رمضان المبارک اور دعا کا باہمی تعلق
رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے۔دعاؤں کا مہینہ ہے(حضرت اقدس مسیح موعودؑ)
اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو
اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے۔اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ایک مرتبہ پھر یہ موقع دیاکہ وہ اپنی اپنی استعدادوں اور طاقتوں کو بروئےکار لاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کر کے رضائے باری تعالیٰ حاصل کرنے والے ہوں۔ روزہ بدنی عبادات کی معراج ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے رمضان کو تمام مہینوں کا سردار قرار دیا ہے۔(کنز العمال)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔صلوٰة تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خد اکو دیکھ لے۔(ملفوظات جلد۲صفحہ۵۶۱-۵۶۲،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
یوں تو ہر آن خدا تعالیٰ کی رحمت اور شفقت کا در کھلا رہتا ہے۔مخلوق خدا کی فریادیں،اخلاص سے کی جانے والی عبادات اور دعائیں خداکی بارگاہ میں مقبولیت کا درجہ پا سکتی ہیں لیکن رمضان المبارک کا دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ ایک خصوصی اور اٹوٹ رشتہ ہے جس کا کسی اَوروقت سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس مہینے میں رحمت الٰہی خاص جوش مارتی ہے اور ہر کس و ناکس کو فیض یاب کرتی ہے۔پس یہ سعادت ماہ صیام کوہی ملی کہ باری تعالیٰ نے خود فرمایا کہ مجھ سے مانگو کہ میں تمہاری التجاؤں، دعاؤں،تضرعات اور استغفار کو سنوں اور انہیں قبول کروں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے:وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ(البقرة:۱۸۷)اور جب میرے بندے تجھ سے میرےمتعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اگر لوگ یہ سوال کریں کہ روزوں سے کیا فائدہ ہوتا ہے تو ایک تو یہاں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرة:۱۸۴)اور دوم یہ کہ انسان کو خدا کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بہت قریب ہو جاتا ہوں اور دعائیں قبول کرتا ہوں۔(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ۳۰۷تا۳۰۸)
رمضان کا آخری عشرہ اور لیلة القدر
رمضان کی ایک عظیم الشان سعادت لیلة القدر ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عبادتوں کو قبول فرماتا ہے اور بےقرار دعاؤں کوسنتا ہے۔ فرمایا: لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيْهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍٍ(سورة القدر۴-۵)ترجمہ: لیلةالقدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں فرشتے اور رو ح القدس اپنے رب کے حکم سےبکثرت نازل ہوتے ہیں، ہر معاملہ میں۔
درحقیقت لیلة القدر کی فضیلت کا ذکر کیا جانا اس با ت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہے کہ وہ رمضان میں اپنی راتوں کو زندہ کریں اور ابتہال سے خدا کے حضور گڑگڑا ئیں او ر رحمت و مغفرت کے طلبگار ہوں تا رحمت الٰہی جوش مارے اور عنایتوں کی موسلادھار بارش عاجز بندوں کو ابر رحمت سے سر شار کر دے۔
رمضان اور قبولیت دعا
احادیث مبارکہ میں رسول مقبولﷺ نے جن اوقات کو دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ نتھی فرمایا ہے ان میں خصوصیت سے رمضان کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ عن عبادة بن الصامت، أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال يومًا وحضر رمضان: أتاكم رمضان شهر بركة، فيه خير يغشيكم اللّٰه فيه، فتنزل الرحمة، وتحط الخطايا، ويستجاب فيه الدعاء (معجم کبیر)حضرت عبداللہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک رو ز جبکہ رمضان کا آغاز ہوا تھا فرمایا:رمضان کا مہینہ آگیا ہے۔ یہ برکتوں والا مہینہ ہے۔اس میں خیر ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت اور بخشش سے تمہیں اس مہینہ میں ڈھانپ لے گا۔وہ تم پر اپنی خصوصی رحمت ناز ل کرے گااور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور اس مہینہ میں دعاؤں کو خصوصیت سے قبول کرے گا۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تین دعائیں مقبول ہیں۔(۱) والدین کی دعا اولاد کے حق میں(۲)روزہ دار کی دعا اور (۳)مسافر کی دعا۔
