Mr. Henry Bausherاور Miss Mary Bordenکی شکاگو،امریکہ سے قادیان آمد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو
یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ
اپریل ۱۹۰۸ء میں شکاگو (امریکہ) سے تعلق رکھنے والے دو مہمان جن میں ایک صاحب ہنری باؤشر (Henry Bausher) اور ایک لیڈی مس میری بورڈن (Mary Borden) شامل تھے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی غرض سے قادیان حاضر ہوئے اور آپؑ سے شرف ملاقات پاکر اپنے سوالات کے جوابات پائے۔ ان دونوں مہمانوں کے ساتھ لاہور میں متعین ایک سکاچ مشنری جارج ڈگلس ٹرنر (George Douglas Turner) بھی تھے۔ اخبار الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۸ء کے پہلے صفحے پر مرقوم ہے: ’’۷؍اپریل ۱۹۰۸ء کو ایک انگریز اور ایک لیڈی جنہوں نے اپنے آپ کو امریکہ (شکاگو) کے رہنے والے ظاہر کیا اور کہ وہ سیاحت کی غرض سے ملک بہ ملک پھر رہے ہیں اور ہندوستان میں بھی یہاں کے پولیٹیکل اور ریلیجیس حالات سے واقفیت حاصل کرنے کے واسطے آئے ہیں، لاہور سے بہمراہی ایک سکاچ انگریز قادیان میں قریب دس بجے کے پہنچے۔ مسجد مبارک کے نیچے دفتروں میں ان کو اچھی طرح سے بٹھایا گیا اور چونکہ انہوں نے حضرت اقدس سے ملاقات کرنے کی درخواست کی اس لئے حضرت اقدس بھی وہیں تشریف لے آئے…‘‘ اخبار الحکم میں نام درج نہیں ہوئے لیکن اخبار بدر نے نام بھی درج کیے ہیں اور لکھا ہے: ’’آج مورخہ ۷؍اپریل ۱۹۰۸ء کو مدینۃ المسیح میں دو انگریز اور ایک لیڈی ساڑھے نو بجے کے قریب آئے۔ اُن میں سے ایک بوڑھا جس کے بشرہ سے جہاندیدہ ہونا معلوم ہوتا تھا، شکاگو (امریکہ) کا رہنے والا تھا، اُس کا نام مسٹر جارج ٹرنر اور لیڈی کا نام مِس بورڈن تھا اور تیسرا سکاچ مشن لاہور کا مسٹر بانشر تھا۔‘‘
اخبار بدر میں غلطی سے شکاگو سے آنے والے صاحب کا نام جارج ٹرنر اور لاہور میں متعین سکاچ مشنری کا نام بانشر درج کیا گیا ہےدر حقیقت شکاگو سے آنے والے صاحب مسٹر باؤشر تھےاور وہی بوڑھے تھے جبکہ لاہور سے ساتھ آنے والے سکاٹش مشنری جارج ٹرنر تھے جو کہ اُس وقت ۲۸؍ سال کے جوان تھے۔ بہرحال حضرت اقدس علیہ السلام سے سوال و جواب درج کرنے سے پہلے ان مہمانوں کا مختصر تعارف ذیل میں دیا جاتا ہے۔
Henry Bausher
ہنری باؤشر اکتوبر ۱۸۴۷ء میں امریکی شہر نیویارک میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۸۶۰ء کی دہائی میں ہونے والی امریکی خانہ جنگی میں حصہ لیا جس کے بعد تجارت کے میدان میں قدم رکھا اور ۱۸۷۰ء میں شکاگو آگئے جہاں American Cotton Oil Company کے ساتھ وابستہ ہونے کے ساتھ خود بھی آئل ڈیلرز کے طور پر کاروبار کیا۔ بہرحال آپ شکاگو کے کامیاب کاروباری حضرات میں سے تھے۔ آپ تا حیات Chicago Board of Trade کے ممبر رہے۔ اسی طرح شکاگو کے تاریخی St. James Episcopal Church اور the Moody Institute سے بھی منسلک رہے۔ (Paint Oil and Drug Review, Chicago, 7 April 1909 page 12) آخری عمر میں آپ بزنس سے ریٹائر ہوگئے تھے اور Miss Mary Borden کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک کے سفر پر نکلے جس میں ایشیا اور یورپ کے ممالک شامل تھے، اسی سفر کے دوران انڈیا بھی آئے اور کچھ عرصہ لاہور میں قیام رکھا جہاں سے پھر قادیان آئے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے قادیان آکر بتایا کہ ’’میں نے اس سفر کے پروگرام میں وہیں سے یہ کہا تھا کہ ہندوستان میں اس شخص سے ضرور ملنے جاؤں گا جو مدعی نبوت ہے اور آج اسی واسطے قادیان آیا ہوں۔‘‘ (فاروق ۱۳؍جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴) اغلبًا آپ کے قادیان کا ارادہ بنانے کی وجہ ڈوئی کی موت تھی جو شکاگو کے نواح میں ہی واقع ہوئی اور حضرت اقدسؑ سے ملاقات کے دوران آپ کا پہلا سوال بھی اس کی موت کے متعلق ہی تھا۔ بہرحال انڈیا کے بعد یورپ گئے، سوئٹزرلینڈ میں طبیعت خراب ہوگئی جہاں سے ضروری طبی امداد کے بعدواپس امریکہ آئے لیکن طبیعت سنبھل نہ سکی اور اواخر مارچ ۱۹۰۹ء میں شکاگو میں اپنے گھر میں ہی وفات پائی۔
The Pioneer Express, Pembina, (Dakota [N.D])
میں خبر وفات یوں شائع ہوئی:
Mary Borden
مس میری بورڈن مئی ۱۸۸۶ء میں امریکی شہر شکاگو کے ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئیں۔ مشہور امریکی ادارے Vassar Collegeسے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۰۷ء میں والد صاحب کی وفات کے بعد اپنے خاندان سے دوستانہ مراسم رکھنے والے ایک معمر ساتھی Henry Bausher اور ان کی بیوی کی معیت میں دنیا کے مختلف ممالک کے سفر کے ارادے سے گھر سے نکلیں اور جاپان وغیرہ کی سیر کرتے ہوئے انڈیا آئیں اور چند مہینے لاہور میں گزارے۔ اپنی والدہ کی چرچ کے ساتھ گہری وابستگی اور ان کی خواہش کہ مس بورڈن کرسچن مشنری بنے، کی بنا پر اس سفر میں خاص طور پر عیسائی مشنز کے دورے کیے اور لاہور میں بھی اسی غرض سے کچھ ماہ قیام رکھا جہاں ان کی ملاقات سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک مشنری George Douglas Turner سے ہوئی اور ان کی طبیعت سے متاثر ہوکر ان سے شادی کر لی جن سے تین بیٹیاں ہوئیں۔ ۱۹۱۳ء میں لاہور سے انگلینڈ چلی گئیں۔ جنگ عظیم اول میں اپنے والد سے ورثہ میں ملنے والی خاطر خواہ رقم سے ایک ہسپتال بنایا اور خود بطور نرس کام کیا۔ اسی جنگ میں مشہور برطانوی آرمی آفیسر اور ممبر آف پارلیمنٹ Edward Louis Spears سے ملاقات ہوئی، بعد ازاں پہلے خاوند سے علیحدگی لے کر ۱۹۱۸ء میں اسی برطانوی آفیسر سے شادی کر لی۔ جنگ عظیم دوم میں بھی موبائل ہسپتال جاری کیے۔ مس بورڈن نے شاعری اور ناول میں بھی بہت نام کمایا اور ادبی میدان میں اپنی ایک خاص پہچان بنائی بلکہ عام طور پر مس بورڈن اسی حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ ۱۹۵۲ء میں امریکی صدارتی امیدوار اپنے بھانجے Adlai Ewing Stevenson II کے لیے تقریریں بھی لکھیں۔ ۲؍دسمبر ۱۹۶۸ء کو وفات پائی اور انگلینڈ کے شہر Warfield میں دفن ہوئیں۔ ان کے حالات زندگی Mary Borden: A Women of Two Wars کتاب میں شائع ہوئے ہیں۔
George Douglas Turner
