۹۸ویں جلسہ سالانہ بنگلہ دیش کی دلخراش اور ایمان افروز یاد
(بریرہ نصرت۔ ڈھاکہ، بنگلہ دیش)
اس واقعہ سے جماعت کے تعارف کی ایک مہم چلی جو عام تبلیغ کے ذریعے ممکن نہیں تھی
مَیں، میرے شوہر اور دو بیٹیاں بعمر پانچ اور تین سال ۲؍مارچ ۲۰۲۳ء کو رات پونے بارہ بجے پر جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کے ۹۸ویں جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے ڈھاکہ سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے۔ ہمارے سفر میں میری بڑی بہن اور ان کی بیٹیاں بھی ہمراہ تھیں۔ اس ٹرین میں احمدیوں کی ایک بڑی تعداد جلسہ میں جا رہی تھی، کیونکہ جمعرات ہفتے کا آخری ورکنگ ڈے ہوتا ہے۔
ہماری ٹرین بہت لیٹ ہو چکی تھی اور جب ہم پنچ گڑھ ریلوے سٹیشن پہنچے تو جمعہ (۳؍مارچ) کی دوپہر کے ۱۲بج چکے تھے۔ ہم نے ہوٹل کا کمرہ پہلے ہی بک کر رکھا تھا۔ اس لیے ہم سٹیشن سے سیدھے ہوٹل گئے۔ راستے میں چند ملاؤں کو دیکھا جو ایک بھری ہوئی پک اَپ(pickup) میں سوار تھے، جنہیں ہمارے آٹو رکشہ ڈرائیور نے پوچھا بھی کہ آج خیر ہے! بہر حال ہم ہوٹل پہنچ گئے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے ہم جلدی جلدی فریش ہو کر جلسہ گاہ کے لیے روانہ ہو ئے۔ جب ہم جلسہ گاہ پہنچے تو نماز جمعہ شروع ہو چکی تھی حالانکہ ہم سمجھے تھے کہ نمازِ جمعہ تھوڑی لیٹ ہو گی کیونکہ اس ٹرین میں جلسہ کے شرکاء کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ٹرین اکثر لیٹ ہو جاتی ہے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد رجسٹریشن مکمل کی۔ کھانے کے لیے قطار میں کھڑے ہوگئے۔ سفر کے سبب ہم سب نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہوا تھا گویا روزے سے ہی تھے۔ میرے بچے بھی بہت بے چین تھے۔ لائن لمبی تھی اور کچھ دیر لائن میں کھڑے رہنے کے بعد ہمیں کہا گیا کہ لائن چھوڑ کر مین مارکی کے اندر پناہ لیں کیونکہ باہر حملہ ہواہے۔ اس دوران میں نے آسمان پر دھواں دیکھا اور پوچھنے پر مجھے معلوم ہوا کہ قریبی احمدیوں کے گھروں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ میں جلدی سے اپنی لڑکیوں کے ساتھ مرکزی بازارسے واپس مین مارکی میں آگئی۔
اس کے کچھ دیر بعد پرچم کشائی کی تقریب شروع ہوئی۔ پھر جب جلسہ شروع ہوا تو تھوڑی دیر بعد اعلان ہوا کہ جنہوں نے کھانا نہیں کھایا وہ کھالیں۔ ایک بار پھر فوڈ لائن میں کھڑی ہوئی لیکن پھر وہی حال ہوا۔ اس دوران ہم آسمان پربڑھتے ہوئے دھویں کے بادل دیکھ رہے تھے۔ اس طرح جلسہ دوپہر تک جاری رہا اور پہلا اجلاس ختم ہوا۔ کئی لوگوں سے مختلف باتیں سننے کو ملنے لگیں، حملہ آور جلسہ گاہ میں گھس گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں زیر لب صرف درود پڑھ رہی تھی اور پریشانی ظاہر نہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ میرے ساتھ دو چھوٹی بچیاں تھیں۔ یہ وہم دل میں ڈیرے ڈالے بیٹھا تھا کہ اگر کچھ برا ہوا تو میں جانتی تھی کہ اللہ کے سوا میری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ یہ چھوٹی بچیاں بھاگ نہیں سکتیں اور نہ میں انہیں کہیں بھی لے جا سکتی ہوں۔
