متفرق مضامین

شوال۔ ایک ماہ مبارک

(ملک مجوکہ)

آنحضرتؐ کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے۔ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے(حضرت مصلح موعودؓ)

اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے،اس نے انسان کی روحانی اور جسمانی ترقی کے مواقع بہم پہنچائے ہیں۔ یہ مواقع مختص الزمان یا مختص المکان نہیں۔ اس پہلو کا اظہر من الشمس نظارہ رمضان المبارک میں نظر آتا ہے، جب ہر طرف عبادت، نیکی اور قرب الٰہی کے حصول کے مختلف ذرائع ماحول میں نظر آتے ہیں۔ اس ماہ مبارک کے فوراً بعد شوال کا ماہ شروع ہو تا ہے۔ آئیے! اسی پہلو سے نظر دوڑاتے ہیں کہ اسلام میں رمضان کے بعد آنے والے مہینہ یعنی شوال کے بارےمیں کیا فضیلت بیان ہوئی ہے۔

عید الفطر

شوال کا مہینہ سنتے ہی سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ عید الفطر ہے جو کہ یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔

احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَقَالَ "مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ”۔ قَالُوا كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم إِنَّ اللّٰهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ(سنن ابی داؤدروایت نمبر ۱۱۳۴)حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے اوران کے دو دن تھے جن میں وہ کھیلا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ دو دن کیا ہیں؟ انہوں نے کہا ہم جاہلیت میں ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے تو رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ نےتمہیں ان دو کے بدلہ میں ان سے بہتردو دن دیے ہیں (یعنی) اضحی کا دن اور فطر کا دن۔ایک اور حدیث میں ہے:ْ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم قَالَ مَنْ قَامَ لَيْلَتَىِ الْعِيدَيْنِ لِلّٰهِ مُحْتَسِبًا لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ (سنن ابن ماجہ، روایت نمبر ۱۷۸۲) کہ حضرت ابوامامہ ؓنے بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایاجو شخص اللہ کی خاطر عیدین ( یعنی عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں میں قیام کرے تو اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن دل مر جائیں گے۔

آنحضرتﷺ نے جہاں اس دن کی فضیلت بیان فرمائی وہاں اس دن روزہ رکھنے سے بھی منع فرمایا۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ابو عبید نے بیان کیا کہ مَیں حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا۔ انہوں نے خطبہ سے قبل نماز سے ابتداکی پھر فرمایارسول اللہﷺ نے ان دو دنوں عید الفطر اور عید الاضحی میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔جہاں تک عیدالفطر کا تعلق ہے تو وہ تمہارے روزوں سے تمہارے افطار کا دن ہے اور عید الاضحی! تو اس میں تم اپنی قربانیوں کے گوشت کھاتے ہو۔ (سنن ابن ماجہ روایت نمبر ۱۷۲۲)

چھ روزے

عید الفطر کے بعد دوسری اہم چیز جس کا تعلق شوال کے مہینہ سے ہے وہ شوال کے چھ روزے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رمضان کے روزوں کے لیے فرمایا کہ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (البقرة :۱۸۴) کہ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ گویا یہ تو فرض عبادت تھی مگر ساتھ ہی اگلی آیت میں فرمایا فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُّ (البقرة: ۱۸۵) کہ جو کوئى بھى نفلى نىکى کرے تو ىہ اس کے لیے بہت اچھا ہے۔ پس رمضان کے فوراً بعد شوال میں نفلی عبادت کے مواقع باہم میسر فرما دیے۔