جارج ڈگلس ٹرنر سکاٹش مشنری تھےجو ۳۱؍جنوری ۱۸۸۰ء کو برٹش گیانا کے شہرGeorgetown کے نواحی علاقے Demerara میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد William Young Turner خود بھی لنڈن مشنری سوسائٹی (LMS) کے تحت مشنری ڈاکٹر تھے۔ جارج ٹرنر نے University of Glasgow سے ۱۸۹۹ء میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بطور مشنری کام شروع کیا اور ۱۹۰۳ء میں YMCA لاہور میں تعینات ہوئے۔ ۱۹۰۸ء کے آغاز میں لاہور میں ہی Mary Borden سے شادی کی۔ شادی کی باقاعدہ تقریب بعد ازاں ستمبر ۱۹۰۸ء میں سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوئی جس کی خبر شکاگو کے ایک اخبار میں یوں درج ہے:
“Miss Mary Borden, daughter of the late William Borden of Chicago, and George Douglas Turner of Glasgow, Scotland and Lahore, India, were married at noon Monday. The ceremony was celebrated in the chalet near Villars Sur Otten, Switzerland, where Mrs. Borden, Miss Borden and her younger sister, Miss Alice Joyce Borden, have spent the summer. Mr. Turner for the last six years has been secretary of the Y.M.C.A. at Lahore, India…”
(Chicago Sunday Examiner, September 6, 1908 page 34)
(Clip from the Chicago Sunday Examiner)
اس شادی سے تین بیٹیاں ہوئیں۔۱۹۱۳ء میں جارج ٹرنر واپس انگلینڈ چلے گئے تھے جہاں کچھ عرصہ بعد بیوی سے علیحدگی ہوگئی تھی۔ ۱۹۴۶ء میں وفات پائی۔
غرضیکہ یہ تینوں مہمان اپریل ۱۹۰۸ء میں قادیان آئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے شرف ملاقات پانے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جس میں پہلے حضرت پروفیسر علی احمد صاحب بھاگلپوریؓ (وفات: ۲۲؍جون ۱۹۵۷ء) نے مترجم کے فرائض سر انجام دیے پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ (وفات: ۱۳؍جنوری ۱۹۵۷ء) کے آنے پر وہ ترجمہ کرتے رہے۔ سوالات کرنے والے کا نام مذکور نہیں، غالب گمان یہی ہے کہ یہ سوالات ہنری باؤشر نے ہی کیے تھے۔ بہر کیف اس گفتگوکا احوال ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۵۱۳ تا ۵۲۱ پر درج ہے جس میں سے حضرت اقدس علیہ السلام کے جوابات کے بعض اقتباسات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں اسی ایک ہی خدا کی طرف سے ایک دوسرے کے بالکل متضاد راہوں پر چلنے والے دو رسول موجود ہوں۔
’’ڈوئی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مَیں خدا کا رسول ہوں اور کہ خدا نے مجھے بذریعہ الہام یہ بتایا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا اور خود خدا تھا اور کہ خود مسیح نے مجھے بحیثیت خدا ہونے کے ایسا الہام کیا ہے اور کہ (نعوذ باللہ) اسلام تباہ ہوجاوے گا اور کہ (نعوذ باللہ) آنحضرتؐ جھوٹے نبی تھے۔ چونکہ ہمیں خدا نے بذریعہ اپنے الہام کے یہ بتایا ہے کہ مسیح نہ خدا، نہ خدا کا بیٹا بلکہ صرف ایک پاکباز انسان اور رسول تھا اور کہ ڈوئی اپنے اس دعویٰ رسالت میں کاذب ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ہی وقت میں اسی ایک ہی خدا کی طرف سے ایک دوسرے کے بالکل متضاد اور مخالف راہوں پر چلنے والے دو رسول موجود ہوں۔ پس چونکہ اس طرح سے دنیا میں فساد پیدا ہوتا اور حق و باطل میں امتیاز اُٹھ جاتا ہے ہم نے اسے صادق اور کاذب کے فیصلہ کرنے کے واسطے چیلنج دیا۔‘‘
