خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ ۲۸؍اپریل۲۰۲۳ء
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات مبارکہ کی روشنی میں مشکلات اور تکالیف پر صبرکرنےکی نصیحت
٭…حضرت مسیح موعودؑنے صبرکی تلقین کی اورفرمایا کہ جن کے پاؤں نازک ہیں اور میرے ساتھ خاردار راستوں پر نہیں چل سکتے وہ بے شک مجھے چھوڑ دیں
٭…صبر،مستقل مزاجی، عاجزی اوردعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کا نام ہےجس کے لیےہمیں اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق کرنا ہوگا
٭… ہم نے جماعت کے وسيع تر مفاد کے ليے مشکلات کو صبر سے برداشت کرنا ہے
٭… ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت ،خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظر رکھنا،اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہے
٭…ہماری کامیابی انشا ءاللہ مقدر ہے۔اگر ہر احمدی اپنی ذمہ داری کو سمجھ لے تو بہت سے مسائل کا حل ہمارے رویّوں اور دعاؤں سےنکل سکتاہے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍اپریل۲۰۲۳ء بمطابق۲۸؍شہادت ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۸؍اپریل ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
بعض لوگ مجھے پُر زور دلیلوں کے ساتھ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں یا کسی اور جگہ جماعت کے حالات پرہمیں صبر کے بجائے کچھ ردّ عمل دکھانا چاہیے اور حضرت مصلح موعود ؓکی مثالیں دیتے ہیں کہ بعض جگہ آپؓ نے اس کی اجازت دی۔یہ بالکل غلط باتیں ہیں جو آپؓ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ آپؓ نےقانون کے دائرے میں رہ کربعض باتیں کیں لیکن بلا سوچےسمجھےبلوائیوں کی طرح جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر کہیں کوئی احتجاج کسی صورت میں ہوا تو وہ خلیفہ وقت کی اجازت کے ماتحت تھا۔یہ نہیں کہ ہر کوئی افسر لوگوں کو اکٹھا کرکے احتجاج شروع کردے۔
تقسیم ہندسے پہلے جب انگریزوں کی حکومت تھی اور ہمارے مخالف افسروں نے کوشش کی کہ حضرت مصلح موعودؓ کی تقریروں کو اشتعال انگیز قرار دے کرآپؓ پر ہاتھ ڈالا جائےلیکن ہردفعہ اس لیے ناکام ہوتے تھےکہ حضرت مصلح موعودؓ مخالفین اورحکومت کے افسران کواُن کا چہرہ دکھا کر ہمیشہ جماعت کو آخر پر فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کی جماعتوں کا کام صبراور قانون کی پابندی ہے۔جب بھی مخالف افسران نےکوشش کی اُن کےمنصوبوں پر پانی پِھر جاتا تھا۔ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آپؓ کوئی ایسی بات کرتے جو اسلام اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہوتی۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے تو بےشمارجگہ صبراور دعا کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ جن کے پاؤں نازک ہیں اور میرے ساتھ خاردار راستوں پر نہیں چل سکتے وہ بے شک مجھے چھوڑ دیں۔پس
یہ صبر ہی ہے جو دنیا میں جماعت کی انفرادیت قائم کیےہوئےہے۔
کئی میڈیا والوں کو بھی مَیں اکثر جواب دیتا ہوں کہ جو لوگ ہمیں تکلیف پہنچا رہے ہیں، جو ظلم کررہے ہیں ان میں سے ہی احمدی بھی ہوئے ہیں اور مزید لوگ بھی آرہے ہیں۔ہمارے مزاج بھی ان جیسے ہی تھےہم بھی ایسا ہی ردِّعمل دکھا سکتے ہیں لیکن ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہےجنہوں نےامن قائم رکھنے اوراللہ تعالیٰ کےفضلوں کا وارث بننے کے لیےیہ تعلیم دی ہےکہ تم نے امن سے کام لینا ہےالبتہ قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق لینے کی کوشش کرو۔
حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں کہ صبر دو قسم کا ہے۔ایک صبریہ ہے کہ انسان کو کسی ردِّ عمل کی طاقت ہو اور پھر وہ صبر دکھائے۔دوسرے اُس وقت کا صبر ہے جب مقابلے کی طاقت ہی نہ ہو یعنی مجبوری کا صبرہے۔ طاقت ہوتے ہوئے صبر یہی ہے کہ ظلم کرنے والوں کا جواب نہ دینااوراللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کامظاہرہ کرنااور مجبوری کا صبر یہ ہے کہ طاقت نہ ہوتے ہوئے آسمانی آفات پر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبرکرنا ۔اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر صبر کی تلقین فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ کے احکام کو سامنے رکھتے ہوئے صبرکےتین معنی ہیں۔پہلا گناہ سے بچنا اور اپنے نفس کو اُس سے روکنا۔دوسرا نیک اعمال پراستقلال سے قائم رہنا۔تیسرا جزع فز ع سے بچنا۔
پہلےمعنے کےرُو سے متواتر اور استقلال کے ساتھ اُن بدیوں سے رُکنا ہے جو اُسے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں اوراُن بدیوں کےلیے تیار رہنا جوآئندہ اُسےکھینچ سکتی ہیں۔دوسرے معنےکی رُوسے انسان استقلال کے ساتھ اُن نیکیوں پرقائم رہےجواُسے حاصل ہوچکی ہیں اوراُن کےلیے کوشش کرے جو ابھی اُسے نہیں ملی ہیں۔ یہ بھی صبر کی ایک قسم ہے جو انسان کواللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہیں اور یہ قرب دعاؤں سے ہی مل سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ وَاِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ ۔اور صبراور دعا کے ذریعہ سے اللہ سے مدد مانگواور بے شک فروتنی اختیار کرنے والوں کے سِوا دوسروں کےلیے یہ اَمرمشکل ہے۔اللہ کا خوف رکھنے والے اور عاجزی دکھانے والے ہوں وہی ایسے صبر کا مظاہرہ کرسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والا ہو۔پھر فرمایا کہ وَالَّذِیۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِمۡ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً وَّیَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عُقۡبَی الدَّارِ۔اورجنہوں نے اپنے ربّ کی رضا کی طلب میں ثابت قدمی سے کام لیاہے اورنمازکوعمدگی سے اداکیا ہےاور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے چھپ کر بھی اور ظاہر بھی ہماری راہ میں خرچ کیا ہے اورجو بدی کو نیکی کے ذریعہ سے دُور کرتے رہتے ہیں اُنہی کے لیے اس گھر کا بہترین انجام مقدر ہے۔پس
صبر مستقل مزاجی، عاجزی اوردعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کا نام ہے۔یہ اُس وقت ہوگا جب ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق کریں گے اوراپنی زندگیوں کو گزاریں گےاوراللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہمارا مقصود ہوگا۔
دشمن یہ چاہتا ہے کہ ہمارا ردّعمل ہو تو وہ مزید سختیاں کریں ہمارے نظام پر پابندیاں لگانے کی کوشش کریں۔اس وقت بعض حکومتی افسران مخالفین کی پشت پناہی کررہے ہیں تو اس طرح کے ردِّ عمل پر حالات خراب ہوتے ہیں۔ بعض ایسے واقعات جماعت کی تاریخ میں ہیں کہ ایسے واقعات کی وجہ سے جماعت کو نقصان ہوا لیکن جب صبرکےساتھ حالات بہتر کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا فائدہ بھی ہوا۔ اس طرح بعض افسران پر اس کا مثبت اثر بھی ہوا ہے۔ہمارے ماردھاڑ کے ردّعمل سے زیر تبلیغ افراد پربھی بُرا اثر پڑے گا اور اُنہیں کہنے کا حق ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا تبدیلی پیدا کی کہ ہم ان کی جماعت میں آجائیں؟ پس یہ بات یاد رکھیں کہ