اس سلسلہ میں سب سے پہلے احادیث مبارکہ کو دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے اس مہینہ کے بارےمیں کیا فرمایا ہے۔ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، صَاحِبِ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم قَالَ”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ بِسِتٍّ مِنْ شَوَّالٍ فَكَأَنَّمَا صَامَ الدَّهْرَ” (سنن ابو داؤد کتاب الصوم روایت نمبر۲۴۳۳) یعنی نبیﷺ کے صحابی حضرت ابوایوبؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ۶رکھےتو گویا اس نے زمانہ بھر روزے رکھے۔پھر سنن ابن ماجہ کی روایت ہے عَنْ ثَوْبَانَ، مَوْلَى رَسُولِ اللّٰهِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ مَنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ كَانَ تَمَامَ السَّنَةِ{مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا} (ابن ماجہ کتاب الصیام روایت نمبر ۱۷۱۵) یعنی رسول اللہﷺکے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس نے (عید)فطر کے بعد چھ روزے رکھے تو یہ پورا سال ہوگیا۔جو نیکی کرے تو اس کے لیے اس کا دس گنا اجر ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ تحریر کرتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت والدہ صاحبہؓ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ [یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ] نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے۔ خصوصاً شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے‘‘۔ (سیرت المہدی جلد ۱ صفحہ ۱۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’لوگوں نے نوافل صرف نماز ہی کے نوافل سمجھے ہوئے ہیں۔ نہیں یہ بات نہیں ہے۔ہر فعل کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں۔انسان زکوٰۃ دیتا ہے تو کبھی زکوٰۃ کے سوا بھی دے۔رمضان میں روزے رکھتا ہے کبھی اس کے سوا بھی رکھے۔قرض لے تو کچھ ساتھ زائد بھی دے۔کیونکہ اس نے مروت کی ہے۔نوافل متمم فرائض ہوتے ہیں۔نفل کے وقت دل میں ایک خشوع اور خوف ہوتا ہے کہ فرائض میں جو قصور ہوا ہے وہ اب پورا ہو جائے۔یہی وہ راز ہے جو نوافل کو قرب الٰہی کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے گویا خشوع اور تذلل اور انقطاع کی حالت اس میں پیدا ہوتی ہے اور اسی لیے تقرب کی وجہ میں ایام بیض کے روزے۔شوال کے چھ روزے یہ سب نوافل ہیں۔ پس یاد رکھو کہ خدا سے محبت تام نفل ہی کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرماتا ہے کہ میں پھر ایسے مقرب اور مومن بندوں کی نظر ہو جاتا ہوں یعنی جہاں میرا منشاء ہوتا ہےوہیں ان کی نظر پڑتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۱۹۹ایڈیشن1984ء)

حضرت خلیفة المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں: ’’ایام بیض کے روزے یا ستہ شوال وغیرہ جن کی فضیلت بھی کتب معتبرہ احادیث میں لکھی ہوئی ہے اور علماء و فقہاء نے ان روزوں کی فضیلت میں یہاں تک لکھا ہے کہ جس نے رمضان اور ستہ شوال کے روزے رکھے اس نے گویا سال بھر کے روزے رکھ لیے اور اس کی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ ہر ایک نیکی کا ثواب وہ اللہ، رحمٰن و رحیم دس گنا عطا فرماتا ہے۔کما قال اللّٰہ تعالیٰ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا(الانعام:۱۶۱) یعنی جو شخص ایک نیکی بجا لاوے گا تو اس کو اس نیکی کا دس گنا ثواب ملے گاتو تیس روزوں کا ثواب تین سو روزوں کا ثواب ہوا اور چھ روزوں کا ثواب ساٹھ روزوں کا ثواب ہوا اور سال تمام کے قمری دن بھی تین سو ساٹھ(۳۶۰) ہی ہوتے ہیں‘‘۔ (خطبات نور، خطبہ فرمودہ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے۔ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لیے دو تین سال بعدآپ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سن لیں اور جو غفلت میں ہوں ہوشیار ہو جائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں چھ روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں‘‘۔ (خطبہ عید الفطر ۲۹؍مئی ۱۹۲۲ء قادیان۔ خطبات محمود جلد اوّل صفحہ۷۱)

اب ایک سوال یہ باقی ہے کہ کیا اگر رمضان میں کچھ روزے کسی بھی وجہ سے رہ گئے ہوں تو کیا پہلے وہ رکھنے چاہئیں اور پھر شوال کے روزے رکھنے چاہئیں یا شوال کے روزے ان رہ جانے والے روزوں سے ہٹ کر بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ اس کا جواب حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ میں درج ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب کے فتویٰ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شوال کے روزے پہلے رکھے جاسکتے ہیں اور فرض روزے بعد میں۔ اس ضمن میں احادیث بھی واضح ہیں۔ ان کی روشنی میں فتویٰ دیا جاسکتا ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۱۱نومبر تا ۱۷نومبر ۲۰۰۵ء۔صفحہ نمبر ۲۔زیر عنوان شوّال کے چھ روزے)

حضرت عائشہ ؓسے اس سلسلہ میں ان الفاظ میں روایت ملتی ہے: كَانَ يَكُوْنُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَسْتَطِيْعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم روایت نمبر ۱۹۵۰) یعنی حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں مجھ پر رمضان کے روزےہوتےتھےتو میں طاقت نہ رکھتی تھی کہ ( انہیں) پورا کروں مگر شعبان میں۔

