الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعالیٰ عنہا
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃ القیوم ناصرہ صاحبہ کے قلم سے حضرت امّاں جانؓ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے مضمون شامل اشاعت ہے۔ (پہلا حصہ گذشتہ ہفتے پیش کیا گیا تھا۔ حصہ دوم ہدیۂ قارئین ہے)
بنت زینبؓ بیان کرتی ہیں کہ جیسے جیسے زمانہ گزر رہا ہے تو مَیں یادوں میں کھوکر کبھی قادیان کے گھر دارالمسیح میں ہوتی ہوں تو کبھی ربوہ میں حضرت امّاں جانؓ کے ساتھ بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں جہاں آپؓ اس کچے گھر میں چلتی پھرتی تھیں۔ مَیں آپؓ کو کوئی کتاب پڑھ کر سنایا کرتی۔کبھی آپؓ مجھے کہانی سناتیں کبھی مَیں بھی سناتی۔ حسرت ہوتی ہے کہ آپؓ کی وہ خدمت نہیں کر سکی جیسی مجھے کرنی چاہیے تھی۔
آپؓ نہایت خوبصورت وجیہ نین نقش کی مالک تھیں۔ چاند کی مانند روشن نورانی چہرہ جس پرنور الٰہی برستا نظر آتا۔ ایک خاص رعب بھی تھا۔ آواز نہایت شیریں اور لب و لہجہ میں مٹھاس تھی۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی صورت آپؓ سے بہت ملتی تھی اسی طرح حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کی شبیہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے ملتی تھی۔
حضرت اماں جانؓ کی پا کیزہ نیک فطرت اور پھر حضرت مسیح مو عودؑ کی صحبت اور تر بیت نے آپؓ کی شخصیت کو بہت پیارا بنا دیا تھا۔آپؓ نہایت خوش مزاج، سلیقہ شعار، مخلوق خدا کی سچی خیر خواہ ہمدرد اور خدمت گار، ہر ایک سے محبت کا سلوک کرنے والی تھیں۔ سب یہ سمجھتے تھے کہ بس سب سے زیادہ مجھ سے پیار ہے۔ نہایت درجہ صابر شاکر تھیں، کسی مشکل میں نہ گھبراتیں۔ خدا تعالیٰ پر کامل توکّل تھا۔ مشکل کے وقت دعامیں لگ جاتیں۔ شریعت کی پوری پابند تھیں۔ آخری وقت تک مکمل پردہ کرتی رہیں۔ ایسے دل کش انداز سے تربیت کرتیں کہ سارا خاندان اور دیگر خواتین خوشی سے اطاعت کرتیں۔
حضرت مرزا بشیر احمدؓ فرماتے ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ کی نیکی اور دینداری کا مقدّم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ فرض نمازوں کا کیا کہنا، تہجد اور ضحی کی بھی پابند تھیں اور انہیں اس ذوق شوق سے ادا کرتیں کہ دیکھنے والوں کے دل میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی۔ مَیں پوری بصیرت سے کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ (فداہ نفسی) کی پیاری کیفیت کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے حضرت امّاں جانؓ کو بھی اپنے آقا ﷺ سے ورثے میں ملی تھی۔
صاحبزادی امۃالقیوم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں: اماں جانؓ اتنی عاجزی اور انکساری سے نماز پڑھتیں جیسے سچ مچ اللہ میاں کے پائوں پکڑے فریاد کررہی ہیں۔
