خودی…انسان کی دشمن
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَاسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَلَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ ؕ وَکَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُجۡرِمِیۡنَ۔(سورۃ الاعراف: ۴۱)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’وَلَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ یعنی کفار جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ گزر جائے۔ مفسرین اس کا مطلب ظاہری طور پر لیتے ہیں مگر میں یہی کہتا ہوں کہ نجات کے طلب گار کو خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے شتر بے مہار کو مجاہدات سے ایسا دبلا کر دینا چاہیے کہ وہ سوئی کے ناکے میں سے گزر جائے…دنیوی لذات پر موت وارد کرو اور خوف و خشیت الٰہی سے دبلے ہو جاؤتب تم گزر سکو گے اور یہی گزرنا تمہیں جنت میں پہنچا کر نجات اخروی موجب ہو گا۔‘‘(الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ مورخہ ۳۱؍مئی ۱۹۰۳ء )
سب سے بڑا دشمن انسان کےکبر و غرور کا شتر بے مہار ہے جو انسان کو عافیت کے حصار سے تباہی کے خار زار کی طرف لے جاتا ہے کہ انسان عبرت کی تصویر بن جاتا ہے۔ اس کی مثالیں ہمیں میدان روحانیت میں بھی نظر آتی ہیں اور کارزار سیاست میں بھی۔ جہاں تک میدان روحانیت کا تعلق ہے تو اس کی ایک مثال میر عباس علی ہیں۔ میر عباس علی صاحب کا بیعت اولیٰ میںجو ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں ہوئی دوسرا نمبر تھالیکن ان کے اس روحانی مرتبہ کو کس طرح کبر و ریا کا کیڑا کھا گیا عبرت کی ایک مثال ہے۔ مباحثہ لدھیانہ کے دنوں میں مولوی محمد حسین صاحب سے جو پرچہ نقل کے بعد منگوایا جاتا تھا وہ لینے کے لیے میر صاحب ہی جاتے تھے۔ …مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی محمد حسن صاحب انہیں پھانسنے کے لیے بڑی تواضع کرتے اور جب جاتے تو سر و قد تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے اور کہتے میر عباس علی صاحب تم تو سید ہو آل رسول ہو تمہارا تو وہ مرتبہ ہے کہ لوگ تم سے بیعت ہوں مگر افسوس تم مرزا صاحب کے مرید ہو گئے۔ امام مہدی تو سیدوں میں سے ہوگا یہ مغل کہاں سے بن گیا۔ یہ دونوں مولوی میر عباس علی صاحب کے ہاتھ چومتے اور دو ایک روپیہ نذرانہ بھی دیتے اور کہتے کہ تمہاری شان تو وہ ہے کہ تم درود میں شریک ہو مگرافسوس تم کس کے مرید ہو گئے۔(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ۴۱۲)
’’میر عباس علی پھول کر کپا ہو گئے اور ان کے اعتقاد میں تزلزل واقع ہو گیا۔ اب تک تو ان کی نسبت سادات مشتبہ تھی۔ ان دونوں مولویوں نےجب ان کے سیّد ہونے پر مہر لگا دی تو بہت خوش ہوئے نتیجہ یہ کہ ایک روز مخالفت کی ہوا میں بھرے ہوئے حضرت اقدس کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں تو تمہارا مرید ہو کر شرمندہ ہوا تم نے ایسا دعویٰ کر دیا کہ جس سے ہمیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا ’’میر صاحب میں نے جھوٹا دعویٰ نہیں کیا اللہ تعالیٰ میری بات پر گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو مسیح موعود اور مہدی موعود کہا اور میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اور قسم کھا کر کہ اس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہتا ہوں کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور سچا اور راست گو ہوں۔ کیا اتنے روز سے تم نے میر اکوئی جھوٹ سنا یا مجھ کو جھوٹ بولتے دیکھا یا میں نے کوئی افترا کیا یا کوئی منصوبہ باندھا ، اس تقریر کو سن کر حضرت مولانا نورالدین پر ایک وجد کی حالت طاری ہو گئی … لیکن میر عباس علی برابر نہایت ترشروئی سے انکار کرتا گیا۔ حضرت اقدس بڑی مضبوط اور مدلل تقریر فرماتے رہےاور سخت سے سخت خدا تعالیٰ کی قسمیں کھا کر نہایت نرمی سے سمجھاتے رہے۔ مگر جیسے جیسے حضرت اقدس نرمی اور شفقت فرماتے گئے۔ میر عباس علی کی شوخی اور گستاخی بڑھتی گئی یہاں تک کہ وہ بہت حد سے بڑھ گیا۔ حضرت اقدس نے تو کچھ نہ کہا مگر مولوی عبدالکریم صاحب سے ضبط نہ ہوسکا انہوں نے ایک ڈانٹ پلائی کہ او گستاخ خدا کا مامور اور مسیح تو اس نرمی اور شفقت سے بات کر رہا ہے اور تو اس قدر شوخی اور گستاخی سے کلام کرتا ہے کہ حد سے گزرگیا ہے۔ چل دفع ہو یہاں سے جا کر ان دونوں دابۃ الارض مولویوں سے اپنے ہاتھ چوموا جنہوں نے تجھے سید بنایا ہے۔ میر عباس علی یہ ڈانٹ سن کر کافور ہو گیا اور اٹھ کر چل دیا اور روز بروز قاسی القلبہوتا گیا یہاں تک کہ اس نے مخالفت میں ایک اشتہار بھی نکالا آخر کار ذلت کی موت مرا اور یہی دوسرے مخالف مولویوں کا انجام ہوا۔‘‘(ڈاکٹر بشارت احمد : مجدد اعظم بار اول : ۱۹۳۹ صفحہ ۲۶۷)
یعنی وہ شخص جس کا حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی بیعت کرنے میں دوسرانمبر تھا محض کبر و غرور کی وجہ سے قعر مذلت میں گر گیا اور آج اس کا نشان تک باقی نہیں ہے۔ بندہ کو ہر وقت خبردار رہنا چاہیے۔
حضرت ابو سعید ابو الخیر کے بارے میں تصوف کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ’’ایک مرتبہ خواجہ مظفر خداوندی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حضرت شیخ کا ذکر ہوا خواجہ نے کہا مجھ میں اور شیخ ابوسعید میں یہ نسبت ہے کہ جس طرح پیمانہ میں ایک دانہ ہو اور وہ دانہ شیخ ابو سعید ہے حضرت شیخ کے مریدین و مخلصین نے جب یہ سنا تو ان کو ناگوار گزرا اور حضرت شیخ سے یہ واقعہ حاضر ہو کر عرض کیا۔ حضرت شیخ نے فرمایا خواجہ سے جا کر کہو وہ ایک دانہ بھی تو ہی ہے میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ … حضرت شیخ نے فرمایا حق تعالیٰ اور بندہ کے درمیان حجاب آسمان، زمین عرش و کرسی نہیں بلکہ خود انسان کی خودی حجاب ہے۔ چاہیے کہ اس خودی کو درمیان سے اٹھائے تاکہ شاہد حقیقی جلوہ گر ہو۔(مولوی مقصود احمد: منظوم ترجمہ رباعیات حضرت ابو سعید ابو الخیر صفحہ ۸)یعنی ایک شخص خودی بڑھا کر گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گیا اور ایک وجود خودی مٹا کر آسمان روحانیت کا تابندہ ستارہ بن گیا۔
یارو خودی سے باز بھی آؤ گے یا نہیں