خداتعالیٰ اپنی ذات میں بے عیب ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍ اپریل ۲۰۰۷ء)
مَیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نصیحت کا بھی ذکر کر دیتا ہوں جو اس حوالے سے آپؓ نے جماعت کو کی۔ اور بڑی اہم اور پیاری نصیحت ہے جسے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ چاہے پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ ہے، امیر ہے یا غریب ہے، مرد ہے یا عورت ہے اپنے پلّے باندھے کہ اصلاح نفس کے لئے بڑی ضروری ہے۔ اور اس سے عبادت کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی اور مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ: ’’جو اَن پڑھ ہیں انہیں کم از کم یہی چاہئے کہ وہ اپنے چال و چلن سے خدا کی تنزیہہ کریں۔ یعنی اپنے طرزعمل سے دکھائیں کہ قدوس خدا کے بندے، پاک کتاب کے ماننے والے، پاک رسول کے متبع اور اس کے خلفاء اور پھر خصوصاً اس عظیم الشان مجدّد کے پیرو ایسے پاک ہوتے ہیں‘‘۔ (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ373-372مطبوعہ ربوہ)
یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیرو ایسے ہوتے ہیں۔ اپنے اندریہ تبدیلی پیدا کریں۔ پس خداتعالیٰ کو ہر عیب سے، ہر خرابی سے پاک سمجھنا اس وقت صحیح ہو گا جب ہم اپنے ہر قول و فعل سے اس کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ آپ فرماتے ہیں اس کے لئے وسیع اور بہت علم کی ضرورت نہیں ہے۔ اَن پڑھ سے اَن پڑھ احمدی کو بھی پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کیا احکامات ہیں۔ خطبات میں، تقریروں میں اور درسوں میں سنتا ہے کہ کن باتوں کے کرنے کا حکم ہے اور کن باتوں سے روکا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا نمونے قائم کرکے دکھائے ہیں۔ ایک احمدی سے خداتعالیٰ کی قدوسیت کی صفت پر یقین کا اظہار اسی وقت ہو گا جب وہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے اور پاک ہو، توتبھی اس زمانے کے امام کو ماننے کا فائدہ ہے۔
پھر آپؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو، خدا قدوس ہے اس کا مقرب نہیں بن سکتا مگر وہی جو پاک ہو۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد اول صفحہ356) تو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے اور قرب پانے کے لئے دعاؤں کی قبولیت کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سے پہلے اپنے آپ کو پاک کرنے کی بھی کوشش ہونی چاہئے۔
اس صفت کے ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’انسان کی نیکی کسبی ہوتی ہے‘‘۔ یعنی نیک عمل کرتا ہے تو اس کو اس کا بدلہ ملتا ہے یا اس کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے’’اور خداتعالیٰ کی نیکی ذاتی ہوتی ہے۔ اسی لئے خدا قدّوس کہلاتا ہے لیکن انسان قدّوس نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اپنی ذات میں بے عیب ہے‘‘ یعنی خداتعالیٰ اپنی ذات میں بے عیب ہے ’’اور انسان بے عیب کوشش سے بنتا ہے‘‘۔ اس صفت کو اس وقت حاصل کرو گے جب کوشش کرکے بے عیب ہو گے ’’۔ خدا تعالیٰ پرکوئی وقت ایسا نہیں آیا جب وہ ناقص تھا اور پھر اس نے کامل بننے کی کوشش کی۔ لیکن انسان پہلے ناقص ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے۔ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے پھر اسے عقل آتی ہے تو وہ نماز شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد ایک دن کی نماز اسے کچھ اور آگے لے جاتی ہے۔ دو دن کی نماز اُسے اور آگے لے جاتی ہے تین دن کی نماز اُسے اور آگے لے جاتی ہے‘‘۔ اس طرح وہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ’’لیکن خداتعالیٰ جیسے آج سے اربوں ارب سال پہلے تھا اسی طرح آج بھی ہے۔ اس کی قدوسیت نہ پہلے کم تھی اور نہ آج زیادہ ہے‘‘۔ (تفسیرکبیر جلد پنجم صفحہ207 مطبوعہ ربوہ)
اس کی قدوسیت اور ہر صفت ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت سے صحیح طور پر مومن اسی وقت حصہ لے سکتا ہے جب اس قدوس خدا کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ایک مومن اپنی عبادتوں اور نیکیوں میں ترقی کرے۔
