رمضان المبارک کے بابرکت ایام اور ہم
یوں تو رمضان المبارک کے دن اور راتیں بھی عام دنوں ہی کی طرح ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماہ رمضان کا چاند نظر آتے ہی طبائع میں ایک ہلچل اور روحانی خوشی و شادمانی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو صرف محسوس ہو سکتی ہے،بیان نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ یہ راتیں اور یہ دن بھی عام ایام ہی کی طرح ہوتے ہیں لیکن ماہ صیام کا چاند طلوع ہوتے ہی انسان الرٹ ہو جاتا ہے اور پوری طرح سے اس کے لیے تیار رہتا ہے جیسے کہ قدیم زمانہ میں ریلوے اسٹیشن پر ریل کے آنے سے ذرا پہلے گھنٹی بجائی جاتی تھی کہ اب ریل آنے ہی والی ہے اور مسافر ریل پر سوار ہونے کے لیے مکمل طور پر تیار ہو کر کھڑے ہوجاتے تھے۔بعینہٖ یہی صورتحال ماہ رمضان کے چاند کی ہے۔ہر شخص کا مشاہدہ اس بات کی گواہی دے گا اور تصدیق کرے گا کہ اِدھر رمضان کا چاند دیکھا اُدھر رمضان کی غیر معمولی برکتوں کے نزول کا احساس ہونے لگا۔مسلم گھرانوں میں صبح کے وقت سحری کی تیاری،شام میں افطاری کی حرکات و سکنات، مساجد میں نماز تراویح کا باجماعت اہتمام، عام روٹین سے ہٹ کر کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت، فرائض و نوافل، نمازوں کی پابندی سے ادائیگی،صدقات،خیرات اور زکوٰۃ کی خوش دلی سے تقسیم وغیرہ وہ خارجی اثرات ہیں جنہیں روحانی برکتوں کے جلو میں مادّی آنکھیں بھی دیکھ لیتی ہیں۔اردگرد کے ماحول پر اس کے بڑے دیرپا اور گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ ہم نے سالہا سال سےمشاہدہ کیا ہےکہ باوجود عقائد میں اختلاف کے اکثرغیر مسلم بھی اس مبارک مہینے کا اسی طرح احترام کرتے ہیں جس طرح مسلم قوم کرتی ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ماحول نے اس قدر گہرا اثر کیا ہوتا ہے کہ بعض خواتین و حضرات ان میںروزہ بھی رکھتے ہیں۔ اور تو اور بعض حدیث شریف میں ذکر آتا ہے کہ ’’روزہ داروں کو افطاری کرانا موجب ثواب ہے۔‘‘ اور تو اور بعض غیر مسلم بھی اس پر عمل کرتے اور وہ رمضان کے مہینہ میں مساجد میں روزے داروں کی افطاری کا سامان وغیرہ پہنچاتے ہیں۔
روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ قریباً ہر قوم و مذہب میں اس کا رواج ہے۔گو کہ طریقہ کار الگ الگ ہے لیکن روزہ کا ذکر ملتا ہے اور اپنے طریق کے مطابق روزے بھی رکھتے ہیں لیکن اسلام ایساعالمگیر مذہب ہے جو ایک مکمل ضابطہ حیات اور کامل آئین دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس کی ہر عبادت کامل اور مکمل ہے۔ روزے میں طلوعِ فجر سے غروب آفتاب تک نہ صرف یہ کہ کھانا پینا ہی ممنوع قرار دیا گیا بلکہ ہر قسم کے جنسی تعلقات اور لغومشاغل سے بھی کنارہ کشی کی تاکید کی گئی اور تبتل الی اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک مہینہ تک مسلسل روزوں کی مشق کروا کر روزے دار سے یہ توقع کی گئی ہے کہ باقی ماندہ ایام میں بھی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو مشعلِ راہ بنائے۔ بھوک اور پیاس کے ذاتی تجربہ کے بعد اپنے غریب و مستحق بھائیوں کی ضروریات و غمخواری اور عملی طور پر مدد کرنے پر آمادہ ہوجائے۔قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو روزے کی فرضیت کا حکم دیا ہے اس کے الفاظ بھی بڑے پیارے نرالے اور انداز بیان بھی پُر اثر اور معنی خیز ہے۔ فرماتا ہے :یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ۔ (البقرۃ:۱۸۴-۱۸۵) اے مومنو! تم پر بھی روزوں کا رکھنا اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم تقویٰ کے اعلیٰ مقام کو حاصل کر سکو اور یہ گنتی کے دن ہیں۔
