خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 07؍اپریل 2023ء
اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دین اور شریعت کو کامل کیا، مکمل کیا تو قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا کہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا
اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرما رہا ہے کہ قرآنی تعلیم ہی ہے جو اب انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کا واحدذریعہ ہے
جو کچھ بھی انسان کی ضروریات تھیں ان کو ہر لحاظ سے پورا کرنے والا صرف قرآن کریم ہے۔ کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا قرآن کریم نے احاطہ نہ کیا ہو
ہماری بیعت کا مقصد تبھی پورا ہو گا جب ہم اس مقصد کو اپنے سامنے رکھیں گے۔ اس کے لیے ہمیں قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے کی طرف ہمیشہ توجہ رکھنی چاہیے۔
اس کے لیے بہترین ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ارشادات ہیں
اگر ہم میں سے ہر ایک اس رمضان میں اس پر عمل کرنے کا عہد کر لے اور قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے کا ایک پکا ارادہ کر لے تو جہاں ہم اپنی روحانیت میں ترقی کر رہے ہوں گے وہاں ہمارا معاشرہ بھی ایک جنت نظیر معاشرہ بن رہا ہو گا۔ گھروں اور خاندانوں کے جھگڑے جو مختلف وقتوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں محبت اور پیار میں بدل سکتے ہیں
’’آج روئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ اس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کے کامِل اور مکمل ہونے کا بیان
مخالفین کے شرسے محفوظ رہنے،دنیا کے عمومی حالات اور فلسطین کے مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک میں دعاؤں کی تحریک
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 07؍اپریل 2023ءبمطابق 07؍شہادت 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دین اور شریعت کو کامل کیا، مکمل کیا تو قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا کہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا(المائدۃ:4)۔آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم میں اپنی نعمت تمام کر دی اور میں نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کر لیا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے مسلمانوں پر کہ ان کے لیے ایک کامل اور مکمل شریعت عطا فرمائی اور
یہ دعویٰ صرف اسلام کا ہے کسی دوسرے مذہب کا نہیں کہ اب آخری دین اسلام ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے
اور اگر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہیے تو اسلام قبول کیے بغیر، اس کی تعلیم پر عمل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرما رہا ہے کہ قرآنی تعلیم ہی ہے جو اب انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کا واحد ذریعہ ہے
بلکہ یہ تعلیم اس قدر کامل ہے کہ مادی ترقی کے راستوں کے لیے بھی اب یہی تعلیم ہے اور ان کی طرف لے کر جاتی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ اس تعلیم کے متعلق اَكْمَلْتُ کا اعلان فرماتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انسان کی تمام تر صلاحیتیں اخلاقی ہوں، روحانی ہوں یا جسمانی، ان کا حصول قرآن کریم پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتا ہے اور اس کی کامل تعلیم جو ہے اگر اس پہ حقیقی عمل کرنا ہے تو صرف قرآنِ کریم سے مل سکتی ہے۔ اور اَتْمَمْتُ کہہ کر یہ اعلان فرمایا اور پوری قوت سے فرما دیا کہ
جو کچھ بھی انسان کی ضروریات تھیں ان کو ہر لحاظ سے پورا کرنے والا صرف قرآن کریم ہے۔ کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا قرآن کریم نے احاطہ نہ کیا ہو
چاہے وہ انسان کی مادی ضروریات ہیں یا روحانی اور اخلاقی معیاروں کو حاصل کرنے کی ضروریات اور طریقے ہیں۔ جو بھی ایک انسان انصاف کی نظر سے دیکھنا چاہے وہ قرآن کریم کی تعلیم میں موجود ہے۔ پس اس آیت کے ساتھ قرآن کریم نے یہ اعلان فرما دیا کہ اب انسان کی بقا اس تعلیم کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور یہ تعلیم کل زمانے اور تمام دنیاکے انسانوں کے لیے ہے اور قرآن کریم سے پہلے نازل ہونے والی تمام تعلیمات جو مختلف انبیاء پر اتریں وہ وقتی اور اس زمانے کے لحاظ سے تھیں تمام انسانیت کے لیے نہیں تھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی وضاحت میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد بھی پورا ہو گیا اور آپؐ ہی وہ کامل اور آخری نبی ہیں جن پر اس کمال درجہ کی شریعت نازل ہوئی۔ پس یہ ہمارا عقیدہ ہے اور اس پر ہمیں ایمان ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام پر اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب یہ عقیدہ ہے اور قرآن کریم کو آخری شریعت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں تو پھر آپؑ کے دعوےکی کیا حیثیت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ پھر کیا ہے اور آپؑ کی پھر اس زمانے میں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اس کے مختلف جواب ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ اس کا جواب اس طرح بھی فرمایا ہے کہ اگر تم اسلامی تعلیم پر عمل کر رہے ہوتے تو پھر ٹھیک ہے میرے آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن
زمانے کی عمومی حالت اور خاص طور پر مسلمانوں کی اپنی حالت اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ کسی معلم کی ضرورت ہے۔
پھر اس تعلیم کو بھول جانے کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور اس کی اصلاح کے لیے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہر صدی میں مجدد آئیں گے۔ یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسلمان قرآن کی تعلیم کامل ہونے کے باوجود اس تعلیم کو بھول جائیں گے، نئی بدعات ان میں پیدا ہو جائیں گی اس لیے تجدید دین کے لیے مجدد آتے رہیں گے اور آخری زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود آئیں گے جو دین کو ثریا سے زمین پر لائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے لٹریچر میں، تحریرات میں، کتب میں، ہر جگہ یہ فرمایا ہے کہ
مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپؐ کی شریعت اور دین اور قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے آیا ہوں
اور اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اکمالِ دین ہو چکا ہے۔ اسے اور اسی تعلیم کو ہی دنیا کے ہر کونے میں پہنچانے آیا ہوں۔ تعلیم کی تکمیل قرآن کریم کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے سے ہوئی اور اُس زمانے میں کیونکہ اشاعتِ ہدایت اور تعلیم کے وسائل نہیں تھے اس لیے اس کی اشاعت کے لیے اِس زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو بھیجا۔ پس یہی کام ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے سرانجام دیا اور اسی کے جاری رکھنے کے لیے جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ اور یہی کام ہے جو جماعت احمدیہ آپؑ کے دیے ہوئے لٹریچر اور آپؑ کی بیان کردہ قرآنی تفسیر کے مطابق کر رہی ہے اور اس بات پر ہر احمدی کو غور کرنا چاہیے کہ اس مقصد کو ہم کس حد تک پورا کر رہے ہیں۔ ایک تو مجموعی طور پر پروگرام ہیں اور ہو رہے ہیں لیکن انفرادی طور پر بھی ہونے چاہئیں۔ پس
ہماری بیعت کا مقصد تبھی پورا ہو گا جب ہم اس مقصد کو اپنے سامنے رکھیں گے۔ اس کے لیے ہمیں قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے کی طرف ہمیشہ توجہ رکھنی چاہیے۔ اس کے لیے بہترین ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ارشادات ہیں ۔
قرآن کریم کے محاسن و خوبیاں میں کچھ عرصہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات کی روشنی میں بیان کر رہا ہوں۔ آج بھی
قرآن کریم کی تعلیم کی تکمیل کے بارہ میں آپ علیہ السلام کے کچھ ارشادات پیش کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’یہ امر ثابت شدہ ہے کہ قرآن شریف نے دین کے کامل کرنے کا حق ادا کردیا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(المائدۃ:4)۔ یعنی آج مَیں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے اور میں اسلام کو تمہارا دین مقرر کرکے خوش ہوا۔ سو
قرآن شریف کے بعد کسی کتاب کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ جس قدر انسان کی حاجت تھی وہ سب کچھ قرآنِ شریف بیان کر چکا
اب صرف مکالماتِ الٰہیہ کا دروازہ کھلا ہے۔’’ ہاں مکالمات الٰہیہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں سے، اپنے خاص بندوں سے کلام کرتا ہے۔ کوئی نئی تعلیم نہیں ہے۔ ’’اور وہ بھی خود بخود نہیں‘‘ کھل گیا فرمایا ’’بلکہ سچے اور پاک مکالمات جو صریح اور کھلے طور پر نصرت الٰہی کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں اور بہت سے امور غیبیہ پر مشتمل ہوتے ہیں وہ بعد تزکیہ نفس محض پیروی قرآنِ شریف اور اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوتے ہیں‘‘۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 80)قرآن کریم کیونکہ کامل کتاب ہے اس لیے اب اس کی پیروی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالیٰ سے تعلق کے یہ راستے کھلے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی رستہ نہیں، کوئی ذریعہ نہیں اور آپؑ کو بھی جومقام ملا آپؑ نے فرمایا مجھے اسی وجہ سے ملاہے۔
پھر
قرآن کریم کے کامل ہدایت ہونے کے بارے میں
آپؑ ایک جگہ مزید فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترکِ شر کر کے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحب ِکمال ہو گیا۔‘‘ برائیاں چھوڑ دیں تو کمال نہیں حاصل ہو گیا ’’بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاقِ فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے۔‘‘ تو قرآن کریم صرف برائیاں نہیں چھڑوانا چاہتا بلکہ اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاق فاضلہ انسان میں پیدا کرنا چاہتا ہے یعنی برائیاں بھی چھوڑنی ہیں اور پھر اس کی جگہ اعلیٰ اخلاق بھی اختیار کرنے ہیں ’’کہ اس سے ایسے اعمال و افعال سرزد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور ان کا نتیجہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7صفحہ 270 ایڈیشن 1984ء)یہ نتیجہ نکلنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔
پس یہ سوچ ہے جو ہم میں قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق پیدا ہونی چاہیے۔
ہم اپنے جائزے لیں کہ کیا یہ سوچ ہماری ہے۔ ہم صرف دوسروں کی طرح پڑھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں یا واقعی یہ تبدیلیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں، اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق بھی ہمارا پیدا ہو رہا ہے۔
رمضان میں بھی قرآن کریم پڑھا جاتا ہے۔ درس بھی سنتے ہیں۔ پس اس کو زندگی میں لاگو کرنا بھی ضروری ہے۔ اور ہم نے تو اپنے عہد بیعت میں بھی یہ عہد کیا ہوا ہے دس شرائط ہیں ان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ’’قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کر لے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)
پس اگر ہم میں سے ہر ایک اس رمضان میں اس پر عمل کرنے کا عہد کر لے اور قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے کا ایک پکا ارادہ کر لے تو جہاں ہم اپنی روحانیت میں ترقی کر رہے ہوں گے وہاں ہمارا معاشرہ بھی ایک جنت نظیر معاشرہ بن رہا ہو گا۔ گھروں اور خاندانوں کے جھگڑے جو مختلف وقتوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں محبت اور پیار میں بدل سکتے ہیں۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ
الٰہی شریعت کا تخم قرآن کریم کے زمانے میں اپنے کمال کو پہنچ گیا