بائیبل میں سچے نبی کے آنے کی نفی تو نہیں کی گئی
’’بائیبل میں جہاں یہ لکھا ہے کہ جھوٹے نبی آئیں گے وہاں سچے نبی کے آنے کی نفی تو نہیں کی گئی۔ یہ تو نہیں لکھا کہ سچا نہیں آئے گا بلکہ جھوٹے نبیوں کا آنا خود بخود اس امر کی صراحت کرتا ہے کہ ان میں سچا بھی ہوگا۔‘‘
ہم حقیقی مُردوں کی زندگی کے قائل نہیں ہیں
’’مُردوں کا زندہ ہونا آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر بھی قرآن شریف میں مذکور ہے مگر ہم آنحضرت ﷺ کے مُردے زندہ کرنے کو روحانی رنگ میں مانتے ہیں نہ کہ جسمانی رنگ میں۔ اور اسی طرح حضرت عیسیٰ کا مُردے زندہ کرنا بھی روحانی رنگ میں مانتے ہیں نہ کہ جسمانی طور پر۔ اور یہ امر کوئی حضرت عیسیٰؑ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بائیبل میں لکھا ہے کہ ایلیا نبی نے بھی بعض مُردے زندہ کیے تھے بلکہ وہ حضرت عیسیٰؑ سے اس کام میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ اگر فرض محال کے طور پر ہم مان بھی لیں کہ بائیبل میں حضرت عیسیٰؑ کا حقیقی مُردوں کے زندہ کرنے کا ذکر ہے تو پھر ساتھ ہی ایلیا نبی کو بھی خدا ماننا پڑے گا۔ اس میں حضرت عیسیٰؑ کی خدائی کی خصوصیت ہی کیا ہوئی؟ اور ما بہ الامتیاز کیا ہوا؟ بلکہ یسعیاہ نبی کے متعلق تو یہاں تک بھی لکھا ہے کہ مُردے اُن کے جسم سے چُھو جانے پر ہی زندہ ہو جایا کرتے تھے … بلکہ ہمارے خیال میں تو حضرت موسیٰ کا سوٹے کا سانپ بنانے کا معجزہ مُردے زندہ کرنے سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ مُردہ کو زندہ سے ایک تشبیہ اور لگاؤ بھی ہے کیونکہ وہی چیز ابھی زندہ تھی اور مُردے میں زندہ ہونے کی ایک استعداد خیال کی جا سکتی ہے۔ مگر سانپ کو سوٹے سے کوئی بھی نسبت اور تعلق نہیں ہے، وہ ایک نبات کی قسم کی چیز اور وہ سانپ۔ تو یہ سوٹے کا سانپ بن جانا تو مُردوں کے زندہ ہو جانے سے نہایت ہی عجیب بات ہے۔ لہذا حضرت موسیٰؑ کو بڑا خدا ماننا چاہیے مگر حقیقی اور اصلی بات یہ ہے کہ ہم حقیقی مُردوں کی زندگی کے قائل نہیں ہیں۔‘‘
خدا تعالیٰ نے بباعث ان کے کمالِ صدق اور محبت کے بیٹے کا لفظ بولا ہے
’’حضرت عیسیٰؑ کو بھی ہم اَور انبیاء کی طرح خدا تعالیٰ کا ایک نبی یقین کرتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں صدق اور اخلاص رکھنے والے لوگ خدا تعالیٰ کے مقرّب ہوتے ہیں۔ جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے اور مخلص بندوں کے حق میں بباعث ان کے کمالِ صدق اور محبت کے بیٹے کا لفظ بولا ہے اس طرح سے حضرت عیسیٰؑ بھی انہی کی ذیل میں ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہ تھی جو اَور نبیوں میں نہ پائی جاتی ہو اور نہ ہی اُن میں کوئی ایسی نئی بات پائی جاتی ہے جس سے دوسرے محروم رہے ہوں…‘‘