شوال میں شادی بیاہ

تیسرا پہلو شوال میں نکاح کے بارےمیں آتا ہے۔ اسلام سے قبل لوگ شوال میں نکاح کو برا سمجھتے تھے۔ اس کے بارےمیں مختلف روایات ملتی ہیں۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ وَقَالَ أَبُو عَاصِمٍ: إِنَّمَا كَرِهَ النَّاسُ أَنْ يُدْخِلُوا النِّسَاءَ فِي شَوَّالٍ لِطَاعُونٍ وَقَعَ فِي شَوَّالٍ فِي الزَّمَنِ الأَوَّلِ. ( طبقات ابن سعد، باب ذکر ازواج النبیﷺ ) یعنی ابو عاصم نے کہا کہ لوگ شوال میں نکاح اور شادی کو نا پسند کرتے تھے کیونکہ پہلے زمانہ میں شوال میں طاعون پھیلا تھا۔

صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم فِي شَوَّالٍ وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ فَأَىُّ نِسَاءِ رَسُولِ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي۔قَالَ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِي شَوَّالٍ۔(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استحاب التزوج و التزویج فی شوال )حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے ماہِ شوال میں نکاح کیا تھا اور شوال میں ہی میری رخصتی ہوئی۔ پس رسول اللہﷺ کی کون سی بیوی آپؐ کے پاس مجھ سے زیادہ نصیب والی ہوئی؟ راوی کہتے ہیں حضرت عائشہؓ پسند کرتی تھیں کہ ان کے خاندان کی عورتوں کی رخصتی شوال میں ہو۔

اعتکاف

شوال کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس ماہ میں آنحضرتﷺ نے اعتکاف بھی فرمایا ہے:صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے بیان کیاکہ نبیﷺرمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔اور میں آپؐ کے لیے ایک خیمہ لگا دیتی۔ آپؐ صبح کی نماز پڑھتےپھر اس میں تشریف لے جاتے۔حضرت حفصہؓ نے حضرت عائشہؓ سے اجازت چاہی کہ وہ خیمہ لگالیں انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ تو انہوں (حضرت حفصہؓ )نے خیمہ لگالیا۔ جب حضرت زینب بنت جحشؓ نےیہ دیکھاتو انہوں نے ایک اورخیمہ لگالیا۔ جب صبح ہوئی تو نبیﷺنے خیمے دیکھےاور فرمایایہ کیا ہے؟تو آپؐ کو بتایا گیا۔ نبیﷺ نے فرمایاکیا تم ان کی یہ نیکی سمجھتے ہو۔آپؐ نے اس مہینہ میں اعتکاف چھوڑ دیا پھرآپؐ نے شوال میں سے دس دن اعتکاف فرمایا۔ ( صحیح بخاری، کتاب الصوم، روایت نمبر ۲۰۳۳)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس روایت کا ذکر کر کے فرماتے ہیں: ’’یہ دیکھا دیکھی والی نیکیاں بدعات بن جاتی ہیں۔ آپؐ برداشت نہ کر سکتے تھے کہ بدعات پھیلیں۔ نیکیوں کی خواہش تو دل سے پھوٹنی چاہئے۔ اس کا اظہار اس طرح ہو کہ لگے کہ نیکی کی خواہش دل سے نکل رہی ہے۔ یہ نہ ہو کہ لگ رہا ہو دیکھا دیکھی سب کام ہو رہے ہیں۔ امّہات المومنین بھی یقیناً نیکی کی وجہ سے ہی اعتکاف بیٹھی ہوں گی کہ آنحضرتﷺ کے قرب میں ان برکات سے ہم بھی حصہ لے لیں جو ان دنوں میں ہونی ہیں۔ لیکن آپﷺ کو یہ برداشت نہ تھا کہ کسی نیکی سے دکھاوے کا ذرا سا بھی اظہار ہوتا ہو۔ذرا سا بھی شبہ ہوتا ہو۔ چنانچہ آپؐ نے سب کے خیمے اکھڑوا دیے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان بابرکت دنوں میں نیکیوں کو سمیٹنے والا بنائے اور ہم ان تمام نیکیوں کو زندہ کرنے والے ہوں جوخدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کی طرف لے جانے والی ہیں۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button