کس قدر لطیف اور اثر انگیز بیان ہے۔ جامع شرائط کے ساتھ روزوں کا اہتمام اور پھر پورے مہینہ پر پھیلی ہوئی مدت صیام کو جس انداز سے مومنوں کے سامنے رکھا گیا ہے وہ نہایت درجہ روح پرور ہے۔ کوئی بھی کام انفرادی صورت میں خواہ کیسا ہی سخت پُر مشقت کیوں نہ ہو اس کو انجام دینے میں جب بھی اجتماعیت کا رنگ پیدا کردیا جاتا ہے تو نفسیاتی طور پر اس کی شدت کا انفرادی احساس کم ہو جاتا ہے اور انسان بڑی سے بڑی مشقت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بخوشی تیار ہو جاتا ہے۔وجہ ظاہر ہے دوسروں کا عملی نمونہ ہر شخص کی انفرادی قوت پر شدت کو بڑھاتا ہے اور بڑے بڑے کام بھی کر گزرنے کےلیے ہمت پیدا کرتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے اس اسلوب کو اختیار کیا ہے اور کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَام کا حکم مومنوں کو دینے کے ساتھ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کی زائد عبارت میں نفسیاتی نقطہ کی جھلک بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بعد روزوں کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَکےالفاظ کو معقولیت پسندطبائع کےلیے زیادہ مدلل بنایا گیا ہے۔ تااس دلیل کی روشنی میں دلوں کے اندراطمینان کے ساتھ تعمیل کے لیےشرح صدر بھی پیدا ہواور پھر بطور تتمہ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ کہہ کر ایک ماہ کی طویل مدت کا احساس بھی کم کر دیا ہے کہ یہ صرف گنتی کے دن ہیں جو ہر حال میں گزر جانےہیں۔ اس لیے مومنوں کو کمر ہمت باندھ کر اس مدت کو پورا کرنا ہے اور اس میں تساہل سے کام نہیں لینا تا اس مشق سے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ بلاشبہ رمضان کا مہینہ مومنوں کے لیے مشق اور ٹریننگ کا مہینہ ہے۔ایک طرف پانچ وقت کی نمازیں، خشوع و خضوع اور پابندی کے ساتھ وقت پر ادائیگی کا حکم ہے۔پھراللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے نوافل کی طرف راغب کیا گیا ہے۔ یقیناً نوافل کی ادائیگی قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ماہ صیام میں ہر روزہ دار کو روزہ رکھنے کے لیے سحری کے وقت بیدار ہونا ہوتا ہے۔ اس وقت قیام اللیل کا اچھا موقع میسر آ سکتا ہے اور پھر ایک ماہ کی مسلسل مشق کےنتیجے میں باقی دنوں میں بھی نماز تہجد کی عادت پڑ جاتی ہے۔رمضان المبارک میں قلتِ طعام کے ساتھ ساتھ قلتِ کلام اور قلتِ منام کی بھی تاکید کی گئی ہےتاکہ ایک خاص قسم کا انابت الی اللہ پیدا ہو۔احادیث نبویہؐ میں اس امر کی خاص طورپرتاکید کی گئی ہے کہ روزہ دار روزے کی شرائط پوری کرنے کے ساتھ ساتھ زبان، آنکھ، کان اور ہاتھ وغیرہ کا بھی روزہ رکھے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِیْ أَنْ يَدَعَ طَعَامَهٗ وَشَرَابَهٗ(بخاری کتاب الصوم)
جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنےکی کوئی ضرورت نہیں (یعنی اس کا روزہ رکھنا بیکار ہے)۔
قرآن کریم نے رمضان المبارک کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا :شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ (سورۃ البقرۃ :۱۸۶)کہ رمضان کاوہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا جس کی عظمت اور بزرگی پر قرآن کریم نے خصوصیت سے زور دیا ہے۔ اس لیے کثرت سے تلاوت قرآن کریم اور اس کے معنی ومطالب پر غور و خوض بہت ضروری ہے۔پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے استفسار پر بڑے جامع الفاظ میں جواب دیا کہ کَانَ خُلُقُہٗ القرآن جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو اسے قرآن کریم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کریم کا مرقع تھے۔پھر جو شخص اپنے آپ کو اخلاق محمدی میں ڈھالنا چاہتا ہے تو اس کے لیے قرآن کریم پر تدبر لازمی ہے۔ماہ رمضان کا ایک حصہ اعتکاف بھی ہے۔آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھنا سنت نبویؐ ہے۔حدیث میں درج الفاظ یہ ہیں:
عَنْ عَائِشَةَ رضي اللّٰه عنها عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللّٰهُ تعالیٰ ثُمَّ اِعْتَکِفَ اَزْوَاجُہٗ مِنْ بَعْدِہ۔ (بخاری کتاب اعتکاف فی العشر الاواخر)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے اور آپ کا وفات تک یہی معمول رہا۔ اس کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی ان دنوں میں اعتکاف میں بیٹھتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو رمضان المبارک کی قدر کرنے اور اس کی جسمانی اور روحانی برکتوں سے مکمل طور پر استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭…٭…٭