شام یوں ہی گزر گئی۔ اذان کے بعد ہم نے وضو کیا اور نماز باجماعت کے لیے کھڑے ہوئے۔ بچے سو رہے تھے۔ نماز کے کچھ دیر بعد حضور کا خطبہ شروع ہوا۔ حضور کے خطبہ کے بعد نیشنل امیر صاحب نے اعلان کیا کہ ہمارے ایک بھائی نے جام شہادت نوش کیاہے۔ ان کی لاش کی شناخت کے لیے طلب کیا گیاہے۔ اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ حضور کے ارشاد پر جلسہ ملتوی کر دیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے بھی اگلے روز میں جلسہ ہال خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔
ہم نے اس رات تہجد اور فجر کی نماز کے بعد شہید کی نماز جنازہ ادا کی۔ صبح ناشتے کے بعد میں اپنی بہنوں کے ساتھ ہوٹل واپس آئی کیونکہ ہمارا سامان ہوٹل میں تھا۔ وہاں سے میری بہن اور کزن ڈھاکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم ٹھہرے رہے کیونکہ ہمارے پاس رات کی ٹرین کے ٹکٹ تھے۔ جلسہ گاہ میں موجود میرے بھائی نوید الرحمٰن صاحب مربی سلسلہ نے فون پر ہمیں خبردار کیا کہ باہر نہ نکلیں کیونکہ شہر میں بھی تلاشی لی جا رہی تھی۔ وہ اس ساری کارروائی کے دوران جلسہ گاہ میں ڈیوٹی پر موجود رہے۔
ہماری ٹرین رات نو بجکر دس منٹ پر تھی۔ رات ساڑھے آٹھ پر ہم اپنے ہوٹل کے کمرے سے نکل کر استقبالیہ پر کھڑے تھے کہ باہر سے شور شرابا سنائی دینے لگا۔ ہوٹل کے دو لڑکے گراؤنڈ فلور سے اوپر آئے اور اس منزل کا گیٹ بند کر دیا۔ ہم بھی سمجھ گئے کہ باہر بہت ہنگامہ ہے۔ میں تیزی سے اوپر گئی، میں سیڑھیوں سے باہر دیکھ رہی تھی، تمام دکانیں بند ہو رہی تھیں۔ اردگرد کافی ہنگامہ تھا، تاہم سڑک پر ٹریفک اب بھی رواں دواں تھی۔ میرے شوہر نے جلدی سے ہوٹل کے حکام سے رابطہ کیا کہ آیا کسی گاڑی کا فوری بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ تب ہوٹل کے مینیجر نے بتایا کہ مظاہرین دوپہر اور رات کو دو بار ہوٹل کی تلاشی لینے کے لیے آئے تھے کہ آیا ہوٹل میں کوئی (احمدی)قادیانی ہے یا نہیں لیکن ہوٹل کے حکام نے انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ اللہ ان پر رحم کرے۔ مینیجر نے ہوٹل کے ایک ملازم کے والد کو بلایا جو آٹو رکشہ ڈرائیور ہے اور بہت جلدی سامان کے ساتھ ہمیں رکشے میں بٹھا دیا۔ جب ہم رکشے میں سوار ہو رہے تھے تو جلوس ابھی بھی پیچھے آرہا تھا لیکن اللہ کی بے پناہ رحمت سے ہم وہاں سے تیزی سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ الحمدللہ!