دیگر احادیث میں رمضان المبارک کی مخصوص گھڑیوں کا ذکر فرمایا کہ ان میں بالخصوص دعائیں قبول ہوں گی۔ رمضان کی راتوں کی دعاؤں کے متعلق فرمایا:رمضان المبارک کی ہر رات اللہ ایک منادی کرنے والے فرشتے کو عرش سے فرش پر بھیجتا ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ۔کیا کوئی ہے جو دعا کر ے اور اس کی دعا قبول کی جائے؟کیا کو ئی ہے جو استغفار کرے اور ا س کو بخش دیا جائے؟کیا کوئی ہے جو توبہ کرے اور اس کی توبہ قبول کی جائے؟کیا کوئی ہے جو سوال کرے اور اس کے سوال کو پورا کیا جائے۔(شعب الایمان باب فضائل الصوم)
وقت افطار کے متعلق فرمایا:روزے دار کے لیے اس کی افطاری کے وقت کی دعا ایسی ہےجو ردّ نہیں کی جاتی۔(کتاب الصیام، باب فی الصائم لا ترد دعوتہ)
رمضان المبارک اور استغفار
احادیث سے ثابت ہے کہ رمضان میں اللہ تعالیٰ اپنی بخشش کے دروازے لامحدود کر دیتا ہے۔حضرت عمرؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس مہینے اللہ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔(مجمع الذوائد،کتاب الصیام باب فی شہور البرکة)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضورﷺ سے سنا آپؐ فرما رہے تھے۔ رمضان آگیا ہے اور اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے مقفل کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو اس میں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لیے جس نے رمضان کو پایااور اسے بخشا نہ گیا۔ اور وہ رمضان میں نہیں بخشا گیا تو پھر کب بخشا جائے گا۔(الترغیب والترھیب۔ کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان)
حضرت مسیح موعودؑ کا روزوں کا عظیم مجاہدہ قبولیت دعااور تجلیات الٰہیہ کے نظارے
اذن الٰہی کے ماتحت حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے دعویٰ ماموریت و مہدویت سے کئی سال قبل ۱۸۷۵ء میں آٹھ نو ماہ تک مسلسل روزے رکھے۔روزوں کا یہ مجاہدہ بالکل مخفی طور پر کیا گیا۔ حضورؑ اپنے گھر سے آنے والے کھانے کوبچوں اور غرباء میں تقسیم فرما دیتے اور محض چند لقمے یا چنے کھا کر گزارا کرتے تھے۔آپ ہمہ وقت تنہائی میں عبادات اور دعاؤں میں منہمک رہا کرتے تھے۔یہ انوار الٰہیہ کی بارشوں کے دن تھے۔ آپ نے روزوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی مختلف تجلیات کا مشاہدہ فرمایا۔ گذشتہ انبیاء،رسول اللہﷺ اور متعدد بزرگان سلف سے کشفاً ملاقات کی سعادت ملی۔یہ تمام برکات اور سعادت روزوں اور دعاؤں کا نتیجہ تھی۔(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ۱۲۸-۱۲۹)
حضرت مسیح موعودؑ کی رمضان المبارک میں صحابہؓ کے لیےخصوصی دعائیں
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رمضان میں خصوصیت سے جماعت اور صحابہ کرامؓ کے لیے بکثرت دعائیں فرمایا کرتے تھے۔ایک واقعہ ملتا ہے جب ایک صحابی حضرت سیٹھ عبد الرحمٰن صاحبؓ مدراسی (جو کہ قادیان آئے ہوئے تھے )نے اپنے کسی ضروری کام کے لیے مدارس واپس جانے کی جازت طلب کی کیونکہ ان کو واپسی کے لیے تار بھی آیا تھا۔اس پر حضرت مسیح موعودؑنے فرمایا:آپ کا اس مبارک مہینہ(رمضان)میں یہاں رہنا از بس ضروری ہے۔ اور فرمایا: ہم آپ کے لئے وہ دعا کرنے کو تیار ہیں جس سے باذن اللہ پہاڑ بھی ٹل جائے۔ فرمایا:آجکل میں احباب کے پاس کم بیٹھتا ہوں اور زیادہ حصہ اکیلا رہتا ہوں۔یہ احباب کے حق میں از بس مفید ہے۔میں تنہائی میں بڑی فراغت سے دعائیں کرتا ہوں اور رات کا بہت سا حصہ بھی دعاوٴں میں صرف ہوتا ہے۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ۳۱۱،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حضرت مصلح موعود کی صحت کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کے خصوصی روزے اور دعائیں
حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۸؍دسمبر ۱۹۴۴ء کو جلسہ سالانہ کے اختتامی خطاب بعنوان الموعود میں فرمایا:میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا ہے۔ آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں اس لئے آپ کا طریق تھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اورفرماتے میاں !میں پڑھتا جا تا ہوں تم سنتے جاؤ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت ککرے پڑ گئے تھےاور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف ککروں کی وجہ سے پیدا ہوئی کہ ڈاکٹروں نے کہا اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے میری صحت کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کردیں اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے شروع کردیے۔ مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے۔ بہر حال تین یا سات روزے آپ نے رکھے۔جب آخری روزے کی آپ افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لئے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نےآنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آ نے لگ گیا ہے۔( الموعود، انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ۵۶۵-۵۶۶)
قبولیت دعا کی شرائط
رمضان المبارک میں دعاؤں کی قبولیت کی نوید کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ بالا(البقرة:۱۸۷)میں قبولیت کی شرائط بھی بیان فرمائیں جو کہ درج ذیل ہیں:
۱۔ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ: قبولیت دعا کی اولین شرط اطاعت باری تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی روح کو سمجھ کران پر عمل کرنا۔ اپنی ہر حرکت و سکون، نشست و برخاست۔کلام و طعام،محبت و الفت کو اللہ کی رضا کے لیے اس کے حکم کے تابع کرنا ہی استجابت دعا کا زینہ ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ہماری زبان پر خدا کا نام اور التجا ہو اور دل غیر اللہ کی مدد کا بھی طلبگار ہو۔ اللہ تعالیٰ سینوں میں پوشیدہ باتوں سے بھی باخبر ہے۔ ہمارے ہر فعل کی مخفی نیت کو بھی جاننے والا ہے۔ پس ہر حکم خداوندی کی اطاعت اولین شرط ہے۔
۲۔وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ: قبولیت دعاکی دوسری مذکورہ شرط اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات پر کما حقہ ایمان لانا ہے۔ محض زبان سے خدا پر ایمان کا اقرار کافی نہیں جب تک مومن کے جسم و جان کا ذرہ ذرہ خدا پر ایمان کی گواہی نہ دے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ خدا پر پختہ ایمان کہ خدا ہی میری دعا قبول کر کے میرے لیے وسائل و اسباب مہیا کر سکتا ہے قبولیت دعا کی بنیاد ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:بہت سے لوگ دعا کو ایک معمولی سی چیز سمجھتے ہیں سو یاد رکھنا چاہیے کہ دعا یہی نہیں کہ معمولی طور پر نماز پڑھ کر ہاتھ اٹھا کر بیٹھ گئے اور جو کچھ آیا منہ میں سے کہہ دیا۔اس دعا سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔کیونکہ یہ دعا نری ایک منتر کی طرح ہوتی ہے۔نہ اس میں دل شریک ہوتا ہے نہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر ایمان ہوتا ہے۔یاد رکھو دعا ایک موت ہے۔اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بیقراری ہوتی ہےاس طرح دعا کے وقت بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہونا چاہیے۔(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ۱ول صفحہ۶۵۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہمیں یہ خوشخبری دی کہ میرے بندوں کو بتا دے کہ اے نبیؐ! مَیں ان کے قریب ہوں۔ دعاؤں کو سنتا ہوں۔ قبول کرتا ہوں۔ اور رمضان کے مہینے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر آ جاتا ہےیعنی اپنے بندوں کی دعاؤں کو بہت زیادہ سنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری دعائیں سنوں تو پھر تمہیں بھی میری باتوں کو ماننا ہو گا۔ مَیں نے جو احکامات دیے ہیں ان پر عمل کرنا ہو گا۔ صرف رمضان کے مہینے میں نہیں بلکہ ان نیکیوں کو مستقل زندگیوں کا حصہ بنانا ہو گا اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ پس قبولیت دعا کے لیے بھی بعض شرائط ہیں۔ پس ہم جب ان شرائط کے مطابق اپنی دعاؤں میں حسن پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے قریب اور دعاؤں کو سننے والا پائیں گے۔(الفضل انٹرنیشنل ۰۷؍مئی ۲۰۲۱ء)
خدا پر لازم نہیں کہ ہر دعا قبول کرے
اس آیت کریمہ سے کسی کو یہ مغالطہ بھی نہ لگے کہ اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ وہ ہماری ہر دعا کو قبول کرے۔ بسااوقات اللہ تعالیٰ جو کہ عالم الغیب ہے داعی کی خیر اور بھلائی کے لیے دعا قبول نہیں فرماتا۔ یہ ردّ دعا ہی دراصل اس کے لیے اجابت دعا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’میرے ساتھ میرے مولیٰ کریم کا صاف وعدہ ہے کہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ۔مگر میں خوب سمجھتا ہوں کہ کُل سے مراد یہ ہے کہ جن کے نہ سننے سے ضرر پہنچ جاتا ہے۔لیکن اگر اللہ تعالیٰ تر بیت اور اصلاح چاہتا ہے تو ردّ کرنا ہی اجابتِ دعا ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان کسی دعا میں ناکام رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دعا ردّ کر دی حالانکہ خدا تعالیٰ اس کی دعا کو سن لیتا ہے اور وہ اجابت بصورت رد ہی ہوتی ہے، کیونکہ اس کے لئے در پردہ اور حقیقت میں بہتری اور بھلائی اس کے رد ہی میں ہوتی ہے۔ انسان چونکہ کوتاہ بین ہے اور دور اندیش نہیں، بلکہ ظاہر پرست ہے ،اس لئے اس کو مناسب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے اور وہ بظاہر اس کے مفید مطلب نتیجہ خیز نہ ہو، تو خدا پر بدظن نہ ہو کہ اس نے میری دعا نہیں سنی۔ وہ تو ہر ایک کی دعا سنتا ہے۔(ملفوظات جلداوّل صفحہ۶۶-۶۷،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
رمضان المبار ک میں قبولیت دعا کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے چند عظیم الشان نشان
صداقت اسلام اور احمدیت کے متعدد عظیم الشان نشان رمضان المبارک میں ظاہر ہوئے۔ان میں سے چند ایک نشانات کا ضمناً ذکر کرنا مقصود ہے:
۱۔غزوہ بدر:غزوہ بدر کو قرآن کریم نے یوم الفرقان کے نام سے یاد فرمایا ہے۔صداقت اسلام کا یہ عظیم الشان نشان۲؍ ہجری۱۷؍ رمضان میں ظاہر ہوا۔ قرآن کریم اور تاریخ سے پتا چلتاہے کہ رسو ل اللہ ﷺ اور صحابہ کسی باقاعدہ جنگ کی نیت سے مدینہ سے باہر نہیں گئے تھے نہ ہی ان کی تیاری تھی۔ یہ غزوہ اللہ کی غالب تقدیر کے ماتحت ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی کمزور ترین جماعت کو کفار کی طاقتور ترین فوج کے سامنے لاکھڑا کرے اور معجزانہ طور پر فتح یاب کرے۔اللہ تعالیٰ نے دراصل مسلمانوں کو یہ بتایا کہ ا ن کی فتح فوجی اور انفرادی طاقت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے نتیجہ میں ہوئی ہے۔ اس جنگ سے قبل کی جانے والی رسول اللہﷺ کی متضرعانہ دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور کفار کو ایسی بد ترین شکست ملی کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ اپنی شان و شوکت قائم نہ رکھ سکے۔
