متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

زائن سے روانگی

اگلی صبح۲؍اکتوبر ۲۰۲۲ءکو حضورِانور پونے گیارہ بجے اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور مسجد کے احاطہ کے گرد روانگی سے قبل کچھ دیر کے لیے چہل قدمی فرمائی۔ حضورِانور نے مسکراتے ہوئے سینکڑوں احمدیوں کے سلام کا جواب عطا فرمایا جو آپ کو الوداع کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اس موقع پر موجود جملہ احمدی احباب روحانی طور پر نہایت پُرجوش نظر آرہے تھے۔ قرب و جوار میں رہنے والوں کے چہروں پر افسردگی کے آثار نمایاں تھے کیونکہ وہ شاید حضورِانور کو اس دورہ کے دوران پھر دوبارہ نہ دیکھ پائیں۔

لیکن زائن میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد خوشی اور مسرت کے جذبات بھی پائے جاتے تھے کہ اب حضورِانور کا دورہ اگلی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے مزید افضال کا تتبع ایک لازمی امر ہے۔

جب حضورِانور احباب جماعت کی طرف ہاتھ ہلا کر سلام کا جواب دے رہے تھے ایک افریقن بھائی باقی سب سے سبقت لے گئے۔انہوں نے اللہ تعالیٰ اور خلافت کی محبت کے اظہار میں نہایت پُرجوش اور جذبات سے لبریز ہو کر نعرے بلند کیے۔ ان کو دیکھنے اور سننے کے بعد حضورِانور رکے اور دریافت فرمایا: ’’کیا تم گھانین ہو؟‘‘ اس افریقن بھائی نے اثبات میں سر ہلایا اور جہاں پہلے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے پھیپھڑوں کا سارا زور لگا کر نعرے لگا رہے ہیں ، اب حضورِانور کی محبت اور شفقت سے حصہ پانے کے بعد ان کی رُت ہی بدل گئی ا ور مزید جوش اور جذبات سے لبریز ہو کر نعرے لگانے لگے۔اس موقع پر موجود جملہ احمدیوں کی طرف ہاتھ ہلا کر اور ان کے پاس سے گذر کر حضورِانورواپس اپنی رہائش گاہ کے پاس تشریف لائے تاکہ روانگی سے قبل خالہ سبوحی (حضور کی حرم محترمہ) کا انتظار فرمائیں۔

اس دوران حضور نے مجھے بلایا اور میں نے گذشتہ شام چند مہمانوں سے ہونے والی گفتگو کی کچھ سرگزشت بیان کی۔ بعد ازاں صبح گیارہ بج کر دس منٹ پر حضورِانور نے دعا کروائی اور Chicago O’Here انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔

خلافت فلائٹ

قافلہ نے بارہ بجے امریکن ایئر لائنز کی فلائٹ 2022ءجس کی پرواز Chicago سے Fort Worth Dallas تک تھی کو بورڈکیا۔ یہ ایک چارٹرڈ فلائٹ تھی جس کا انتظام جماعت احمدیہ امریکہ نے کیا تھا ۔اس کا فلائٹ نمبر KF-2022 اور نام ’’خلافت فلائٹ‘‘ تھا۔

بعد ازاں امیر صاحب جماعت امریکہ نے مجھے بتایا کہ جب حضورِانورکو معلوم ہوا کہ جماعت امریکہ نے کمرشل فلائٹ بُک کروانے کی بجائے ایک چارٹرڈ فلائٹ کا انتظام کیا ہے تو حضور نے اس پر آنے والے تمام اخراجات کی مکمل تفصیل دریافت فرمائی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جماعتی اموال کا بے جا استعمال نہ ہو۔

محترم امیر صاحب نے حضورِانور کی خدمت میں خرچ اور آمد کی ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی جس سے واضح ہوتا تھا کہ احباب جماعت کی ایک کثیر تعداد ذاتی خرچ پر یہ سفر طے کر رہی تھی۔

ٹرمینل پہنچنے پر حضورِانور کی خدمت میں سہیل خان صاحب نے بورڈنگ پاس پیش کیے۔ آپ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے احمدی ہیں۔سہیل صاحب چند سال قبل کام کی غرض سے امریکہ شفٹ ہوئے اور اب امریکن ایئرلائنز میں بطور سینئر ایگزیکٹوکام کر رہے ہیں۔۲۰۱۳ء میں حضورِانور کے دورۂ آسٹریلیا کے دوران سہیل صاحب کو حضورِانور کی فلائٹس کے حوالے سے خدمت کی توفیق ملی اور اس بار بھی حضورِانور کی امریکہ میں پروازوں کے حوالے سے خدمات ان کے سپرد کی گئی تھیں۔

