متفرق مضامین

ڈیڑھ ارب ڈالر ایک دن میں تین ہزار ڈالر کیسے ہوئے؟

(راشد احمد)

’’یہ جو کاروبار ہے بِٹ کوائن وغیرہ کا ،میرے نزدیک تو یہ ایک قسم کا جوا بھی ہے۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی کہ یہ جوا ہے،اس سارے کھیل کی قلعی کھول دیتی ہے۔جوا کسی کا نہ ہوا۔قرآن مجید کے بقول جوا میں انسانوں کے لیے فائدے بھی ہیں لیکن اس کے نقصانات فائدے سے کہیں زیادہ ہیں،اس لیے عقلمندی یہی ہے کہ اس جوا سے دور رہ کر اپنا وقت اور سرمایہ بچایا جائے

دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کی تجارت کے لیے بہت سےآن لائن پلیٹ فارمز ہیں۔ان میں سے ایک کمپنی کا نام بائنانس (Binance)ہے اور اس کے موجد کا نام چینگ پانگ ژاو ہے جسے مختصراًCZبھی کہا جاتا ہے۔ چینگ پانگ ژاو ارب پتی افراد کی عالمی فہرست میں انیسویں نمبر پر ہیں اور فوربز نے ان کی ملکیت کا اندازہ تقریباً ۶۵ ارب ڈالر لگایا ہے۔چینگ نے گذشتہ برس ۲۵؍مئی کو ایک ٹویٹ میں لکھا کہ وہ پھر سے ’’غریب‘‘ ہوگئے ہیں۔ان کی اس ’’غربت‘‘کی وجہ لونا Lunaکہلائی جانے والی ایک کرپٹوکرنسی بنی۔بائنانس نے لونا میں کچھ عرصہ قبل تین ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی جس کے عوض بائنانس کو پندرہ ملین لونا ملے۔کچھ عرصہ قبل جب ایک لونا کی قیمت سو ڈالر سے زائد تھی تو بائنانس کی ملکیت میں موجود لونا کی قیمت ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر ہوگئی،لیکن بائنانس نے فروخت کرنے کی بجائے انہیں اپنے پاس سٹاک کرنا ضروری سمجھا۔پھر یہ ہوا کہ ایک ہی دن میں لونا کی قیمت کریش کرگئی اور یہ آسمان سے گر کر پاتال میں چلی گئی اور اس کی قیمت ایک سینٹ سے بھی کم ہوگئی۔بائنانس کی ملکیت میں موجود ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کے لونا کوائن محض تین ہزار ڈالر کے رہ گئے۔آسمان سے گرکر کھجور میں اٹکنے والا محاورہ بھی اگر لونا کی قیمت پہ صادق آتا تب بھی اس کی مالیت شاید کچھ زیادہ ہوتی،لیکن آسمان سے گرکر کسی گہری کھائی میں جاگرنا شاید لونا کی حالت کو زیادہ مؤثر طریق سے بیان کرسکے۔کرپٹو کی پوری مارکیٹ زمیںبوس ہوگئی۔تاجروں کے اربوں کھربوں ڈوب گئے اور بہت سے افراد بے گھر ہوگئے اور ایک دفعہ پھر اس خیال نے زور پکڑا کہ کرپٹو کرنسی پہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ مطالبہ بھی زور پکڑ گیا کہ حکومتوں کو کرپٹو کو ریگولیٹ کرنا چاہیے۔