آپؓ سجدے بہت لمبے کرتیں تہجد اور اِشراق کے نوافل بیت ا لدّعا میںادا کرتیں جہاں حضرت مسیح موعودؑ نے دن رات بے شمار دعائیں کیں، آپؑ پر خدا کے فرشتے اترتے اور وحی نازل ہوتی۔ آپؓ کو حضرت اقدسؑ سے بے پناہ عشق تھا۔ آپؓ کا پلنگ ہمیشہ دالان میں بیت الدّعا کے سامنے ہوتا ۔
قادیان میں چھٹیوں میں عاجزہ حضرت سیّدہ اُم نا صر صاحبہؓ کے گھر چلی جاتی۔حضرت مصلح موعودؓنماز پڑھانے مسجد مبارک جاتے تو آپؓ کے اور پھر حضرت امّاں جانؓ کے دالان سے گزر تے۔ اس طرح حضورؓ سے دن میں کئی بار ملاقات ہوجاتی۔ عاجزہ اور بیبیاں سب حضورؓ کی امامت میں حضرت اماں جانؓ کے بیت الدّعا والے مبارک دالان میں نماز پڑھتے۔ آپؓ الگ نمازیں بھی وہیں ادا کرتیں۔اکثر وقت ذکر الٰہی میں مصروف رہتیں۔ گھر کے کام کاج میں بھی ہاتھ بٹاتیں۔ سب آپؓ کو دیکھ کر اور باتیں کرکے راحت و سکون پاتے۔ حضورؓ آتے جاتے آپؓ کو سلام کرتے۔ آپؓ نے بچوں میں بھی عبادتِ الٰہی کا ذوق پیدا کردیا ہوا تھا۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں: مَیں جب چھوٹی تھی تو آپؓ نے ایک لڑکی کی ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی جو مجھے تہجد کے وقت جگاتی تھی۔
حضرت امّاں جانؓ قرآن کریم کثرت سے پڑھتی تھیں۔ بڑھا پے میں نظر کمزور ہو گئی تو دوسروں سے قرآن کریم کی تلاوت سنا کرتیں۔ وفات سے قبل بھی قرآن مجید سننے کی خواہش کی۔ محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب فرماتے ہیں: وفات کے دن صبح کے وقت جب میں ٹیکا شروع کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا: قرآن شریف لے آؤ۔ مَیں نے عرض کی: اماں جان ٹیکا کر لوں پھر سُن لیں ۔ اس پر آپؓ نے اثبات میں سر سے اشارہ کیا۔ چنانچہ ٹیکا کے بعد میر محمود احمد نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا۔ اور وفات سے ایک گھنٹہ قبل یعنی رات ساڑھے دس بجے بھی امان جانؓ نے فرمایا:قرآن شریف سناؤ۔ جس پر میر محمود احمد صاحب نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا۔
حضرت اماں جانؓ کو حضرت محمد رسو ل اللہ ﷺ سے حد درجہ محبت تھی۔ جس طرح آپؓ تلاوت قرآن کریم سنتیں اسی طرح صاحبزادگان سے کتب حدیث روزانہ سنتیں۔کبھی یتیم بچیوں میں سے، جن کو آپؓ نے خود پالا تھا ،کسی ایک کو پاس بٹھا کر اس سے حدیث پڑھوا کر سنتیں۔ وفات کے قریب بیماری میں یہ شوق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ سنانے والا تھک جاتا لیکن آپؓ کی پیاس نہ بجھتی۔نہ صرف احادیث پڑھوا کر سنتیں بلکہ بھرپور انداز میں ان پر عمل پیرا ہوتیں۔ آپؓ نے حضرت مسیح مو عودؑ کو اپنے آقا محمدﷺکے نقش قدم پر چلتے ہو ئے دیکھا چنانچہ آپؓ انہی اخلاق کا نمونہ بن گئیں۔ مثلاً اُمّ المساکین، بیوہ عورتوں کی سرپرست، یتیموں کی ماں، قیدیوں پر شفقت۔ آپؓ قرآن کریم کی تعلیم اور اسوہ رسولﷺ پر عمل کرتے ہوئے اور حضرت مسیح موعودؑ کی تربیت کے اثر سے ہر شکستہ خاطر اور مخلوق کے دھتکارے ہو ئے بیکسوں کی پناہ تھیں۔ کئی بیوہ عورتیں اور ضعیف بے سہا را کنبے آپؓ کی سرپرستی میں بڑھے، پھلے پھولے اور آرام کی زندگی بسر کرتے رہے۔ آپؓ نے بیوہ عورتوں کی ہر طرح سرپرستی کی۔ بچوں کی تعلیم وتربیت، ان کی خوراک اور پو شاک اور شادیوں میں مادرانہ شفقت کا عملی مظاہرہ فرمایا۔ صاحبزادی امۃ المتین صاحبہ تحریر کرتی ہیں: ہفتے میں ایک دفعہ نابینا اور یتیم بچوں کو حضرت اماں جانؓ دوپہر کے کھانے پر بلاتیں جو قطار میں ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آتے تھے۔ سب سے آگے سب سے چھوٹا لڑکا ہوتا تھا۔ ان کے لیے دستر خوان بچھتا۔ پلاؤ تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پکتا تھا، اَور کیا ہو تا تھا وہ یاد نہیں۔
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ فر ماتے ہیں: غالباً 1914ء کا واقعہ ہے کہ حضرت ممدوحہ پٹیالہ تشریف لے گئیں۔ آپؓ نے خاکسار سے دریافت فرمایا کہ کیا یہاں کی جیل کے قیدیوں کو ہماری طرف سے عمدہ قسم کا کھانا کھلانے کی اجازت مل سکتی ہے ؟ خاکسار نے اجازت حاصل کر کے آپؓ سے عرض کیا تو آپؓ نے پچاس روپے کی رقم مجھے دی۔
ایک عورت جو مدّت سے حضرت اماں جانؓ کے پاس رہتی تھی اسے بھوک لگی۔ اُس نے سردار کو کہا :آپا مجھے بھوک لگی ہے لنگر سے ابھی کھانا نہیں آیا ہے۔ سردار نے کہا: مَیں ابھی مصروف ہوں روٹی نہیں پکا سکتی۔ اس نے بے تکلّف اماں جانؓ سے کہہ دیا کہ امّاں جان! مجھے بھوک لگی ہے آپا کھانا پکا کر نہیں دیتی۔ امّاں جانؓ نے کہا :کوئی بات نہیں روٹی مَیں پکا دیتی ہوں۔ اور امّاں جانؓ نے روٹی پکا کر اسے کھانا کھلایا۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ لکھتی ہیں کہ آپؓ ملازموں پر انتہائی شفقت فر ماتی تھیں۔ آخری ایام میں جب آواز نکالنا محال تھا، مائی عا ئشہ کی آواز کسی سے جھگڑنے کی آئی۔ بڑی مشکل سے آنکھیں کھو ل کر مجھے دیکھا اور بدقّت فرمایا: مائی کیوں روئی ؟ مَیں نے کہا:نہیں امّاں جان !روئی تو نہیں، یونہی کسی سے بات کر رہی تھی۔مگر جو درد آپؓ کی آواز میں اس وقت مائی کے لیے تھا وہ آج تک مجھے بےچین کرتا ہے۔
حضرت اماں جانؓ میں اس قدر صبرورضا اور بلند حوصلہ تھاجو کسی عام خاتون کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جیسے ہی الٰہی منشاء کے مطابق نبوت کا دعویٰ کیا تو تمام ہندوستان میں علماء نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا۔ بدزبانی، گالیاں، کفر کے فتوے،قتل کی دھمکیاں، ہر طرف سے حملے شروع ہو گئے۔ آپؑ کی زندگی انبیاء علیہ السلام کی طرح ابتلائوں کی زندگی تھی۔ ان ابتلائوں میں آپؓ برابر کی شریک تھیں۔آپؓ کے پانچ بچے بچپن میں فوت ہوگئے۔ بچوں کا صدمہ الگ ہوتا،اس کے علاوہ مخالفین کا شور بھی ہوتا، وہ خوشیوں کے تازیانے بجا بجا کر آپؑ کا تمسخر اُڑاتے اور گالیاں دیتے۔ان حالات میں ایک ماں کے دل کی حالت کو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کیسی تھی۔ مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے آپؓ ایک مضبو ط چٹان کی طرح حوصلہ کرتیں اور اپنے پیارے ربّ کی رضا پر صدق دل سے راضی رہتیں۔