اس شام سہیل صاحب کو ایئرپورٹ لاؤنج میں حضورِانور کے ساتھ چند لمحات گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعد ازاں موصوف نے مجھے بتایا کہ وہ لمحات ان کے لیے ہر دکھ درد کا مداوا کرنے والے اور اطمینان بخش تھے۔انہیں امریکن فٹبال جیسے منفرد موضوع پر بھی حضورِانور سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ سہیل صاحب نے بتایا کہ جس دوران حضورِانور شکاگو ایئرپورٹ کے لاؤنج میں تشریف فرما تھے تو وہاں ایک بڑی سکرین پر امریکن فٹبال کا میچ دکھایا جا رہا تھا اور اس کو دیکھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ حضورِانور مسکرا رہے ہیں۔ میں نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کی کہ کس طرح آسٹریلیا میں ہم rugbyیا آسٹریلوی فٹبال کھیلتے ہیں لیکن ہم امریکیوں کی طرح پیڈز یا ہیلمٹ نہیں پہنتے۔

موصوف نے بتایا کہ اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ اگرچہ امریکن بہت سے احتیاطی پہلو اختیار کرتے ہیں پھر بھی امریکن فٹ بال میں بہت زیادہ چوٹیں لگتی ہیں۔ حضورِانور کے ساتھ گفتگو کے یہ چند لمحات میسر آنا بہت خوش قسمتی تھی جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ خاص طور پر چند ہفتوں کے بعد ایسے لمحات کا میسر ہوناناقابلِ فراموش اور روح کے لیے ایک مرہم کا رنگ رکھتا ہے۔

میں نے سہیل صاحب سے پوچھا کہ ’’چند ہفتوں کے بعد‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے تو جواباً انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ حضورِانور کے دورہ امریکہ سے صرف ایک ہفتہ قبل اچانک آسٹریلیا میں وفات پا گئیں۔ اُن کی عمر صرف ۶۵؍سال تھی۔ وہ آسٹریلیا پہنچ تو گئے لیکن وفات کے بعداور اس طرح اپنی والدہ سے مل نہ سکے۔ ان کے جنازہ کے دو دن بعد وہ واپس امریکہ آ گئے تھے تاکہ حضورِانور کی آمد کے لیے تیاری کر سکیں۔

سہیل صاحب نے بتایا کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آسٹریلیا میں کیا کروں، آیا اپنے والد صاحب اور فیملی کے ساتھ رہوں یا نہیں۔میں بہت الجھن کا شکار اور غم زدہ کیفیت میں تھا۔ تاہم میرے والد صاحب نے مجھے کہا کہ میرے لیے زیادہ اہم یہ ہے کہ میں امریکہ واپس چلا جاؤں کیونکہ حضورِانور تشریف لا رہے تھے اور یہ بھی کہ مجھے اپنے فرائض کو پسِ پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔ اگرچہ وہ غم سے چُور تھے اور ضروری تھا کہ کوئی ان کی ہمت بندھائے۔ لیکن میرے والد صاحب نے مجھے کہا کہ سب سے اچھا تحفہ جو میں انہیں دے سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں واپس امریکہ جاؤ ں اور خلافت کی برکات اور دعاؤں سے فیض یاب ہوں۔

بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ سہیل صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے والد صاحب نے حضورِانور کی خدمت میں دعائیہ خط تحریر کیا جو ان کو خود حضورِانور کی خدمت میں پیش کرنے کا موقع ملا اور یہ کہ حضورِانور نے اس خط کو پڑھا اور ان کی مرحومہ والدہ کےلیے اور ان کے والد صاحب کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کی اورایسے رنگ میں تسلی دی جو صرف خلیفہ وقت ہی دے سکتا ہے۔

سہیل صاحب نے بتایا کہ لاؤنج میں گزرے وہ لمحات جو میں نے حضورِانور کے ساتھ امریکن اور آسٹریلین فٹبال کے قواعد کا موازنہ کرتے ہوئے گزارے ،ایک مشکل گھڑی میں باعث تسکین تھےجو میں کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔

مقامی جماعت کی درخواست کو قبول فرماتے ہوئےپرواز پر بورڈنگ سے قبل حضورِانور نے جملہ مسافروں کے ساتھ ایک یاد گار تصویر بنوائی ۔جب حضورِانور تصویر کے لیے کھڑے ہوئے تو حضورِانور کے ایک سیکیورٹی گارڈ نے مجھے بتایا کہ حضورِانور کا بورڈنگ پاس آپ کی اچکن کی جیب سے نظر آرہا ہے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ تصویر لینے سے قبل میںحضورِانور کو آگاہ کردوں۔میرے بتانے پرحضورِانور نے تبسم کرتے ہوئےفرمایا: ’’کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم سفر کر رہے ہیں۔‘‘

یہ اس بات کی ایک مثال تھی کہ بسا اوقات ہم کسی چیز کے متعلق بہت زیادہ فکر مند ہو تے ہیں کہ وہ کیسی دکھائی دیتی ہےجبکہ حضورِانور کے پاس اس قسم کے دکھاوے کو اہمیت نہیں دیتے۔

