متفرق مضامین

صدقۃ الفطر۔ نیکی کی ایک راہ

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

نبی ﷺ نے لوگوں کے (عید کی) نماز کے لیے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر (ادا کرنے) کا حکم فرمایا

شریعتِ اسلامیہ نے اپنے مالی نظام کو صرف زکوٰۃ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ طوعی صدقات کا ایک وسیع دروازہ کھول کراپنے منشا ومقصد کو خوب کھول کر بیان کردیا ہے تاکہ پیش آمدہ حالات کے مطابق مختلف قومی اور افرادی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔اسلام نے انفاق فی سبیل اللہ کے مفہوم میں غایت درجہ وسعت رکھی ہے۔ جس کا تعلق معاشرہ کے افراد کی معاشی ضروریات کے پورا کرنے کے علاوہ ملک و ملت کے دفاع اور تبلیغ و حفاظت دین سے بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ غیرمعمولی ضرورتوں کے وقت امامِ وقت اور اولی الامر اپنی مرضی سے مختلف قسم کے چندوں کی تحریک کرسکتے ہیں تاکہ اُن کے ذریعہ دینی ومعاشرتی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔پس اسلام نے اجتہاد کے وسیع دروازے کےذریعہ تمام زمانی اور مکانی مشکلات کو حل کرنے کی ایک عمدہ راہ کھول دی ہے۔

فرض صدقہ کی ایک قسم زکوٰۃ ہے جس کے لیے،خاص حالات، خاص نصا ب اور مستحقین کے لیے خاص طریق کار مقرر کیا گیا ہے جبکہ فرض صدقہ میں سے ایک صدقۃ الفطر ہے جس میں امیروغریب، چھوٹے بڑے، آزادو غلام کی کوئی تمیز نہیں رکھی گئی بلکہ ہر ایک پر اس کی ادائیگی ضروری قرار دی گئی ہے۔ فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں جبکہ شرعی اصطلاح میں صدقۃ الفطر اُس خیرات کا نام ہے جو ماہِ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ کھولنے کی خوشی میں اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے طور پر ادا کیا جاتا ہے تاکہ اس ذریعہ سے رمضان المبارک کے دوران سرزد ہونے والی کوتاہیوں اور غلطیوں کا ازالہ ہوسکے اور مسکین عید کی خوشیوں میں شامل ہوجائیں۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ :فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺزَکَاۃَ الْفِطْرِ طُھْرَۃً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْنِ، مَنْ أَدَّاھَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَھِیَ زَکَاۃٌ مَقْبُوْلَۃٌ، وَمَنْ أَدَّھَا بَعْدَالصَّلَاۃِ فَھِیَ صَدَقَۃٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ (سنن ابوداؤد کتاب الزکٰوۃ بَاب زَکَاۃِ الْفِطْرِ حدیث:1609)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے صدقہ فطر روزہ دار کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے اور مسکینوں کی خوراک کے لیے فرض قرار دیا ہے۔ پس جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کردیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔

اگرچہ صدقۃ الفطر بظاہر ایک چھوٹا اور معمولی حکم معلوم ہوتا ہے مگر اسلام کے بعض احکام دیکھنے میں تو معمولی دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے فوائد بہت بڑے ہوتے ہیں اور ان کا ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث اور ادا نہ کرنا اُس کی ناراضگی کا باعث ہوسکتا ہے۔ صدقۃ الفطر ہر آزاد اور غلام مسلمان مرد اور عورت، بڑے اور بچے، بوڑھے اور جوان اور نوزائیدہ بچے پر عیدالفطر کی ادائیگی سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔ اس سے غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے مناسب لباس اور کھانے کا بہتر بندوبست کرسکیں اور عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔

صدقات کی حقیقت

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام صدقات کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں یہ ایک مخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا ہے اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے عوض میں شکریہ یا دعا چاہتا ہے اور اگر کوئی ممنون منت اس کا مخالف ہوجائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتا ہے۔ بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے اور اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے جیسا کہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ متنبہ کرنے کے لئے فرماتا ہے۔ لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہیے۔ احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو۔ یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے۔ غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلا دیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا ہے۔ ‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۳۵۳-۳۵۴)

حضور علیہ السلام کا ایک اور ارشاد مبارک ہے :’’تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات فردِ قرارداد جرم کو بھی ردّی کردیتے ہیں۔ اُصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے۔ یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہیں۔ علم تعبیرالرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے۔ انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق وثبات دکھاتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل وقال سے کچھ نہیں بنتا، جب تک کہ عملی رنگ میں لاکر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے۔ صدقہ اس کو اسی لیے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کردیتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۵۵۔مطبوعہ قادیان۲۰۰۳ء)