آپؓ کسی اچانک پریشانی پر بھی بہت زیادہ گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتی تھیں۔ ایسے وقت میں اپنے مولیٰ کے حضور دعا میں لگ جاتی تھیں۔ایک دن لاہور میں زلزلے کے شدید جھٹکے آئے۔ مَیں رتن با غ میں برآمدہ میں دروازہ کے سامنے کھڑی تھی اور حضرت اماں جانؓ کمرے کے اندر اطمینان سے اپنے پلنگ پر لیٹی دعا میں مصروف رہیں۔ خادمہ نے شور مچایاکہ اماں جان جلد ی باہر آجائیں ۔ تو مَیں جلدی سے کمرے میں جاکر آپؓ کو سہارادے کر باہر لے کر آئی۔ جب زلزلہ تھم گیا تو آپؓ نے فرمایا: جاؤ دیکھ کر آؤ حضرت صاحب کہاں ہیں؟ مَیں نے جاکردیکھا تو حضورؓ کمرے میں فرش پر بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے۔آپؓ کے بہادر بیٹے بڑے اطمینان سے اپنے کام میں مشغول تھے۔وہاں سارا خاندان تھا لیکن حضرت اماں جانؓ نے صرف ان کا پتاکروایا اس لیے کہ ایک تو موعود بیٹے تھے دوسرے خلیفۃ المسیح کے منصب پر فائز تھے۔آپؓ حضرت مصلح موعودؓ کا بہت احترام کرتیں دوسروں سے ذکر کر تے وقت ’حضور‘ فرماتیں لیکن جب خود آپؓ سے مخاطب ہوتیں تو بڑے پیار سے ’میاں‘ کہتیں۔
آپؓ کی حضرت مسیح موعودؑ سے شا دی ایک الہامی شادی تھی یعنی خدا تعا لیٰ نے اس کو خود طے فرمایا تھا۔ اس لیے یہ ایک مثالی جو ڑا تھا۔دونوں کو ایک دوسرے سے مثالی محبت تھی۔ حضرت اُمّ ناصرؓ نے بیان کیا کہ آپؓ ایک بار بیمار تھیں اور حضرت اقدسؑ تیمارداری فرماتے، کھڑے دوائی پلا رہے تھے اور حالتِ اضطراب میں اماںجانؓ کہہ رہی تھیں ہا ئے میں مر جاؤں گی آپ کا کیا ہے، بس اب میں مر چلی ہوں تو حضرت صاحبؑ نے آہستہ سے فرمایا تو تمہارے بعد ہم زندہ رہ کر کیا کریں گے۔ایسی دلنوازی کی ہزاروں باتیں ہیں۔
رتن باغ لاہور میں ایک دن آپؓ سے ملنے مکرم شیخ اکرام صاحب آئے۔ آپؓ پردہ کے پیچھے تشریف لائیں تو شیخ صاحبؓ سلام دعا کے بعد کہنے لگے قادیان میں ہم حضرت اقدسؑ کے مزار پر دعا کے لیے چلے جاتے تھے اب ہم کہاں جائیں ۔ پھر وہ بےقرار ہوکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور کہا: ’امّاں جان! دعا کریں ہمیں اللہ صبر دے‘۔ آپؓ خاموش کھڑی ٹھنڈی آہیں بھرتی رہیں اور شیخ صاحبؓ کے جانے کے بعد چارپائی پر آکر لیٹ گئیں۔ ایسے لگتا تھاکہ آپؓ حضرت اقدسؑ کی یاد سے بےحد بےقرار ہیں لیکن بہت وقار سے اپنے جذبات کو ضبط کر رہی تھیں۔ (باقی آئندہ ہفتے ان شاءاللہ)
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍فروری 2014ء میں مکرم انورندیم علوی صاحب کی درج ذیل غزل شامل اشاعت ہے:
سچ اس کی خطا ہے یہ بتا کیوں نہیں دیتے
منصور کو سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے
شاید کسی گم گشتہ کو مل جائے ٹھکانہ
اِک دیپ اندھیرے میں جلا کیوں نہیں دیتے
پلکوں پہ لرزتے ہیں جدائی کے ستارے
موتی یہ محبت کے لُٹا کیوں نہیں دیتے
نفرت کی گھٹا نے کیے تاریک شب و روز
اس شب کو محبت کی ضیاء کیوں نہیں دیتے
اِک چاند تڑپتا ہے جدائی میں اکیلا
اس چاند کو تاروں سے ملا کیوں نہیں دیتے