پھر حضرت مصلح موعودؓ فرشتوں کی یہ بات کہ انہوں نے خداتعالیٰ کو کہا کہ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ کہ ہم جو ہیں تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرنے والے اور تجھ میں سب بڑائیوں کے پائے جانے کا اقرار کرنے والے تو پھر آدم کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’تو جب فرشتوں نے یہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے‘‘ یعنی یہ تو ٹھیک ہے کہ جس طرح تم کہتے ہو کہ فساد کریں گے۔ فساد تو کریں گے مجھے بھی پتہ ہے لیکن تمہیں ایک بات کا نہیں پتہ کہ اب انسانی افعال شریعت کے تابع ہوں گے اور جو شریعت کے مطابق عمل کرنے والے اور صفت قدوسیت سے حصہ لینے کے لئے نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں گے تو وہ پھر فرشتوں سے بھی بڑھ جائیں گے۔ اس چیز کا فرشتوں کو علم نہیں تھا۔
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ آدم کو خلیفہ بنانے کے موقعہ پر جو کچھ خداتعالیٰ نے فرمایا وہ بھی درست تھا اور جو فرشتوں نے کہا وہ بھی درست تھا جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے، ’’صرف نقطۂ نگاہ کا فرق تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نظر ان صلحاء پر تھی جو آدم کی نسل میں ظاہر ہونے والے تھے اور اس نظام کی خوبیوں پر تھی جو آدم اور اس کے اظلال کے ذریعہ سے دنیا میں قائم ہونے والا تھا لیکن فرشتوں کی نظر ان بدکاروں پر تھی جو انسانی دماغ کی تکمیل کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کا موردِ عتاب بننے والے تھے۔ خداتعالیٰ آدم کی پیدائش میں محمدی جلوہ کو دیکھ رہا تھا اور فرشتے بو جہلی صفات کے ظہور کو دیکھ کر لرزاں و ترساں تھے‘‘۔ (پریشان تھے) ’’اور گویہ درست ہے کہ جو کچھ فرشتوں نے خلافت کے قیام سے سمجھا تھا درست تھا مگر ان کا یہ خوف کہ ایسا نظام دنیا کے لئے لعنت کا موجب نہ ہو، غلط تھا۔ کیونکہ کسی نظام کی خوبی کا اس کے اچھے ثمرات سے اندازہ کیا جاتا ہے نہ کہ اس میں کمزوری دکھانے والوں کے ذریعہ سے۔ اگر کسی اچھے کام کو اس کے درمیانی خطرات کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے تو کوئی ترقی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہر بڑا کام اپنے ساتھ خطرات رکھتا ہے‘‘۔ آپؓ اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’طالب علم، علم کے سیکھنے میں جانیں ضائع کر دیتے ہیں‘‘۔ مگر علم سیکھنا ترک نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح ملکوں میں فوجوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں تو لوگ فوج میں جانے سے رک نہیں جاتے یا جنگیں ختم نہیں ہو جاتیں یا اپنے ملک کی حفاظت ختم نہیں ہو جاتی۔ پس گو خلافت کے قیام سے انسانوں کا ایک حصہ مورد ِسزا بننے والا تھا اور مفسد اور قاتل قرار پانے والا تھا۔ مگر ایک دوسرا حصہ خداتعالیٰ کا محبوب بننے والا تھا اور فرشتوں سے بھی اوپر جانے والا تھا۔ وہ کامیاب ہونے والا حصہ ہی انسانی نظام کا موجب تھا اور اس حصہ پر نظر کرکے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انسانی نظام ناکام رہا بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس اعلیٰ حصہ کا ایک ایک فرد اس قابل تھا کہ اُس کی خاطر اس سارے نظام کو تیار کیا جاتا۔ اسی حکمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بعض اپنے کامل بندوں سے فرمایا ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْدنْیَا (ابن عساکر) کہ اگر تو نہ ہوتا تو ہم دنیا جہان کے نظام کو ہی پیدا نہ کرتے۔ یہ حدیث قدسی ہے اور رسول کریمﷺ کی نسبت وارد ہوئی ہے۔ بعض اور کامل وجودوں کو بھی اسی قسم کے الہام ہوئے ہیں۔ پس یہ کامل لوگ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خداتعالیٰ کا ارادہ ہی حکمت کے مطابق تھا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 284-283)