فرماتے ہیں ’’چونکہ قرآن شریف امر معروف اور نہی منکر میں کامل ہے۔‘‘ جو کام کرنے والے ہیں ان کی ہدایت دینے میں اور جن سے روکا گیا ہے ان کے بارے میں بتانے میں کامل ہے ،مکمل طور پر بتادیا ہے کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ’’اور خدا نے اس میں یہی ارادہ کیا ہے کہ جو کچھ انسانی فطرت میں انتہا تک بگاڑ ہو سکتا ہے اور جس قدر گمراہی اور بدعملی کے میدانوں میں وہ آگے سے آگے بڑھ سکتے ہیں ان تمام خرابیوں کی قرآن شریف کے ذریعہ سے اصلاح کی جائے اس لئے ایسے وقت میں اس نے قرآن شریف کو نازل کیا کہ جبکہ نوعِ انسان میں یہ تمام خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور رفتہ رفتہ انسانی حالت نے ہر ایک بد عقیدہ اور بدعمل سے آلودگی اختیار کر لی تھی اور یہی حکمتِ الٰہیہ کا تقاضا تھا کہ ایسے وقت میں اس کا کامل کلام نازل ہو کیونکہ خرابیوں کے پیدا ہونے سے پہلے ایسے لوگوں کو ان جرائم اور بد عقائد کی اطلاع دینا کہ وہ ان سے بکلی بے خبر ہیں یہ گویا ان کو ان گناہوں کی طرف خود میلان دیتا ہے۔‘‘ پہلے ہی بتا دینا کہ یہ یہ گناہ ہیں اور جن کا ان کو پتا ہی نہیں، تصور ہی کوئی نہیں ہے تو اس چیز سے پھر گناہ پھیلتے ہیں۔ آجکل ہم یہی دیکھتے ہیں۔ نظامِ تعلیم میں بچوں کو جنسی تعلقات کے بارے میں ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کا بچوں کو کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ وہ پریشان حیران ہوتے ہیں۔ اب تو والدین نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ کیا پڑھایا جا رہا ہے بلکہ اسی کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ تعلیم نے بھی نوٹس لیا ہے۔ بعض اساتذہ حد سے زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں کہ ایسی باتیں جن کا پتا ہی نہیں، تصور نہیں، جو ان کی بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک ان کو پتا ہونی چاہئیں وہ خود ان میں پیدا کی جارہی ہیں تو یہی قانون شریعت اور انسانی قانون میں فرق ہے۔ یہی قانون اور قرآن کریم کی ہدایت میں فرق ہے کہ قرآن کریم ہدایت دیتا ہے اور واضح بھی کرتا ہے کہ اس عمر کی یہ ہدایت اور اس عمر کی یہ ہدایت ہے۔ یہ نہیں کہ ہر چیز کو کھول کے بیان کر دیا اور پھر تفسیریں جو ہیں وہ ہر ایک کی عقل اور سمجھ کے مطابق آہستہ آہستہ انہی الفاظ میں سے نکلتی چلی آتی ہیں۔
تو فرمایا ’’سو خدا کی وحی حضرت آدم سے تخم ریزی کی طرح شروع ہوئی اور وہ تخم خدا کی شریعت کا قرآن شریف کے زمانہ میں اپنے کمال کو پہنچ کر ایک بڑے درخت کی طرح ہو گیا۔‘‘
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 219-220)
پس جس طرح برائیاں پھیلتی رہیں ان کا علاج بھی زمانے کے لحاظ سے ظاہر ہو تا رہا اور
قرآن کریم کی تعلیم میں یہ خوبی بھی ہے کہ ہر زمانے کی جو برائیاں پیدا ہو رہی ہیں اس کا علاج اسی تعلیم میں مل جاتا ہے جو مفسرین کے ذریعہ سے، اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ذریعہ سے ہمیں پتہ لگتا رہتا ہے۔
پھر فرمایا کہ ’’چونکہ کامل کتاب نے آ کر کامل اصلاح کرنی تھی۔ ضرور تھا کہ اس کے نزول کے وقت اس کے جائے نزول میں بیماری بھی کامل طور پر ہو تا کہ ہر ایک بیماری کا کامل علاج مہیا کیا جاوے۔ سو اس جزیرہ میں کامل طور سے بیمار …تھے اور جن میں وہ تمام روحانی بیماریاں موجود تھیں۔‘‘ یعنی عرب میں ’’جو اس وقت یا اس کے بعد آیندہ نسلوں کو لاحق ہونے والی تھیں‘‘ اس میں مزید وضاحت ہوگئی۔ جو اس وقت موجود تھیں یا آئندہ نسلوں میں لاحق ہونے والی تھیں ان کی تعلیم دے دی۔ کیونکہ زمانہ دور نہیں جانا تھا، شریعت کامل ہو رہی تھی اس لیے جو آئندہ ہو سکتی تھیں ان کی بھی وضاحت کردی اور بتادیا کس حد تک کہاں تک تم نے کھولنا ہے۔ کس طرح تمہیںکھلتا جائے گا اوراس لیے مفسرین اسی طرح زمانے کے لحاظ سے تشریح کرتے چلے گئے۔ فرمایا کہ ’’یہی وجہ تھی کہ قرآن شریف نے کل شریعت کی تکمیل کی‘‘ اور کتابوں کے نازل ہونے کے وقت نہ یہ ضرورت تھی اَور ’’دوسری کتابوں کے نزول کے وقت نہ یہ ضرورت تھی۔ نہ ان میں ایسی کامل تعلیم ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 38 ایڈیشن 1984ء) آپؑ نے یہاں یہ ثابت فرمایا کہ خود عیسائی اور یہودی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ زمانہ ہر لحاظ سے انتہائی بگڑا ہوا تھا اور اس وقت ایک شریعت کی ضرورت تھی۔
یہ بیان فرماتے ہوئے کہ
قرآن کریم ہرگز کسی انسانی کلام کے مشابہ نہیں ہو سکتا
آپؑ اس کو سمجھاتے ہوئے، مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب چند متکلمین انشاء پرداز اپنی اپنی علمی طاقت کے زور سے ایک ایسا مضمون لکھنا چاہیں‘‘ اچھے بولنے والے، اچھے لکھنے والے اپنی علمی طاقت کے ذریعہ سے مضمون لکھنا چاہیں ’’کہ جو فضول اور کِذب اور حَشْو اور لغو اورہَزْل اور ہر یک مہمل بیانی اور ژَوْلِیدہ زبانی اور دوسرے تمام امور مخل حکمت وبلاغت اور آفات منافی کمالیت وجامعیت سے بکلّی منزہ اور پاک ہو۔‘‘ یعنی جو ہر قسم کے، فضول قسم کے جھوٹ، بنائی ہوئی باتیں، لغو باتیں، بیہودہ باتیں، ٹھٹھے ہنسی وغیرہ اور ہر ایک بیکار اور بیہودہ بات اور الجھی ہوئی پیچیدہ باتیں اور ایسی ساری باتیں جس میں حکمت بھی نہ ہو اور بلاغت بھی نہ ہو جن کی انسان کو سمجھ ہی نہ آئے اور اچھا لکھنے والا ان سب فضولیات سے پاک باتیں لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی
ایک اچھے لکھنے والے کی نشانی ہے کہ ہر قسم کی بیہودگیوں سے وہ پاک ہو، اس کا کلام منزہ اور پاک ہو
اور فرمایا کہ ’’اور سراسر حق اور حکمت اور فصاحت اور بلاغت اور حقائق اور معارف سے بھرا ہوا ہو تو ایسے مضمون کے لکھنے میں‘‘ نہ صرف وہ پاک ہو بلکہ معارف سے بھرا ہوا بھی ہو۔ تو ایسے مضمون کے لکھنے میں ’’وہی شخص سب سے اوّل درجہ پر رہے گا کہ جو علمی طاقتوں اور وسعت معلومات اور عام واقفیت اور ملکہ علوم دقیقہ میں سب سے اعلیٰ اور مشق اور ورزشِ املاء و انشاء میں سب سے زیادہ ترفرسودہ روزگار ہو‘‘ بڑا اچھا ہو، پڑھا لکھا ہو، عالم ہو، تجربہ کار ہو وہی ایسا مضمون لکھ سکتا ہے جو ان ساری چیزوں سے پاک ہو ’’اور ہرگز ممکن نہ ہوگا کہ جو شخص اس سے استعداد میں ، علم میں ، لیاقت میں ، ملکہ میں ، ذہن میں، عقل میں کہیں فروتر اور متنزل ہے۔‘‘ بہت نیچے گرا ہوا ہے۔ ’’وہ اپنی تحریر میں مِنْ حَیْثُ الکمالات اس سے برابر ہو جائے۔‘‘ جس میں یہ صلاحیتیں نہیں وہ اس کے برابر تو نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کہ ’’مثلاً ایک طبیبِ حاذق جو علمِ اَبدان میں مہارت تامہ رکھتا ہے۔‘‘ ایک ڈاکٹر ہے، بڑا expertڈاکٹر ہے جس کو بڑی مہارت ہے۔ ’’جس کو زمانہ دراز کی مشق کے باعث سے تشخیصِ امراض اور تحقیقِ عوارض کی پوری پوری واقفیت حاصل ہے۔‘‘ صحیح طرح وہ diagnoseکر لیتا ہے، اس کے جو امراض ہیں ان کا بھی اس کو مکمل طور پہ علم ہے۔ ’’اور علاوہ اس کے فنِ سخن میں بھی یکتا ہے۔‘‘ ایک زائد چیز ہے اس میںکہ سخن دان بھی ہے۔ ’’اور نظم اور نثر میں سرآمد روزگار ہے۔‘‘ بہت اچھا ہے، بہت ممتاز ہے ’’جیسے وہ ایک مرض کے حدوث کی کیفیت اور اس کی علامات۔‘‘ یعنی جب مرض پیدا ہوتا ہے اس کی کیفیت اور علامات ’’اور اسباب فصیح اور وسیع تقریر میں بکمال صحت و حقانیت اور بہ نہایت متانت و بلاغت بیان کرسکتا ہے۔ اس کے مقابلے پر کوئی دوسرا شخص جس کو فنِ طبابت سے ایک ذرّہ مَس نہیں اور فن سخن کی نزاکتوں سے بھی ناآشنا محض ہے ممکن نہیں کہ مثل اس کے بیان کر سکے۔‘‘ دوسرا شخص جس میں یہ خوبیاں پائی نہیں جاتیں وہ تو یہ ساری باتیں بیان نہیں کر سکتا جتنا کہ ایک علم رکھنے والا جو اپنے پیشہ میں بھی مہارت رکھنے والا ہے اور اس کے علاوہ بیان بھی اچھا کر لیتا ہے اور تحقیق بھی کرنے والا ہے وہ اس کی طرح نہیں ہو سکتا جس کا علم بہت محدود ہو۔ وہ بہرحال اس سے اوپر ہے ۔ فرمایا ’’یہ بات بہت ہی ظاہر اورعام فہم ہے کہ جاہل اورعاقل کی تقریر میں ضرور کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے اور جس قدر انسان کمالاتِ علمیہ رکھتا ہے۔ وہ کمالات ضرور اس کی علمی تقریر میں اس طرح پر نظر آتے ہیں جیسے ایک آئینۂ صاف میں چہرہ نظر آتا ہے۔ اور حق اور حکمت کے بیان کرنے کے وقت وہ الفاظ کہ جو اس کے مونہہ سے نکلتے ہیں اس کی لیاقتِ علمی کا ا ندازہ معلوم کرنے کے لئے ایک پیمانہ تصور کئے جاتے ہیں اور جو بات وسعت علم اور کمالِ عقل کے چشمہ سے نکلتی ہے اور جو بات تنگ اور منقبض اور تاریک اور محدود خیال سے پیدا ہوتی ہے۔ ان دونوں طور کی باتوں میں اس قدر فرق‘‘ ہے۔ ایک علم و عرفان کا چشمہ ہے ایک بالکل سطحی قسم کی باتیں ہیں تو ان میں واضح فرق پتا لگ جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’فرق واضح ہوتا ہے کہ جیسی قوّتِ شامہ کے آگے بشرطیکہ کسی فطرتی یا عارضی آفت سے ماؤف نہ ہو خوشبو اور بدبو میں فرق واضح ہے۔ جہاں تک تم چاہو فکر کرلو اور جس حد تک چاہو سوچ لو کوئی خامی اس صداقت میں نہیں پاؤ گے۔‘‘ یہ بڑی سچی بات ہے ’’اور کسی طرف سے کوئی رخنہ نہیں دیکھو گے پس جبکہ
من کل الوجوہ ثابت ہے کہ جو فرق علمی اور عقلی طاقتوں میں مخفی ہوتا ہے وہ ضرور کلام میں ظاہر ہوجاتا ہے
اور ہرگز ممکن ہی نہیں کہ جو لوگ من حَیثُ العقل والعلم افضل اور اعلیٰ ہیں وہ فصاحت بیانی اور رفعت معانی میں یکساں ہوجائیں ‘‘ علم و عرفان والے بہرحال اوپر رہیں گے۔ وہ ایک عام آدمی کے برابر نہیں ہو سکتے۔ ’’اور کچھ مَابِہِ الامتیاز باقی نہ رہے۔ تو
اس صداقت کا ثابت ہونا اس دوسری صداقت کے ثبوت کو مستلزم ہے کہ جو کلام خداکا کلام ہو اس کا انسانی کلام سے اپنے ظاہری اور باطنی کمالات میں برتر اور اعلیٰ اور عدیم المثال ہونا ضروری ہے۔‘‘
پس اس مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام تو ان سب سے اعلیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام علوم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس جتنا علم تو کسی کو بھی نہیں ’’کیونکہ خدا کے علم تام سے کسی کا علم برابر نہیں ہوسکتا۔ اور اسی کی طرف خدا نے بھی اشارہ فرما کر کہا ہے۔ فَاِلَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ ( ھود :15) …یعنی اگر کفار اس قرآن کی نظیر پیش نہ کرسکیں اور مقابلہ کرنے سے عاجز رہیں تو تم جان لو کہ یہ کلامِ علم انسان سے نہیں بلکہ خداکے علم سے نازل ہوا ہے۔‘‘ جب مثال پیش ہی نہیں کرسکتے تو پھر ظاہر ہے کہ انسان کا کلام نہیں یہ خدا کا کلام ہے۔ ’’جس کے علم وسیع اور تام کے مقابلہ پر علوم انسانیہ بے حقیقت اور ہیچ ہیں اس آیت میں برہانِ اِنِّی کی طرز پر اثر کے وجود کو مؤثر کے وجود کی دلیل ٹھہرائی ہے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’جس کا دوسرے لفظوں میں خلاصہ مطلب یہ ہے کہ علم الٰہی بوجہ اپنی کمالیت اور جامعیت کے ہرگزانسان کے ناقص علم سے متشابہ نہیں ہوسکتا بلکہ ضرور ہے کہ جو کلام اس کامل اور بے مثل علم سے نکلا ہے وہ بھی کامل اور بے مثل ہی ہو اور انسانی کلاموں سے بکلّی امتیاز رکھتا ہو۔ سو یہی کمالیت قرآنِ شریف میں ثابت ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ 216تا240)
پس ہر لحاظ سے کامل ہونے کا قرآن کریم کا دعویٰ ہے اور کوئی نہیں جو اس کے مقابلے پہ آ سکے اور نہ اب تک آیا اور نہ آ سکے گا۔
فرماتے ہیں کہ
قرآن کریم ہی مراتبِ علمیہ کے ساتھ مراتبِ عملیہ کے کمال تک پہنچاتاہے،
علمی اور عملی دونوں باتوں میں کمال تک پہنچاتا ہے۔ فرمایا ’’قرآن شریف جیسے مراتب علمیہ میں اعلیٰ درجہ کمال تک پہنچاتا ہے ویسا ہی مراتبِ عملیہ کے کمالات بھی اسی کے ذریعہ سے ملتے ہیں اور آثار و انوارِ قبولیت حضرت احدیت انہیں لوگوں میں ظاہرہوتے رہے ہیں اور اب بھی ظاہر ہوتے ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کی متابعت اختیار کی ہے۔ دوسروں میں ہرگز ظاہر نہیں ہوتے۔ پس طالبِ حق کے لئے یہی دلیل جس کو وہ بچشمِ خود معائنہ کرسکتا ہے کافی ہے یعنی یہ کہ آسمانی برکتیں اور ربّانی نشان صرف قرآن شریف کے کامل تابعین میں پائے جاتے ہیں‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ351-352 بقیہ حاشیہ نمبر11) قرآن کریم کی کامل اتباع کرو گے تو نشانات بھی نظر آئیں گے۔ لوگ نشانات کا پوچھتے ہیں کہ ہمیں تو نظر نہیں آیا یا اتنی دیر دعا کی تھی دعا قبول نہیں ہوئی۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری بات بھی تو سنو، میرے پہ ایمان بھی تو مکمل کرو۔ میری باتوں پہ عمل بھی تو کرو۔ جب یہ ہو گا تو پھر دعائیں بھی اللہ تعالیٰ سنتا ہے۔ پس
یہ بھی قرآنی تعلیم کا خاصہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم پر کامل عمل کرنے والے ہی غیرمعمولی برکات حاصل کرنے والے ہیں ۔
آپؑ نے فرمایا
قرآن کریم نے کمالِ ایجاز سے تمام دینی صداقتوں پہ احاطہ کیا ہے۔
ایجاز معجزہ نہیں ایجاز الف۔ی۔جیم کے ساتھ ہے مطلب یہ ہے کہ مختصر مضمون۔
