جو نماز کے لئے پہلے جاگے وہ دوسرے کو جگائے
میں یہاں ایسے لوگوں کی درستی کرنا چاہتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں نمازوں کے متعلق کہو، نہ پوچھو کیونکہ یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ کئی عورتوں کی شکایت آتی ہے کہ اگر ہم اپنے خاوندوں کو توجہ دلائیں تو وہ لڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ یہ بیشک بندے اور خدا کا معاملہ ہے لیکن توجہ دلانا اور پوچھنا نظام جماعت کا کام ہے۔اسی طرح بیویوں کا بھی کام ہے بلکہ فرض ہے۔ اگر صرف اتنا ہی ہوتا کہ مرضی ہوتی یا مرضی ہوئی تو پڑھ لوں گا، نہ ہوئی تو نہیں۔ یا فجر کی نماز پر ہم گہری نیند سوتے ہیں اور دن بھر کے تھکے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے رات کو گہری نیند آتی ہے اس لئے ہمیں جگانا نہیں۔ اگر یہ مرضی پر ہوتا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیوی اور خاوند کو یہ ارشادنہ فرماتے کہ جو نماز کے لئے پہلے جاگے وہ دوسرے کو نماز کے لئے جگائے اور اگر نہ جاگے یا سستی دکھائے تو پانی کے چھینٹے مارے۔ بعض جگہ تو آپ نے بہت زیادہ سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ گزشتہ جمعہ میں بعض احادیث مَیں نے پیش بھی کی تھیں۔ پس یہ سوچ غلط ہے کہ ہم ایسے معاملے میں آزاد ہیں۔ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ جس نظام سے اپنے آپ کو منسلک کر رہے ہیں اگر وہ اپنی جماعت کا جائزہ لینے کے لئے نمازوں کی ادائیگی کے بارے میں استفسار کرتا ہے تو بجائے چڑنے اور غصہ میں آنے کے تعاون کرنا چاہئے۔ ہاں اگر انسان خودنمازیں پڑھ کر پھر دنیا کو بتانے والا ہو اور بتاتا پھرے اور بڑے فخر سے بتائے کہ میں نمازیں باجماعت پڑھتا ہوں تو پھر یہ برائی ہے اور غلط ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍ فروری ۲۰۱۷ء)