کو بہ نسبت اس کے جو کہ جنگل میں کھڑا ہے زیادہ ڈرنا چاہیے کیونکہ جنگل میں بے پھل اور خاردار درخت بھی کھڑے رہ سکتے ہیں لیکن باغ میں ایسے درختوں کو ضرور کاٹ دیا جاتا ہے۔ تم اس باغ کے درخت ہو تمہارے لئے اوروں کی نسبت زیادہ خطرے کی بات ہے اس لئے جو کوئی تم میں سے اپنے اندر بے پھل یا خاردار درخت کی ایسی خصلتیں دیکھتا ہے وہ تبدیلی پیدا کرے۔
تم روزوں میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاؤ تاکہ تمہارے لئے عید خوشی کا موجب ہو۔ عید کی تمہیں اس لئے خوشی نہ ہو کہ اس دن کھاؤ پیو گے بلکہ اس دن خداکی خاص رحمتوں کے پھل اور میوے کھاؤ گے۔ عید کا دن تمہارے لئے اس لئے خوشی کا دن نہ ہو کہ دوستوں اور عزیزوں سے ملو گے بلکہ اس لئے کہ خدا کی اَور مخلوق اس دن تم سےمل جائے۔
یہ بہت بابرکت مہینہ ہے جو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے گا اس پر خدا کی بڑی بڑی برکتیں اور رحمتیں نازل ہوں گی۔
(الفضل ۶؍اگست ۱۹۱۴ء)
٭…٭…٭