لونا اور اس کی جڑواں کرنسی ٹیرا کے خالق جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے ’’ڈو وون‘‘ (Do Kwon) ہیں جو ایک کمپیوٹر پروگرامر ہیں۔انہوں نے ۲۰۱۸ء میں کمپنی کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے تین چار برس کی قلیل مدت میں کمپنی کی مالیت اربوں ڈالر میں جا پہنچی۔لونا کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا اور تھوڑے ہی عرصہ میں یہ پانچ ڈالر سے ۱۱۶؍ ڈالر کے ہندسے کو چھونے لگا۔سرمایہ کار بڑھ چڑھ کر پیسہ لگا رہے تھے۔لونا کے کریش کی وجہ سے ایک ہی دن میں چار سو ارب ڈالر ڈوب گئے اور پوری کرپٹو مارکیٹ کا بٹھہ بیٹھ گیا۔پوری دنیا کے تاجر سہمے ہوئے اور پریشان تھے۔جنوبی کوریا ہی سے تعلق رکھنے والے کرپٹو کرنسی کے کامیاب سمجھے جانےو الے تاجر چانسر کو یوں لگا جیسے ان کا دم گھٹ رہا ہو۔ایک ہی ہلے میں چانسر کے تقریباً تین ملین ڈالر ڈوب گئے۔چانسر کو اور تو کچھ نہیں سوجھا وہ اپنے گھر سے نکلے اور چلتے چلتے لونا کے خالق کے دروازے پہ جا پہنچے اور وہاں دروازہ کھٹکھٹانے لگے۔Do Kwonکی اہلیہ نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔اس کے ساتھ ہی پولیس بھی بلا لی گئی اور چانسر کو گرفتار کرلیا گیا۔یہاں چانسر کی صورت حال پہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا محاورہ صحیح معنو ں میں صادق آتا ہے۔تین ملین ڈالر کا نقصان الگ اور گرفتاری الگ جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف معافی مانگنی پڑی بلکہ جرمانے کا بھی سامنا ہے۔کرپٹو کرنسی کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جس میں کمزور اعصاب کے مالک لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں کیونکہ کرنسیوں کی قیمت پل بھر میں جہاں کسی کو مالا مال کرسکتی ہے وہیں چانسر کی طرح کوئی لمحوں میں کروڑوں اربوں کا نقصان بھی کروا سکتا ہے بلکہ اب تو یہ خیال بھی زور پکڑ گیا ہے کہ کرپٹو جس کے پیچھے یہ خیال اور اس کی بنیاد میں یہ بات شامل تھی کہ یہ کسی مرکزی نظام یا حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہوگا اور اس پہ کسی کی اجارہ داری نہیں ہوگی، کرپٹو کرنسی کی قیمتیں جان بوجھ کے گرائی جاتی ہیں تاکہ خاص لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔اس کا مظاہرہ ایک دفعہ نہیں بارہا ہوچکا ہے کہ اس کی قیمتوں کو جان بوجھ کر اس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ چھوٹے تاجروں کی جیبوں سے پیسہ نکال کر بڑے مگرمچھوں کے حوالہ کیا جاسکے۔

حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس حوالہ سے کیا ہی خوب فرمایا ہے کہ ’’دنیا کے تو بعض ایسے کاروبار ہیں جو کچھ عرصہ تک تو فائدہ دیتے ہیں پھر ان کو چلانے والے ہی سب کچھ کھا جاتے ہیں اور وہ غریب لوگ جنہوں نے انویسٹمنٹ کی ہوتی ہے ان کا پیسہ ڈوب جاتا ہے جیسے آج کل بڑا شور مچا ہوا ہے کہ کئی بلین ڈالر لوگوں کے ڈوب گئے جنہوں نے بِٹ کوائن (Bitcoin)یا کرپٹو کرنسی (Cryptocurrency)میں اپنی رقمیں لگائی ہوئی تھیں۔ ان کے چلانے والے کھا گئے۔ ختم ہو گیا سب کچھ۔ بہرحال یہ جو کاروبار ہے بِٹ کوائن وغیرہ کا میرے نزدیک تو یہ ایک قسم کا جوا بھی ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍ جنوری ۲۰۲۳مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍جنوری۲۰۲۳ء)

ایک صارف نے لکھا: ’’میں نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی گنوا دی ہے۔لونا جب ۸۵ ڈالر کا تھا تب میں نے سرمایہ کاری کی تھی،اب مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا کہ میں کیا کروں۔‘‘ایک اور صارف نے لکھا کہ میں نے ۱۵۰۰۰ ڈالر گنوائے ہیں،حالانکہ میری سرمایہ کاری اچھے خاصے منافع میں تھی،لیکن میں فائدہ نہیں اٹھا سکا اور قیمت گرگئی۔میں اگر بیچ دیتا تو شان دار منافع حاصل کرتا لیکن میں لالچ میں آگیا اور مزید منافع کے چکر میں اپنا نقصان کروا بیٹھا۔منافع تو کجا اصل سرمایہ بھی ڈوب گیا۔ایک اور صارف نے بتایا کہ اس نے چار لاکھ پچاس ہزار ڈالر گنوائے ہیں اور وہ مقروض ہوگیا ہے۔اس کے پاس بینک کو ادائیگی کرنے کے پیسے نہیں ہیں جلد ہی وہ اپنا گھر گنوا بیٹھے گا اور بے گھر ہوجائے گا۔یہ تو چند ایک صارفین ہیں جو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں،لیکن نقصان اٹھانے والوں کی اکثریت سامنے ہی نہیں آتی۔لونا کی مارکیٹ زیادہ تر راتوں رات گرگئی جس کی وجہ سے صارفین کو اپنا سرمایہ نکالنے کا موقع بھی نہیں مل سکا ورنہ شاید نقصان میں کمی آسکتی۔بہت سے صارفین ایسے تھے جو سوکر اٹھے تو ان کا ہزاروں لاکھوں کا سرمایہ پھوٹی کوڑی میں تبدیل ہوچکا تھا۔جنوبی کوریا کی پولیس اب اس معاملے پر تفتیش کررہی ہے،لیکن نقصان اٹھانے والوں کواس کا کوئی فائدہ نہیں۔اسی دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ لونا کے خالق اس سے پہلے بھی ایک ناکام کرپٹو کرنسی کا تجربہ کرچکے ہیں اور لونا کی کریش سے چند دن قبل ہی انہوں نے مشکوک سی ٹویٹس بھی کیں جن میں انہوں نے لکھا کہ پچانویں فیصد کرپٹو کرنسیوں نے بالآخر ناکام ہونا ہے لیکن کمپنیوں کو ناکام ہوتا دیکھنا بھی ایک انٹرٹینمنٹ ہے۔اپنی ساٹھ ارب ڈالر مالیتی کمپنی کے ڈوبنے سے کچھ عرصہ پہلے ہی انہوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ مجھے افراتفری پسند ہے۔چند دنوں کے اندر ہی اس افراتفری نے سرمایہ کاروں کے چار سو ارب ڈالر غرق کر دیے۔موصوف کو افراتفری پسند ہے لیکن اس افراتفری نے نہ جانے کتنے لوگوں کو بے گھر کر دیا اور ان کی ساری زندگی کی جمع پونجی غرق ہوگئی۔کرپٹو کرنسی ایک بار پھر ناقابل اعتبار ثابت ہوئی۔آن لائن دنیا ایسی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے،لیکن سامنے آنے والے نقصان اٹھانے والوں کا دس فیصدی بھی نہیں کیونکہ اکثر لوگ تنقید کے ڈر سے یا ویسے ہی سامنے ہی نہیں آتے۔

جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے سائمن سیوجون ایک پرانے کرپٹو تاجر اور معروف سرمایہ کار ہیں۔بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق لونا کے گرنے کی وجہ سے انہیں تین ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ سائمن نے لونا کے ابتدائی دنوں میں تیس ملین لونا خریدے تھے جن کی مالیت بعدازاں تین ارب ڈالر سے زائد ہوگئی،لیکن سائمن نے رقم نکلوانے کے بجائے مزید انتظار کرنا مناسب سمجھا تاکہ منافع کی رقم میں اضافہ ہو،لیکن برا ہو لونا کا کہ اس کی مالیت تقریباً صفر ہوگئی،لیکن سائمن جیسے لوگوں کی سرمایہ کاری چونکہ صرف ایک ہی ٹوکری میں نہیں ہوتی اس لیے ایسے تاجر اور سرمایہ کار نقصان اٹھانے کے باوجود مارکیٹ میں موجود رہتے ہیں۔چھوٹے تاجر اپنے سرمائے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ٹیرا/لونا ایکو سسٹم کے زوال نے عالمی کرپٹو کرنسی مارکیٹوں کو ہلا کر رکھ دیا، جنوبی کوریا میں اس حوالہ سے جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔جنوبی کوریا کے پراسیکیوٹرز نے کئی کرپٹو ایکسچینجز پر چھاپے مارے ہیں اور Luna ڈویلپر Terraform Labs کے شریک بانی میں سے ایک کے گھر کی تلاشی لی ہے کیونکہ ان پر دھوکا دہی اور غیر قانونی فنڈ ریزنگ کے الزامات ہیں۔ Terraform Labs کے موجودہ اور سابق ملازمین کو بھی ملک چھوڑنے سے روک دیا گیا ہے،جبکہ بہت سے کرپٹو ماہرین کے ۲۰۱۸ءکے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں جن میں انہوں نے لونا کی ناکامی کی وجوہات کا تجزیہ کیا تھا اور یہ پیشگوئی کی تھی کہ یہ پراجیکٹ ناقابل اعتبار ہے۔اردو میں اس صورت حال کے لیے محاورہ ہے کہ اب پچھتانےسےکیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔لونا کا کھیت بھی ناکامی کے پرندوں نے چگ لیا اب سوائے پچھتاوے اور افسوس کے سرمایہ کاروں کے پاس کچھ بھی نہیں۔

کرپٹو کرنسی کی بنیاد اور اس کی تخلیق کے پیچھے کارفرما جذبہ بھلے کتنا ہی تخلیقی اورنیا ہو،فی الوقت حقیقت یہ ہے کہ اس پہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اجارہ دار حاوی ہیں جن کا مقصد محض اپنی دولت میں اضافہ ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی کہ یہ جوا ہے،اس سارے کھیل کی قلعی کھول دیتی ہے۔جوا کسی کا نہ ہوا۔قرآن مجید کے بقول جوا میں انسانوں کے لیے فائدے بھی ہیں لیکن اس کے نقصانات فائدے سے کہیں زیادہ ہیں،اس لیے عقلمندی یہی ہے کہ اس جوا سے دور رہ کر اپنا وقت اور سرمایہ بچایا جائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button