اسلام آبادٹلفورڈ
امتثال :بلال بھائی کل سر نے ہمیں اسلام آباد ٹلفورڈ کے بارے میں بتایا تھا۔ میں نے اپنے نوٹس بنا لیے ہیں۔
گھنٹی کی آواز کے کچھ دیر بعد ہی سر عثمان کلاس میں داخل ہوئے تو بچے کھڑے ہو گئے اور کہا السلام علیکم ورحمة اللہ۔ سر نے جواباً کہا :وعلیکم السلام۔ بیٹھ جائیں اورسب بچے اپنے نوٹس سامنے رکھ لیں۔ بلال! ٹلفورڈ کے متعلق کچھ بتائیں!
بلال:ٹلفورڈ برطانیہ کی کاؤنٹی سرے (Surry) کا گاؤں ہے جو لندن سے جنوب مغربی جانب 43 میل پر واقع ہے۔ ٹلفورڈ کا اولین ریکارڈ 1762ءکے نقشہ جات سے ملتا ہے۔دریائے وے (Wey)کے دونوں اطراف میں ٹلفورڈبرج (Tilford Bridge)کا ذکر ملتاہے جو جگہ اب ٹلفورڈ گرین (Tilford Green)کے نام سے جانی جاتی ہے۔
سر عثمان :نایاب ٹلفورڈ میں جماعت نے کب جگہ خریدی اور اس کا کیا نام رکھا گیا؟
نایاب: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دورِ خلافت میں 18ستمبر 1984ء کو سرے (SURREY) کے اس گاؤں ٹلفورڈ میں پچیس ایکڑ زمین خریدی گئی بعدازاں اس میں مزید چھ ایکڑ بھی شامل کی گئی۔ اوراس کا نام The Ahmadiyya Muslim Centre Islamabad رکھا گیا۔
سر عثمان:عائشہ! آپ یہ بتائیں کہ، حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلام آباد میں مستقل سکونت کب اختیار کی؟
عائشہ: 15؍ اپریل 2019ء بروز سوموار حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نماز عصر کے کچھ دیر بعد مسجد فضل سے روانہ ہوئے اور اسی روز اسلام آباد میں قائم اپنی رہائش گاہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
سر عثمان: امتثال! اسلام آباد ٹلفورڈ میں تعمیراتی کام کو کتنے مراحل میں تقسیم کیا گیا؟
امتثال :اس کی تعمیر کا کام تین مراحل (Phases) میں تقسیم کیا گیا۔پہلے مرحلہ (Phase I) میں مسجد مبارک، رہائش گاہ حضورِ انور، دفاتر پرائیویٹ سیکرٹری، ایڈیشنل وکالت تبشیر، ایڈیشنل وکالت مال، وکالت تعمیل و تنفیذ، ملاقات کا کمرہ، ملٹی پرپز ہال وغیرہ شامل تھے۔دوسرے مرحلہ (Phase II) میں سارے رہائشی بلاکس کے ساتھ دوسرے چند بلاکس کی تعمیر شامل تھی۔ جبکہ تیسرے مرحلہ میں بلاک 11، بچوں کےپارک اور گھوڑوں کے اصطبل وغیرہ کی تعمیر بھی شامل تھی۔
سر عثمان :فیضان !حضورِ انور نے مسجد مبارک کے سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے اپنا نمائندہ کسے مقرر فرمایا ؟
فیضان : حضورِ انور ایدہ اللہ کی خدمتِ اقدس میں سنگِ بنیاد کے لیے اینٹ پر دعا کرنے کے لیے درخواست کی گئی جسے حضورِ انور نے ازراہِ شفقت منظور فرمایا اور 2؍اکتوبر 2016ء کو بعد نمازِ عصر اپنے دفتر میں اینٹ پر دعا فرمائی اور مکرم عثمان چوچنگ شی صاحب (المعروف عثمان چینی صاحب) مرحوم کو مرکزِ احمدیت میں تعمیر ہونے والی اس عظیم الشان مسجد کے سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے اپنا نمائندہ مقرر فرمایا۔ مورخہ 9؍ اکتوبر 2016ء کو انہوں نے مسجد کے محراب کے مقام پر مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔
سر عثمان : ماشاءاللہ بچو!آپ سب نے بہت اچھے نوٹس لیے ہیں۔اب ہم اپنےاگلے سبق کی طرف بڑھتے ہیں۔
اُسامہ : سر میرا سوال یہ ہے کہ حضور انور جب مسجد فضل سے رخصت ہوئے تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے کیا جذبات تھے؟
سر عثمان:ماشاءاللہ اُسامہ بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ سر نے اپنے نوٹس اٹھائے اور ورق پلٹتے پلٹتے بولے۔ عابد وحید خان صاحب نے یہ سوال حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا تھا۔ حضورِ انور نے فرمایا: ’’یہ میراطریق نہیں ہے کہ زیادہ جذباتی ہو جاؤں۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں جلدہی settle ہو جاتاہوں۔میرا ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے۔ اسلام آباد میں مجھے اپنی نئی routineکا عادی ہونے میں صرف ایک گھنٹہ لگا۔ اور رات کو مجھے بغیر کسی دِقت کے پرسکون نیند آئی۔ لیکن میں مسجد فضل 15۔16 سال رہا ہوں اس لیے اس میں شک نہیں کہ میرا مسجد فضل سے ایک تعلق ہے اور اس سے بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔ وہاں مَیں روزانہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔ جب میں وہاں سے روانہ ہوا تو یقیناً مسجد فضل سے لگاؤ کے جذبات تھے اور یہ ہمیشہ میرے دل میں رہیں گے‘‘۔
(الف۔ فضل)