۲۔فتح مکہ : رمضان المبارک میں ہونے والا دوسرا عظیم الشان نشان فتح مکہ ہے۔ اس کو قرآن کریم نے فتح مبین کے نام سے یاد فرمایا ہے۔یہ غزوہ ۲۰؍رمضان المبارک ۸؍ہجری کو پیش آیا۔رسو ل اللہ ﷺ نے کمال جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ فرمایا اور خاموشی سے مکہ کی سرحدوں پر پہنچ گئے۔ہزاروں صحابہ کرام کو دیکھ کر کفار کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور انہوں نے بغیر لڑائی کے ہتھیار ڈال دیے۔ رسو ل خدا ﷺ کو جس بستی سے نکال دیا گیا تھا، اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر نے رسول اللہﷺ کی دعاؤں کو سنا اور چند ہی سال کے بعد آپ کو واپس اسی بستی میں فاتح بنا کر لے آیا اور آپ کو مخالفین پر کامل فتح عطا فرما دی۔
۳۔کسوف و خسو ف کا نشان:رسول اللہﷺ نے اپنے بعدآنےوالے مہدی کی صداقت کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی کہ اس کے زمانے میں رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا۔ دار قطنی کی یہ روایت تمام عالم اسلام میں مشہور تھی۔حضرت مسیح موعودؑ کے ظہور سے قبل کئی مسلمان علماءاس نشان کے ظہور کی دعائیں کیا کرتے تھے تاکہ ان کو مہدی کی زیارت نصیب ہو۔جب حضرت اقدسؑ نے دعویٰ مسیحیت و مہدویت فرمایا تو بعض لوگوں نے حضورؑ سے بھی اس نشا ن کے متعلق استفسار کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق یہ نشان رمضان المبارک کے دوران ۱۸۹۴ءمیں ظاہر ہوا۔
۴۔تفسیر اعجاز المسیح: قرآن کریم کا نزول رمضان المبارک میں ہوا۔ اسی مناسبت سے حضرت اقدسؑ کے ہاتھ پر قرآن کی تفسیر کا ایک عظیم معجزہ رمضان میں ظاہر ہوا۔۱۹۰۰ء میں حضورؑ نے علمائے ہند اور خاص طور پر پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو قرآن کی منتخب آیات کی عربی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا جس پر کوئی مدمقابل نہ آیا۔ بعد ازاں پیر مہر علی شاہ حضور کو اطلاع دیے بغیر مباحثہ کی شرط لگا کر لاہور آ گیا اور جھوٹی خبر مشہور کرنا شروع کر دی کہ نعوذ باللہ حضرت اقدسؑ مقابلہ سے بھا گ گئے ہیں۔اس پر حضرت اقدسؑ نے دسمبر۱۹۰۰ء میں اس کوچیلنج دیا کہ اگر وہ عربی تفسیرلکھنے پر قادرہے تو میرے بالمقابل ستر ایام کے اندرسورة الفاتحہ کی عربی زبان میں تفسیر لکھ کر شائع کرے اور جن بلغاء و فصحائے عرب یا عالم کو چاہے اپنی مدد کے لیے بلا لے۔تفسیر لکھنے پر اس کو پانچ سو روپے انعام دینے کا بھی وعدہ فرمایا۔ اس کے بالمقابل حضرت اقدسؑ نے بھی رمضان المبارک میں سورة الفاتحہ کی معرکہ آرا تفسیر بموسوم اعجاز المسیح لکھنی شروع کی اور عین مدت کے اندر۲۳؍فروری۱۹۰۱ء کو شائع فرما دی۔ جبکہ مخالفین کے ہاتھ سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ نہ آیا۔حضرت اقدسؑ نے اللہ سے خبر پا کر اعلان فرمایا کہ مہر علی شاہ کو خدا نے آسمان سے تفسیر لکھنے سے محروم کر دیا ہے۔پھر فرمایا کہ اگر کوئی جواب لکھنا چاہے گا تو اس کا خاتمہ حسرت و ندامت سے ہوگا۔ایک مخالف مولوی محمد حسن فیضی نےا س کا جواب لکھنا چاہا تو ایک ہفتہ میں ہلاک ہو گیا۔
گھروں کی حفاظت دعاؤں میں ہے
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو۔ جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے بر باد نہیں کیا کرتا۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ۲۳۲،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
پس اللہ تعالیٰ نے ہم سب کوایک اور رمضان کی برکات سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں رمضان میں عبادات بجا لانے،دعائیں کرنے اور خدا کی راہوں کا متلاشی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)