اس کو بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’فرقان مجید نے اپنی فصاحت اور بلاغت کو صداقت اور حکمت اور ضرورت حقّہ کے التزام سے ادا کیا ہے اور کمال ایجاز سے تمام دینی صداقتوں پر احاطہ کر کے دکھایا ہے۔ چنانچہ اس میں ہر یک مخالف اور منکر کے ساکت کرنے کے لئے براہین ساطعہ بھری پڑی ہیں اور مومنین کی تکمیلِ یقین کے لئے ہزارہا دقائق حقائق کا ایک دریائے عمیق و شفاف اس میں بہتا ہوا نظر آ رہاہے۔ جن امور میں فساد دیکھا ہے انہیں کی اصلاح کے لئے زور مارا ہے۔ جس شدت سے کسی افراط یا تفریط کا غلبہ پایا ہے اسی شدت سے اس کی مدافعت بھی کی ہے۔ جن انواع اقسام کی بیماریاں پھیلی ہوئی دیکھی ہیں ان سب کا علاج لکھا ہے۔ مذاہب باطلہ کے ہر ایک وہم کو مٹایا ہے۔‘‘ جھوٹے مذہب جو سوال اٹھاتے ہیں ان کے جو وہم تھے ان کو مٹایا، غلط باتوں کو مٹایا۔ ’’ہر ایک اعتراض کا جواب دیا ہے۔ کوئی صداقت نہیں جس کو بیان نہیں کیا۔ کوئی فرقہ ضالّہ نہیں جس کا ردّ نہیں لکھا۔‘‘ گمراہ لوگ جو ہیں ان کے ردّ میں باتیں لکھیں، بڑا واضح طور پر ہر حکم ہے ’’اور پھر کمال یہ کہ کوئی کلمہ نہیں کہ بلا ضرورت لکھا ہو۔‘‘ بغیر ضرورت کے کوئی بات نہیں ’’اور کوئی بات نہیں کہ بےموقع بیان کی ہو اور کوئی لفظ نہیں کہ لغو طور پر تحریر پایا ہواور پھر باوصف التزام ان سب امور کے فصاحت کا وہ مرتبہ کامل دکھلایا جس سے زیادہ تر متصور نہیں‘‘ ہو سکتا۔ ساری باتیں کوَر (cover) کر لیں اور مختصر طور پر کیں لیکن فصاحت و بلاغت اس سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتی ’’اور بلاغت کو اس کمال تک پہنچایا کہ کمال حسن ترتیب اور موجز اور مدلل بیان سے علم اوّلین اور آخرین ایک چھوٹی سی کتاب میں بھر دیا۔‘‘ پہلوں کے لیے بھی علم تھا۔ پہلے بھی مثال دے چکا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عرب کے جو بدّو تھے جو گاؤں کے رہنے والے تھے ان کو بھی قرآن کریم سمجھ آ گیا اور وہ باخدا انسان بن گئے، تعلیم یافتہ انسان بن گئے، اور جو علم رکھنے والے تھے، ان کو اپنی عقل کے مطابق سمجھ آیا اور پھر ان تک نہیں اولین اور آخرین تک بھی سمجھ آ گیا۔ آخرین میں بھی قرآن کریم کی تعلیم ایسی ہے جس کی تفاسیر کے ہر لفظ سے ہرزمانے میں ایک نئے معنی نکلتے چلے جاتے ہیں جو اس زمانے کے لحاظ سے ہمیں پتا دیتے رہتے ہیں۔ فرمایا کہ ایک چھوٹی سی کتاب میں بھر دیا ’’تا کہ انسان جس کی عمر تھوڑی اور کام بہت ہیں بیشمار درد سر سے چھوٹ جائے اور تا اسلام کو اس بلاغت سے اشاعت مسائل میں مدد پہنچے اور حفظ کرنا اور یاد رکھنا آسان ہو۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ451-456 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
قرآن شریف حفظ بھی لوگ کر لیتے ہیں، بچے چھوٹی عمر میں کرلیتے ہیں۔ آپؑ نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں یہ ثابت فرمایا ہے کہ قرآن کریم ہی ہے جو اپنی عبارت کے لحاظ سے اور زبان کے لحاظ سے ایسی صداقتیں بیان فرماتا ہے جو کہیں اَور نہیں ہیں اور انجیل وغیرہ کتابیں تو انسانی دخل اندازی کی وجہ سے الٰہی کتابیں اب رہی ہی نہیں۔
پھر قرآن کریم کے ایجاز کلام کا کمال
ایک جگہ اَور بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں :’’جب منصف آدمی قرآن شریف کو دیکھے تو فی الفور اسے معلوم ہوگا کہ قرآن شریف میں ایجاز کلام اور قَلَّ وَ دَلَّ بیان میں جو لازمہ ضروریہ بلاغت ہے وہ کمال دکھلایا ہے۔‘‘ یعنی تھوڑے مختصر الفاظ میں اور واضح بیان میں کمال تک پہنچ گیا ہے ’’وہ کمال دکھلایا ہے کہ وہ باوجود احاطہ جمیع ضروریاتِ دین اور استَِیفاء تمام دلائل و براہین کے اس قدر حجم میں قلیل المقدار ہے کہ انسان صرف تین چار پہر کے عرصہ میں ابتدا سے انتہا تک بفراغ خاطر اس کو پڑھ سکتا ہے۔‘‘ اتنے مختصر الفاظ ہیں کہ آرام سے انسان اس کو پڑھ سکتا ہے۔ ’’اب دیکھنا چاہئے کہ یہ بلاغت قرآنی کس قدر بھارا معجزہ ہے کہ علم کے ایک بحرِذخّار کو تین چار جُز میں لپیٹ کر دکھلا دیا ہے۔ اور حکمت کے ایک جہان کو صرف چند صفحات میں بھر دیا ہے۔ کیا کبھی کسی نے دیکھا یا سنا کہ اس قدر قلیل الحجم کتاب تمام زمانہ کی صداقتوں پر مشتمل ہو۔ کیا عقل کسی عاقل کی انسان کے لئے یہ مرتبہ عالیہ تجویز کرسکتی ہے کہ وہ تھوڑے سے لفظوں میں ایک دریا حکمت کا بھردے جس سے علمِ دین کی کوئی صداقت باہر نہ ہو۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ526 – 527حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
آپؑ یہاں وید جو ہندوؤں کی کتاب ہے اس کا موازنہ کر رہے تھے اور ثابت فرمایا کہ وید میں تو ایسا بیان ہی نہیں جو قرآن کریم میں ہے۔ اور پھر لمبی عبارتیں ہیں اس کی جنہیں پڑھنا ہی مشکل ہے۔ آپؑ نے ہر مذہب کو چیلنج کیا تھا کہ آؤ میں یہ سب خوبیاں تمہیں قرآنِ کریم سے دکھاتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ اس زمانے میں کوئی نہیں جس نے اس طرح دنیا کو چیلنج کیا ہو۔
پھر بھی ہم پر الزام کہ نعوذ باللہ ہم قرآن کریم کی توہین کرنے والے ہیں۔
قرآن کریم کا زمانہ کامل تعلیم کا مقتضیٰ تھا
فرماتے ہیں:’’قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطاکی ہے اورقرآن شریف کاہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی۔‘‘ یہ کچھ ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ’’پس یہ دعویٰ کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اسی کاحق تھا اس کے سواکسی آسمانی کتاب نے ایسا دعوی نہیں کیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 4)
فرمایا ’’ہمارے نزدیک تو مومن وہی ہے جو قرآن شریف کی سچی پیروی کرے اور قرآن شریف ہی کو خاتم الکتب یقین کرے۔‘‘ مومن کی یہ نشانی ہے ’’اور اسی شریعت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے تھے اسی کو ہمیشہ تک رہنے والی مانے اور اس میں ایک ذرہ بھر اور ایک شوشہ بھی نہ بدلے اور اس کی اتباع میں فنا ہو کر اپنا آپ کھو دے اور اپنے وجود کا ہر ذرہ اسی راہ میں لگائے عملاً اور علماً اس کی شریعت کی مخالفت نہ کرے تب پکا مسلمان ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد10 صفحہ267 ایڈیشن 1984ء)اب ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
قرآن کریم کے آخری کتاب ہونے کے بارے میں
آپؑ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف ایسے زمانے میں آیا تھا کہ جس میں ہر ایک طرح کی ضرورتیں تھیں جن کا پیش آنا ممکن ہے پیش آ گئی تھیں یعنی تمام امور اخلاقی اور اعتقادی اور قولی اور فعلی بگڑ گئے تھے اور ہر ایک قسم کا افراط اور تفریط اور ہر ایک نوع کا فساد اپنے انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس لیے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی۔ پس انہی معنوں سے شریعت فرقانی مختتم اور مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں کیونکہ پہلے زمانوں میں وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لیے الہامی کتابیں آئیں وہ بھی انتہائی درجہ پر نہیں پہنچے تھے اور قرآنِ شریف کے وقت میں وہ سب اپنے انتہا کو پہنچ گئے تھے۔ بہت سے بچے یا نوجوانی میں قدم رکھنے والے لوگ سوال کرتے رہتے ہیں ان کے لیے جواب ہے کہ پہلے وہ باتیں انتہا کو نہیں پہنچی تھیں یہاں انتہا کو بھی پہنچ گئیں۔ اس لیے تعلیم بھی انتہا کو پہنچ گئی۔ اس لیے قرآن کریم نازل ہوا اور اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اسلام کی بنیاد پڑی۔ پس اب قرآن شریف اور دوسری الہامی کتابوں میں فرق یہ ہے کہ فرمایا پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی وہ بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی فرقان مجید ظہور پذیر ہوتا۔ ان کے سامنے بعض باتیں آئی ہی نہیں تھیں تو وہ بیان کس طرح کرتے۔ اس کی تعلیم ناقص تھی اس لیے قرآن مجید کا ظہور ہونا ضروری تھا۔ فرمایا مگر قرآن شریف کے لیے اب یہ ضرورت پیش نہیں کہ اس کے بعد کوئی اَور کتاب بھی آوے کیونکہ کمال کے بعد اَور کوئی درجہ باقی نہیں۔ ہاں اگر یہ فرض کیا جائے کہ کسی وقت اصول حقہ قرآن شریف کے وید اور انجیل کی طرح مشرکانہ اصول بنائے جائیں گے اور تعلیم توحید میں تبدیل اور تحریف عمل میں آوے گی۔ قرآن کریم میں کوئی تحریف عمل میں آئے گی یا اگر ساتھ اس کے یہ بھی فرض کیا جائے جو کسی زمانے میں وہ کروڑہا مسلمان جو توحید پر قائم ہیں وہ بھی پھر طریقِ شرک اور مخلوق پرستی کا اختیار کر لیں گے تو بیشک ایسی صورت میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہو گا۔ ہاں اگر یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے بلکہ ہو گا، ضرور ہو گا مگر دونوں قسم کےفرض ہیں یہ فرض کی گئی باتیں ہیں اور یہ محال ہے۔
(ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ101-102 بقیہ حاشیہ نمبر 9)
یہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس شریعت کو محفوظ رکھوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اسی مقصد کے لیے بھیجا اور یہی ہماراکام ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’نجات کے واسطے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے وہی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اوّل سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک سمجھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی یقین کرے اور قرآن شریف کو کتاب اللہ سمجھے کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ قیامت تک اب اَور کوئی کتاب یا شریعت نہ آئے گی یعنی قرآنِ شریف کے بعد اب کسی کتاب یا شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 6صفحہ 236 ایڈیشن 1984ء)
قرآنی وحی کی شان کے متعلق
آپؑ بیان فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی لعنت ان پر جو دعویٰ کریں کہ وہ قرآن کی مثل لاسکتے ہیں
قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مثل کوئی انس و جن نہیں لاسکتا اور اس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں جنہیں انسانی علم جمع نہیں کرسکتا
بلکہ وہ ایسی وحی ہے کہ اس کی مثل اور کوئی وحی بھی نہیں اگرچہ رحمان کی طرف سے اس کے بعداَور کوئی وحی بھی ہو۔ اس لئے کہ وحی رسانی میں خدا کی تجلیات ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی جیسی کہ خاتم الانبیاء پر ہوئی ایسی کسی پر نہ پہلے ہوئی اور نہ کبھی پیچھے ہوگی۔ اور جو شان قرآن کی وحی کی ہے وہ اولیاء کی وحی کی شان نہیں‘‘ اولیا ءکو بھی وحی ہو سکتی ہے لیکن وہ شان نہیں ہو سکتی۔ ’’اگرچہ قرآن کے کلمات کی مانند کوئی کلمہ انہیں وحی کیا جائے۔ اس لئے کہ قرآن کے معارف کا دائرہ سب دائروں سے بڑا ہے اور اس میں سارے علوم اور ہر طرح کی عجیب اور پوشیدہ باتیں جمع ہیں اور اس کی دقیق باتیں بڑے اعلیٰ درجہ کے گہرے مقام تک پہنچی ہوئی ہیں اور وہ بیان اور برہان میں سب سے بڑھ کر اور اس میں سب سے زیادہ عرفان ہے اور وہ خدا کا معجز کلام ہے جس کی مثل کانوں نے نہیں سنا اور اس کی شان کو جِن وانس کا کلام نہیں پہنچ سکتا۔ سو قرآن اور دوسرے کلام کی مثال اس رؤیا کی ہے جو دیکھی ایک بادشاہ عادل بلند ہمت اور پورے دانا نے۔‘‘ اگر مثال لینی ہے تو یہ ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک خواب دیکھی جو بڑا عادل تھا، بڑا بلند ہمت تھا ’’اور وہی رؤیا دیکھی ایک دوسرے عامی کم فہم پست ہمت نے‘‘ اسی طرح کی ایک اَور خواب کسی اور آدمی نے دیکھی جس کا مقام ایسا نہیں تھا۔ عام آدمی تھا۔ عقل بھی کم تھی۔ پست ہمت تھا۔ ’’سو اس میں شک نہیں کہ بادشاہ کا خواب اور اس عامی کا گو ظاہر میں ایک ہی ہیں‘‘ ملتے جلتے خواب ہیں ’’لیکن دانشمند اور تعبیر جاننے والے کے نزدیک ایک نہیں۔‘‘ عقلمند انسان جو تعبیر جاننے والا ہے وہ کہے گا یہ ایک خواب نہیں ہے ’’بلکہ عادل بادشاہ کی تعبیر بہت بلند اور عام اور نفع رسان اور سب لوگوں کے حق میں خیر و برکت اور بہت ہی درست اور صاف ہے۔‘‘ بڑا وسیع دائرہ ہے اس کی خواب کا۔ ’’مگر عامی کی رؤیا اکثر صورتوں میں آمیزش اور میل کچیل سے پاک نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ اس کا اثر بیٹوں اور باپوں یا تھوڑے سے دوستوں سے آگے نہیں جاتا۔‘‘ محدود دائرہ جو ہے اس کا خاندان کا، بیٹے ہیں، باپ ہے یا رشتہ دار ہیں یا دوست ہیں، اُن تک ہی وہ اگر کوئی ایسی چیز ہے کہ فائدہ پہنچنے والا ہے تو ان تک ہی فائدہ پہنچے گا۔ اور فرمایا کہ ’’اور اگر اغیار سوار بھی ہوں‘‘ دوسروں کو سوار بھی کر لو، ان کے متعلق بھی کہہ رہے ہیں کہ لپیٹ لو کہ ہاں جی اس عامی کی جو خواب ہے اس میں دوسرے بھی شامل ہو سکتے ہیں ’’تو بھی بہت ہی نزدیک جگہ میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں‘‘ پھر بھی قریب قریب ہی رہے گا۔اس کا اثر جس حد تک وہ ماحول جانتا ہے وہیں تک رہے گا ’’اور پالانوں سے اتر کر آشیانوں میں گھس جاتے ہیں‘‘ یعنی کہ محاورةً آپؑ نے فرمایا کہ پھر وہ محدود ہوجاتے ہیں۔ ان کی وسعت جو ہے اس قدر ہو ہی نہیں سکتی ’’مگر قرآن کریم کے سواروں کا یہ حال ہے کہ وہ آبادی کے ہر دائرہ کو قطع کرتے ہیں‘‘ بڑے وسیع ہیں۔ ’’قرآن کریم ایک کتاب ہے جس کے نیچے عرفان کے دریا بہتے ہیں اور کسی گویائی کا پرندہ اس سے فوق اڑ نہیں سکتا۔‘‘ اس سے زیادہ کوئی اَور بیان کر ہی نہیں سکتا۔ ’’اور ہر پونجی والا اسی کے خزانوں اور دفینوں سے کچھ لیتا ہے اور میرے نزدیک ہر متکلم اس قرضہ میں مبتلا ہونے کے بغیر محض تہی دست ہے۔‘‘ اگر یہاں سے نہیں فائدہ اٹھایا تو کسی کا کلام صحیح کلام ہو ہی نہیں سکتا۔ ’’اور قرضدار سے سخت تقاضاکیا جاتا اور سخت کوشش کی جاتی ہے کہ قاضی تک پہنچا کر اس سے روپیہ وصول کیا جائے۔ مگر