ہم نے جماعت کے وسیع تر مفاد کے لیے مشکلات کو صبر سے برداشت کرنا ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہےکہ دوسروں کی سختیوں کو صبر کے ساتھ جھیلو اور برداشت کرو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کئی لوگ آپؐ اور صحابہؓ کا صبر دیکھ کر ہی ایمان لائے تھے۔یہ مثالیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانے میں بھی ملتی ہیں کہ کئی لوگ آپؑ کا صبراوراخلاق دیکھ کرآپؑ کی جماعت میں شامل ہوئے اور آج بھی یہی حالات ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کے لیے بھی وہی مشکلات ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئیں۔ یاد رکھو اس قسم کی مشکلات کاآنا ضروری ہے تاکہ خدا تعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقع ملے۔مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے جب پتا چلتا ہے کہ جماعت کا کوئی شخص کسی سے لڑا ہے۔اگر کوئی شخص صبر سے کام نہیں لیتا تو وہ اس جماعت میں سے نہیں۔ پس اپنے معاملے کو خدا کے سپرد کردو۔ گالیاں سُن کر بھی برداشت سے کام لو۔جب میں صبر کرتا ہوں تو تمہارا کام ہے تم بھی صبر کرو۔
آج دنیا کے ہر ملک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچ چکا ہے اورجماعت قائم ہے۔کیا یہ کسی ردِّ عمل یا طاقت کے اظہار سے ہوا ہے نہیں بلکہ قربانیوں اور صبراور دعاؤں کےنتیجہ میں ہوا ہے۔ پس ہمیں صبرکا مظاہرہ کرتے رہنا ہوگا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑکی قوم نے اُن کو فوراً قبول کرلیا تھا اس لیے اُنہیں اپنی قوم کی طرف سے کوئی مشکل پیش نہیں آئی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم سے ہی انکار اور مشکلات درپیش تھیں۔ آپؐ کے مصائب کا سلسلہ تیرہ برس تک چلا گیالیکن خدا تعالیٰ کی طرف سےآپؐ کو صبر اور استقلال کی ہدایت ہوتی تھی۔بار بار حکم ہوتا تھا کہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا تُو بھی صبر کر۔ پس آپؐ کبھی سُست نہ پڑتے اور ہمیشہ قدم آگے پڑتے تھے۔
ایک احمدی کسی گاؤں سےحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی کہ میرے گاؤں میں مدرسے کا ملازم ایک مولوی سخت مخالف ہے اورمجھے بہت تکلیف دیتا ہےحضور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُس کی تبدیلی وہاں سے کردے۔آپؑ مسکرائے اورفرمایا کہ اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو۔اگر تکالیف نہ پہنچیں توپھر ثواب کیونکر ہو۔پیغمبر خدا نے تیرہ برس دُکھ اُٹھائے مگر صحابہ کو صبر ہی کی تعلیم دی۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہےکہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے اور خدا تعالیٰ تمہیں ان کے ذریعے سے صبر کی تعلیم دینا چاہتاہے۔تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے جو شخص دُکھ دیتا ہے یا تو توبہ کرلیتا ہے یا فنا ہوجاتا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر کرنے والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ دنیاوی لوگ اسباب پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن خدا مجبور نہیں۔پس اپنے اعمال کو صاف کرو غفلت نہ کرو۔غفلت کرنے والا شیطان کا شکار ہوجاتاہے۔توبہ کو ہمیشہ زندہ رکھوتاکہ وہ بیکار نہ ہوجاوے۔سچی توبہ عمدہ بیج کی طرح ہے جو اپنے وقت پرپھل لاتا ہے۔ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سےصبرکے واسطےمامورکیےگئےہیں۔ تم اِن کے لئے دعا کروکہ خدا تعالیٰ اِن کو بھی ہدایت دے۔پس ہماری بھی کامیابی اسی میں ہےکہ ہم آپؑ کے نقش قدم پر چلیں۔
پھر فرمایا کہ ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت ،خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظر رکھنا،اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہے۔ پس یہ وہ نصائح ہیں جو ہماری کامیابی اور ترقی کی بنیاد ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق اگر ہم صحیح رنگ میں ان نصائح پر توجہ دیتے رہیں گے تو ہماری کامیابی ہے۔ہماری کامیابی انشاء اللہ مقدر ہے ۔
اگر ہر احمدی اپنی ذمہ داری کو سمجھ لے تو بہت سے مسائل کا حل ہمارے رویّوں اور دعاؤں سےنکل سکتاہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صبراوردعاؤں کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کے حصول کے لیےاِن باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
٭…٭…٭