اس کے بعد ہم بحفاظت ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ اور ہماری ٹرین وقت پر روانہ ہو ئی۔ ٹرین میں ہمارے ساتھ کچھ ملّا ںبھی سفر کر رہے تھے جو اس افواہ کا ذکر کر رہے تھے کہ قادیانیوں نے ہمارے دو مسلمان بھائیوں کو ذبح کر دیا ہے جس کے بعد شہر میں پولیس اور بی جی بی کو اتارا ہے۔ اس طرح افواہیں پھیلا کرہی عوام کو احمدیوں کے خلاف مشتعل کیا گیا تھا۔ ہم جانتے تھے کہ آج کی رات ایک خوفناک رات ہونے والی ہے۔ بھائی نوید الرحمٰن صاحب مربی سلسلہ نے صرف ایک منٹ کے لیے فون کیا کہ کیا ہم ٹرین میں سوار ہوگئے ہیں، جب میں نے وہاں کا حال پوچھا تو اس نے بار بار کہا کہ دعا کرو۔ اس کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا۔ پھر میں رات بھر نوافل پڑھتی رہی۔ میں پریشان اور فکر مند تھی کہ کیا میں اپنے بھائی کو دوبارہ دیکھ بھی سکوں گی یا نہیں۔ پھر اللہ نے ہم پر رحم کیا اور مخالفین کازور ٹوٹ گیا۔ اگرچہ اس میں احمدیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔اس واقعہ سے جماعت کے تعارف کی ایک مہم چلی جو عام تبلیغ کے ذریعے ممکن نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول فرمائے، آمین۔
یہاں مجموعی طور پرمستورات کا بے مثال صبر واستقامت قابلِ ذکر ہے۔ جب چاروں طرف سے حملہ شروع ہوا تو لجنات کچھ گھبرانے لگیں۔ ہم سب چاروں طرف آسمان پر دھوئیں کے بادل دیکھ رہے تھے اور مقامی بہنیں قدرے بے چین ہو رہی تھیں کیونکہ ہر ایک کے لیے اپنے گھر اور سازوسامان سے محروم ہونا فطری تکلیف دہ تھا۔ ان کا مال و متاع ان کی آنکھوں کے سامنے جل رہا تھا۔ ہم بھی مایوسی محسوس کر رہے تھے لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے کوئی نہیں چوکا۔ کچھ لوگ نفل نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ جبکہ اکثر جلسہ کے ابتدائی سیشن کی کارروائی سن اور دیکھ رہے تھے۔ دعائیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ ہر کوئی بچوں کو پُرسکون رکھنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ وہ خوفزدہ نہ ہوں۔ ننھی ناصرات بھی نماز میں کھڑی ہو گئیں۔ ایک نازک وقت پر، صدر صاحبہ نے سب کو پُرسکون رہنے اور دعا کرتے رہنے کو کہا۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا۔ بہنیں صبر،برداشت اور استقامت کی بہترین مثال پیش کررہی تھیں جو اللہ کے فضل و کرم سے ممکن ہوا۔
ہماری بہنیں جو سیکیورٹی کی انچارج تھیں، انہوں نے انتہائی لگن سے اپنے فرائض سرانجام دیے۔ ہنگامہ آرائی کے دوران نہ کسی کو باہر جانے دیا گیا اور نہ ہی کسی کو اندر آنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ ہمارے خدام بھائیوں نے بھی ہماری سلامتی کے لیے ایک بہترین مثال قائم کی ہے۔ لجنہ اماء اللہ کی ممبرات نے باہر سے ہونے والے شدید حملے کا کوئی اثر اپنے اوپر نہیں ہونے دیا۔ ہمیں اندر سے احساس نہیں تھا کہ جلسہ گاہ کے باہر کیسے حالات ہیں۔ خواتین کے حصے کے باہر ہمیشہ باؤنڈری وال کے قریب پہرہ رہتا تھا،باہر جب حالات پُرسکون ہوتے تو کچھ لوگ رات کو گھروں کو چلے جاتے۔ جب جلسہ ملتوی کیا گیا تو جلسہ گراؤنڈ خالی کرنے کو کہا گیا۔ تب بھی تمام لجنات کو مکمل سیکیورٹی کے ساتھ میدان سے باہر لے جایا گیا۔ ہر قافلہ مختلف سمت میں جا رہا تھا۔ زیادہ تر لجنہ قریبی محفوظ مقامات پر چلی گئیں۔ جہاں سے وہ بعد میں اپنی منزل پر پہنچ گئیں۔