قرآن کریم تنگ دستوں کو صدقات دیتا اور ساری تنگیاں دُور کرتا بلکہ اخلاص والوں کو سونے کی ڈلیاں دیتا ہے۔‘‘
دوسرے لوگ تو اگر کوئی چیز دے دیں تو اپنے قرضداروں سے مقدمے بازیاں کرتے ہیں لیکن قرآن کریم تو ایسا علم دیتا ہے جو اس کےعلم و عرفان کے چشمے بہتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ اس طرح ہی ہے جس طرح سونے کی ڈلیاں مل رہی ہیں ’’اور اپنے قرضداروں کو مہلت دینے کا احسان نہیں جتاتا بلکہ ان کو سونا اکٹھا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’…ہم تو اوّل کوزے بنے پھر قرآن کے دریا سے لبالب ہوئے۔‘‘ (الھدیٰ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 275تا 278)میرا حال پوچھتے ہو تو میں تو پہلے ایک پیالہ بنا، کوزہ بنا اور پھر جو قرآن کریم کا دریا ہے اس کے پانی سے میں نے اپنے آپ کو بھرا۔ عربی عبارت میں کیونکہ یہ اس طرح ہے اس لیے اس کا اپنا ایک انداز ہے۔ ترجمہ بھی اسی طرح ہوا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں:’’میرے نزدیک خدا کی لعنت اس پر جو قرآن کے اعجاز کا انکار کرتا اور اپنے کلام اور نظام کو بجائے خود کوئی مستقل شے سمجھتا ہے اور خدا کی قسم! ہم تو اسی چشمہ سے پیتے اور اس کی زینت سے آراستہ ہوتے ہیں اسی سبب سے تو ہمارے کلام میں نور اور صفا ہوتی اور ہماری گویائی میں روشنی اور شفا اور تازگی اور خوبصورتی چمکتی ہے اور مجھ پر قرآن کے سوا اَورکسی کا احسان نہیں اور اس نے میری ایسی پرورش کی ہے کہ ویسی ماں باپ بھی تو نہیں کرتے اور خدا نے مجھے اس سے خوشگوار پانی پلایا اور ہم نے اس کو روشن کرنے والا اور مددگار پایا۔‘‘
(الھدیٰ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 279)
فرمایا کہ ‘‘اگر میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا کوئی نشان نہ ہوتا اور نہ اس کی تائید اور نصرت میرے شامل حال ہوتی اور مَیں نے قرآن سے الگ کوئی راہ نکالی ہوتی یا قرآنی احکام اور شریعت میں کچھ دخل وتصرف کیا ہوتا یا منسوخ کیا ہوتا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے باہر کوئی اَورنئی راہ بتائی ہوتی توالبتہ حق تھا اور لوگوں کا عذر معقول اورقابل قبول ہوتا کہ واقعہ میں یہ شخص خدا اور خدا کے رسول کا دشمن اور قرآن شریف اورتعلیم قرآن کا منکر اور منسوخ کرنےوالا ہے۔’’ اگر کوئی ایسی بات ہوتی جو میں نے قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے باہر کی ہے تو یقیناً تمہارا حق ہے کہ ضرور یہ بات کہتے کہ منسوخ کرنے والا ہے، فاسق ہے، یہ بھی بیشک کہہ دیتے تم لوگ مجھے کہ ‘‘فاسق ہے، فاجر ہے، مرتد ہے۔ مگر جب میں نے نہ قرآن میں کوئی تغیر کیا اورنہ پہلی شریعت کا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے ایک شوشہ اور نقطہ میں نے بدلا بلکہ میں قرآن اور احکام قرآنی کی خدمت اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک مذہب کی خدمت کے واسطے کمربستہ ہوں اور جان تک میں نے اپنی اسی راہ میں لگادی ہے۔ اورمیرا یقین کامل ہے کہ قرآن کے سواجو کامل اکمل اورمکمل کتاب ہے اور اس کی پوری اطاعت اور بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے نجات ممکن ہی نہیں اورقرآن میں کمی بیشی کرنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن سے اتارنے والے کو کافر اورمرتد یقین کرتا ہوں ’’ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے باہر نکلتا ہے، اتباع سے باہر نکلتا ہے، ان کا جُوا اپنی گردن سے اتارتا ہے تو وہ مرتد ہے اور کافر ہے۔ ‘‘تو پھر اس صورت میں اورباوجود میری صداقت کے ہزارہا نشان ظاہر ہوجانے کے۔’’ صرف یہی بات نہیں ہے، میرا دعویٰ ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے نشانات بھی دکھائے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں بھی مسیح موعود کے بارے میں پوری ہوئیں۔ قرآن کریم کی پیشگوئیاں بھی پوری ہوئیں۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوجو اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیاں فرمائیں وہ نشانات ظاہر ہو جانے کے ساتھ پوری ہوئیں اور ہو رہی ہیں ‘‘کہ جو خدا تعالیٰ نے آج تک میری تائید میں آسمان اور زمین پر ظاہر کئے پھر مجھے جو شخص کاذب اور مفتری اوردجال کے نام پکارتا ہے یا جو میری پرواہ نہیں کرتا اور میری آواز کی طرف کان نہیں دھرتا یقیناً جانوکہ خدا تعالیٰ بغیر مؤاخذہ اسے ہرگز ہرگز نہ چھوڑے گا۔’’(ملفوظات جلد10صفحہ 308-309 ایڈیشن 1984ء)کبھی نہ کبھی اس کا مواخذہ ضرور ہو گا۔ پس
یہ دعویٰ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا ہے اور اس پر ہی ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کے ذریعہ ہی قرآنی علوم کے معارف ہم تک پہنچے ہیں اور آپؑ نے قرآن کریم کی مکمل پیروی کی ہے اور ہمیں قرآن کریم کا حقیقی عرفان عطا فرمایا ہے۔
فکر کرنی چاہیے ان لوگوں کو جو آپؑ پر الزام لگاتے ہیں یا آپؑ کی جماعت پہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم قرآن کریم کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کے فرستادے کی باتیں ہیں۔
یہ لوگ جو اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے یا نہیں آ رہے خدا بغیر مواخذہ کے ان کو نہیں چھوڑے گا۔ کس طرح وہ پکڑے گا، کس طرح اس نے مواخذہ کرنا ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
قرآن کریم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف جگہوں پر بعض احکامات سے متعلق باتیں بھی بیان فرمائی ہوئی ہیں چند ایک میں یہاں بیان کرتا ہوں۔
قرآن کریم میں انصاف قائم کرنے کی اعلیٰ تعلیم
کے متعلق فرماتے ہیں کہ ‘‘جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔’’ اتنے ظلم کررہے ہیں لوگ پھر بھی ان سے انصاف کرنے کی تعلیم ہے۔ بڑا مشکل کام ہے۔ ‘‘مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی۔’’(نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ409)پس
یہ وہ اصول ہے جو معاشرے کے امن کی ضمانت ہے۔ دنیا کے امن کی ضمانت ہے۔ اگر آج دنیاوی جنگوں میں ملوث یہ قومیں اس اصول کو سمجھ لیں تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے ورنہ جو حالات پیدا ہو رہے ہیں یہ خوفناک تباہی کی طرف لے کر جا رہے ہیں
چاہے وہ ایک ملک کی کوشش ہو یا دوسرے ملک کی کوشش ہو۔ ایک ملک میں سربراہ جائیں یا دوسرے ملک میں جائیں۔ چین میں جائیں یا کہیں جائیں اگر انصاف قائم نہیں کریں گے تو تباہی یقینی ہے۔
