سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آؤ
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان کسی کا مقابلہ کرتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے جیسے مقدمات میں ہوتا ہے۔ اس لیے آرام اسی میں ہے کہ تم ایسے لوگوں کا مقابلہ ہی نہ کرو۔ سدِّ باب کا طریق رکھو اور کسی سے جھگڑا مت کرو۔ زبان بند رکھو۔ گالیاں دینے والے کے پاس سے چپکے سے گذر جاؤ گویا سُنا ہی نہیں اور ان لوگوں کی راہ اختیار کرو جن کے لیے قرآن شریف نے فرمایا ہے وَ اِذَا مَرُّوْا بِا للَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا۔(الفرقان:۷۳) اگر یہ باتیں اختیار کر لو گے تو یقیناً یقیناً اللہ تعالیٰ کے سچے مخلص بن جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی رپورٹ کی حاجت نہیں۔ وہ خود دیکھتا ہے اور سُنتا ہے۔ اگر تم تین ہو تو چوتھا خدا ہوتا ہے۔ اس لیے خدا کو اپنا نمونہ دکھاؤ۔
اگر تمہارے نفسانی جوش اور بد زبانیاں ایسی ہیں جیسے تمہارے دشمنوں کی ہیں پھر تم ہی بتاؤ کہ تم میں اور تمہارے غیروں میں کیا فرق اور امتیاز ہوا؟ تمہیں تو چاہئے کہ ایسا نمونہ دکھاؤ کہ جو مخالف خود شرمندہ ہو جاوے۔ بڑا ہی عقلمند اور حکیم وہ ہے جو نیکی سے دشمن کو شرمندہ کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۱۶۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آؤ۔ جنگ کرنا اس سلسلہ کے خلاف ہے۔ نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنی پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو۔ یہ میری نصیحت ہے اس کو یاد رکھو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے۔ آمین۔
(ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۲۴۰، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ہر ایک اجنبی جو تم کو ملتا ہے وہ تمہارے منہ کو تاڑتا ہے اور تمہارے اخلاق، عادات، استقامت، پابندئ احکام الٰہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے ہیں۔ اگر عمدہ نہیں تو وہ تمہارے ذریعہ ٹھوکر کھاتا ہے۔ پس ان باتوں کو یاد رکھو۔ تم کلامہ المبارک۔
(ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۲۶۵، ایڈیشن۱۹۸۴ء)