ایسے نمونے کی کیا ضرورت جس سے انسان فائدہ نہیں اُٹھا سکتا
’’دیکھو انسان اپنی انسانی حدود اور ہیئت کے اندر ترقیٔ مدارج کر سکتا ہے نہ یہ کہ وہ خدا بھی بن سکتا ہے۔ جب انسان خدا بن ہی نہیں سکتا تو پھر ایسے نمونے کی کیا ضرورت جس سے انسان فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ انسان کے واسطے ایک انسانی نمونے کی ضرورت ہے جو کہ رسولوں کے رنگ میں ہمیشہ خدا کی طرف سے دنیا میں آیا کرتے ہیں، نہ کہ خدائی نمونہ کی جس کی پیروی انسانی مقدرت سے بھی باہر اور بالا تر ہے۔ ہم حیران ہیں کہ کیا خدا کا منشاء انسانوں کو خدا بنانے کا تھا کہ اُن کے واسطے خدائی کا نمونہ بھیجا تھا۔ پھر یہ اَور بھی عجیب بات ہے کہ خدا ہوکر پھر یہود کے ہاتھ سے اتنی ذلّت اُٹھائی اور رُسوا ہوا اور ان پر غالب نہ آ سکا بلکہ مغلوب ہوگیا۔ ‘‘
مَیں بھی منہاج نبوت پر آیا ہوں
’’مَیں کوئی نیا نبی نہیں۔ مجھ سے پہلے سینکڑوں نبی آ چکے ہیں۔ توریت میں جن انبیاء کا ذکر ہے اور آپ ان کو سچا مانتے ہیں۔ جو دلائل ان کی صداقت کے اور ان کو نبی اور خدا تعالیٰ کا فرستادہ یقین کرنے کے ہیں وہ آپ پیش کریں انہی دلائل سے میری صداقت کا ثبوت مل جائے گا۔ جن دلائل سے کوئی سچا نبی مانا جا سکتا ہے وہی دلائل میرے صادق ہونے کے ہیں۔ مَیں بھی منہاج نبوت پر آیا ہوں۔ ‘‘
آپ لوگوں کا یہاں آنا بھی تو ہمارے واسطے ایک نشان ہے
’’آپ لوگوں کا یہاں آنا بھی تو ہمارے واسطے ایک نشان ہے جو اگر آپ کو اس کا علم ہوتا تو شاید آپ یہاں آنے میں بھی مضائقہ اور تأمّل کرتے۔ اصل میں آپ لوگوں کا اتنے دور دراز سفر کر کے یہاں ایک چھوٹی سی بستی میں آنا بھی ایک پیشگوئی کے نیچے ہے اور ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان اور دلیل ہے کہاں امریکہ اور کہاں قادیان …ایک ایسے وقت میں جبکہ ایک فرد واحد بھی ہمارا واقف نہ تھا اور کسی کو ہمارے وجود کا علم تک بھی نہ تھا بلکہ بہت کم لوگ تھے جن کو قادیان کے نام سے بھی اس وقت واقفیت ہوگی حتیٰ کہ ہماری طرف کسی کا خط تک بھی نہ آتا تھا اور ہم ایک گمنامی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور یَأتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور وَ لَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَ لَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ اور بعض اس مضمون کے الہام زبانِ انگریزی میں بھی تھے۔ حالانکہ ہم زبان انگریزی سے بالکل نا آشنا ہیں۔‘‘
اگر کسی مفتری کے سوانح میں بھی اس کی نظیر ہے تو پیش کرو
’’اور یہ سب خبریں اس زمانہ کی ہیں جبکہ ان کے کچھ بھی آثار موجود نہ تھے اور ہماری اس وقت کی حالت کو دیکھنے اور جاننے والے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس حالت میں ایسی خبروں کے امکان کا وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ ان الہامات کے بعد اندرونی اور بیرونی طور سے یعنی خود اپنی قوم بھی اور دیگر عیسائی اور ہندو وغیرہ بھی سب دشمن ہوگئے مگر باوجود ان سب امور کے اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ ہمارے شامل حال رہی اور اس نے ایسی ایسی تائیدات کیں کہ اب اس وقت چار لاکھ یا اس سے بھی کچھ زیادہ انسان ہمارے ساتھ ہیں اور دور دراز سے آتے ہیں۔ تحفے تحائف اور نقد و جنس جن کے وعدے خدا تعالیٰ کے کلام میں کئے گئے تھے سب پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ پیشگوئیوں کو ان کے تمام لوازم پیشگوئی کے وقت اور حالت سے دیکھنا چاہیے اور پھر اس کا انجام دیکھنا چاہیے کہ کس کرّ و فر سے پورا ہوا۔ اگر کسی مفتری کے سوانح میں بھی اس کی نظیر ہے تو پیش کرو، اگر ہماری اس پیشگوئی کے ماننے سے انکار ہے تو کوئی نظیر دو کہ بجز خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے کسی مفتری نے بھی ایسا عروج پالیا ہو ……‘‘
ہمارے آنے کا یہ مقصد ہے
’’ہمارے آنے کا یہ مقصد ہے کہ عیسائیوں، ہندوؤں اور مسلمانوں میں جو غلطیاں (خواہ وہ عملی ہوں یا اعتقادی) پیدا ہوگئی ہیں اُن کی اصلاح کی جاوے۔‘‘
اگر حضرت عیسیٰؑ خدا تھے تو اُن کا آنا ہی لا حاصل ٹھہرتا ہے
’’جب کسی کو کوئی نمونہ دیا جاتا ہے تو اس سے نمونہ دینے والے کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ اس نمونہ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کی جاوے اور پھر وہ اس شخص کی طاقت میں بھی ہوتا ہے کہ اس نمونے کے مطابق ترقی کر سکے۔ خدا جو فطرتِ انسانی کا خالق ہے اور اسے انسانی قویٰ کے متعلق پورا علم ہے اور کہ اس نے انسانی قویٰ میں یہ مادہ ہی نہیں رکھا کہ خدا بھی بن سکے تو پھر کیوں اس نے ایسی صریح غلطی کھائی کہ جس کام کے کرنے کی طاقت ہی انسان کو نہیں دی اُس کام کے کرنے کے واسطے اُسے مجبور کیا جاتا۔ کیا یہ ظلمِ صریح نہ ہوگا؟ رسالت اور نبوت کے درجہ تک تو انسان ترقی کر سکتا ہے کیونکہ وہ انسانی طاقت میں ہے پس اگر حضرت عیسیٰؑ خدا تھے تو اُن کا آنا ہی لا حاصل ٹھہرتا ہے اور اگر ان کو نبی اور رسول مانا جاوے تو بے شک مفید ثابت ہوتا ہے۔ ‘‘
اس گفتگو کے اختتام پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ان کے واسطے چائے تیار ہے لہٰذا ان کو چائے پلائی جاوے۔‘‘ ان مہمانوں نے حضرت اقدسؑ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور کچھ کھانا اور چائے پینے کے بعد مدرسہ دیکھا جہاں ایک طالب علم محمد منظور علی شاکر (مراد حضرت شیخ منظور علی شاکر صاحبؓ برادر اصغر حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحبؓ۔ ناقل) نے سورہ مریم کی چند ابتدائی آیات نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں۔ جس کے بعد بٹالہ کو چلے گئے۔ کھانے کی میز پر انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ سے سوال کیا کہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد کیا ہوگا؟ حضرت مفتی صاحبؓ نے جواب دیا کہ ’’آپؑ کی وفات کے بعد وہ ہوگا جو خدا کو منظور ہوگا اور جو ہمیشہ انبیاء کی موت کے بعد ہوا کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ۵۱۴تا ۵۲۱، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
٭…٭…٭