پھر ایک جگہ ایک اَور مثال میں فرماتے ہیں کہ ‘‘اگر کوئی قرآن کے زمانہ پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازواج کس افراط تک پہنچ گیا تھا۔’’ شادیاں ہوتی تھیں۔ بیویاں کتنی کتنی ہوتی تھیں سو سو اسّی اسّی بیویاں لوگ رکھ لیتے تھے۔ ‘‘اور کیسی بے اعتدالیوں سے عورتوں کے ساتھ برتاؤ ہوتا تھا۔’’ کتنے ظلم ہوتےتھےعورتوں پر۔ ‘‘تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر یہ احسان کیا کہ ان تمام بے اعتدالیوں کو موقوف کر دیا۔’’
(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 45)
یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے، قرآن کریم کی تعلیم کا احسان ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ساری غلط قسم کی باتوں کو ختم کیا۔ عورت کی کوئی عزت نہیں تھی۔ شادیوں کی کوئی حد نہیں تھی۔ حقوق نہیں تھے۔ یہ ساری چیزیں قرآن کریم نے دلوائیں اور اسلام سے پہلے اس کا تصور بھی نہیں تھا۔
پھر ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ‘‘قرآن شریف صرف سماع کی حد تک محدود نہیں ہے کیونکہ اس میں انسانوں کے سمجھانے کے لئے بڑے بڑے معقول دلائل ہیں اور جس قدر عقائد اور اصول اور احکام اس نے پیش کئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا امر نہیں جس میں زبردستی اور تحکم ہو۔’’ جو بھی احکام ہیں ان میں زبردستی کوئی نہیں، تحکم کوئی نہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ‘‘… لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ۔(البقرۃ: 257)’’ یعنی دین میں کوئی بات جبر سے نہیں منوانا ‘‘یعنی یہ دین کوئی بات جبر سے منوانا نہیں چاہتا بلکہ ہر ایک بات کے دلائل پیش کرتا ہے۔’’(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 433) اور دلائل پیش کر کے پھر سامنے رکھتا ہے اور ماننے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
پھر
قرآن کریم کی کامل تعلیم کا اعلان کرتے ہوئے دنیا کو چیلنج
دیتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘ہمارا خداوند کریم کہ جو دلوں کے پوشیدہ بھیدوں کو خوب جانتا ہے اس بات پر گواہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ذرہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کر سکے کہ جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو اور اس سے بہتر ہو تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو تیار ہیں۔’’ (براہین احمدیہ حصہ سوم ، روحانی خزائن جلد1صفحہ 298بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 2)پس یہ ایسا بڑا دعویٰ ہے جو کامل ایمان اور یقین کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ پر ایمان رکھے اور پھر قرآن کریم پر غور کرے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کچھ قرآن مجید میں فرمایا ہے تو وہ شخص دیوانہ وار دنیا کو چھوڑ خدا تعالیٰ کا ہو جائے۔’’
(ملفوظات جلد7 صفحہ28 ایڈیشن 1984ء)
اگر ایمان کامل ہو اور پھر قرآن کریم پر غور کرو تو پھر دنیاداری کے بجائے خدا تعالیٰ کی طرف ہر وقت توجہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ عرفان بھی عطا فرمائے۔
آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔
جس کے اصول نجات کے بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں ’’ نجات کے جو اصول ہیں وضع فطرت پر مبنی ہیں۔ ‘‘جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہریک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور تعظیمِ الٰہی اور کمالات حضرتِ عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جنابِ الٰہی سے بھرا ہوا ہے۔’’ خدا تعالیٰ کی وحدانیت سے بھرا ہوا ہے۔ ‘‘اور کسی طرح کا دھبہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا۔’’ یہ نہیں کہ اعتقاد کو زبردستی تسلیم کر لو بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی دلیل دیتا ہے فرمایا ‘‘بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہرایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔ اور ہریک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کرکے مرتبہ یقینِ کامل اور معرفتِ تام تک پہنچاتا ہے۔ اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کاجاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے۔’’ انسان بننے کے بھی تو آداب ہوتے ہیں وہ سارے آداب قرآن کریم میں ملتے ہیں ‘‘اور ہریک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے۔’’ یہ نہیں کہ ایک زمانے میں فساد کو رد کر رہا ہے بلکہ ہر فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے جس زور سے وہ آجکل پھیلا ہوا ہے۔ جس طرح آج پھیلا ہوا ہے اسی طرح اس کی مدافعت بھی وہیں سے نکل آتی ہے۔ اس کا علاج نکلتا ہے اس کا توڑ کرتا ہے۔ اور ‘‘اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دلی اور بصیرتِ قلبی کے لئے ایک آفتابِ چشم افروز ہے۔’’ روشن کرنے والا سورج ہے۔ ‘‘اور عقل کے اجمال کو تفصیل دینے والا اور اس کے نقصان کا جبر کرنے والا ہے۔’’
(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ81-82 )
جو عقل کی باتیں مختصر ہوتی ہیں ان کو تفصیلی طور پر بیان کرتا ہے اور نقصان کو پورا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم پر حقیقی طور پر عمل کرنے والا اور اس کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے والا، اس کو سمجھنے والا اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق گزارنے والا بنائے۔
رمضان کے بعد بھی اس نعمت سے فیض اٹھانے کی اسی طرح کوشش کرتے رہیں جس طرح رمضان میں کر رہے ہیں۔
رمضان میں جماعت کے مخالفین کے شر سے بچنے کے لیے بھی خاص طور پر دعائیں کریں
اللہ تعالیٰ ہر شریر کے ہاتھ کو روکے اور ان کی پکڑ کے سامان فرمائے۔
دنیا کو فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے بھی عمومی طور پر بہت دعا کریں۔
اسی طرح فلسطین میں بھی آج کل بڑا فساد پیدا ہوا ہوا ہے
فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں ظالموں کے ظلم سے بچائے
اور مسلم دنیا کے لیڈروں کو بھی عقل دے کہ وہ اپنے مفادات سے باہر نکل کر مسلمانوں کے عمومی مفادات کی حفاظت کرنے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ اس رمضان میں ہمارے لیے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے پہلے سے بڑھ کر کھولے۔
٭…٭…٭