صدقۃ الفطر کی فرضیت اور مقدار

صدقۃ الفطر کوئی معمولی صدقہ نہیں ہے بلکہ جہاں اس کا ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے وہیں اس کی برکات عام صدقہ سے بڑھ کر ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ:فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبْدِ والْحُرِّ والذَّکَرِوالْاُنْثَی والصَّغِیْرِوَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَأَمَرَ بِھَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ اِلَی الصَّلَاۃِ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ أَبْوَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ بَاب فَرْضُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ حدیث:1503) رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو زکوٰۃِ فطر مسلمانوں پر فرض کی ہے خواہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا اور آپؐ نے حکم دیا کہ وہ ادا کی جائے پیشر اس کے کہ لوگ نماز کے لیے نکلیں۔ پس نبی کریمﷺ کے ان الفاظ سے واضح ہے کہ صدقۃ الفطر ہر چھوٹے بڑے مسلمان پر فرض ہے اور اُس پر لازم ہے کہ نماز عید سے پہلے اُسے ادا کردے۔

صدقۃ الفطر کی مقدار اور اس میں کون کونسی جنس اس زمانہ میں دی جاتی تھی اس بارےمیں مختلف روایات بیان ہوئی ہیں۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:ہم زکوٰۃِ فطر ایک صاع خوراک نکالا کرتے تھے یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش۔ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ أَبْوَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ بَاب صَدَقَۃُ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ حدیث:1506)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ نبی ﷺ نے زکوٰۃِ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو دینے کا حکم دیا۔ لوگوں نے دو مد گیہوں (ایک صاع جَو) کے برابر مقرر کیے۔(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ أَبْوَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ بَاب صَدَقَۃُ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍحدیث:1507)حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم عید فطر کے دن ایک صاع خوراک (صدقہ کے لیے ) نکالا کرتے تھے اور ہماری خوراک جَو، کشمش پنیر اور کھجور ہوتی تھی۔ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ أَبْوَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ اَلصَّدَقَۃُ قَبْلَ الْعِیْدِ:1510) صَاعٌ جو آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں حجاز میں رائج تھا، پونے تین سیر کے برابر تھا۔ ان احادیث سے واضح ہے کہ مختلف اجناس کی جو قسم میسر ہو اُس میں سے ایک صاع صدقۃ الفطر کے طور پر دیا جاسکتا ہے یااس کی قیمت کے برابر نقدی بھی دی جاسکتی ہے۔

صدقۃ الفطر کب ادا کیا جائے

صدقۃ الفطر کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ نماز عید کی ادائیگی سے پہلے ادا کر دیا جائے تاکہ وہ بروقت ضرورت مندوں تک پہنچ جائے اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ أَمَرَ بِزَکَاۃِ الْفِطْرِ قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ اِلَی الصَّلَاۃِ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ أَبْوَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ بَاب الصَّدَقَۃُ قَبْلَ الْعِیْدِ:1509) نبیﷺ نے لوگوں کے (عید کی) نماز کے لیے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر (ادا کرنے) کا حکم فرمایا۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ ان لوگوں کو دیا کرتے تھے جو اُسے وصول کرتے تھے اور صحابہؓ عید سے ایک یا دودِن پہلے دیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ أَبْوَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ بَاب صَدَقَۃُ الْفِطْرِ عَلَی الْحُرِّ وَالْمَمْلُوْکِ حدیث:1511)

پس اسلام نے مختلف طریق پر صدقات کی تحریک کرکے معاشرے کے ہر فرد کی ضرورت کا خیال رکھا ہے۔جو لوگ اسلامی معاشی نظام کی اس روح کو سمجھ کر اُس پر عمل پیرا ہوتے رہیں گے تو اس کے نتیجہ میںمعاشرے میں نہ صرف معاشی استحکام آئے گا بلکہ معاشرے سے متعدد برائیوں کا خاتمہ ہوگا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے کہا: یانبی اللہ ! جو شخص طاقت نہ رکھے ؟ آپؐ نے فرمایا: وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے۔ خود بھی فائدہ اُٹھائے اور صدقہ بھی دے۔ انہوں نے کہا: اگر یہ بھی نہ ہوسکے ؟ آپؐ نے فرمایا: حاجت مند مصیبت زدہ کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا: اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو؟ آپؐ نے فرمایا:چاہیے کہ اچھی بات پر عمل کرے اور بدی سے باز رہے۔ یہی اُس کے لیے صدقہ ہے۔(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب 30:عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَۃٌ حدیث:1445)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button