یہ پرواز ایک بج کر پانچ منٹ پر شکاگو سے Dallas Fort Worthانٹرنیشنل ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئی ۔اگرچہ یہ ایک مختصر فلائٹ تھی ہمیں Halal Guysکی طرف سے ’’gyro‘‘ نامی ایک سینڈوچ پیش کیا گیاجواگرچہ کچھ ’’غیر منظم‘‘ تھا مگر تھاخوش ذائقہ۔

حضورِانور کے ساتھ چند لمحات

اگلے دن بروز سوموار، ۳؍اکتوبر ۲۰۲۲ء کو سارا دن فیملی ملاقاتوں کا سیشن ہوا۔ حضورِانور نے مسجد اور اس کے اطراف کا معائنہ فرمایا اور نئی مسجد کے افتتاح کی یادگاری تختی کی نقاب کشائی فرمائی۔ ظہر اور عصر کی نمازوں سے چند منٹ قبل حضورِانور نے مجھے اپنے دفتر میں طلب فرمایا جہاں میں نے ایک مختصر رپورٹ پیش کی۔ میں نے عرض کی کہ برٹش وزیراعظم Liz Trussاور چانسلر Kwasi Kwarteng نے اپنی flagship ٹیکس پالیسیز پر یوٹرن لے لیا ہےیعنی عوامی دباؤ کی وجہ سے انہوں نے سب سے زیادہ کمانے والے معاشرے کے افرادکے متعلق ٹیکس کی شرح کے پلان کو واپس لے لیا ہے۔ یہ سننے پر حضورِانور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے تمہیں کچھ دیر پہلے بتایا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور یہ کہ ان کی پالیسیز نا معقول ہیں۔‘‘

میں نے اثبات میں جواب دیا کیونکہ مجھے یاد تھا کہ جونہی نئے وزیراعظم اور چانسلر نے اپنے نئے منصوبوں کا اعلان کیا تھا تو حضورِانور نے مجھے فرمایا تھا کہ وہ (منصوبے ) غیرمعقول ہیں اور برٹش معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔

حضورِانور نے اس خدشہ کا بھی اظہار فرمایا کہ صرف ایک پالیسی کی واپسی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے نا کافی ہو گی اور وزیراعظم کو مزید مشکلات اور اختلافات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس کے بعد چند دنوں میں ہی Liz Trussکو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے استعفیٰ پر دستخط کریں۔اس طرح وہ برطانوی تاریخ میں مختصر ترین دورانیہ کی وزیراعظم ثابت ہوئیں۔

حضورِانور نے میرے سےاستفسار فرمایا کہ کیا میں مقامی جماعت کے احباب سے ملا ہوں؟اس پر میں نے عرض کی کہ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ احمدی احباب حضورِانور سے مل کر بہت شکر گزار ہیں لیکن چند ایک نے افسوس کا اظہار کیا کہ فیملی ملاقاتوں کا دورانیہ ’نہایت مختصر‘ ہے۔

اس پر حضورِانور نے فرمایا :’’اکثر احمدی جو میرے سے ملنے کے لیے آتے ہیں وہ خود اس قدر گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں یا جذبات سے مغلوب ہوتے ہیں کہ وہ بالکل بات ہی نہیں کر پاتے۔اس وجہ سے ملاقات مختصر ہوتی ہے۔ لیکن بعض لوگ زیادہ پُراعتماد ہوتے ہیں اور آزادانہ گفتگو کرتے ہیں اس لیے ایسی ملاقاتیں طبعاً زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ زائن میں ایک خاتون تھی جس کو مجھے تین سے چار مرتبہ السلام علیکم کہنا پڑا کیونکہ وہ باتیں کرتی جا رہی تھیں جبکہ دوسرے اپنی باری کے انتظار میں تھے۔‘‘

حضورِانور نے مزید فرمایا کہ ’’اگر کسی نے آپ سے براہ راست یہ بات کی ہے کہ ملاقاتیں زیادہ لمبی نہیں تھیں تو آپ یہ بھی بتا سکتے تھے کہ مجھے سخت فلو تھا۔ اس وجہ سے میرے لیے زیادہ دیر تک بات کرنا آسان نہیں۔‘‘

بعد ازاں حضورِانور نے ملاقاتوں کے بعد احباب جماعت امریکہ کے متعلق اپنے تاثرات بیان فرمائے۔

احباب جماعت سے بے انتہا پیار اور شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا:’’امریکہ آنے سے پہلے، جماعت امریکہ کے بعض احباب نے بتایا تھا کہ کچھ افرادجماعت(نظامِ جماعت سے)دور ہیں اور ناراضگیاں رکھتے ہیں۔ تاہم یہاں جتنے بھی لوگوں سے میں ملاہوں اور جن کو دیکھاہے وہ نہایت مخلص معلوم ہوتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اللہ کے فضل سے کئی احمدیوں میں ایک مثبت روحانی تبدیلی پیدا ہوئی۔‘‘ (حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہ امریکہ ستمبر۔اکتوبر 2022ءحصہ دوم)

(مترجم: ’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button